donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Sohail Azimabadi
Journalist
--: Biography of Sohail Azimabadi :--

 

 سہیل عظیم آبادی 

Name: Md.Mojibur Rahman
Pen Name:- Sohail Azimabadi
Father's Name:- Meer Habibur Rahman
Date of Birth:- 01, July 1911
Place of Birth::- Patna
Date of Death:- 29 November1979 (AIlahabad)
Place of Lying: Shah Ganj Qabristan, Patna
 
اصل نام : محمد مجیب الرحمن
ولدیت : میر حبیب الرحمن
تاریخ پیدائش : ۱جولائی۱۹۱۱
جائے پیدائش : پٹنہ
تاریخ وفات : ۲۹ نومبر ۱۹۷۹(الہ آباد)
مدفن : شاہ گنج قبرستان ، پٹنہ
سہیل عظیم آبادی کا شمار اردو کے سرکردہ افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے لیکن ادبی صحافت کو انہوں نے جو معیار، مزاج اور حسن دیا ہے، انہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سہیل عظیم آبادی نے کئی رسائل ہفتہ وار اور روز نامہ شائع کیا، لیکن تجارتی پہلو سے عملی وابستگی نہیں ہونے کی بناء پر وہ ایک بڑے صحافی نہیں بن سکے۔ پھر بھی ان کا شمار اردو کے اہم صحافیوں میں ضرور ہوتا ہے۔
سہیل عظیم آبادی کی صحافتی تحریروں میں ایک خاص قسم کی سنجیدگی، متانت اور اعتدال تھا۔ وہ اپنی صحافت سے سماجی و معاشرتی اصلاح اور عوامی بیداری کے ہمیشہ خواہاں رہے۔
اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد آ گے کی تعلیم کی حصولیابی کے لئے وہ کلکتہ چلے گئے، جہاں وہ ’’ہمدرد‘، ’’عصر جدید‘، ’’محاذ‘‘ اور ’’چندن‘ جیسے اخبار و رسائل سے وابستہ رہے۔ کلکتہ کے اخبار ’’عصر جدید‘‘ سے ہی ان کی صحافتی زندگی کی ابتداء ہوئی۔ اس اخبارکے مدیر کی علالت کے سبب ان کی غیر حاضری میں انہوں نے ایک اداریہ انگریز حکومت کے خلاف لکھا، جس کی پا داش میں نہ صرف یہ کہ اخبار بند ہو گیا، بلکہ انہیں ایک ہفتہ جیل میں بھی بند رہنا پڑا۔ ۱۹۴۵ میں وہ کلکتہ سے رانچی آ گئے اور موہن لال کے تعاون سے ماہنامہ ’’ کہانی‘‘ کا اجراء کیا، لیکن اس کا ایک ہی شمارہ نکل سکا، بعد میں دوسرا شمارہ پٹنہ سے پروفیسر ذکی الحق کے اشتراک سے جاری کیا لیکن ایک شمارہ کے بعد وہ بھی بند ہو گیا— ۱۹۴۹سے دسمبر ۱۹۵۲ تک انہوں نے روز نامہ ’’ساتھی‘‘ پٹنہ سے نکالا۔ یہ دور سہیل عظیم آبادی کی صحافتی زندگی کا اہم دور رہا ہے۔ اس دور میں انہوں نے اپنی صحافتی تحریروں سے بہار کی سیاسی، سماجی ادبی سطح پر اپنے گہرے نقوش مرتب کئے ہیں، بعد میں انھوں  نے ’’  تہذیب ‘‘  اپریل ۱۹۵۲سے شائع کیا۔ دو شمارے میں کلام حیدری اور بعد کے دو شمارے میں عبد القیوم انصاری ادارت میں شامل تھے۔
’’تہذیب ‘‘ گرچہ ادبی رسالہ تھا، لیکن اس کے اداریوں میں سہیل عظیم آبادی نے ادبی و لسانی مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی، معاشی اور دیگر کئی مسائل کو موضوع بنا یا۔ کشمیر کا مسٔلہ، بھو دان تحریک ایشیائی امن کا نفرنس، امر یکی صدارت  ‘کو ریا کا امن کانگریس کا ۵۸واں اجلاس، آندھرا پردیش کا مسٔلہ جن سنگھ کی تحریک ایشیا ئی سوشلسٹوں کی کانفرنس ’چھوٹے زمینداروں کا مسٔلہ عالمی امن کانگریس، ایران کے حالات وغیرہ عنوان کے تحت ’’جھلکیاں‘‘  پیش کرتے ۔ اس طرح ’’تہذیب‘‘ کے ذریعہ سہیل عظیم آبادی پورا عالمی منظر نامہ پیش کرتے۔ چونکہ وہ خود ایک بڑے فنکار تھے۔ اس لئے ان کے روابط اردو اور ہندی کے تقریباً تمام مشاہیر ادب سے تھے، اس کی وجہ کر تہذیب کے لئے بے حد معیاری اور اعلیٰ نگار شات مل جاتیں۔ فروری ۵۳ء کے ’’تہذیب‘‘ میں انہوں نے ’’تہذیب‘‘ کی مقبولیت کو قابل اطمینان بتایا تھا اور لوگوں سے تعاون کی گزارش کی تھی۔ساتھ ہی ساتھ دوسو صفحات پر مشتمل چین نمبر شائع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جو اعلان ہی رہ گیا اور اکتوبر ۱۹۵۳میں تہذیب، نے دم تو ڑ دیا۔ ۱۹۵۵میں سہیل عظیم آبادی کی آل انڈیا ریڈیو میں پروڈیوسر کی حیثیت سے تقرری ہو گئی۔ دہلی ،سری نگر اور پٹنہ میں تبادلہ ہوتا رہا۔ اسی دوران ۱۹۶۲ میں پٹنہ سے افسانوی ادب پر مشتمل اردو ماہنامہ ’’ راوی‘‘ کی اشاعت شروع کی۔ سرکاری ملازمت کی بنا پر ان کا نام شامل نہیں رہتا، لیکن وہ ابن حبیب کے نام سے لکھا کرتے تھے۔ دو سال بعد وہ بھی بند ہو گیا۔ ۱۹۷۰میں سہیل عظیم آبادی ریڈیو کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور ۱۵اگست ۱۹۷۰ء سے ہی ایک بے حد خوبصورت ، معیاری اور جازب  نظر ہفتہ وار ’’حال‘ کا اجراء کیا، جس میں سہیل عظیم آبادی کی صحافتی جوہر پورے آب و تاب کے ساتھ سامنے آئے۔ اس کا ہر شمارہ اپنے آپ میں ایک دستاویز ہوتا، لیکن ۱۴ شماروں کے بعد اس نے بھی دم توڑ دیا۔
سہیل عظیم آبادی کے اندر ایک فنکار کے ساتھ ساتھ ایک مستند صحافی کی تمام خصوصیات شامل تھیں۔ ابتدائی دنوں سے اخبار و رسائل نکالنے اور نکالتے رہنے کی جو چھٹپٹا ہٹ تھی، اس کا اظہار وہ کلام حیدری کے نام لکھے خطوط میں اکثر کیا کرتے تھے۔ 
(’’ہم کلام‘‘ کلام حیدری کے نام سہیل عظیم آبادی کے خطوط— مرتب! ڈاکٹر سید احمد قادری میں دیکھا جا سکتا ہے)۔
سہیل عظیم آبادی آخری ایام میں بہار اردو اکاڈمی کے سکریٹری بنے اور سکریٹری بنتے ہی اکاڈمی کا ترجمان ’’اردوستاں‘ شائع کر دیا۔ جو دوسرے شمارہ سے زبان و ادب ہو گیا۔ ان کے دور کا زبان و ادب اعلیٰ معیار کا حامل تھا۔ افسوس کہ اب تک سہیل عظیم آبادی کی مختلف صحافتی تحریروں پر تو جہ نہیں دی گئی ہے، ان کے اداریوں اور تبصروں کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے تو وہ ایک اضافہ ہوگا۔
 
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)
 
 سہیل عظیم آبادی 
نام: مجیب الرحمن
قلمی نام: سہیل عظیم آبادی ،مرحوم
تاریخ ولادت: ۱۹۱۱ء بمقام چوہٹہ
تاریخ وفات: ۲۹،نومبر،۱۹۷۹ء 
ابتدائی تعلیم: مدرسہ شمس الہدیٰ ،پٹنہ ،نن میٹرک
پہلا افسانہ: سحرنغمہ، ۱۹۳۱ء نگار، لکھنواکتوبر ۱۹۷۹ء
افسانے کی تعداد: تقریباڈیڑھ سو۔
خاص خاص مسائل ،جن میں افسانے چھپے :کارواں، الہ آباد، ندیم، گیا، ادب لطیف، لاہور، شاہراہ، دہلی، ساتھی، پٹنہ کردار،بھوپال ، منم، پٹنہ، شاعر، ممبئی، رفتار ، دربھنگہ، شاہکار، کراچی ،صبح نو، پٹنہ کتاب، لکھنؤ، نیادور، کراچی ،آواز ، دہلی ، زبان وادب،پٹنہ ،نگار ، لکھنؤ وغیرہ 
افسانوی تین ،۱۔الائو ، ۱۹۴۳ء ،۲۔ نئے پرانے ۱۹۴۴ء ،۳۔ چارچہرے ۱۹۷۷ء دیگر ادبی سر گرمیاں ،بچوں کیلئے بہت سی کہانیاں لکھیں ، ناولٹ بھی لکھے، ڈرامے بھی تحلیل کئے نیشنل بک ٹرسٹ کیلئے ایک ہندی ناول کا ترجمہ کیا نیچر وغیرہ بھی لکھے ، ابتدا میں شاعری کی ۱۹۵۱ء میں روزنا مہ ’’ساتھی‘‘ جاری کیا، پھر ماہنامہ ’’تہذیب ‘‘ نکالا، بعد میں’’چندن‘‘ ہندوستان‘‘ اور کہانی‘‘ بھی ان کی ادارت میں نکلے ۱۹۵۵ء میں آئی انڈیا ریڈیو میں اردو سیکشن کے پروڈیو سر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی ۱۹۷۰ء میں ہفتہ وار اخبار ’’حال‘‘ نکالا ۱۹۷۹ء میں بہار اردو اکادمی کے سکریٹری مقرر ہوئے اور ان کی ادارت میں سہ ماہی ’’زبان وادب نکلتا رہا ملکی وغیر ملکی بہت سی زبانوں میں ان کے افسانوں کے ترجمے ہو چکے ہیں ،راشٹریہ بھاشاپریشد کی طرف سے ہندی پریمی، کا ایوارڈ بھی ملا تھا ان کی ادبی خدمات پر کئی خاص نمبر نکالے گئے ’’پندار‘‘ پٹنہ سہیل عظیم آبادی نمبر موت سے ایک سال پہلے ، ’’زبان وادب ‘‘ پٹنہ سہیل عظیم آبادی نمبر جنوری تا اپریل ۱۹۸۱ء ’’آج کل دہلی سہیل عظیم آبادی نمبر ۱۹۸۱ءسہیل عظیم آبادی نے پریم چند کی طرح کسانوں ، مزدوروں ، متوسط طبقوں اور نچلے طبقوں کی زندگی کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے ان کی افسانہ نگاری کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے حقیقت کو کبھی نظر انداز ، نہیں کیا ان کے یہاں تخیل سے زیادہ تجربے سے کام لیا گیا ہے، انہوں نے اپنے فن سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے خود ہی لکھا ہے،۔
کہانی اس طرح لکھی جائے کہ اس میں بناوٹ ذرا بھی نہ آئے اور پڑھنے والوں کو کہانی پڑھنے سے زیادہ سننے کا مزہ آئے، کردار کی متحرک تصویر نظر کے سامنے آجائے اور واقعات کے تسلسل سے زندگی کا متحرک تصویر نظر کے سامنے آجائے اور واقعات کے تسلسل سے زندگی کا مسئلہ سمجھ میں آجائے میں کسی ازم یا اصول کی تبلیغ افسانہ نگار کا کام نہیں سمجھتا یہ کام ان لوگوں کا ہے جو ازم اور اصول کی تبلیغ کا ذمہ لیتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ کہانی لکھنے والے کی ذمہ داری یہ ہے کہ زندگی کے حقائق کو دلکش انداز میں پیش کرے، اسے الجھائے نہیں کہ پڑھنے والے کا دماغ الجھ کر رہ جائے، بعض ناقدوں نے میری کہانیوں کو سپاٹ اور بے پلاٹ کہا ہے مجھے خود اس کا اقرار ہے اور میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ میں کہانی کو خواہ مخواہ زیادہ دلچسپ بنانے اور اس میں Subpence پیدا کرنے یا ہیجان پیدا کرنے کا قائل نہیں ہوں، اگر کہانی زندگی کی تصویر ہے تو اس انداز سے آگے بڑھنا چاہئے کہ جس طرح زندگی۔ یہ سچ ہے کہ سہیل عظیم آبادی نے کسی ازم یا اصول کی تبلیغ نہیں کی ہے اور نہ ہی قاری کو الجھا یا ہے بلکہ واقعات کے تسلسل سے زندگی کے مسائل کو سلجھا نے کی کوشش کی ہے زندگی کے حقائق کو سادگی سے پیش کر کے اس میں فطری حسن پیدا کردیا ہے ان کے افسانوں میں عبادت آرائی کے بجائے موضوع میں سادگی اور طرز میں سکون ہے وہ اپنے گردوپیش کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے مرکزی خیال اخذ کرتے ہیں، عوامی زندگی سے گہرا تعلق ہونے کی وجہ سے انہوں نے عوامی مسائل اور موضوعات کو بالکل عوامی انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی ابتدائی کہانیوں میں دیہاتی زندگی کے مسائل ملتے ہیں لیکن بعد میں انہوں نےدوسرے مسائل کو بھی پیش کیا ہے ترقی پسند تحریک سے جڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں شور شرابہ ہونا چاہئے لیکن ایسی بات نہیں ہے وہ کسی ایک دائرے میں محصور ہوکر نہیں رہے۔ سہیل صاحب نے اپنے کرداروں کو اصل حالت پر رکھا ہے عام طور پر ان کی کہانیوں میں کئی کئی کردار ہوتے لیکن اس کے باوجود اس میں دلچسپی قائم رہتی ہے انہوں نے ماحول کے مطابق زبان بھی استعمال کی ہے اس لئے ان کے افسانے زندگی کے قریب ہوتے ہیں ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں توازن ہے وہ کرداروں کو آگے بڑھا نے کیلئے جو مکالمے استعمال کر تے ہیں وہ فطری اور بے تکلف ہوتے ہیں کہیں کہیں انہوں نے نفسیاتی گتھیاں بھی سلجھا نے کی کوشش کی ہے، کرشن چندر نے ان کے افسانوی مجموعہ’’الائو‘‘ کے پیش لفظ میںلکھا ہے، سہیل کی زبان نہایت سادہ اور سلیس ہے، مصنوعی اور غیر ضروری مکالمے کہیں نہیں ہیں بہاری گائوں اور اس کے افرادکی تصویریں اس فنی صناعی اور چابکدستی سے کھینچتے ہیں کہ افسانے کی دلکشی دوبالا ہوجاتی ہے غیر ضروری الفاظ کے استعمال سے بہت پرہیز کرتے ہیں اپنی تحریرات میں کم گومگر پرگوہیں اسے ان کے انداز تحریر کا اعجاز سمجھنا چاہئے، ان کے ابتدائی افسانوں میں ’’ایک سوال‘‘ اور’’وہ آئیں گے‘‘ کا فی مشہور ہوئے، آزادی کے بعد لکھے جانے والے افسانوں میں ’’کاغذ کی نائو‘‘ اسٹیشن پر‘‘ کمزوری‘‘ اور ’’کل وہ مرگیا‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں، جو دنیا کے بہتر افسانوں کے مقابلے میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ’’الائو‘‘ اور’’برسا بھگوان‘‘ دو ایسی کہانیاں ہیں جو بہار کے اسکول کے مختلف نصابوں میں شامل ہیں۔ سہیل صاحب کا اسلوب سید ھا سادہ ہے لیکن اس میں پر کاری اور رنگینی ہے۔ ان کے افسانوں کی زبان ہندوستانی ہے۔ اس میں مقامی الفاظ بھی شامل ہیں جو ان کی شخصیت اور ذہن کے عکاس ہیں۔ اور کبھی کبھی سوچتے سوچتے وہ ایسا محسوس کرتی کہ اس کی چھاتی پھٹ جائے گی۔ اور اس کا دل باہر نکل آئے گا جب کوئی مرد اس سے کوئی معمولی بات بھی کرتا تو اسے معلوم ہوتا کہ اس کے کانوں میں رس گھول رہا ہے۔ جب بھی جوان مرد اس کے سامنے آجا تا تو اس کی آنکھیں اس پر جھکی پڑتیں اور وہ اپنے کو بہت بے سہارا محسوس کرتی جب بھی وہ گھبراجاتی تو بھاگ کر بھگوان کی تصویر کے سامنے کھڑی ہوجاتی اور تھوڑی دیر کے لئے اسے سکون ملتا، ’’گرم راکھ‘‘
مختصریہ کہ سہیل صاحب افسانوی ادب کے ایک روشن مینار ہیں افسانوی ادب کی تاریخ میں ان کا نام سنہرے حرفوں میں لکھا جائے گا۔
 
’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘’’مطبع دوئم ۱۹۹۶ء‘‘
 

 

 
You are Visitor Number : 7667