donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Ishrat Zaheer
Writer
--: Biography of Ishrat Zaheer :--

Ishrat Zaheer

 

عشرت ظہیر
 
عشرت ظہیر تقریبا تیس سال سے افسانے لکھ رہے ہیں اب تک یہ سوافسانے لکھ چکے ہیں ان کی ولادت ۲۰؍جنوری ۱۹۵۳ء میں بنیا پوکھر گیا میں ہوئی ایم اے اردو کرنے کے بعد سرکاری ملازمت سے لگ گئے ادبی ذوق بچپن ہی سے تھا اس لئے مصروفیات کے باوجود ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہے افسانے کے علاوہ افسانوی ادب پر گاہے گاہے مضامین لکھتے رہے ہیں ہندی اور انگریزی کی کئی کہانیوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ عشرت ظہیر کا شمار جدید افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے موضوعات کو گوندھنے کا سلیقہ انہیں خوب آتا ہے مگر شعور اور لاشعور کے تخیلی رویوںسے جگہ جگہ اس طرح متصادم ہوتے ہیں کہ ڈو بتا ابھرتا ہوا کوئی نہ کوئی خوبصورت پیکر، لمحہ یا منظر نامہ بناہی جاتا ہے وہ حال کا مطالعہ کبھی ماضی کی روشنی میں اور کبھی ماضی کا مطالعہ حال کی روشنی میں کرتے ہیں اس طرح ان کے یہاں ماضی اور حال کا بہترین امتزاج ہے کپل دستو میں گوتم ہوں، ،ساتویں شہزادی، وغیرہ میں ان کے اس امتزاج کو آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ عشرت ظہیر نے اساطیری اسلوب کا سہارا لے کر بہت ہی کامیاب افسانہ لکھا ہے کہیں کہیں انہوں نے انسان کے نفسی کو ائف اور داخلی کشمکش کو پیش کرنے کی کامیاب کو شش کی ہے اس کی زندہ مثال  خوشبو کا حال ہے۔ مٹی ان کا ایک کامیاب افسانہ قرار دیا جاسکتا ہے اس میں انہوں نے رنگوں کی خاصیت کو سامنے رکھا ہے اردو ادب میں رنگوں کے سہارے بہت کم افسانے لکھے گئے ہیں، اس لئے افسانہ کو اردو ادب میں ایک اضافہ کی حیثیت حاصل ہے۔ عشرت ظہیر کے افسانوں میں موضوعات میں تنوع ہے دوسرا وصف یہ ہے کہ ان میں ارتکازی کیفیت موجود ہے جو احساس کی لوتیز کردیتی ہے۔ چونکہ ان کے افسانوں کی اساس اساطیری اور داستان اسلوب پر ہے اس لئے پلاٹ اور کرداروں کا اہتمام ہے ثقیل الفاظ اور متعلق زبان کا استعمال نہیں ، ابھرتی ڈوبتی لہریں، ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا ہے اس میں ۱۹ افسانے ہیں، اسے احساسات وجذبات کے حسین مرقعوں کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے اس مجموعہ میں عشرت ظہیر نے وجودحیات اور کائنات کے مسائل پر فنی وہیبتی تجربوں کے علاوہ فساد اور تقسیم سند وغیرہ کو شدت سے محسوس کیا ہے اس طرح اس مجموعے کم افسانے احساس وکیفیت کے وہ مرقع ہیں جو مسائل زمانہ کے زندہ نمونہ ہیں مجھے بھاگنا ہوگا، اس کیلئے میں اس کائنات کے پورے نظام سے جنگ کروں گا، ایک طویل جنگ ،صدیوں برسرپیکار رہوں گا۔ صدیوں لیکن پیٹ پر پتھر باندھ کر رات گئے نیند سے اٹھ کر تہجد نہیں پڑھوں گا،آخرمیں خود کو فریب کیوں دوں؟مایا جال کہاں ہے ؟کون اس میں گرفتار ہے؟’’اندر کی آواز‘‘
مختصر یہ کہ اس مجموعے کے افسانوں میں سادگی حسن اور ٹھہرائو کی کیفیت ہر جگہ موجود ہے اس کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آگے چل کر عشرت ظہیر صاحب افسانوی ادب میں نمایاں مقام حاصل کرلیںگے۔
++++
 
 
You are Visitor Number : 1844