donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Wamiq Jaunpuri
Poet
--: Biography of Wamiq Jaunpuri :--

 

Ahmad Mujtaba ‘Wamiq’ Jaunpuri was born in 1912 in a small village called Kajgaon in the district Jaunpur. He comes from an educated family.After finishing his education he practiced law in Lucknow for a while. Then he got a government job but quit because of the restriction on his poetry.

Like the contemporaries of his time, his poetry is more concerned about gham-e-doraaN.  His popular nazms are “bhooka baNgaal”, “meena bazaar” among others.

Late Janab Wamiq Jaunpuri also Received  GHALIB AWARD in 1997

bazm-e-anjum hoke bazm-e-Khaak taa bazm-e-Khayaal jis jagah jaao sunaa_ii degii insaano.n kii baat [Wamiq Jaunpuri]

 

 وامق جونپوری 

خودنوشت
 
 میرا نام سید احمد مجتبیٰ زید الواسطی ہے۔ تخلص وامق جونپوری۔ وطن کجلگائوں ضلع جونپور  ہے۔ والد کا نام سید محمد مصطفی خاں صاحب بہادر طاب ثراہ، جائے پیدائش خاص وطن تاریخ ولادت ۲۳اکتوبر ۱۹۰۹ء ہے۔ ابتدائی تعلیم اردو فارسی عربی ( بس میزان منشعب تک) اورانگریزی مکتبی صورت میں گھرپر ہوئی۔ وطن سے چل کے یہ سلسلہ بارہ بنکی تک گیاجہاں والد مرحوم صوبائی سول سروس میں تھے اور مولوی متوسط حسین صاحب مرحوم زید پوری اردو و فارسی اور عربی کے عالم میرے اتالیق مقرر ہوئے۔ آج میرے استعمال میں جو زبان اور لغت ہے وہ سب انہیں کا عطیہ ہے۔
 
بارہ بنکی سے ہائی اسکول کیا جب وہاں شیخ مہدی حسین ناصری صاحب مرحوم ہیڈ ماسٹر تھے ۔والد محروم کے دوست اور راقم الحروف کے ہفت زبان بزرگ ’’ اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں ‘‘ فیض آباد گورنمنٹ انٹر کالج سے انٹر میڈیٹ کیا اور لکھنو یونیورسٹی کیننگ کالج سے بی اے ایل ایل بی کی ڈگریاں لے کے ۱۹۳۷ء میں تعلیم کا سلسلہ ختم کر دیا۔ اس کے بعد ضروری ٹریننگ لے کر ۱۹۳۹ء میں فیض آباد میں وکالت شروع کردی۔
 
میں نے ایک آسودہ حال زمینداراور سرکاری نوکری پیشہ خاندان میں آنکھیں کھولی تھیں۔ سن شعور تک پہنچتے پہنچتے آپ نے ماحول کی قدیم روایت پسند اور انگریز پرست ذہنیت سے متنفر ہو کر میں اپنے میں ایک نوع کی گھٹن سی محسوس کرنے لگا تھا۔ مگر ہماری خاندانی تہذیب میں حفظ مراتب ، انداز خطاب ، نشست و برخاست اور بزرگوں کے احترام کا رنگ اس قدرپختہ تھا کہ انحراف یا بغاوت تو درکنار اپنے خیالات کا اظہار بھی بعد از تصور تھا۔ البتہ جب میں لکھنو یونیورسٹی میں داخل ہوا تو وہاں آزادی اور غلامی کا براہ راست تصادم دیکھنے میں آیا۔ یونیورسٹی میں بھی اور اس کے باہر بھی آرگینک کمسٹری کے میرے استاد ڈاکٹر حسین ظہیر آئے دن قید ہو کر جیل جایا کرتے تھے۔ اور تحریک آزادی شباب پر تھ۔ کسی موقع پر ڈاکٹر صاحب نے مجھ کو پروفیسر ڈی پی مکرجی سے ملایا ۔ یہ کتنی مبارک و مسعود ملاقات تھی کہ ڈی پی کی مقناطیسی شخصیت کے طفیل میں میری زندگی ایک نئے موڑ پر آگئی۔ ان کی قربتوں اور صحبتوں نے آزادی فکر و نظر کا وہ راستہ دکھایا کہ خاندانی بورژد اور نوکر شاہی روایات کی سب گرہیں ایک کرکے کھلنے لگی۔ بندھن ٹوٹنے لگے۔ میرے سیاسی سماجی اور جمالیاتی شعور کو وہ جلا نصیب ہوئی کہ آج تک اس کی روشنی میں اپنی منزل کی طرف گامزن ہوں۔ ان کی عالمانہ سحر گفتاری نے ذہن میں ایسے دریچے کھولے کہ ساری گھٹن دور ہو گئی اور غلامی کی فصیلوں میں دراڑیں نظر آنے لگیں۔ یہ وہی زمانہ تھا جب بنے بھئی سجاد ظہیر نے ادبی محاذ پر رجعت پرستی اور غلامی کے خلاف پنڈت نہرو کی سرپرستی اور منشی پریم چند کی صدارت میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی لکھنو میں بنیاد رکھی تھی۔ترقی پسند تحریک نے ادیبوں اور دانشور و ں کو وہ شعور عطا کیا جس میں رجعت، روایت ، توہم اور خوف و ہراس کی زنجیریں ٹوٹ کر رہ گئیں۔ کاروان ادب ایک نئے افق کی سمت گامزن تھا اور جوق در جوق اہل قلم اس میں شامل ہو رہے تھے اور میں ان سب کو للچائی ہوئی نظرو سے دیکھتا اور ان کی تخلیقات پر رشک کرتا تھا۔ ادب تخلیق کرنے کے لئے شعور علم اور تخلیقی صلاحیت کے علاوہ مشتق کی ضرورت بھی ہوتی ہے جس کا مجھ کو کوئی تجربہ نہ تھا۔ علاوہ مطالعہ کے کبھی شعر نہیں کہا تھا۔ بس ایک حسرت لئے ہوئے کئی سال گذر گئے ۔ وکالت کی ٹریننگ کے بعد جب فیض آباد میں پریکٹس شروع کی تو وہاں اچھا خاصہ ادبی ماحول ملا۔ مقامی شعری نستیں اورمشاعرے ہوتے تھے۔ فیض آباد سے قربت کی وجہ سے اکثر جگر صاحب مجروح سلطان پوری، خمار بارہ بنکوی اور مسعود اختر جمال وغیرہ آجایا کرتے تھے۔ ہر فن کے ماہرین کی صحبت اور قربت سے فن آہی جاتا ہے۔ چنانچہ ان حضرات سے اختلاف میسر ہونے پر میں نے بھی شعر موزوں کرنا شروع کر دیا۔ اور او ایل ۱۹۴۱ء تک شعارء میں میرا شمار ہونے لگا۔ ۱۹۴۱ء میں گورکھپور کے ایک مشاعرہ میں بہت سے تری پسند شعراء سے ملاقات ہوئی۔ مشاعرہ کے دوسرے دن مجنوں صاحب کی نگرانی میں ایک خالص ترقی پسند مشاعرہ ہوا۔ میں نے بھی اس میں شرکت کی اور اس دن سے انجمن ترقی پسند مصنفین کا باقاعدہ ملی ممبر بن گیا۔
 
۱۹۴۲ء میں وکالت ترک کرکے تلاش معاش میں دہلی چلا گیا۔ دوسری عالمی جنگ اپنے پورے شباب پر تھی۔ تلا ش معاش تو کم البتہ شعر و شاعری سے زیادہ سروکار رہا۔ اس زمانہ میں ملک کے چوٹی کے ادیب وہاں مجتمع تھے۔ مجاز، جذبی، جاں نثار اختر، پروفیسر احمد علی میرا جی، اختر الایمان، نم راشد، حفیظ جالندھری، سید محمد جعفری، اور پطرس بخاری وغیرہ وغیرہ یہ سب کے سب ترقی پسند تحریک سے تعلق تو نہ رکھتے تھے مگر جدید اذہان کے مالک ضرور تھے۔ ادبی صحبتیں، شعری اجتماعات اور نظریاتی بحثیں رہا کرتی تھیں جن میں شرکت کے لئے علاوہ تحقیقی کام کے نظریاتی بحثیں رہا کرتی تھیں جن میں شرکت کے لئے علاوہ تحقیقی کام کے نظریاتی مطالعے کی ضرور ہوا کرتی تھی ہو وہاں وہ تقاضہ بھی پورا ہوتا رہا۔ وہاں سے بے نیل و مرام ۱۹۴۳ء تک وطن پھر واپس آگیا۔ وطن میں ایک دن گذارنے کے بعد کلکتہ چلا گیا وہاں قحط بنگال کے دل خراش مناظر دیکھے ۔ واپسی پر نظم ’’ بھوکا بنگال‘‘ لکھی جس کے بعد میرا شمار صف اول کے ترقی پسند شعراء میں ہونے لگا بیکاری سے تنگ آکر میں نے بنارس کے محکمہ سپلائی وارشننگ میں نوکری کر لی اور ایک سال میں ترقی کرکے راشننگ افسر ہو گیا۔ مگر اپنی تخلیقات پر اس نوکری کو میں نے حاوی نہیں ہونے دیا۔ بلکہ ایک انتقامانہ جذبہ کے ساتھ قلم چلاتا رہا۔ میں بالاعلان مشاعروں اور جلسوں میں اپنی انقلابی نظمیں پڑھتا تھا۔
 
 اب جنگ ختم ہو چکی تھی۔ہندستان تقسیم ہو چکا تھا۔اور اس کے خونی نتائج کا ایک حشر برپا تھا اور ہم اس شرمناک اور بہیمانہ اظہار فرقہ پرستی کے خلاف چیخ چیخ کر نظمیں کہہ رہے تھے۔ ان دنوں میں الہ آباد میں متعین تھا ۔ میرا پہلا شعری مجموعہ چیخیں ۱۹۴۸ء میں وہیں سے شائع ہوا تھا جس میں تقسیم ملک ، فسادات اور مہاتما جی کے قتل پر میری نظمیں شامل تھیں۔ اسی زمانہ میں میری قیام گاہ معتوب کمیونسٹ رہنمائوں کا خفیہ سل اور جائے پناہ بھی تھی۔
 
جب میرا تبادلہ بارہ بنکی ہوا تو وہاں سے ہر اتوار کو انجمن ترقی پسند مصنفین کی نشست میں شرکت کرنے لکھنو جایا کرتا تھا جو پروفیسر آل احمد سرور کے مکان پر ہوا کرتی تھی۔ احتشام صاحب، رضیہ سجاد ظہیر، مجاز، مسیح الحسن رضوی، عابد سہیل، منظر سلیم، باقر مہدی اور تقی حیدر وغیرہ سے ملاقاتیں اور بحثیں ہوتی رہتی تھیں۔ اب حکومت کے کان کھڑے ہونے لگے تھے۔ جب نوکری کاجامہ ترقی پسندی کے جسم پر تنگ ہوکر مسکنے لگا تو میں سرکاری نوکری سے مستعفی ہو گیا۔یہ 1950 ء کا زمانہ تھا۔ اور اسی سال میری نظموں کا دوسرا مجموعہ ’’ جرس‘‘ دانش محل سے شائع ہوا۔
 
۱۹۵۲ء تک گھر پر رہا۔ اب زمینداری بھی ختم ہو چکی تھی جس کا مجھ کو کوئی افسوس نہ تھا مگر جب فاقو ں کی نوبت آگئی تو میں پھر دہلی چلا گیا اور ماہنامہ شاہراہ کا مدیر ہونے اور ڈھائی سو روپے ماہوار کو غنیمت جانا۔ ۴۴۔۴۳ تک وہاں رہا۔ وہاں سے ذاکر صاحب(Dr. Zakir Husain VCMU ) مجھ کو علی گڑھ لے گئے اور انجینئرنگ کالج کے دفتر کا سپرنٹنڈنٹ بنا دیا۔ رہنے کو ایک اچھا مکان مل گیا اہل و عیال آگئے اور بچوں کی باقاعدہ تعلیم شروع ہو گئی۔
 
 اب انجمن ترقی پسندی مصنفین کا مصنوعی بحران علی گڑھ تک پہنچ چکا تھا۔یہ بحران تحریک کے چوٹی کے نام نہاد ممبروں کی سازش تھی جس کو موقع پرستی کای ایک تاریخ ساز منصوبہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ میں ان حضرات کو حالات سے با خبر رکھنے کی حجت تمام کرنے کے لئے خطوط پر خطوط لکھتا رہا۔ اور تحریک کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا رہا مگر تحریک کے بمبئی ایچ قیو نے کسی ایک خط کا جواب دینا بھی گوارہ نہ کیا۔ جواب کون دیتا بقول ڈاکٹر افغان اللہ کے وہ سب لوگ تو ’’ گیہوں گلاب‘‘ کی کھیتی میں لگے ہوئے تھے۔ یہ طے ہے کہ میری تخلیقات اور میرے جیسے دوسرے پختہ ذہن اور شعور رکھنے والوں کی تخلیقی سرگرمیوں پر تو اس بحران کا کوئی اثر نہ ہوا مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نئی نسل جو انجمن سے منسلک تھی منتشر ہو گئی۔ اور وہ نوجوان جو انجمن کی جانب آرہے تھے آدھے راستے سے لوٹ گئے۔
 
 میںبھی ۱۹۶۱ء میں علی گڑھ سے کشمیر چلا گیا اور نو برس وہاں نوکری کرکے ۱۹۷۰ء میں ریٹائر ہو کر وطن واپس آگیا۔ وطن واپس آنے کے بعد چھ سات مہینہ خوب آرام کیا اور اس کے بعد پھر جو قلم اٹھایا تو ایں دم کتاب اور قلم ہاتھ سے چھوٹے نہیں ۔ ۱۹۷۹ء میں میرا تیسرا شعری مجموعہ’’ شب چراغ‘‘ شائع ہوا جس پر مجھ کو اتر پردیش اردو اکادمی کا پہلا ایوارڈء ملا اور ۱۹۸۰ء میں ادبی خدمات پر مجھ کو سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ ملا۔ چوتھا شعری مجموعہ سفر نا تمام‘‘ ہے۔ میری ۴۵ سالہ ادبی زندگی میں مقابلہ غزل نظموں کا حصہ زیادہ ہے جن میں قاری کو نئے تجربے ملیں گے مثلاً مینا بازار اردو کا پہلا سیٹائر ہے۔ ’’ زمین ‘‘ اردو کی پہلی اوڈ (Ode ) ہے۔ اور بہت سی سالیلوں کی ہیں۔ اور دوسری نظمیں مثلاً امن عالم پر ’’ نیلا پرچم‘‘ فسادات پر ’’ تقسیم پنجاب’’ قحط بنگال پر ‘‘ بھوکا بنگال‘‘ ۔ فنون لطیفہ پر ’’ فن‘‘ میرے تصور وقت پر ’’ وقت ‘‘ اور میری تازہ ترین نظم’’ سفر نا تمام ‘‘ ہیں جن میں مقصد اور تخلیقی فن کی آمیزش قابل توجہ ہے۔
 
مجھ کو اعتراف ہے کہ گذشتہ دس برسوں میں بہ نسبت نظموں کے مقابلہ میں نے غزلیں زیادہ کہی ہیں اور شاید عصری تقاضہ بھی یہی تھا۔ مگر اس کمی کو میں نے ادبی تنقیدی اور علمی مضامین لک کے بڑی حد تک پورا کیا ہے۔ ان کو بھی جمع کرکے کتابی شکل میں پیش کرنے کا ارادہ ہے۔ وقت کم ہے اور قلم رکھ دو (Pen Down ) کی آواز آنے والی ہے۔ ایں قدر ہست کہ بانگ جر سے می آید۔
 
وامق جونپوری
****************************

 

 
You are Visitor Number : 4428