donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Shafaq
Writer
--: Biography of Shafaq :--

 Shafaq       شفق 

 

 
نام: شفیق احمد
قلمی نام شفق
والد کا نام: ولی احمد
تاریخ ولادت: ۱۹،فروری ۱۹۴۵ء
مستقل پتہ: کبیر گنج ،سہسرام
تعلیم: ایم اے اردو
اعزازات وانعامت: یوپی اور بہار اردو اکادمی نے انعامات سے نوازا ہے، ساہتیہ اکیڈمی نے ایوارڈ سیاحت برائے جموں کشمیر۱۹۸۷ء عنایت فرمایا۔
ملازمت:ریڈر شعبہ اردو، ایس ایس کالج سہسرام 
پہلا افسانہ: ’’میں قاتل ہوں‘‘ ماہنامہ، سوز، کلکتہ ۱۹۶۲ءمیں چھپا۔
افسانوں کی تعداد: تقریباً ڈیڑھ سوافسانے ،شب خون، الہ آباد،مریخ، پٹنہ وغیرہ میں شائع ہوچکے ہیں۔
افسانوی مجموعہ: دو،۱سمٹی ہوئی زمین ۱۹۷۹ء،۲۔سگ گزیدہ ۱۹۸۴ء 
دیگر تصانیف اور مضامین وغیرہ: کانچ کا بازیگر ،ناولٹ، بہت سے تحقیقی ،تنقیدی مضامین اور کچھ انٹر ویو شائع ہوچکے ہیں۔سہیل، گیا جون، جولائی،۸۳ء اور ،معلم اردو، فروری ۸۷نے ان پر گوشہ نکالا شفق افسانہ نگاری کے تیسرے دور سے تعلق رکھتے ہیں، جدید افسانہ نگاروں میں ان کا نام ایک اہم مقام حاصل کرچکا ہے، ان کے افسانوں میں جدیدیت کی جھلک ہر جگہ نظر آتی ہے علامت اور استعارہ کے ذریعہ کہانی بننا ان کا محبوب مشغلہ ہے تمثیل کے ساتھ انہوں نے جدیدیت کی تجریدیت کو بھی سمیٹنے کی کو شش کی ہے اس لئے ان کی بعض کہانیاں تجربے کا شکار ہوگئی ہیں، یعنی علامت اور استعارے کے استعمال یں کہیں کہیں حد سے گزر گئے ہیں جس کی وجہ سے کہانی کا حقیقی عنصر کہانی پن، کو مجروح کر دیا ہے لیکن ان کی زیادہ تر کہانیاں علامتی اور استعاراتی ہوتے ہوئے بھی قابل فہم ہیں اور افسانویت کے عنصر رکھتی ہیں میں نے سمجھا تھا میں تنہاہوں مگر ہر گھر کے دروازے پر کوئی نہ کوئی موجود تھا ، میں نے ان سے کچھ نہیں کہا، انہوں نے بھی مجھ سے کچھ نہیں پوچھا لوگ چپ چاپ میرے ساتھ ہوگئے گلیاں سڑکیں اور شاہراہیں باغ بازار اور عمارتیں سب جانی پہچانی تھیں مگر ہیبت ناک معلوم ہورہی تھیں۔ ہم ایک ایک چیز کو حسرت تجسس اور خوف سے دیکھتے رہے تھے۔ ’’صوراسرافیل‘‘
انہوں نے اپنے افسانوں میں پورے معاشرے اور پورے عہد کا کرب پیش کیا ہے معشوق ربانی صاحب کی بات بہت درست معلوم ہوتی ہے شفق کا تعلق لکھنے والوں کے اس نسل سے ہے جس کے یہاں زندگی کی قدروں سے بیزاری اور حال ومستقبل سے بے اعتنائی کے نقوش واضح ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں کے بارے میں خود فرمایا ہے۔ مجھے سماج میں یا انسان میں جہاں برائیاں نظر آتی ہیں اس کی طرف اشارہ کیا ہے میں نے مظلوموں کی حمایت کی ہے چاہے وہ مظلوم ایران میں ہوں، سائوتھ افریقہ، دیت نام، فلسطین، بنگلہ دیش یا خود ہندوستان میں، میں نے ان مظلوموں کا دکھ محسوس کیا ہے اور ظالموں کے خلاف آواز اٹھائی ہے میراسب سے ہم موضوعات ہندوستانی سیاست پھر فرقہ وارانہ فسادات رہا ہے۔ اگر چہ شفق نئی نسل کے نمائندہ ہیں لیکن ان میں کنفوان شباب کے جذبات اور رومان کی ذرا بھی جھلک نظر نہیں آتی بلکہ ان کے افسانے جبلی حسیت کے حامل ہیں۔ اس سلسلے میں مہدی جعفر صاحب کا خیال ہے۔ شفق کے افسانوں میں جنس جبلی حسیت کی حامل ہے۔ اس میںجذبات اور رومانی سطح نظر نہیں آتی بلکہ اس کا انداز نفسیات سے متعلق ہے اور جبلی کیفیت میں ایک طرف پر سکون اور لطیف احساس پیدا کرتی ہے لہذا اپنی پہلی صورت میں یہ اولین گداز انسانی تقاضوں کے حصول کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف محصر حاضر کی شخصیتوں اور زہریلے اثرات کا نتیجہ ہے اس طرح جنس ایک دہشت زدہ انجام کو پہنچتی ہے۔ شفق کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے افسانوں میں ایک جیسی فضا اور ایک جیسی کیفیت پائی جاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں سہما سہما انداز اور دہشت وسراسیمگی کی ملی جلی کیفیت ان کے اسلوب پر حاوی ہے اس سراسیمگی کے اظہار کیلئے انہوں نے اکثر وبیشتر جنگی درندوں اور کریہہ المنظر، حشرات الارض کا ذکر کیا ہے، عقل کو حیرت واستعجاب میں ڈال دینے والے اور رونگٹے کھڑے کردینے والے مناظران کے افسانوں میں زیادہ ہیں،وہ اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ قاری بھی اس نتیجے پر پہنچ جائے جو افسانہ نگار کا مقصد ہو ان کا اسلوب ان پر چھایا ہوا ہے۔
 
’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘’’مطبع دوئم ۱۹۹۶ء‘‘
 
 
You are Visitor Number : 1945