donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Ashraf Yaqubi
Poet
--: Biography of Ashraf Yaqubi :--

 Ashraf Yaqubi 

 

 کوائف 
 
قلمی نام: اشرف یعقوبی
(والد کا نام: محمد یعقوب انصاری (مرحوم
(والدہ کا نام: مولودن بی بی (مرحومہ
کتاب کا نام: سرخ آبی پرندہ
پیدائش: یکم جنوری 1951ء
مقام و پوسٹ: ملناڈیہہ
ضلع: نالندہ، بہار، پن: 803116
پٹنہ کا پتہ: معرفت امام میڈیکل ہال، شاہ گنج، محمد پور، پٹنہ۔6
کولکاتا کا پتہ: 6/2/H/1 کے بی فرسٹ لین، نارکل ڈانگہ، نزد لال مسجد، کولکاتا۔700011
موبائیل:  9903511902 / 9835628519
…………………………
اشرفؔ یعقوبی کی شاعری احتجاج اور انحراف کی شاعری ہے۔ یہ مظلوم اور مقہور طبقے کی آواز بن کر ابھرتی ہے۔ اشرفؔ کے یہاں کوئی تصنع، ملمع اور بناوٹ نہیں۔ ان کے شعری رنگ وآہنگ سے جو بیباکی اور صاف گوئی جھلکتی ہے وہ ان کے مزاج اور  بنگال (کولکاتا) کے ادبی ماحول کی عکاسی کرتی ہے۔ اشرفؔ یعقوبی کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایک بہتر شاعرکے ساتھ ایک بے ضرر اور بے ریا انسان بھی ہیں۔
آج مغربی بنگال میں اردو شاعری کی پاپولر آوازوں میں ایک دو کی بہت دھوم ہے۔ ماں کی عظمت، بیٹی کی معصومیت، غربت کی حرمت اور بیڑی کی صنعت وغیرہ جیسی چیزیںکبھی کبھی بہت مصنوعی ، نمائشی اور جذباتی حربے کی طرح محسوس ہوتی ہیں۔مزدو ر کیا ہوتا ہے؟ مزدور کنبے کیا ہوتے ہیں؟ عسرت کی طویل رات کیا ہوتی ہے…؟ اس کا ذاتی تجربہ کچھ اور ہوتا ہے۔ اور تصوراتی کچھ اور…۔  اشرفؔ کے تجربے ان کے اپنے ہیں۔ ان کا فن بھی اپنا ہے۔ اس لئے ان کی شاعری بہت سچی اور اچھی معلوم ہوتی ہے۔ 
اشرفؔ آج مشاعروں میں بہت ہر دلعزیز ہیں۔ عظیم آباد اورگرد ونواح کے مشاعرے ان کے نام کے ساتھ جاگتے ہیں۔ وہ اپنے استاد مرحوم شہود عالم آفاقی کی طرح اپنے اطراف میں جو کچھ دیکھتے ہیں اسے من وعن شعری جامہ پہنا دیتے ہیں۔ بے حسی،   بے غیرتی، مفادپرستی، منافقت اور حد سے بڑھی ہوئی مصلحت پسندی اشرفؔ کے خاص اہداف ہیں…۔ ان کے یہاں تہہ داری ، کثیر الجہتی اورمعنیاتی ابعاد کی توقع عبث ہے۔ ان کا اسلوب سہل، براہ راست اور شفاف ہے۔
’’سرخ آبی پرندہ‘‘ اشرفؔ یعقوبی کے شعری سفر کا نقش اوّل ہے۔ وہ تخلیقی طور پر اب بھی تازہ دم ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ خود کو دہرائے بغیر تادیر اس سفر پر گامزن رہیں گے۔ اور اپنے بہت سارے شیدائیوں کو مسحور ، محظوظ اور متحرک کرتے رہیں گے۔
                      نسیم احمد نسیم، پٹنہ
……………
 تقریب 
 
اشرفؔ یعقوبی معروف شاعر ہیں۔ میری ان سے علیک سلیک بھی حال ہی میں ہوئی ہے۔ سمٹی سمٹائی شخصیت ایک عرصے سے شعر گوئی کی طرف مائل رہی ہے۔ اس کی خبر بہت کم لوگوں کو ہے اور مجھے بھی۔ یعقوبی کا کلام بھی کم ہی شائع ہوا ہے۔ لیکن مجموعہ ’’ سرخ آبی پرندہ‘‘ پر نگاہ پڑتی ہے تو بہت سے حیرت کے مقام سامنے ہوتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ اشرف یعقوبی کلاسیکی تیور سے وابستہ ہونے کے باوجود امکان کی حد تک عصری کیف وکم کو اپنے اشعار میں سمیٹنا چاہتے ہیں۔ آج کی زندگی کی تندی اور تلخی ان کے کلام میں جا بجا نمایاں ہے ۔ کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگوں کے دکھ درد سے نہ صرف آشنا ہیں بلکہ ایسے مسائل کو اپنے کلام میں پرونا بھی خوب جانتے ہیں۔
غزل کے امکانات ایک طرف تو محدود ہیں دوسری طرف لامحدود۔ یہ پیرا ڈوکس ہر شخص محسوس کر سکتا ہے۔ موضوعات محدود ہونے کے باوجود انہیں وسعت دینا اور پھر انہیں غزل میں تخلیقی جہت کے ساتھ رونما کرنا بڑے کڑے کوس طئے کرواتا ہے۔ اشرف یعقوبی جیسے گمنام شاعر بھی ایسے مرحلے سے گذرتے رہے ہیں اور مجھے احساس ہوتا ہے کہ فکر وخیال کی جو دنیا انھوں نے بسائی ہے وہ شاعرانہ اوصاف سے خالی نہیں۔ انفرادیت تو وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں فن کے نئے تقاضوں کے ساتھ شاعر جوجھتے ہوئے اپنی الگ راہ نکال لیتا ہے لیکن یہ کام ہر شاعر کا نہیں ہوتا اور اشرف یعقوبی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ غزل گوئی میں کوئی نئی راہ نکالیں گے۔لیکن جس طرح کی غزلیں انھوں نے کہی ہیںان میں ان کے اپنے تجربے اور مشاہدے کی تمام تر کیفیت موجود ہے۔ بعض اشعار تو بے حد چونکاتے ہیں۔
عصری حالات عام انسان کو بھی بے چین کئے ہوئے ہیں۔ سینکڑوں مسائل سے گھرا ہوا آدمی آج کس طرح جی رہا ہے وہ سبھوں کو معلوم ہے۔ فنکار تو زیادہ حساس ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ آج کے حالات سے الگ نہیں ہو سکتا۔ مسرت کی بات ہے کہ اشرف یعقوبی اپنے عہد کے بہت سے غیر متوازن صورتوں کو شعری پیکر دینا چاہتے ہیں ۔ پختگی اور فنکاری کی وہ مثالیں جو عظمت کے نشان چھوڑتی ہیں انہیں اس سطح پر آنے میں بڑی مدت لگتی ہے۔ اشرف یعقوبی کو مشق سخن کی اذیت کی کیفیت سے ہمکنار ہوتے ہوئے ان کی فنی بلندیوں پر پہنچنا باقی ہے لیکن ’’ سرخ آبی پرندہ‘‘میں جو کلام ہے وہ قابل لحاظ ہے اور کتنے ہی شعر ذہن ودماغ کو متاثر کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ بھی ایک اہم بات ہے۔
 
’’ سرخ آبی پرندہ‘‘کے نام ہی سے پڑھنے والا چونک سکتا ہے۔ نام میں صرف جدت نہیں بلکہ شاعر کی اڑان میں جو رخنے ہیں ان کی کیفیتیں سامنے آجاتی ہیں۔ آبی پرندہ جو سرخ ہے ظاہر ہے کہ مشکلات سے گھرا ہوا ہے۔ چنانچہ مجموعے کا نام ہی اشرف یعقوبی کے تخلیقی ذہن کا اشاریہ بن جاتا ہے۔ یہ موقع نہیں کہ میں ان کے اشعار کا تفصیلی تجزیاتی مطالعہ پیش کروں لیکن چند شعر ذیل میں نقل کرتا ہوں جن سے ان کے فن کی اور ذہن کی قماش واضح ہوتی ہے۔   ؎
تعلقات یہاں قتل ہوتے رہتے ہیں
مکینِ شہر سے کہہ دو کہ ہوشیار رہے
ابرق کا ہے پہاڑ تو چمکے گا دور سے
اس کی چمک پہ جان لٹانا فضول ہے
پختہ یقین والے زمیں سے لگے رہے
ذرے ہوا کی شہہ پہ گئے آسمان میں
 
اترا رہے تھے طاق پر مٹی کے جو دئیے
تھپڑ لگائی ایسی ہوا نے بکھر گئے
لے گیا نیلا سمندر آب وماہی کھینچ کر
ریت کے دریا میں مچھلی کی کہانی رہ گئی
کیا تعجب رات کے جنگل نما اس شہر میں
ہر طرح کے جانور نکلیں گے چارہ ڈھونڈنے
گئے تھے دیکھنے اس دور کے شداد کی جنت
وہاں کچھ دیر ہم رہتے تو پاگل ہوگئے ہوتے
یہ کون رتھ کی سواری پہ شہر سے گذرا
لہو لہان ہے شاعر لہو لہو ہے غزل
ایسے کتنے ہی اشعار ’’ سرخ آبی پرندہ‘‘ میں مل جاتے ہیں ۔ عصری معنویت کے ایسے اشعار اشرف یعقوبی کے اندرون دل کو روشن کرتے ہیں اور ان کی شاعری کے احوال نمایاں ہو جاتے ہیں ۔
 
مجھے امید ہے کہ یہ مجموعہ ادبی حلقے میں پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔
 
وہاب اشرفی
 
30 مئی 2008ء
 
………………
میرا تاثر
 
جناب اشرف یعقوبی بنیادی طور پر مشاعروں کے شاعر ہیں۔ چنانچہ مشاعرے کے شاعر میں عام طور پر جو خصائص ہوتے ہیں وہ سب ان کی تخلیقی شخصیت میں موجود ہیں۔ سامعین کا ’بڑا مجمع‘ان کے ذوق اور معیار کی پاس داری ، ان کی داد اور قبولیت پر اطمینان ومسرت ان کے مذاق وتفہیم کے لحاظ سے کلام میں عوامی الفاظ اور لہجے کی شمولیت ، ایسے آسان اور اکہرے اشعار کی تخلیق جو پہلی ادائیگی میں عوام سے تحسین حاصل کر سکیں۔ ایسے ہی کئی مثبت اور منفی خصائص ہیں جو مشاعرے کے شاعر کا طرۂ امتیاز ہیں۔ اشرفؔ یعقوبی کے Inclinationکی اولین شناخت کچھ اسی انداز کی بنتی ہے۔ کلکتہ جیسے کثیر آبادی والے شہر میں، مشاعروں اور عوام کی کثرت اور بھیڑ بھاڑ کے ماحول میں کئی دہائیاں گذارتے رہنے کا نتیجہ کچھ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ لیکن اس میلان کے ظاہری پہلو کے ساتھ ساتھ ان کے تخلیقی مزاج کے اندرون میں انفرادیت کی تلاش انہیں گاہ گاہ اس فضا سے نامطمئن بھی بنائے رکھتی ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا ہے۔اور اس صورت حال کے لئے اپنے اضطراب کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے اشعار:
صبح پا کے خوش تھے ہم جانتے نہ تھے اشرفؔ
صبح کا تعلق ہے رات کے گھرانے سے
یا
مری غزلوں سے یہ دنیا مجھے پہچان لیتی ہے
مری غزلیں چھڑکتی ہیں مری پہچان کی خوشبو
 
اس انفرادیت کے لئے فن کار کی چاہت کے اشارے ہیں جو موجود فضا سے اسے حاصل نہیں ہوپاتی ہے۔ آج اپنے مجموعے کی اشاعت اور اہل الرائے تک اپنے کلام کی ترسیل کا ارارہ بھی اسی خفتہ میلان کا اظہار یہ ہے۔
اشرف یعقوبی غزل کے فطری حسن کے شیدائی بھی ہیں اور اس کے رمز شناس بھی۔ آج کچھ لوگ موضوعاتی سطح پراور لہجہ واسلوب کے لحاظ سے غزل کو ناغزل بنانے کے درپے ہیں ان کے بر خلاف اشرفؔ اس صنف لطیف کو روایتوں کے رنگ محل میں رکھنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ وہ شعری اقدار اور غنائی آہنگ کے طرف دار ہیں۔ ان اقدار اور اس آہنگ کو مسمار کرنے والوں پر اشرفؔ یعقوبی طنز کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
نہ کرتے شاعری نثری تو اشرف اور کیا کرتے
غزل کے شعر کا مصرع کہاں سب سے سنبھلتا ہے
 
اشرفؔ یعقوبی کے یہاں عصری مسائل کی پیش کش کا وہ انداز خاصا بھلا لگتا ہے جہاں وہ مسائل کو نجی احساسات کی سطح پر لا کر اسے اجتماعی سے زیادہ انفرادی بنادیتے ہیں۔ یہ ذاتی اشعار کو روحانی ترفع دینے لگتا ہے اور شاعری اپنے مرکز پر پہنچنے لگتی ہے۔
اشرف یعقوبی کی فطری تخلیقی صلاحیت اگر ضرورتوں اور مصلحتوں سے کچھ کنارہ کش ہو کر بے نیاز سفر کرنے کی عادت ڈال لے تو مجھے یقین ہے وہ ایک منفرد آواز بن کر ابھر سکیں گے۔ ان کے یہ اشعار مجھے اچھے لگتے ہیں۔
ایک ایسا موسم بھی آنے والا ہے جس میں 
زہر پھیل جائے گا گل کے مسکرانے سے
اسے کہہ دیجئے پربت کئی آئیں گے راہوں میں
جو بیساکھی پہ چل کر آپ سے آگے نکلتا ہے
یہ کل کی بات بھی ظل الٰہی بھول جاتے ہیں
کہ جھکنا پڑ گیا تھا آپ کو وتنام کے آگے
گرداب پل رہا ہے سفینے کی گود میں
الزام رکھ رہی ہے ہوا بادبان پر
ہر لمحہ میرے ساتھ مسائل کی بھیڑ ہے
اب میں تمہارے شہر میں تنہا نہیں رہا
مرنا مجھے قبول مگر یہ نہیں پسند
بیمارہوں کسی کا تو اچھا کرے کوئی
بارہا دیکھا ہے سورج کے طرف داروں کو
وقت پر رات بھی وہ اوڑھ لیا کرتے ہیں
مجھے اشرفؔ یعقوبی کی شاعری امکانات اور توقعات سے بھر پور نظر آتی ہے۔
 
علیم اللہ حالی
یکم جولائی 2008ء
…………………………
 اپنی بات 
 
جس گھر میں کھونے کے لئے کچھ نہ تھا اسی مٹی کی دیوار اور پھونس کے چھپر والے مکان میں میری پیدائش یکم جنوری ۱۹۵۱ء میں ہوئی۔ میرے اَبو اَمی اور خاص طورسے میرے دادا جان کو اس بات کی بہت خوشی تھی کہ تین دختران کے بعد میں پیدا ہوا تھامجھے اس کا اندازہ آگے چل کر ہوا ۔ میرے گھر میں میرے لئے لاڈ پیار کی گنگا بہہ رہی تھی۔دادا دادی، میری بہنیں اس کے علاوہ میرے نزدیکی رشتہ دار اور محلے والوں کی شفقتیں مجھ پر نچھاور تھیں ہر کسی کی آنکھوں میں نشاطِ آرزو کی چمک صاف دیکھائی دیتی تھی۔
میرا گھرانہ نقل مکانی کا گھرانہ تھا ۔ہمارے اجداد ۱۹۴۷ء کے زمانے میں ایک بڑے فسادکے برپا ہونے سے پہلے غیر مسلموں کی کثیر آبادی والے علاقے کو خیر آباد کہہ کر مسلم علاقے میں آکر بس گئے تھے۔
میرے گھرکے سبھی افراد تعلیم یافتہ تھے۔ اس وقت کی پڑھائی کائستھی ہندی جو گرو پنڈا کی پڑھائی تھی، رائج تھی۔ بعد میں یہ لوگ یعنی میرے ابو اور میرے چچا نے گائوں آکر یہاں کے ماحول کے مطابق اردو اور عربی کی تعلیم حاصل کرنے کی طرف پوری توجہ دی۔ ہم لوگ جس گائوں میں آکر بسے اس کا نام ملنا ڈیہہ ہے شاید پہلے گائوں کا نام مولانا ڈیہہ رہا ہوگا۔ جس کا بگڑا ہوا نام رجسٹری کھاتے پر ملنا ڈیہہ چڑھ گیا تو یہی نام رائج ہوگیا۔
میرے گائوں کے ایک بزرگ ہستی جناب کامریڈ سلیمان صاحب کی علم دوستی تھی کہ انھوں حصول علم کو عام کرنے کی غرض سے ایک پرائمری اسکول حکومت وقت سے کھلوانے میں کامیابی پائی تھی۔ جسے آگے چل کر پانچویں کلاس تک کی پڑھائی کے لئے منظوری مل گئی جو آج تک قائم ہے۔وہاں اردو، ہندی، عربی کی پڑھائی ہوتی رہی۔آگے چل کر عربی کی پڑھائی بند ہوگئی ۔وجہ یہ ہوئی کہ مولوی صاحب صرف اضافی وقت میں عربی پڑھاتے تھے لہٰذا اس صورت حال میں اس کمی کو دور کرنے کی غرض سے میرے گائوں میں ایک مدرسہ قائم ہوا اور بہ فضل تعالیٰ آج یہ سرچشمۂ علم ثابت ہو رہا ہے۔
میںنے پانچویں کلاس کی پڑھائی کے بعد دور دراز کے علاقے لارن پور مڈل اسکول میں نام لکھوایا جو میرے لئے ٹھیک ثابت نہیں ہوا۔ مگر میرے ابو کو مولانا فرید الحسن صاحب سے اتنی انسیت تھی کہ انھوں نے صرف اسلئے مجھے قریبی اسکول کو چھوڑ کر دور بھیجا کہ وہاں موصوف معلم تھے۔ اس اسکول میں صرف روزانہ ایک گھنٹی اردو پڑھائی ہوئی تھی اور بقیہ تمام سبجکٹوں کو ہندی میں پڑھایا جاتا تھا۔ دو تین سال تک یہ سلسلہ قائم رہا۔ پھر نزدیک کے ہائی اسکول انڈھوس میں آکرداخلہ لیا اور میٹرک تک کی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ میٹرک کے بعد میں نے پٹنہ کے اورینٹل کالج میںایڈمیشن لیا ۔مزدوری کر کے پڑھائی کو جاری رکھنا سہل نہ ہوسکا۔ میں مزدور تھا، میرے والدین بیڑی بناتے اور میرا کھلونا قینچی، فرما، سوکھا پتہ یہی تو تھا۔ کسی استاد کی ضرورت بھی نہ پڑی ۔گھر میں کھیلنے کے زمانے میں ہی بیڑی لپیٹنا شروع کر دیا۔ وہ کاریگری آگے چل کر کام آگئی مگر فرضِ اول کے طور پر میری چھوٹی بہن کی شادی اس دور ترقی میں بڑا مسئلہ بن گئی۔ مجھے پڑھائی کو بالائے طاق رکھ کر یہ کام پہلے انجام دینا پڑا۔طبیعت میں انقلاب کی آہٹ نے مجھے پٹنہ سے کلکتہ پہنچا دیا۔ وہاں جا کر میں نے فارماسسٹ کی ڈگری حاصل کی۔ جو آگے چل کر میرے کام آئی۔
گائوں میں میرے چچا عبد الرشیدصاحب نے نہ صرف اردو پڑھنا لکھنا سیکھا، بلکہ انہوں نے اپنے علاقے میں اپنی شاعری کا سکہ بھی چلایا۔ وہ محرم کے آکھاڑے کے چہیتے شاعر تھے۔ کیونکہ موصوف مرثیہ کے اشعار زیادہ کہا کرتے تھے۔میں نے اپنی پڑھائی کے دوران ہفتے کا ایک دن جو مقرر کیا تھا اس دن مجھے اپنا جوہر اور فنکاری دکھانے کاموقع ملتا تھا ،اس دن میں اپنی ٹوٹی پھوٹی شاعری سناتا تھا۔ خوب واہ واہی ہوتی تھی۔ لوگ کہتے کہ اپنے چچا کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔
اوپر عرض کر چکا ہوں کہ میں کلکتہ چلا گیا۔ وہاں مشاعروں کی دھوم تھی۔ کئی انجمنیں تھیں، اور ہر انجمن کا اپنا ایک اصول تھا۔ کبھی ماہانہ، کبھی ہفتہ وار، غرض کہ ہمیشہ شعری نشستیں ہوا کرتی تھیںاور ان میں کبھی کبھی بڑے مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے۔ میرے اندر کے شاعر نے مشاعروں میں جانے پر اکسایا اور پھر میںاراکین انجمن سے ملاقات کے بعد باقاعدہ ممبر بن گیا۔
اچھے اشعار کہنے کی تمنا نے مجھے اچھے استاذ تک پہنچا دیا۔ جناب بلند اختر شہودی کے توسط سے میں نے جناب شہود عالم آفاقی کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا۔ وہ موزوں طبع نہ ہونے والوں کو اپنا شاگرد نہیں بناتے تھے۔ چونکہ مصرعے پر مصرعے لگانا میری فطرت اور شعور میں داخل تھا۔اس لئے ان کا گرانقدر مشورۂ آخری وقتوں تک ملتا رہا۔ اس درس گاہ سخن میں میرا نام انجم عظیم آبادی کے مشورے پر اشرف یعقوبی ہوا۔آج دنیائے اردو ادب مجھے اسی نام سے جانتی ہے ۔ جناب انجم عظیم آبادی میرے اپنے پھوپھا زاد بھائی ہیں وہ صحافی ، سماجی کارکن اور اچھے شاعر ہیں ۔ انہوں نے ایک دفعہ اپنے خونی رشتے کا واسطہ دے کر یہ حکم دیا کہ اس شعر وشاعری کی دنیا میں ایک طبقہ پینے پلانے پر یقین رکھنے والوں کا ہے جسے پینے کے بعد آدمی آدمی نہیں رہتے۔اگرتم مجھے بڑا بھائی کہتے ہو تو اس کا عملی ثبوت تمہیں یہ دینا ہے کہ ان سب سے تمہیں دور رہنا ہوگا ۔ اللہ کا کرم ہے میں آج تک اس پر عمل پیرا ہوں اور انشاء اللہ آگے بھی رہوں گا۔
شہود صاحب کے انتقال کے بعد بھی شاعری کے اسرار ورموز کے لئے عروض کا جاننا ایک حد تک لازمی تھا۔ کم از کم اپنی شاعری کے اوزان تک تو بالکل ضروری تھا۔لہٰذا میں جناب حلیم صابر جو اسوقت کلکتے کے عروض دانوں میں تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ان سے اتنا عروض حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہوں کہ اپنی غزلیں ،نظمیں، جو بھی کہتا ہوں اس کی روشنی میںپرکھ لیتا ہوں۔ اب میرا کلام کلام الٰہی نہیں کہ غلطیوں سے پاک ہو اگر کہیں غلطی نظر آجائے تو اہل نظر کے مشورے سر آنکھوں پر۔ اسے خندہ پیشانی سے تسلیم کر لوں گا۔اور اپنی تصحیح کر لوں گا۔
میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ فارماسسٹ کی ڈگری آگے چل کر میرے کام آئی۔ یہاں یعنی کلکتہ میں ڈاکٹر لطیف الرحمن کے کلینک میں بحیثیت کمپائونڈر میں بحال ہوا اور مزدوری سے دستبردار ہونے کے دن آگئے۔ یہ کام مسلسل سات برسوں تک کرتا رہا۔ اسی دوران ایک متمول شخصیت جناب ایس۔ کے عالم سے میری ملاقات ہوئی کہ وہ چوٹ کھائے ہوئے مریض تھے اور میں انکا کمپائونڈر ۔سوئی اور دوائی دینے والا۔ ایک دن انہوں نے میری تنخواہ پوچھی توبتا دیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ آپ لوگوںکی خدمت کر کے جو بخشش ملتی ہے وہ ڈاکٹر کی دی ہوئی تنخواہ سے زیادہ ہوجاتی ہے۔ یہ سن کر انہوں نے مشورہ دیاکہ آپ اپنا کاروبارکر سکتے ہیں یعنی کاغذ کا کاروبار تو آپ اچھا پیسہ کما لیں گے اور میں اس کام میں آپ کی رہنمائی کرنے کو تیار ہوں۔اب ایسے نیک مشورے کو تو بیوقوف ہی ٹال سکتا ۔ میری توآنکھیں کھل گئیں۔ اور میں اس کام کو جاننے کی کوشش میں لگ گیا۔ کام کیا تھا کاغذ کی پہچان اور اس کوحاصل کرنے اور بیچنے کی جگہہ۔ چند ہفتوں میں جانکاری حاصل کرنے کے بعد تھوڑے تھوڑے وقتوں کے لئے نکلنے لگا۔ اور دھیرے دھیرے میںکمپائونڈری چھوڑ کر اپنا کاروبار سنبھالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر اپنا گودام بھی خریدا اور اپنے چھوٹے بھائی شمیم ساگرؔ جو ایک اچھے شاعر بھی ہیں، انہیں بھی کلکتہ بلا کر اسی کام میں لگایا۔ یہ وہ کلکتہ ہے جو اب کولکاتا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور میں وہ اشرف ہوں جو اشرفؔ یعقوبی کے نام سے جاناجاتا ہوں۔
اس وقت میرے گائوں میں مٹی کا مکان اینٹ کے مکانوں میںشامل ہوگیا ہے۔  گائوں میں سب لوگ ترقی کی منزلیں طئے کرنے میںپیش پیش ہیں اب شاید ہی کوئی مکان کچی مٹی کا بچا ہے۔
میرے دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں ۔ بڑے فرزند نواب افسر علی بی۔ایچ۔ایم۔ایس ۔ یعنی ہومیو پیتھ کے ڈاکٹر ہیں۔ اس کے بعد شمع پروین لڑکی ہے جس کی شادی کولکاتا کے امبروڈری کے کارخانے دار مقصود عالم سے ہوئی وہ دونوں خوش ہیں۔ اور چھوٹے لڑکے اظہر الدین نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے آئی۔ کام کیا ہے۔ ابھی پڑھائی جاری ہے۔ سب سے چھوٹی لڑکی صبا یاسمین نے پٹنہ رام لکھن سنگھ یادو کالج سے آئی۔ ایس۔ سی کیاہے ۔اس کی شادی اسی سال ۲۰۰۸ء کے اپریل مہینے میں ہوگئی لیکن اس کی بھی پڑھائی جاری ہے۔ صبا کی شادی بہار شریف کے چھجو محلہ کے مشہورومعروف شاعر تنگؔ ایوبی کے چھوٹے بھائی جناب مکی حسن ایوبی سے ہوئی ہے۔ وہ ان دنوں سعودیہ میں جونیر انجنئیرہیں۔ اللہ کا خاص کرم ہے۔ میرے چھوٹے بھائی کے بھی دو بچے اور بچیاں ہیں۔ اللہ کا یہ بھی بڑا احسان ہے کہ وہ بچے مجھے ابو کہہ کر اس دورِ پرفتن میں لوگوں کو چونکا دیتے ہیں۔ اللہ نے ان بچوں کو اخلاق سے نوازا ہے۔ بڑا لڑکا وسیم اختر اور چھوٹا عمران اختر دونوں آئی۔ ایس۔ سی کرنے کے بعد آئی ۔ٹی۔ آئی کی تعلیم حاصل کر ر ہے ہیں۔ دونوں بچیاں نیلوفر اور فرح بھی میٹرک پاس کر کے آگے کی تعلیم جاری رکھنے میںمصروف ہیں۔ سب دن کسی کا عروج پر نہیں رہتا ہے۔ میں پٹنہ آیا تو میرا ہاٹ اٹیک ہوگیا۔ انداگاندھی کارڈیالوجی کے آئی سی یو میں بھرتی ہوا، اور پھر علاج کا سلسلہ دراز ہوا تو میں پٹنہ میں رہنے لگا۔ ویسے بھی بچوں کی نگہداشت وتعلیم سب پٹنہ میں ہوتی رہی تھی۔ اب میری دو پوتیاں ہیں۔ نایاب صدف اور محراب صدف ۔ان کی پڑھائی لکھائی اچھی ہو اس لئے ان بچوں کا مشورہ ہوا کہ آپ پٹنہ میں ہی رہئے۔ لیکن میں پینتیس سالہ کلکتہ کی زندگی کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ اس لئے میرا آنا جانالگا رہتا ہے۔
کلکتہ کی گلیاں، وہاں کے فٹ پاتھ وہاں کے کرائے کے مکان، سب مجھے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں یہ میں محسوس کرتا ہوں۔ میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ میرے استاد بھائی خاص کر مشتاق جوہرؔ، عقیلؔ ضیائی،مرتضیٰ حسین مرتضیؔ، سرور کلکتوی، سمیع اللہ سحرؔ ، حمزہ ؔ حنفی، بلند اختر شہودؔی، مشتاق افضلؔ، مجیبؔ اختر، عادلؔ بارک پوری، رفعتؔ بارک پوری، نشتر ؔشہودی۔اور بنگال سے باہر ان استاذ بھائیوں کو میرا سلام وآداب پہنچے اس کے علاوہ ایک خاص استاد بھائی جو میرا پڑوسی بھی ہے۔جناب مجسم ہاشمی، اس کی محبتوں کو سلام۔ان کے علاوہ کلکتہ کے وہ استاد شعراء جن کی محبت اور رہنمائی نصیب ہوئی ان میں علقمہ ؔشبلی، اعزازؔ افضل ، قیصرؔ شمیم اورمنورؔ رانا کی محبتیں ساتھ رہیں۔ اور ناظمؔ سلطان پوری، انجمؔ عظیم آبادی، حبیبؔ ہاشمی، احمدؔ رئیس، ودیگر حضرات میں جناب مظفرؔ حنفی بھی جب کلکتے میں مقیم تھے ان کی صحبت نصیب ہوئی۔ اور سفیرؔ الدین کمال صاحب جو واحد قطعۂ تاریخ کے شاعر ہیں۔ ان سب کو میرا آداب عرض ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ان دوستوں کی محبتوں کو جو مشاعرے میں شریک رہا کرتے تھے۔ اور ان دوستوں کو جو اپنا پرچہ نکالتے ہیں اور پوری اردو دنیا میں اپنے پرچے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ اپنے پرچے میں میری غزلوں کو جگہ دیتے ہیں۔ ان میں’’ انشائ‘‘ کے مدیر ف۔س۔ اعجاز، مژگاں کے مدیر نوشاد مومن، ’’ترکش‘‘ کے مدیرفراغ روہوی اردو اکیڈمی سے’’ روح ادب‘‘ کے مدیر ان اورحضرت بلال کے حوالے سے مولانا علی اعظم قادری سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ اخبار مشرق کے اڈیٹر مالکان اجالا کے ایڈیٹر مالکان آبشار کے ایڈیٹر اور مالکان کا بھی شکریہ کہ ان لوگوں نے میری غزلوں کی اشاعت میں دلچسپی لی۔ اگم کمار شرما اور ان کے بھائی ویر کنور کو میرا آداب جنہوں نے پرائیوٹ ٹی وی چینل پر جو’’ تازہ ٹی وی‘‘ کے نام سے مشہور ہے مجھے برابر پروگرام دیا اور اپنے پرچے ہندی اردو، بنگلہ frzos.kh (تیروینی) میں بارہا میری غزلیں چھاپیں۔ اس کے لئے نہایت ممنون ہوں۔
میرے دوستوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ اس لئے میں تمام دوستوں کاشکر گذار ہوں۔خاص طور سے انجمن پاسبان ادب جس کا میں نائب صدر ہوں اس کے تمام اراکین اور جنرل سکریٹری جمیل حیدر شاد صدرجناب خان ش کنور کا شکر گذار ہوں اور انجمن یاران سخن جس کا میںجنرل سکریٹری ہوں اس کے صدر ش۔ انور کو میرا سلام یوسف اختر کو سلام اور انجمن فگارؔ عظیم آبادی کے جنرل سکریٹری رئیس اعظم حیدری کو خاص کر انہوں نے مجھے اپنی انجمن کا نائب صدر مقرر کیا ہے۔ اس کے لئے خازم جناب عرفان رشید اور اس کے صدر ش انور کو میرا سلام اس کے علاوہ ان انجمنوں کے تمام اراکین کو میرا آداب و سلام عرض ہے جو انجمن چلاتے ہیں۔ میں اس انجمن کا کچھ نہیں ہوں مگر میری حوصلہ افزائی مشاعرے کے حوالے سے ہوئی ہے۔ خصوصی طور سے مسلم انسٹی ٹیوٹ کے عہدے داران جناب سلیمان خورشید ، جناب انجم عظیم آبادی، جناب ممتاز عارفی، اور انجمن اردو منچ کے روح رواں کلیم آزر، جو پھوپھا زاد بھائی بھی ہیں اور بہت اچھے شاعر ہیں ان کے رفیق جناب شفیق الدین شایاں کا تہہِ دل سے شکر گذار ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ شفقتوں سے نوازا ہے۔ اس کے لئے ادب سے آداب عرض کر تا ہوں۔ انجمن رمزی فین سوسائٹی کے جنرل سکریٹری مضطر افتخاری صدر مختار صاحب اور شہزادہ پرویز ،چھوٹے بھائی عمران راقم کو دعا سلام کرتا ہوں۔ میں اپنے محسوسات رکھ رہا ہوں۔ اس لئے مجھے ذرا بھی اس کا غم نہیں ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ وہ غم جسے غمِ جدائی کہا جائے، اسی جذبے کے تحت لکھ رہا ہوں۔ اور میں ان لوگوں کے علاوہ بھی ان تمام دور دراز کے احباب سے نیک تمنائوں کے ساتھ التماس کرتا ہوں کہ اپنی محفلوںکے حوالے سے مجھے یاد فرمائیں ۔ پٹنہ بہت دور نہیں ہے۔ جب آواز دیںگے میں خدمت میں حاضر ہو جائوں گا۔
پٹنہ میں جب قیام ہوا تو سب سے پہلے امان اللہ شادؔ سے ملاقات ہوئی وہ اسی محلے میں جس محلے میں مقیم ہوں، رہتے ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ اردو لائبریری کے رکن پرویز عالم سے جو علمی مجلس کے جنرل سکریٹری ہیں، میری ملاقات کروائی اور پھر        ڈاکٹر نسیم احمد نسیم سے ملاقات ہوئی ۔ ان لوگوں نے پٹنہ کے تمام ادباء شعراء سے جان پہچان کے علاوہ ادبی مجلسوںمیں باعزت شمولیت بھی کروائی۔ جناب نسیم احمد نسیمؔ نے توشمالی بہار اور یوپی کی سرزمین تک میری پہچان بنادی۔ میں ان کا شکر گذار ہوں۔ میں شکریہ ادا کرتا ہوں کلیم الرحمن کاکوی کا اور شان الرحمن کا جنہوں نے آکاش وانی کے پروگرام میں شامل کر کے دور دراز تک علاقے تک میری پہچان بنائی۔جناب خورشید اکبرؔ نے جو میرے چھوٹے بھائی، خوش فکر شاعر، صحت مند تنقید نگار اور اعلی عہدے پر فائز ہیں، میری مشکلوں میں آسانی کی صورت نکال دی ۔ میں جناب قاسم خورشید صاحب کا جو میرے پڑوس میں رہتے ہیں۔انہوں نے پہلی نشست میں ان تمام لوگوں سے تعارف کروایا جو ان کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔ ان میں سنجے کمار کندنؔ جو اچھے شاعر ہیں ان سے بھی ملوایا۔ جناب فرد الحسن جو جنوبی بہار کے علاقے میں مشاعروں کے ذریعہ میری پہچان بنوائی میں ان تمام حضرات کا شکر گذار ہوں اس کے علاوہ شاعر وادیب جو انجمن چلاتے ہیں جیسے ڈاکٹر سیدمظفر عالم ضیائؔ عظیم آبادی جناب معین کوثرؔ، قوسؔ صدیقی، ظفر ؔصدیقی، ناشاد ؔاورنگ آبادی، اور وہ تمام لوگ جو ادب سے جڑے ہوئے ہیں سب کا احسان مند ہوں کہ انہوں نے مجھے اپنا بنایا۔ اپنے دوست آر پی گھائل کا شکر گذار ہوں کہ مجھے ریزرو بینک آف انڈیا میں شاعر کی حیثیت سے مدعو کیا میں شکر گذار ہوں’’ قومی تنظیم‘‘ کے راشد احمد کا جنہوں نے میری غزلوں کو اپنے اخبار کی زینت بنائی۔ میں مشکور ہوں’’ فاروقی تنظیم‘‘ کے توقیر عالم اوردوسرے اراکین کا جنہوں نے میری غزلوں کو (رنگ ہنر) کے حوالے سے چھاپا ، جناب ریحان غنی صاحب اور شارق اجئے پوری نے اپنے اخبار ’’پندار ‘‘میں چھاپ کر مجھے حوصلہ عطا کیا اور’’ امن چین‘‘ والوں نے میری دس غزلیں شائع کر کے سب سے بڑے حوصلے بخشے، میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اس کتاب کے حوالے سے جس کا نام میں نے’’ سرخ آبی پرندہ‘‘ رکھا ہے ۔ میں ممنون ومشکور ہوںپروفیسر وہاب اشرفی صاحب کا جنہوں نے پیش لفظ لکھا اور احسان مند ہوں پرفیسر علیم اللہ حالی اور ڈاکٹر نسیم احمد نسیم کا کہ ان حضرات نے اپنی تنقیدی آراء سے کتاب کا وقار بڑھایا۔میرے والد محترم مرحوم محمد یعقوب صاحب اور میری امی مولودن بی بی چچا عبد الرشید صاحب کاوہ میری تخلیقات جب اخباروں ، رسالوں میں چھپتی تھیں دور دراز گائوں میں اپنے رشتہ داروں کو لے جا کر دکھاتے تھے۔ ان مرحومین کو اللہ اپنی رحمتوںکی پناہ میں رکھے۔(آمین)میں شکر گذار ہوں انجنئر سعید احمد، شائق احمد اورڈاکٹر جمیل احمدکا جو اپنے گائوں میں گاہے گاہے مشاعرے کی تقریب رکھ کر میرا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
اس کے علاوہ ہندوستان کے جس صوبے میں میری غزلیں چھپی ہیں ان مدیران کو اور بیرون ملک کے مدیر ان کا بھی احسان مند ہوں۔
آدمی کو ماں کی گود سے قبر کی آغوش میں جانے سے پہلے تک سیکھنا چاہئے۔ اس لئے میں ہر اس شخص سے جو مجھ سے زیادہ جانتا ہے یا اچھا ذہن رکھتا ہے میں سیکھتا رہتا ہوں۔ استادی اور شاگردی کا معاملہ تو جناب شہود صاحب پر تمام کر لیا۔مگر فنی نکات پر کبھی بات کرنی ہوتی ہے تو جناب سلطان اختر سے رجوع کرتا ہوں۔ اس مسودے پر نظر ثانی کے لئے بھی میں سلطان اختر کا شکر گذار ہوں۔ میں سہارا پریوار کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے اخبار راشٹریہ سہارا، عالمی سہارا اور بزم سہارا میں میری غزلیں شائع ہوئیں۔اس کے علاوہ پٹنہ کتاب میلے کے مشاعرہ کے موقع پر انعامات سے نوازا ۔ میں خالد عبادی، شہبازحسین اور شباب انور کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے مجھے اس لائق سمجھا ۔ روٹری کلب کے ممبران کا شکر گذار ہوں جنہوں نے سرزمین اتر پردیس میں میری شاعری کو پسند کیا اور انعام سے نوازا۔ خاص طور سے یوپی کھڈا کے ڈاکٹر این۔ ٹی۔ خان جن کے توسط سے کئی مشاعروں تک میری رسائی ہوئی۔ جناب عزیز ربانی صاحب نے بھی میرا بہت ساتھ دیا ہے۔ بتیا کی سرزمین پر بسنے والے تمام ادیب وشاعر کا تہہِ دل سے شکر گذار ہوں جہاں کئی بار اپنے فن کو پیش کرنے کا موقع ملا اور اہل ذوق سے دادِ سخن بھی ملی۔
دھنباد کے شان بھارتی جنہوںنے اپنے رسالے میں غزل چھاپی جس پرچے کا نام’’ رنگ‘‘ ہے ان کا شکر گذار ہوں خالص ادبی محفلوں میں کئی بار بلایا گیا اس کے علاوہ ایسے کئی نام احاطے میں آسکتے ہیں جو اس وقت چھوٹ گئے ہوں ایسے اشخاص سے مؤدبانہ گذارش ہے کہ مجھے معاف کردیں گے۔ اور دعامیں یاد رکھیں گے۔ گورنمنٹ اردو لائبریری کے جناب حسن احمد کا شکر یہ اداکرتا ہوں کہ انہوں نے میرا مسودہ جمع کرنے کی تکلیف گوارہ کی۔بعدہٗ اس مسودے کو راج بھاشا بہار سرکار نے اشاعتی امداد سے نوازا۔ جس کیلئے  میں ان کا بہت ممنون ہوں۔بہار اردو اکیڈمی کے اراکین کا شکر گذار ہوں جنہوں نے بہت نوازا اور اپنے رسالے میں غزل بھی چھاپی اس کے لئے بہت شکریہ۔ محمد ریاض الدین اشرف مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کا مشکور ہوں کہ انھوں نے پروف ریڈنگ میں تعاون کیا۔ اخیر میں رضا پبلی کیشن کے مالک جناب ذوالفقار حیدر کا شکریہ ادا کرنا بھی میرا خوشگوار فریضہ ہے کہ انھوں نے بہت دلچسپی کے ساتھ اشاعت کے مرحلے کو آسان بنایا۔ میری شاعری آپ کی توجہ چاہتی ہے۔ قیمتی آراء کا انتظار رہے گا۔شکریہ!
 
اشرفؔ یعقوبی
………………………………
 
 
You are Visitor Number : 2016