donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Zakia Mashhadi
Writer
--: Biography of Zakia Mashhadi :--

 

 ذکیہ مشہدی 
 
 
 ذکیہ سلطانہ ( والد خلیق احمد صدیقی، والدہ زہرا خاتون) یکم ستمبر ۱۹۴۴ء کو لکھنو میں پیدا ہوئیں۔ والد حکیم تھے اور گھر میں حکمت کے ساتھ شعر و ادب کبھی چرچا عام تھا۔ مشہور فکشن رائٹر شفیق فاطمہ شفق ان کی پھوپھی تھیں جن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ویسے بقول سلطان آزاد وہ افسانہ نگاری میں رضیہ سجاد ظہیر کی شاگردہ رہی ہیں۔ ابتدائی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم لکھنو میں ہی حاصل کی اور نفسیات میں ایم اے کرنے کے بعد بی ایڈ کی ڈگری لی۔ چند برسوں تک لاریٹو کا نونٹ کالج لکھنو میں نفسیات کی لکچرر رہی ہیں پھر استعفیٰ دے کر پٹنہ چلی آئیں۔ یہاں سدھارتھ کالج میں چند برسوں درس و تدریس سے وابستہ رہیں پھر مختلف طرح کی سماجی و ادیبوں تنظیموں سے وابستہ ہو گئیں۔ دسمبر ۱۹۷۲ء میں سید شفیع مشہدی سے ( جو خود بھی اہم افسانہ نگار اور شاعر ہیں) شادی ہوئی۔ اس کے بعد قلمی نا م ذکیہ مشہدی اختیار کر لیا۔ دو بچے جہاں زیب ( بیٹا) اورش بل فاطمہ ( بیٹی) ہیں جو ماشاء اللہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں۔
 
ذکیہ سلطانہ کی ادبی زندگی کا آغاز شادی سے قبل ہی ہو چکا تھا۔ طالب علمی کے دوران ان کا ایک افسانہ اسکول میگز ین میں چھپا تھا۔ پھر ذ۔ احمد کے نام سے ایک کہانی’’ صبح نو‘‘ پٹنہ میں شائع ہوئی۔ مگر ذکیہ مشہدی کے قلمی نام سے افسانہ نگاری کی شروعات ۱۹۷۶ء کے آس پاس ریڈیو کے رسالہ’’ آواز ‘‘ اور ’’ آج کل‘‘ دہلی میں کہانیوں کی اشاعت سے ہوئی۔ اس کے بعد وہ تواتر کے ساتھ تین ادبی محاذوں پر سرگرم عمل ہیں۔ اب تک انہوں نے کم و بیش چھ درجن افسانے لکھے ہیں جو ہند و پاک کے اہم رسائل میں شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مختلف اداروں کے لئے  انگریزی اور ہندی کتابوں کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔ یہ کتابیں زیادہ تر نفسیات او رمتعلقہ علوم سے متعلق ہیں۔ نیشنل بک ٹرسٹ کے لئے انہوں نے جیلانی بانو کے افسانوں او رمشہور ناول ’’ ایوان غزل‘‘ کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان دونوں زبانوں سے اچھی واقفیت رکھتی ہیں۔ ان کی ادبی سرگرمیوں کا تیسرا پہلو مختلف موضوعات پر لکھے گئے تنقیدی مضامین سے عبارت ہے۔ حال کے برسوں میں انہوں نے سماجی و ثقافتی موضوعات پر بھی اپنے مخصوص انداز میں قلم اٹھایا ہے۔
 
 ذکیہ مشہدی کے افسانوں میں ایک حساس اور درد مند دل ہر جگہ نمایاں ہے۔ انہوں نے زندگی کی مختلف نا ہمواریوں کو تخلیقی وژن کے ساتھ اپنی کہانیوں میں پیش کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ کسی نسائی تحریک سے باضابطہ طور پر وابستہ نہیں رہیں مگر ان کے یہاں عورتوں کے دو دو رنج و الم اور حسرت و یاس و غم کی تصویریں اکثر پیش ہوتی رہی ہیں۔ موجودہ سماجی نظام کے بہت سارے ریوں کا عہد گذشتہ سے مقابلہ کرتے ہوئے وہ اکثر خلش میں مبتلا رہتی ہیں اور یہ خلش یا بے چینی ان کے افسانوں کی تعمیر کے لئے بنیاد بن جاتی ہے۔ ان کے افسانے عام طور سے بیانیہ کی تکنیک میں لکھے گئے ہیں جنہیں ایک خاص طرح کا اسلوب اور لب و لہجہ انفرادیت عطا کرتا ہے۔ اپنے افسانوی مجموعہ’’ تاریک راہوں کے مسافر‘‘ کی ابتداء میںمحترمہ نے خود لکھا ہے کہ ’’ افسانہ نگار ہونے کے لئے صرف تین چیزیں ضروری ہیں۔ ایک حساس دل، زبان پر دسترس اور گرد و پیش سے آگاہی‘‘ ۔ میں سمجھتا ہو ں کہ ان کے یہاں ان تینوں اشیاء کی فراوانی ہے۔
 
 محترمہ کا ادبی سفر جاری ہے۔ اب تک ان کی درج ذیل کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
۱۔ پرائے چہرے ( افسانوں کا مجموعہ) ۱۹۸۴ء
۲۔ تاریک راہوں کے مسافر ( افسانوں کا مجموعہ) ۱۹۹۳ء
۳۔ صدائے باز گشت۔ ۲۰۰۳ء 
۴۔ نقش نا تمام۔ ۲۰۰۸ء
۵۔ نیلا چاند از شیو پرساد سنگھ ( ہندی سے اردو ترجمہ ) برائے ساہتیہ 
۶۔ پکھیرو ازرام لعل ( اردو سے ہندی ترجمہ) برائے ساہتیہ اکادمی
 ۷۔Shadow from Laddakh by Bhavani Bhattacharya (Translation from English to Urdu) for NBT
۸۔Anthology of Sri Lankan Short Stories (English to Urdu) For NBT
۹۔ Aiwane-e-Ghazal (Novel) by Jilani Bano (Urdu to English) for NBT  
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 

Zakia Mashhadi

Image of Zakia Mashhadi

After an advanced degree in Psychology from Lucknow University, India, Zakia Mashhadi worked in its Demographic Research Center for some time and also taught Psychology for six years at Loreto College. Her marriage to Shafi Mashhadi, a bureaucrat, and later the birth of their two children obliged her to put her writerly ambition on hold. She came to it much later in life but whatever fiction she wrote was received with critical acclaim. She has published four collections of short stories so far and has also published several books of translated fiction. She lives in Patna.

 

 

 
ذ کیہ مشہدی
 
ذکیہ سلطانہ یکم ستمبر۱۹۴۷ء میں امروہہ ضلع مرادآباد میں پیدا ہوئیں، شفیع مشہدی سے رشتہ ازدواج میں بندھ جانے کےبعد ذکیہ مشہدی ہوگئیں نفسیات میں ایم اے کرچکی ہیں اس لئے انسانی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہیں ۱۹۷۹ء سے افسانے لکھ رہی ہیں، اب تک ایک سو افسانے ملک کے مختلف معیاری پرچوں میں شائع ہوچکے ہیں ایک افسانوی مجموعہ پرائے چہرے، ۱۹۸۴ء میں منظر عام پر آچکا ہے افسانوں کے علاوہ پوسٹ گریجویٹ سطح کی تین نفسیات کی انگریزی کتابوں اور کچھ ہندی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرچکی ہیں تعلیم بالغاں کے سلسلے میں کئی چھوٹی چھوٹی کتابیں بھی نوخواندہ لوگوں کیلئے لکھ چکی ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں دو گولڈ میڈل اور متعدد خطائف مل چکے ہیں۔
ذکیہ مشہدی بہار کی ایک ایسی خاتون افسانہ نگار ہیں جنہوںنے بہت جلد شہرت اور مقبولیت حاصل کرلی ہے وہ صرف دس بارہ برسوں سے لکھ رہی ہیں لیکن اس مختصر عرصے میں انہوں نے افسانہ نگاری کے میدان میں اتنا اونچا مقام حاصل کرلیا ہے کہ ان کے بہت سے ہم عصر اور بہت سے پرانے لکھنے والے بھی قد میں ان سے چھوٹے نظر آتے ہیںیہ سب ان کی کوششوں اور کاوشوں کا ثمرہ ہے ان کے یہاں تجربے کی کوشش نہیں ہے بلکہ اپنی بات کہنے کی سعی سے جس میں وہ پوری طرح کامیاب ہیں، کہانی کہنے کا انداز انہیں خوب آتاہے، قارئین ان کی کہانی پڑھ کر محسوس کر نے لگتے ہیں کہ واقعہ ان کی نگاہوں کے آگے رونما ہورہاہے تجسس قائم رکھنا کوئی ان سے سیکھے ان کا محبوب موضوع ہے عورتوں کی نفسیات کا مطالعہ، خصوصیت کے ساتھ خانگی زندگی کے تعلقات پر انہوں نے بہت سی اچھی کہانیاں لکھی ہیں طوائفوں کی نفسیات پر بھی انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور پوری درد مندی کے ساتھ اس پر روشنی ڈالی ہے، اس کے علاوہ انہوں نے نگار نگ اور تنوع خیالات کی ترجمانی اور عکاسی کی ہے جن کا تعلق انسانی فکر اور جذبات سے ہے ان پر بہت حد تک لکھنوی تہذیب کی چھاپ ہے عورتوں کی زبان استعمال کرنے اور عورتوں کے جذبات کی عکاسی کرنے میں وہ صالحہ عابد حسین اور جیلانی بانو کے بہت قریب ہیں، موتیاکی خوشبو، بانٹ یہ لمہیے کوئی چرایا ہوا سکھ، چاند کےہاتھ، حساب اور پرستش، ان کی بہترین کہانیاں ہیں، امید ہے مستقبل میں وہ اردو افسانہ نگاری کی دنیا میں ممتاز مقام حاصل کرلیںگی۔
’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘’’مطبع دوئم ۱۹۹۶ء‘‘
 
***************************************
 
You are Visitor Number : 3805