donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
afsane
Share on Facebook
 
Rizwan Rizvi
  Bad Soorti
بد صورتی  
Share to Aalmi Urdu Ghar
Page No. :- 1 / 1
بد صورتی
رضوان رضوی:بہار موڈرن اسکول ،بہار شریف
 
گائوں کی لڑکیاں جب بھی یکجا ہوتیں اورآپس میںباتیں کرتیں تو ان کا موضوع رمضو ہی ہوتا۔سبھی اس کی د شمن تھیں ،سبھی کو اس سے اللہ واسطے کا بیر تھا اور سبھی اس کی برائیاں کرتیں ۔یہ اسلئے نہیں کہ وہ ظالم یاجلاد تھا، بدکار یا بدصورت تھا بلکہ اس لئے کہ وہ  مغرور تھا ۔وہ مغرور  اس لئے تھاکہ وہ بہت حسین اور خوبصورت تھا اور اس کی یہ خوبصورتی ہی تھی کہ گائوں کی ہر لڑکی اس پر مرمٹتی تھی ۔لیکن وہ ہر ایک کو ٹھکراتا ، ہرایک کا دل توڑتا ۔کسی کو کہتا کہ تمہاری آنکھیں بھینگی ہیں ، کسی پرطنز کرتا کہ تمہاری ناک موٹی اور بھدی ہے ، کسی کے چہرے پر مونچھیں نظر آتیں ، کسی کو کہتا کہ تمہارا قد بونوں جیسا ہے ،کسی کی آواز پر اسے اعتراض ہوتا ، کسی کی ہنسی اسے برُی لگتی ،کسی کی غیر ضروری ادائوں سے وہ چڑتا ،کوئی اسے چڑیل لگتی ،کسی کی تیزی طراری سے وہ کھارکھاتا ، کسی کی باتوں کا انداز اسے بُرا لگتا اور کسی کا طور طریقہ اسے بالکل پسند نہ تھا۔
 
سچ تو یہ تھا کہ وہ مغرور تھا نہ گستاخ ،بلکہ وہ تو حسن پرست تھا۔وہ جب بھی ان اونچے پہاڑوں کو دیکھتا جو سوچتے ہوئے فلسفیوں کی طرح خاموش تھے یا اس کی نظران آبشاروں پر پڑتی جو پہاڑوں کے بیچ گرتے او رجن کی آواز ایسی ہوتی جیسے بہت ساری عورتیں مل کر اونچی آواز میں کوئی نغمہ الاپ رہی ہوں یا اس کی ہرے بھرے باغوں میں ان ڈھیر سارے اونچے سرسبز درختوں پرنگاہیں پڑتیں جو ہر وقت تیز ہوامیں گنگناتے رہتے تو ان مناظر میں ایک ترتیب او رایک حسن نظر آتا جو درحقیقت ان لڑکیوں میں نہیں تھا ۔اس لئے وہ ان پر اعتراض اوراپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ۔لیکن بات ایسی بھی نہیں تھی کہ گائوں کی سب لڑکیاں اس کی نظروں میں بدصورت تھیں بلکہ اس کی ایک پسند تھی اور وہ بھی کسی کو چاہتا تھا جو گائوں کے مالک کی بیٹی تھی ۔حسین ، خوش گفتار ، خوبصورت اور خوش ادا ،شیریںؔ ، لیکن بدبختی یہ کہ شیریںؔ کو وہ بالکل پسند نہ تھا۔
 
اس نے کئی بار شیریں کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھایا لیکن اس کم ادا نے ہر بار اس کے عشق کو ٹھکرایا ۔دراصل شیریںؔ کو اس کے اس غرور سے نفرت تھی ۔جس کے لئے وہ گائوں بھر کی لڑکیوں میں مشہور تھا اور یہ خوف اس کے دل میں جگہ گھیر چکا تھا کہ اگر وہ کل کو خدانخواستہ بدصورت ہوگئی تو وہ اسے ٹھکرا دے گا۔اسی لئے وہ کبھی بھی اسے گھاس نہیں ڈالتی تھی بلکہ وہ تو اس سے سیدھے  منہ بات بھی نہیں کرتی تھی۔
 
خیرن ہر وقت ہنسنے مسکرانے اور سرخ آنکھوں والی ادھیڑ عمر کی بنجارن ،جب بھی اپنا بڑا سا تھیلا کندھوں پر اٹھائے بنائو سنگار کا سامان فروخت کرنے اس کے گائوں میں آتی تو وہ اس کا راستہ روکتا اور اس سے لڑتاکہ وہ کیوں وہاں آتی ہے ۔خبردار اگر وہ دوبارہ اسے وہاں نظر آئی تو وہ اس کی ٹانگیں توڑ ڈالے گا۔یوں وہ خیرنؔ کو گائوں میں داخل نہ ہونے دیتا اور اسے وہیں سے بھگا دیتا۔شیریںؔ ہر وقت اس سے لڑتی کہ تم کیوں خیرنؔ بنجارن کو گائوں آنے سے منع کرتے ہو۔وہ کہتا کہ میں کیوں اسے یہاں آنے دوں۔یہاں تو تمام لڑکیاں بدصورت ہیں اور بنائو سنگار سے یہ برُے چہرے کبھی بھی خوبصورت چہروں میں نہیں بدل سکتے ۔تم کیوں فکر کرتی ہو ۔تمہارے جیسے حسین لوگوں کو تو بنائو سنگار کی کوئی ضرورت نہیں ۔ایک روز اس نے ایک عجیب سی خبر سنی اور ایسے خبر نے اسے پریشان کردیاکہ ملک میں جنگ چھڑ گئی ہے اور اب یہ جنگ شہروں سے ہوتی ہوئی دور دیہاتوں تک پھیل رہی ہے ۔
 
پھر ایک رات اس نے خواب دیکھا ،ایک بھیانک سا خواب کہ اس کے سامنے بہت سارے رنگین ،ریشمی دھاگے پھیلے ہوئے ہیں ۔اچانک کالے بالوں سے بھرا ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور ان دھاگوں کو توڑنے لگتا ہے ۔تب اس کے منہہ سے ایک چیخ سی نکل جاتی ہے ۔کیونکہ یہ ہاتھ ایک بہت بڑی بلا کا ہوتا ہے۔ایک کالے رنگ کی بلا کا۔اب وہ بلا چیختی ہے ،غصے میں اپنے بازو لہراتی ہے اور غرآتی ہوئی اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ان بے شمار انسانوں کو کھانے لگتی ہے جو اس کے سامنے ننھی چڑیوں جیسے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔اس عفریت کی اس حرکت پر وہ کانپ اُٹھتا ہے ۔اب وہ اس بلا پر حملے کرتا ہے اور اسے مکے مارتا ہے کہ وہ اسے انسانوں کے کھانے سے روکے لیکن بلا اسے تھپڑ مار کر دور پھینک دیتی ہے ۔وہ دوبارہ اٹھتا ہے ،پھر بلا پر حملہ کرتا ہے ۔لیکن اسے ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یوں بلا ان انسانوں کو بے دردی سے کھانے میںمصروف رہتی ہے ۔اچانک اس کی آنکھ کھلی ۔یہ کیا؟ اس کا کمرہ ،کمرے کی دیواریں اورکمرے کی چھت، سب یوں ہل رہے تھے جیسے وہاں سچ مچ اس کے خواب والی بلا آئی ہو ۔ایک عجیب ساشور تھا جو چاروں طرف برپا تھا ۔وہ سمجھا کہ شاید زلزلہ ہے اور بھونچال نے پورے گائوں کو تہہ و بالا کردیا ہے لیکن جب وہ کمرے سے باہر صحن میںآیا تو چاروں طرف پھیلی تیز سی روشنی نے اسے حیران کردیا۔اس نے جب اوپر دیکھا تو اسے سیاہ آسمان میں بہت سارے ہیلی کاپٹر خوفناک گڑگڑاہٹ کے ساتھ اُڑتے ہوئے نظر آئے جو اس کے گائوں پر بمباری کررہے تھے ۔
 
اس منظر پر وہ لرز اُٹھا ۔وہ تیزی سے اپنے گھر سے باہر نکلا تو ایک قیامت کا ساسماں تھا۔تمام گائوں کسی آتش دان کی طرح سرُخ شعلوں کا مرکز بنا جل رہا تھا ۔لوگ چیخ رہے تھے ، مر رہے تھے اور بدحواسی میں ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے ۔اس نے چاہا کہ ہیلی کاپٹروں کو بمباری سے روکے ۔لیکن کچھ بھی تو اس کے بس میں نہیں تھا سوائے اُس کے کہ وہ ان خوفناک مشینوں کو آگ برساتے دیکھے جس کی شدت میں لمحہ بہ لمحہ تیزی آرہی تھی ۔آگ کی اس بارش نے گائوں کو بالکل تباہ کر کے رکھ دیا۔وہ لڑکیاں جن کو وہ بدصورت سمجھتا تھا مزید بدصورت ہوگئیں ۔کسی کی ٹانگ ضائع ہوئی ،کسی کا بازو کٹا، کسی کا چہرہ جھلسا اور کوئی جل کر پورے طور پر ڈائن نظر آنے لگی اور تو اور اس بمباری نے ملک کی بیٹی کے حسن کو بھی تباہ کر دیا اور وہ دونوں پائوں سے جہاں محروم ہوئی وہاں اس کا چہرہ بھی بُری طرح جھلسا ۔لڑکیاں تو لڑکیاں گائوں کے سرسبز باغات ،خوبصورت مٹیالے گھر اور حسین مناظر سب جل کر بدصورت ہوگئے ۔اب جب بھی گائوں کی لڑکیاں اکٹھی ہوتیں اور اس کے بارے میں باتیں کرتیں تو کہتیں کہ رمضو تو حسن پرست ہے جبکہ اب گائوں میں کوئی بھی حسین شئے باقی نہیں رہی ۔وہ ان بدصورتیوں کو برداشت نہیں کرسکے گا او ربہت جلد قدرتی موت مرجائے گا۔یوں اب سب اس کی موت ، خودکشی یا پاگل پن کا انتظار کرنے لگے ۔وہ چونکہ مغرور تھا اس لئے پہلے گائوں میں کبھی کبھار کسی سے کوئی بات کرتا لیکن اب تو بالکل چپ ہوگیا،ایسی چپ جیسے وہ پتھر کاکوئی بت ہو ۔اس کے قریبی دوست کہا کرتے کہ اب تو ہر طرح کی بدصورتی نے اسے ایسا بد دل کردیا ہے کہ وہ ہر شئے کو پاگل کی طرح حیرت سے دیکھتا ہے ۔
 
ایک دن اچانک اسے خیرنؔ بنجارن گائو ںکی طرف آتی ہوئی نظر آئی ۔بنجارن کو دیکھ کر اس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات پیدا ہوئے اور وہ فوراً اس کی طرف بھاگا ۔خیرنؔ ڈری کہ اب وہ ضرور اس سے لڑے گا کہ اس کے منع کرنے کے باوجود وہ پھر یہاں آئی ۔لیکن خیرنؔ کے پاس پہنچ کر وہ عجیب سے انداز میں بولا ۔’’خالہ ! تم اتنا عرصہ کہاں غائب رہیں ؟ تم نے کیوں یہاں کا رخ نہیں کیا؟‘‘ ’’ہائے بیٹا ! کیسی  باتیں کرتے ہو؟ تم ہی نے تو مجھے یہاں آنے سے منع کر رکھا ہے۔‘‘ خیرنؔ حیران ہوئی۔ 
 
’’خالہ ! خدا کے لئے اب آیا کرو۔مت بھولا کرو اس گائوں کو ‘‘۔اس نے خیرنؔ کی منتیں کیں ‘‘۔ کل تک تو تم مجھے روک رہے تھے اور آج کہہ رہے ہو کہ آیا کرو۔یہ میں کیا سن رہی ہوں ؟‘‘ خیرنؔ کی حیرت مزید بڑھی۔
 
’’بس خالہ !پہلے میں غلطی پر تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ یہ بڑا بدصورتی کا گائوں ہے ‘‘۔
 
’’تو اب ‘‘؟
 
’’اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں ۔اب مجھے پتا چل گیا ہے کہ یہ گائوں تو خوبصورت چہروں سے بھرا ہوا ہے ۔حسین اور پیارے چہروں سے ۔‘‘ اس نے کہا
 
’’کیسی باتیں کر رہے ہو بیٹا تم ؟‘‘ خیرنؔ بنجارن عجیب سے انداز میں بولی ‘‘۔میں نے سناہے کہ تمہارے گائوں کے لوگ مزید بدصورت ہوگئے ہیں ۔کمال ہے جب یہ بدصورت لوگ تمہیں خوبصورت نظر آتے ہیں تو پھر بدصورت کون ہے ؟‘‘
 
’’بدصورت تو وہ کالی بلا ہے خالہ ! جو خوبصورت ،رنگین ریشمی دھاگوں کو بے دردی سے توڑتی ہے ‘‘۔ وہ دکھ بھرے لہجے میں بولا ۔اور پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔
 
++++++++++++++++++++++++++
 
Page Number :

Comments


Login

You are Visitor Number : 920