donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
afsane
Share on Facebook
 
Masroor Tamanna
  Jeena Bhule They Kahan Yad Nahi
جینا بھولے تھے کہاں یاد نہیں  
Share to Aalmi Urdu Ghar
Page No. :- 1 / 3
 
 
جینا بھولے تھے کہاں یاد نہیں
 
(مسرور تمنا (احمد نگر، مہاراشٹر
 (Mob:9960975735)
 
زیب ننھی منی معصوم دس سال کی بچی تھی۔ ان دنوں اسکول کی چھٹیاں چل رہی تھی اور اسے اپنی استانی جو عربی پڑھاتی تھیں ان کے گھر جانا پڑتا تھا اور جہاں اس نے دیکھا تھا ان بدنصیب لڑکیوں کو جو زندہ رہنے پر مجبور تھیں ، بے بس تھیں۔ زیب جب ان کے قریب پہنچی تو وہ رو رہی تھیں اُف میرے خدا ! یہ بھی کوئی زندگی ہے ،کیوں میرے مالک ہم جب کسی قابل نہیں تو ہمیں زندہ رہنے کا کیا مطلب؟ وہ جڑواں تھیں ، ایک دوسرے سے جڑے تھے۔ وہ گھٹنوں کے بل ادھر سے ادھر ہورہی تھیں۔ ایک کے پیر بیکار تھے اوردوسری اس کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی۔ اس لئے اس کی زندگی بھی سسکتی ہوئی گزرنے لگی۔ ان کے کپڑے کافی پرانے اورمیلے تھے، ’’امی‘‘ زیب نے بھرائی آنکھوں سے اپنی امی کی طرف دیکھا جو اس وقت زیب کے ساتھ ماسٹرنی کے گھر آئی ہوئی تھیں۔ ’’امی‘‘ ہم انہیں اپنے گھر لے چلیں؟ زیب کی امی نے اسے پیارسے دیکھا۔ بیٹی تمہارا دل بہت بڑا ہے جس طرح چاہو مدد کردو، مگر ہم اپنے گھر انھیں نہیں لے جاسکتے، ہماری جوائنٹ فیملی ہے۔ زیب نے ماسٹرنی کے سامنے ہاتھ جوڑے ، دادی پلیز ان بچیوں کو آپ اپنے اسکول میں رکھ لو نا یہاں تو کافی جگہ ہے؟ ’ہاں ہاں کیوں نہیں، دادی مان گئی توزیب خوشی خوشی گھر لوٹی۔ لاچار مجبور یہ بے سہارا لڑکیاں جڑواں تھیں۔ فٹ پاتھ سے ، گلی گلی سے محلے تک آپہنچی …جمیلہ شکیلہ…
 
زیب نے شروعات کی تو بستی کی عورتیں بھی مدد کرنے لگیں۔ ان دونوں کو سہارا مل گیا ، کسی طرح پیٹ بھر جاتا۔ جمیلہ شکیلہ بھی جو کچھ کام بیٹھ کر کر سکتی تو وہ کرنے کی کوشش کرتی۔ بستی والے کچھ نہ کچھ کام بھی کروالیا کرتے اور ان کو تھوڑے بہت پیسے بھی مل جاتے۔ زیب کا اسکول کھل گیا تو دادی ماسٹرنی کے گھر جانا کم ہوگیا۔ وہ روز صبح ان کے پاس ضرورجاتی ،ان کی ضرورت پوچھتی ’’زیب بیٹا !اب آپ کو فالتو باتوں میں دھیان نہیں دینا چاہئے۔ دادی ماسٹرنی اور بستی والوں کے ساتھ ہم بھی مددکرتے ہیں ان بچیوں کی ،پھر تم اپنی ننھی سی جان کو کیو ں ہلکان کرتی ہو؟…
 
بڑے پاپاتک بات پہنچ گئی تھی۔ وہ سمجھانے بیٹھ گئے۔ زیب کی آنکھیں بھرآئی ،مجھ سے جو ہوگا میں بھی مددکروں گی۔ پاکٹ منی سے میرے پاس اتنے پیسے نہیں ورنہ ان کے کے لئے گھر بنادیتی…
 
ایک تو بھوک اور غریبی ،اوپر سے یہ دوجڑواں ناکارہ لڑکیاں؟ اگر اچھی اور ہاتھ پیر کی سلامت ہوتی تو کہیں بیچ آتا۔ کم سے کم میرے شراب کا خرچ ہی نکل جاتا ،مگر یہ لڑکیاں کس کام کی؟ … منگلو نے دیکھا اس کی عورت ابھی تک بے ہوش پڑی ہے مگر دائی پاس ہی بیٹھی تھی۔ منگلوجی دل چھوٹا نہ کر جو اوپر والے کی مرضی ،تیری لڑکیاں اپنا نصیب اوپر سے لکھوا کر آئی ہیں۔ اور اس میںسفینہ کا بھی کیا قصور ،ایسی ناکارہ جڑواں اولاد سے بہتر ہوتا کہ ایک ہی لڑکی ہوتی۔ منگلودائی نے تڑپ کرکہا ،تو کیسا باپ ہے رے ،اس میں بھی قصور تیرا ہے تونے بچہ گرانے کے لئے جو دوا سفینہ کو کھلائی تھی نا، یہ اسی کا اثر ہے اور پھر اوپر والا تیرا پاپ دیکھ رہا ہے جو اپنے بچے کو شراب کے لئے بیچ دے ، وہ انسان نہیں حیوان ہے ۔ دائی اٹھ کر چلی گئی پھر منگلو اٹھا اس نے دونوں بچیوں کے لوتھڑے جیسے وجود کو اٹھا کر کپڑے میں لپیٹا اور ایک طرف چل پڑا۔
 
سفینہ ہوش میں آتے ہی بچہ ڈھونڈنے لگی۔ منگلو نے ڈانٹ کرکہا :منحوس کہیں کی ،ایک مری بچی کو پیدا کر کے رو رہی ہے۔ میری بچی مری ہوئی پیداہوئی تو اس کی لاش کہاں ہے؟ تو نے میرے ہوش میں اس کا انتظارکیوں نہیں کیا ۔ منگلو،سفینہ بلک بلک کر روتی رہی اور منگلو شراب کے نشے میں ڈوبا بیوی کو دیکھتا رہا جس کی کوکھ خالی ہوچکی تھی۔
 
اف رے بابا کچرے میں یہ کیا ہے؟ حکیم نے کچرے کے بورے ایک طرف رکھے۔ ہائیں اس میں تو دو لڑکیاں ہیں وہ بھی زندہ … مگر بھاگ لے ۔ حکیم تو بھلا ان لاچاروں کو کیسے پال سکے گا ،اسے ذراسامنے کردے تاکہ سب کی نظر ان پر پڑے کیا پتہ کوئی اٹھا ہی لے…
 
سورج نکلا ،لوگ اٹھے اور اپنی اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہے۔ مگر ان معصوم کی طرف کسی نے نگاہ اٹھانے کی ضرورت نہ سمجھی۔ یہ انجان لاچار بچیاں پڑی رہیں ،مگر یہ کسی کے کام کی نہ تھی۔ تبھی صبری بھیک مانگتی آگے بڑھی ، ایک لمحہ کے لئے وہ ٹھٹکی ، یہ بچیاں میرے بھیک مانگنے کے کام آئیں گی ، مگر میں اکیلی جان ان معصوم بچیوں کو دیکھ بھال کیسے کروں گی؟ … اس نے بیڑی پھونکتے کالو کو دیکھا ۔اے کالو!ان بچیوں کو اپنے گھر لے جا ،تیری بیوی بانجھ ہے نا۔ کالو جو پہلے ہی چوری کی نیت سے بچوں کو دیکھ چکا تھا مگر وہ کسی کام کی نہیں تھیں۔ بیچ کر پھوٹی کوڑی بھی نہ ملتی۔ اس لئے چھوڑ دیا۔ اے بڑھیا! چپ کرتیرا دماغ خراب ہے ،تو لے جا انہیں ،میں ان لڑکیوں کا بوجھ کیوں اٹھاؤں؟ میں کوئی مالدار آدمی تو نہیں نا …  ان بچیوں کی طرف دیکھا ، ارے کالو بھیک تو مانگ ہی لیں گی نا یہ؟ بس دوچارسال پال دے۔ مگر کالو نے انکار کردیا۔ صبری نے ان بچیوں کو پیڑ کی چھاؤں میں ڈال دیا اور ایک کپڑا بچھا دیا ۔ آنے جانے والے اگر ترس کھا کر کچھ ڈال جاتے تو وہ ان پیسوں کا دودھ لے آتی پھر سالوں گزر گئے اور ایک دن صبری بھی گزرگئی … اور یہ دونوں اس بستی میں آگئیں جہاں استانی رہتی تھی…
 
اور ایک دن جب زیب ،استانی کے گھر گئی تو وہاں وہ دونوں لڑکیاں نہ تھیں ۔جمیلہ شکیلہ۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں، اس نے بستی والوں سے پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ یتیم خانے چلی گئی ہیں۔ زیب اداس ہوگئی اور پھر ہر وقت ان دونوں کو یادکرتی رہی۔ دوسرے غریب بچوں کی مدد کرتے وقت اسے جمیلہ شکیلہ کی یاد آجاتی۔ زیب بڑی ہوگئی۔ اس کی شادی ہوگئی مگر اس کی بھلائی کرنے کی عادت اس کے ساتھ ساتھ جوان ہوتی رہی تھی۔ وہ اناتھ آشرم ،یتیم خانے ہر جگہ مدد کے لئے پہنچتی ،ان بچوں کی دیکھ بھال کس طرح ہو رہی ہے ، وہاں کس چیز کی ضرورت ہے اس بات کا خیال رکھتی۔
 
 
Page Number :

Comments


Login

You are Visitor Number : 838