donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Shayar Lakhnavi
Poet
--: Biography of Shayar Lakhnavi :--

 Shayar Lakhnavi 

 

شاعر لکھنوی
 
 خودنوشت 
 
میرا نام حسن پاشا اور قلمی نا شاعر لکھنوی ہے۔ ۱۶ نومبر ۱۹۱۷ء کو لکھنو کی خاک پر اپنے وجود کی آنکھ کھولی۔ والد محترم منظور احمد صدیقی قصبہ امیٹھی  بندگی میاں ضلع لکھنو کے ایک معزز زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ میری عمر بمشکل ۵ برس کی تھی کہ وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ والدہ محترمہ مجھ سے دو سال چھوٹا ایک بھائی اور آٹھ سال بڑی ایک بہن، یہ تھی کل کائنات۔ زندگی بسر کرنے کی جدو جہد میں تمام زمینداری رفتہ رفتہ فروخت ہو کر رہ گئی۔ شدیدمالی مشکلات کے باعث مدرسہ کی تعلیم بھی ختم ہو گئی۔ ملازمت کے سوا بسر اوقات کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔ عزیزوں اور رشتہ داروں نے کوئی مدد نہیں کی۔ چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرکے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ پالتا رہا۔ بہن کی شادی قصبہ کا کوری ضلع لکھنو کے ایک زمیندار خاندان میں ہو گئی۔ جب آہستہ آہستہ معاشی حالات کچھ بہتر ہوئے تو ارباب علم و دانش اور صاحبان فضل و کمال کی صحبتوں میں بیٹھ بیٹھ کرحصول علم کے ذوق کو آسودہ کیا۔ میری ادبی و ذہنی تربیت میں مولانا عنایت اللہ فرنگی محلی کا اسم گرامی خصوصیت ے ساتھ قابل ذکر ہے۔؎
۱۹۳۲ سے ادبی محافل میں شرکت کی ابتداء کی۔ لکھنو میں میری شہرت کا آغاز کرسچین کالج کے ایک بڑے مشاعرے سے ہوا جس میں نو جوان شعراء میں میری غزل حاصل مشاعرہ ٹھہری۔ ایک شعر یہ تھا
 کر دیا دل کو ترے درد نے نازک ایسا
 سانس بھی لی تو نکل آئے ہمارے آنسو
اس غزل کی مقبولیت کے بعد لکھنو کی گلیوں میں مجھے شاعرِ آنسو کے خطاب سے یاد کیا جانے لگا۔ اس کے بعد میری شہرت کا سفر شروع ہوا۔
 غالباً ۱۹۴۶ء میں کانپور میں ایک بڑا مشاعرہ حبیب احمد صدیقی آئی سی ایس کی صدارت میں جو اس وقت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی حیثیت سے کانپور میں تھے ) منعقد ہوا جس میں یہ شعر حاصل مشاعرہ مانا گیا۔
 عدم کے دوش پہ قائم ہے کائنات کا وجود
 حقیقتوں کو سنبھالے ہوئے ہیں افسانے
یہ شعر ہندستان گیر شہرت و مقبولیت کا سبب بنا۔
 ۱۹۴۷ء میں بارہ دری قیصر باغ لکھنو کے سالانہ مشاعرہ میں میری غزل کا تاثر بہت گہرا رہا ہے۔ اس مشاعرے میں ہندستان کے تمام اساتذہ شریک تھے ۔ ایک شعر یہ تھا
 نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں کوئی روشنی
 یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل گئے
۱۹۴۷ء کے آخر میں جامعہ نگر دہلی میں جگر مراد آبادی ، روش صدیقی، قدیر لکھنوی اور جلیل رام پوری کے ہمراہ مشاعرے میں شرکت کی اس کی صدارت ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب نے فرمائی تھی۔اس مشاعرے میں میری غزل کا اثر خصوصیت کے ساتھ محسوس کیا گیا۔ اور اسٹیج سکریٹری نے میرے اس شعر کے حوالے سے نوجوان شعراء کو متوجہ کیا اور بتایاکہ گل و بلبل کی شاعری کا وقت گذر چکا ہے اب اس طرح کے اشعار کی ضرورت ہے۔
 لہو بہانے کے بعد ہوتی ہے حاصل اک سرخی فسانہ
 خزاں کے جھونکوں سے ڈرنے والے چمن کی تعبیر کیا کریں گے
 میں نے شاعری کے سلسلے میں خود اپنے ذوق و وجدان شعری کو اپنا راہ نما بنایا۔ کسی پر اصلاح کی ذمہ داری نہیں ڈالی۔ البتہ بزرگ دوستوں اور اہل کمال کے مشوروں کی ہمیشہ قدر کی۔
اکتوبر ۱۹۴۸ء میں پاکستان کا رخ کیا اور ۱۹۵۰ء تک شوکت تھانوی کے ہمرا ہ رہا اور ریڈیو لاہور سے فیچر لکھتا رہا ۔ یہاں تک کے موقر پرچوں میں میرا کلام طبع ہوتا رہا۔پاکستان میں شعراء کے انتخاب کلام سے متعلق جو کتب منظر عام پر آئیں تقریباً سب میں میرے کلام کا انتخاب شامل ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی مشہور کتاب’’ اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقاء ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کی متغزلین اور غزل ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی اردو غزل ، نقوش کے  نمبر اور نور الصباح بیگم کی کتاب پاکستان کی مشہور شخصیتیں میری نظر میں میرا ذکر اور کلام موجود ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری صدر شعبہ اردو جامعہ کراچی نے میرے بارے میں ایک تفصیلی مضمون میں لکھنو کا ایک غیر لکھنوی شاعر کے عنوان سے میری شاعری اور فن کا بھر پور جائزہ پیش کیا ہے۔ ادارہ ادبیات پاکستان کی طرف سے شائع ہونے والی کتاب اردو غزل میں بھی میرا کلام اور حالاتِ زندگی موجود ہیں۔
۱۹۷۹ء میں میرا پہلا مجموعہ غزل بروک بونڈ لمٹیڈ پاکستان کی طرف سے شائع ہوا۔ جس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔ اب دوسرا مجموعہ نعت’’ مدح محمدکے نام سے مکمل ہو کر نعت کونسل آف پاکستان کے اشتراک سے اشاعت کا منتظر ہے۔ یہ مجموعہ تمام و کمال صنعت عاطلہ ( غیر منقوط)میں ہے۔ تیسار مجموعہ بچوں کی نظمو ں سے متعلق ترتیب کے آخری مراحل میں ہے۔ تنقیدی مضامین کی ترتیب زیر غور ہے۔
ادب و شعر کے تین ادوار کے مطالعے اور مشاہدے سے گذر چکا ہوں۔ فراق، فیض، اصغر، جگر، یاس ، یگانہ اور شاد عظیم آبادی کے رنگِ سخن سے متاثر ہوں۔جنوری ۱۹۵۱ء سے کراچی میں مقیم ہوں اور ایشیاء کے معروف ادارے ہمدرد پاکستان سے اسٹورز منیجر کی حیثیت سے وابستہ ہوں۔
*****************************
 
You are Visitor Number : 3112