donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr Izhar Ahmad Gulzar
Title :
   Mera Gaon Chak No 87


میرا گائوں


چک نمبر

87

گ ب ، بابے دی بیر

 ضلع فیصل آباد، پنجاب ، پاکستان

 (ماضی اور حال کے آئینے میں)


تحریر: ڈاکٹراظہار احمد گلزار

Email: izhargulzar786@gmail.com

0092-300-7632419

    پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں ایک قدیم گائوں چک نمبر87گ ب ، اس حوالے سے تاریخی حیثیت کا حامل بن چکا ہے کہ ریاست کپور تھلہ (ہندوستان ) سے ہجرت کر کے آنے والی یادگار زمانہ شخصیت نے اس گائوں کو شہرت اور بقائے دوام عطا کیا ہے۔ عالمی ادبیات کی اس عظیم شخصیت ، عظیم تخلیق کار ، شاعر اور دانشور کو لوگ نور محمد نور کپور تھلوی کے نام سے پہچانتے ہیں۔اِس گائوں کو عرفِ عام میں ’’بابے دی بیر ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا اصل نام ’’رابرٹ آباد‘‘ ہے جو شاید کسی انگریز ڈپٹی کمشنر کے نام پر اس وقت کے آباد کاروں نے رکھا ہو گا مگر چونکہ یہاں دس مربع اراضی سکھوں کے گوردوارہ بابے دی بیر کے نام وقف ہے۔ اس لیے اس گائوں کو بھی عامۃ الناس میں بابے دی بیر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    بابے دی بیر کے نام پر سکھوں کے کئی ایک مشہور گوردوارے اب بھی موجود ہیں جن میں ایک سیالکوٹ میں ہے اور دوسرا جو سب سے قدیم ہے وہ مشرقی پنجاب بمقام سلطان پور لودھی ریاست کپور تھلہ میں ہے۔ سکھوں کی تاریخ کے مطابق باباگورونانک نے دریائے بین سیاہ کے کنارے اشنان کرتے ہوئے اپنی مسواک جو کہ بیری کے درخت کی تھی وہاں رکھ دی جو زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ کر ’’بیری‘‘ کے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گئی اور سکھوں نے بیر صاحب کے نام پر وہاں پر ایک گوردوارہ تعمیر کر دیا۔ جہاں آ ج بھی سِکھ دھرم کے لوگ زیارت کے لیے جاتے ہیں اور کئی دولت مند سکھ لوگوں نے اُس گوردوارہ کی دیکھ بھال کے لیے متعدد قطعہ اراضی گوردوارہ کے نام وقف کر دی تھی۔ 

    چک نمبر87گ ب (براہ ڈجکوٹ ) میں دس مربع اراضی بھی اُسی رواج کا ایک حصہ ہے۔ بابے دی بیر کی کل اراضی 37مربع جات پر مشتمل ہے۔ یہ گائوں تحصیل اور ضلع فیصل آباد میں واقع ہے جو فیصل آباد (لائل پور) سے تقریباً 25کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب کی سمت واقع ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت میں یہ گائوں تھانہ ستیانہ سے ملحق رہا مگر چند سال پیشتر اسے تھانہ ڈجکوٹ سے ملحق کر دیا گیا ہے۔ یہ امر باعثِ فخر ہے کہ اس گائوں میں سنگین جرائم نہ ہونے کی وجہ سے تھانہ سے عوام کا رابطہ کم رہتا ہے۔

    کسی زمانے میں گائوں کے ارد گرد چار پھل دار باغ تھے اور چار ہی کچے تالاب تھے جن میں گائوں کے سرپنچ چودھری محمد بخش مرحوم کا ساڑھے چار ایکڑ آموں کا قدیم باغ اس گائوں کی شناخت اور پہچان ہوا کرتا تھا۔ ایک وقت تھا جب اس تاریخی باغ میں ہر قسم کے پھل لگتے تھے۔ آڑو، لوکاٹ، سنگترہ، جامن، لیموں، کھٹی، کچنار، آموں کی مختلف اقسام، کھجور، کیلہ وغیرہ وافر مقدار میں پیدا ہوتے تھے۔ باغ اپنی زرخیزی اور خوب صورتی کی وجہ سے قرب و جوار کے دیہات میں قابل ذکر اور مشہور تھا۔ دور دور سے لوگ مسافت  کر کے یہاں مختلف قسم کے پھل خریدنے آتے تھے ۔ چودھری محمد بخش کا یہ قدیم باغ ’’بھائی کا باغ‘‘ کے نام سے معروف تھا۔ چودھری محمد بخش مرحوم عوامی خدمت اور رفاہ عامہ کے لیے ہر دلعزیز تھے۔ اس لیے چھوٹے بڑے ہر عمر کے لوگ انھیں ’’بھائی ابا‘‘ کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ آموں اور جامنوں کے بیشتر قدیم پودے تاریخ سے اپنا تعلق ختم کر چکے ہیں تا ہم چند پرانے پودے اب بھی باقی ہیں جن پر پھل بہت کم لگتا ہے۔ اب گائوں میں تین تالاب اور ایک پرانا باغ باقی ہے تاہم چند نئے باغوں کا وجود عمل میں آیا ہے۔ گائوں میں تین عدد پرانے کنویں تھے جن کا وجود قصۂ پارینہ بن کر رہ گئے ہیں۔ گائوں کے وسط میں چار بازاروں کے باہمی رابطہ کے درمیان ایک بہت بڑا کنواں ہوتا تھا جس کی منڈیر پر گائوں کے بزرگ شام کے اوقات میں ایک چوپال کی شکل میں اکٹھے ہوتے تھے۔ گائوں کا یہ کنواں بھی ناقابلِ استعمال ہونے کی وجہ سے تاریخ سے اپنا رشتہ منقطع کرچکا ہے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل اس گائوں کے مالک صرف تین زمیندار تھے ۔ گائوں بہت صاف ستھرا ہونے کی وجہ سے مثالی گائوں میں شمار ہوتا تھا۔ سرسبزو شاداب باغات کی وجہ سے ہوا میں گرد و غبار اور آلودگی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ باغات کے علاوہ گائوں میں بڑے بڑے برگد، پیپل، کھجور، جامن اور بیریوں کے درخت عام تھے جن کی گھنّی ٹھنڈی چھائوں میں گائوں کے بچے اور بڑے گرمیوں کی تپتی دُھوپ میں فراغت کے اوقات میں بیٹھا کرتے تھے۔ ان میں اب صرف ایک پیپل اور تین بڑھ (برگد) کے بڑے درخت باقی ہیں۔

    گائوں کی آبادی کم تھی کیوں کہ مالکان اراضی اکثر گائوں سے باہر شہر میں رہتے تھے اور اُن کے گماشتے ان کی زمینوں کا بندوبست کرتے تھے۔ اب اس کی کل آبادی تقریباً ایک ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔1947ء میں جب مہاجر یہاں آباد ہوئے تو گائوں کی زمینوں میں سیم اور تھور کا نشان تک نہ تھا۔ گندم، چنا، گنا، چاول، کپاس ، توریا، باجرہ اور مکئی وغیرہ کی فصلیں بڑی افراط سے پیدا ہوتی تھیں مگر رفتہ رفتہ یہ زمینیں محکمہ انہار کی غفلت اور بے توجہی کی وجہ سے سیم اور تھور کا شکار ہو گئیں کیوں کہ بدقسمتی سے یہ گائوں ٹیل پر واقع ہے۔ اس لیے نہری پانی کی قلت کا عام طور پر شکار رہتا ہے۔ اس طرح لمبے عرصے تک پانی کی بندی رہتی ہے ۔ جس کی وجہ سے فصلیں سوکھ جاتی ہیں اور کسانوں کو اُن کی سخت محنت کا صلہ نہیں ملتا۔تاہم اب بھی گائوں کی زمینیں طرح طرح کی فصلوں سے جہاں اناج پیدا کر رہی ہیں وہاں قدرت کے حسن میں نکھار پیدا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ گندم کے خوشے کرنوں کے جھومر پہنے زمین کی دولت کا واضح اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    گائوں میں لڑکیوں کا ایک مڈل اور لڑکوں کا ایک پرائمری سکول ہے۔ گائوں میں پکی سڑکوں کی سہولیات ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ رات گئے تک متحرک رہتی ہے۔ فیصل آباد شہر کو جانے کے لیے پکی سڑک براستہ ڈجکوٹ جانا پڑتا ہے۔ اسی طرح یہی سڑک چک86گ ب گرالہ سے ہوتی ہوئی قصبہ ستیانہ اور دوسری سڑک بلوچ والا سے روشن والی جھال تک جا نکلتی ہے۔ گائوں میں رابطے کی سڑکوں کے جال نے فاصلے کم کر کے رکھ دیے ہیں۔ گائوں میں بجلی کی سہولت نے اسے نئے داہنے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس طرح بجلی کی روشنیوں نے رات کی تاریکی کو دن کے اُجالے میں بدل کر رکھ دیا ہے۔گائوں کی مشرقی سمت میں چک ۸۸ گ ب روڑہ، لمبا پنڈ، نواں پنڈ، ٹانڈہ اور قصبہ ڈجکوٹ واقع ہیں جبکہ مغربی اطراف میں گرالہ ، جگت پور، بلاکی، چوراسی، ٹھنڈی، مالوماماں، خانوانہ واقع ہیں اور ان میں سے زیادہ تر گائوں نہر گوگیرہ برانچ سے سیراب ہوتے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل گائوں میں (مائیکرو ویو) ٹیلی فون ایکسچینج کے ذریعے سے جدید سہولت سے گائوں کو مستفید کیا گیا تھا اور اس کا رابطہ فیصل آباد میں سمن آباد ایکسچینج سے کیا گیا تھا۔ فیصل آباد تک لوکل کال تصور کی جاتی تھی۔ اس کے بعد نئی ایکسچینج کا وجود عمل میں آیا اور PTCLکے ذریعے سے گائوں میں ٹیلی فون کی جدید سہولت پہنچائی گئی۔ اس خوشی میں گائوں کے متعدد افراد نے اپنے گھروں میں کنکشن کروائے جو بعدازاں مہنگائی کی وجہ سے چند گھروں تک محدود ہو گئے۔ اب انٹرنیٹ اور کیبل کی سہولت عام ہو چکی ہے  جس سے ہر شخص مستفید ہو رہا ہے۔

    گائوں کے تین نمبردار ہیں۔ گائوں کی آبادی کی اکثریت راجپوتوں کی ہے۔ گائوں میں 15ہاڑ بمطابق 29جون کو سید خیر شاہ قادری کے نام پر ایک سالانہ عرس ہوتا ہے ۔ عقیدت مندان بھاری تعداد میں حاضر ہو کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس قابل ذکر عرس کے علاوہ کئی ایک میلے گائوں میں اور بھی ہوتے ہیں۔ جن میںبابا شادی خاں اوربابا دھکے شاہ کے میلے بھی شامل ہیں۔

    چک نمبر87گ ب ، بابے دی بیر اگرچہ ترقی کی شاہراہ پر چل نکلا ہے تاہم ابھی بہت سی بنیادی سہولتوں سے محروم چلا آ رہا ہے۔ جن میں ڈاک خانہ، بینک، سرکاری ڈسپنسری، کچے تالابوں کا پختہ ہونا، سڑکوں کے اطراف میں کوڑے اور گندگی کے انبار کا خاتمہ کرنا، لڑکوں کے سکول کی چار دیواری کا پختہ اور اپ گریڈ ہونا اور نہری پانی کے آئے روز کی قلت کا مسئلہ سرِ فہرست ہے۔

    دیگر کنوئوں کے علاوہ گائوں میں ایک کنواں چودھری محمد بخش کے قدیم باغ کے رقبہ میں موجود تھا جس کو راجباہ (کھال) سے ہر تیسرے چوتھے روز تازہ پانی سے بھرا جاتا تھا۔

    پانی پینے اور فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے کنوئوں کا رواج صدیوں پرانا تھا۔ کنوئوں سے پانی نکالنے کے طرح طرح کے طریقے ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ کیوں کہ کئی جگہ پانی بہت اونچا ہونے کی وجہ سے کنویں تھوڑی سی کھدائی کر کے بنائے ہوتے تھے۔ مائل کے کنویں ہندوستان میں کب عام ہوئے۔ اس بات کا کوئی اندازہ نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ پچھلے کئی سو سالوں سے فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے یہ عام ہو چکے تھے ۔ ہر چھوٹے بڑے گائوں میں چار چھ کنویں ضرور ہو تے تھے اور خاص کر اُن علاقوں میں جہاں زمین کا پانی اُونچا ہوتا تھا۔ چلتے کنوئوں میں خاصی رونق ہوتی تھی۔ پنڈوں ، قصبوں اورشہروں میں پینے کے پانی کے لیے کنویں (کھوہ)اور چھوٹے کنویں (کھوہیاں)ہوتے تھے ۔ یہ چرکھڑی والے اور بھونی والے ہوتے تھے۔

    راقم (اظہار احمد گلزار) نے اپنے بچپن میں اپنے گائوں میں چودھری محمد بخش مرحوم کے باغ کی کھوئی پر شام کے اوقات میں قطار در قطار خواتین ، لڑکیوں اور بچوں کو بڑے شوق اور نظم و ضبط سے پانی بھر کے لے جاتے دیکھا ہے۔ ان میں پانی ’’لج‘‘،’’ڈول‘‘ یا ’’بوکے‘‘ کے ذریعے نکالا جاتا تھا۔ ’’لج‘‘ اکثر پٹھے ، سوتری یا سیبے کی ہوتی تھی۔ اس زمانے میں خواتین ، لڑکیاں اور مٹیاریں کنوئوں سے پانی بھرنے کے لیے اکٹھی ہوتی تھیں۔ پانی بھرنے کے لیے باری (واری)رکھی جاتی تھی ۔ رفتہ رفتہ گھروں میں دستی نلکے عام ہونے لگے اور کنوئوں کی جگہ ویران ہوتی چلی گئی۔ سہیلیوں کے ساتھ سروں پر ایک ایک دو دو گھڑے اُٹھائے ، کوئی گودی میں دبائے قطاروں میں ہنستی مسکراتی آ جارہی ہوتیں اور دور کسے گبھرو کے دل میں کسے مٹیار کے لیے یہ امنگ جاگ رہی ہوتی۔

تیرے لک نوں ول نہ آوے چھوٹا گھڑا چُک لچھیے!

چھپڑ

    پرانے ہندوستانی سماج میں پنڈوں اور قصبوں میں ایک مشترکہ جگہ چھپڑ (کچے تالاب)بھی رہی ہے۔ چھپڑ بڑی ضرورتیں پوری کرتے تھے ۔ ان کا پانی مال ڈنگر کے پینے، بھینسوں کو نہلوانے ، کپڑے دھونے اور اس کی مٹی سے کچے گھروں کی لپائی کے کام میں لایا جاتا تھا۔ ایک طرف تو پنڈ کی تعمیر کے لیے مٹی کی ضرورت پوری ہوتی ہے اور دوسری طرف چھپڑ سے جانوروں کی ضرورت بھی پوری ہوتی تھی۔ کچی اینٹیں بنانے کے علاوہ چھپڑوں کی مٹی سے گھانی بنا کے دیواروں کی لپائی کی جاتی تھی۔ چھوٹے بچوں بچیوں کے لیے یہ چھپڑ اپنے وقت کے سوئمنگ پول بھی تھے۔ یہاں ہی چھوٹے بچے تیرنا سیکھتے تھے۔ 

    میرے گائوں (87گ ب ، بابے دی بیر) میں چار چھپڑوں میں سے دو کا وجود ابھی باقی ہے ۔ دو پر جگہ کی حرص رکھنے والوں نے قبضہ کر کے اپنے گھر تعمیر کر لیے ہیں۔ اسی طرح بڑے چھپڑ ملحقہ (گرلز مڈل سکول) پر چند ناعاقبت اندیش لوگ اس میں مٹی ڈال ڈال کر آہستہ آہستہ اپنے قبضہ میں لیے جا رہے ہیں اور اس طرح آدھے سے زیادہ چھپڑ قبضہ مافیا کے قبضے میں چلا گیا ہے۔

لوہار کی دکان

    میرے گائوں (بابے دی بیر) میں قیامِ پاکستان کے بعد جب آباد کاری ہوئی تو اس وقت لوہار کی ایک دکان ہوتی ہے ۔ جدیدطریقہ کار میں دیس میں سب سے پہلے کاشتکاری میں استعمال ہونے والی مشینوں میں ٹریکٹر آیا۔ اس لیے سب سے پہلی چوٹ بھی لوہار کی دکان کو ہی لگی اور ہل پھالے کا کام کم ہو گیا ۔ لوہار کی دکان واہی بیجی (کاشتکاری) میں کام آنے والے اوزاروں کے لیے ایک ورکشاپ کا درجہ رکھتی تھی۔ پھالے چنڈائون ، داتریاں تیز کروانے، ٹوکے، رمبے اور کلہاڑیوں کو تیز کرنے کے لیے زمیندار اور دیگر گائوں والے اسی دکان پر جاتے تھے۔میرے گائوں میں لال دین مستری ایک بڑا محنتی اور انتھک انسان تھا جو سارا دن دکان پر موجود رہتا۔ لوہار کی دکان پر پچھلے پہر (سہ پہر) سے شام تک اپنا اپنا کام کروانے والے زمینداروں کا بڑا ہجوم اور شور رہتا تھا۔ ٹریکٹر اور ٹیوب ویل کے عام ہو جانے کے بعد یہ دکان بھی ختم ہو گئیجس سیپنڈوں، قصبوں کی رہتل پر مل بیٹھنے کی یہ جگہ بھی ماضی کا حصہ بن گئی۔

خراس

    آٹا پیسنے کے لیے گائوں میں خراس بھی ہوتے تھے ۔ جہاں بیلوں کے ذریعے دانے پیس کر آٹا بنایا جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ انجن سے چلنے والی چکیاں عام ہوئیں ۔پھر زمانے نے آگے قدم بڑھایا تو یہی کام بجلی سے لیا جانے لگا۔ میرے گائوں (بابے دی بیر) میں ایک بڑا خراس مستری لال دین لوہار ہی کا ہوتا تھا جو گائوں کے وسط میں قائم تھا۔ زمانے کی تیز رفتاری نے خراس کو بھی ماضی کے جھروکوں میں بند کر کے رکھ دیا ہے۔

موچی کی دکان

    پچھلے پہر کے اکٹھ میں ایک جگہ موچی کی دکان بھی ہوتی تھی جہاں لوگ شام سے قبل اپنا کام کروانے جاتے تھے۔ برکت علی موچی سرِ شام ہی اپنے گھر کے تھڑے پر دکان داری سجا لیتا اور اس کے گر دبزرگوں کی رونق لگ جاتی جو دُنیا جہان کی باتوں کے ساتھ ساتھ حقے کے کش بھی لگاتے جاتے۔ جوتے مرمت کروانے سے لے کر ’’ناڑی‘‘ ،’’ودھڑی‘‘،’’تلہاڑا‘‘ اور ہر طرح کے جوتوں کی مرمت کے لیے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا۔ اب یہ دکان بھی نئی تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہوئی۔ ہاتھ کے بنے ہوئے جوتے کی مانگ کم ہو کر رہ گئی ہے ۔ لوگ مہنگی اور اعلیٰ جوتوں کو خریدنے کے لیے شہر کا رُخ کرتے ہیں۔

حکیم کی دکان

    ہر طرح کیعلاج معالجے کے لیے بابے دی بیر میں ایک ہی دکان ہوتی تھی جہاں دیسی طریقہ کار سے مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ اُس وقت اتنی مادی دوڑ نہیںلگی تھی اور نہ ہی لوگ پیسے کو خُدا مانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دردِ دل رکھنے والے عوام دوست حکیم محمد افضل خاں نے ہمیشہ اپنے گائوں اور قرب و جوار کے دیہات کے لوگوں کا علاج عبادت سمجھ کر کیا۔ ساری زندگی اپنی بائیسکل پر گٹھڑی میں دیسی جڑی بوٹیوں کے نسخے اُٹھائے حکیم صاحب کو جہاں سے آواز آ جاتی بغیر کسی لالچ کے مریض کو بچانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیتے۔ کسی نے کچھ خدمت کر دی تو ٹھیک ورنہ بسا اوقات تو حکیم صاحب کواپنی طرف سے غریب مریض کی خدمت کرنا پڑتی تھی۔حکیم افضل خاں لوگوں کے بروقت علاج نہ کروانے پر تڑپ اُٹھتا تھا اور اسی لیے غصے میں آ جاتا تھا لیکن دل اور طبیعت کا بہت نرم تھا ۔ ان کا ایمان تھا کہ بنی نوعِ انسان سے محبت کرنا حقیقت میں خُدا سے محبت کرنا ہے۔ بے شمار غریب مریض اُس سے مفت علاج کرواتے تھے ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ نبی مکرم ، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کسی نے دین کی تعریف دریافت کی تو فرمایا:کہ دین احکامِ خداوندی کی عظمت اور خلق اور خلق خدا پر شفقت کا نام ہے اور اسی حکم خدا پر حکیم افضل خاں ساری زندگی کاربند رہے۔ مرتے وقت ان کے پاس ایک بائیسکل ، چند ادویات سے بھری گٹھڑی موجود تھی جس کے ذریعے وہ لوگوں کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے۔ اب ایسی طبیعت کے لوگ کہاں۔۔۔۔؟

چرخہ

    صنعتی دور سے پہلے کسی نہ کسی شکل میں دُنیاکی ہر نکڑ میں چرخہ موجود رہا ہے ۔ یہ ایک مُدت تک پنجاب کی تہذیب و ثقافت میں ایک بہت انمول شے سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہر جوان لڑکی کے لیے چرخہ کاتنے کو ایک ضروری وصف سمجھا جاتا تھا۔ بیٹیوں کی شادیوں کے موقع پر بھی چرخہ ہی دیا جاتا تھا۔ ترنجنوں میں لڑکیاں چرخے کات کر خوشیوں کے گیت گاتی تھیں۔ اسی لیے ہماری لوک شاعری میں اس کا بڑا ذکر آیا ہے ۔جیسے ’’جوگی اُتر پہاڑوں آیا تے چرخے دی گھوک سُن کے‘‘ ۔ہمارے صوفی شعرا کے کلام میں بھی چرخے کے ذریعے بڑی قیمتی باتیں سمجھائی گئی ہیں ۔ شاہ حسین اور بلھے شاہ نے اپنی کافیوں کے ذریعے معرفت کے رموز سمجھائے ہیں۔ شاہ حسین فرماتے ہیں:

گھم چرخڑیا گھم! تیری کتن والی جیوے ، نلیاں وٹن والی جیوے

یا

چرخہ بولے سائیں سائیں بائڑ بولے توں

    مشینوں کے رنگ برنگے اور طرح طرح کے کپڑے بنانے سے کھڈیوں کا کام بھی کم ہو کر رہ گیا ہے اور ساتھ ہی سوت کاتنے کاکام ختم ہو کر رہ گیا ہے لیکن خواتین کے جیون کا جو سماجی تانا پیٹا چرخے سے بُنا ہوا تھا وہ بھی تنکا تنکا ہو کر رہ گیا ہے۔ ہمارے گھر میں اللہ غریقِ رحمت کرے  میرے والد صاحب (رانا محمد گلزار خاں مرحوم) کو جنھوں نے صرف اپنی تہذیب کو زندہ رکھنے کے لیے شیشوں سے سجا ہوا رنگ برنگا چرخا گھر میں سجا رکھا تھا۔ میں نے اپنی والدہ کو چرخہ کاتتے تو نہیں دیکھا البتہ ایک شوق اور محبت سے اس مٹتی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے اُسے باقاعدگی سے صاف کرتے ہوئے اونچی جگہ پر سجاتے ضرور دیکھا ہے۔یہ تبدیلیاں ہر معاشرے میں ہر وقت ہو رہی ہیں لیکن کچھ تبدیلیاں ایسی بھی ہیں جو کسی تہذیب کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر جا کر کھڑا کر دیتی ہیں۔

    لوگوں کی سوچ، استعمال کا انداز اور وسیب کے رنگ بدل جاتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ گھروں کی بناوٹ میں جو تبدیلیاں آئی ہیں ان کی وجہ سے صدیوں سے استعمال ہوتی چیزوں اور ان کے نام اجنبی ہوتے جا رہے ہیں۔ گھروں کے کمروں میں پرچھتی بنانا عام رواج تھا جو کہ اب ختم ہوکر رہ گیا ہے۔اس کے علاوہ کچی اینٹوں کے بھڑولے ، بھڑولیاں بھی ہر گھر میں گندم (اناج) کو سنبھالنے کے بنائے جاتے تھے۔ اب ان کی جگہ بھی لوہے کے بھڑولے نے لے لی ہے۔آج لوگوں کی ضروریات بھی بڑھ چکی ہیں اور ظاہر داری بھی ۔۔۔۔

چوپال

    گائوں میں بہت سی چوپال تھیں جن میں چودھری مجید خاں اور چودھری مہنگے خاں کی چوپال پر تینوں پہر رونق لگی رہتی۔ جہاں پر ہر وقت دو چارافراد ہمہ وقت موجود رہتے تھے مگر جب دوپہر کا وقت آن پہنچتا تو بزرگوں کی تعداد بڑھ جاتی ۔ بابے مہنگے کے ڈیرے پر ہر عمر کے لوگ اکٹھے ہو کر سیاست کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی بات کھل کے کر لیتے تھے۔ بابا عدالت، تایا نور، دلاور، عزیز موٹا، مندھ خاں، خورشید خاں، بھیکے خاں، علی بخش اور کتنے ہی سیانے بڑی بڑی چارپائیوں پر برگد کے بوڑھے درخت کے نیچے دُنیا جہان کی باتیں کرتے تو ایسا لگتا جیسے زندگی سمٹ کے اس تھوڑی سی جگہ میں آ گئی ہو۔ 

جامع مسجد نورِ مدینہ

    بابے دی بیر میں ایک خوب صورت اور دیدہ زیب ’’جامع مسجد نورِ مدینہ‘‘ اردو اور پنجابی کے تخلیق کار اور عظیم شاعر نور محمد نور کپور تھلوی کی یاد میں تعمیر کی گئی ہے جس کو ان کے بیٹوں ممتاز سماجی شخصیت رانا افتخار احمد، میجر ڈاکٹر محمد اسلم اور کیپٹن محمد اکرم نے بڑی محبت اور احترام سے تعمیر کروایا ہے جو اُن کے لیے بخشش اور ثواب کا ذریعہ بن رہی ہے۔ان تمام کمزوریوں اور محرومیوں کے باوجود آج بھی میرا گائوں ۸۷ گ ب (بابے دی بیر) اپنے صحت مند ماحول اور دیدہ زیب فطری نظاروں کی بدولت قدرت کا حسین شہکار ہے۔ شہر کی ہنگامہ خیز رنگینیاں ، تہذیب و تمدن کی بساط پر ثقافت کی تیز تیز روشنیاں تو بس دور سے دیکھنے والی ہیں۔ زندگی کے راستے پر برسنے والی یہ کرنیں اور ان کرنوں کے سائے میں چلنے والے راہ نورد ایسی تلخ حقیقت ہیں جن سے ذہن میں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ افکار یوں سمٹ جاتے ہیں جیسے کسی ساز کا تار ٹوٹ کر بے شمار ننھے منے دائروں میں ڈھل کر رہ جائے ۔ پس جو بھی اپنے افکار میں ایک پھیلائو کا تمنائی ہے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ میرے گائوں کا رُخ کرے جس کی سڑک کے دو رویہ کھیتوں کی لہلہاتی قطاریں ، گندم کی حد نظر تک پھیلی فصلیں ، سمٹے ہوئے افکار میں ایک خوشگوار وسعت پیدا کر دیتے ہیں ۔ تازہ ہوا میں عجب کیفیت ہوتی ہے جو روح سے ہمکنار ہو کر شہر کی تصنع آمیز رنگین اور بھڑکیلی زندگی کو باسی بنا دیتی ہے۔ یہ میرا گائوں ہی ہے جہاں جدھر بھی نظر دوڑائو تو فطرت کے حسین نظارے تمھارے منتظر نظر آئیں گے۔ سورج کی کرنیں، گیہوں کی بالیوں سے کھیلتی ، گندم کے خوشے کرنوں کے جھومر پہنے، زمین کی دولت کا اظہار کرتے ہیں۔ کھیتوں کے درمیان ایک قدمی پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے گندم کی شکل میں سونا اگلتی زمین مجھے اپنی عظمت و برتری کا احساس دلاتی ہے۔

    میرے گائوں 87گ ب بابے دی بیرکے لوگوں کا خلوص قابلِ قدر چیز ہے۔ جس سے ملو، لبوں پر مُسکراہٹ بکھیرے خیر مقدم کرتا ہے۔جانے پہچانے دوستوں کی طرح سب سے گفتگو ہوتی ہے۔ اندازِ تکلم میں احترام کا بے پناہ اثر ہوتا ہے ۔ اُن کی باتیں دلی سچائیوں کا آئینہ ہیں۔ میرے گائوں (بابے دی بیر) میں بے تکلفی و سادگی نظر آتی ہے۔ میرے گائوں کے زمیندار جفاکش، محنت و مشقتِ جسمانی کے عادی ، خوش باش لوگ ہیں اور یہی سادہ لوح کسان گرمی، سردی میں سارا دن محنت کرکے ملک کی شوبھا بڑھاتے ہیں۔ ان کی فصلوں کے جھکتے ڈنٹھل ، پکتے بالے اور دھوپ رچے کھلیان ہر گھر میں خوشیاں بانٹتے ہیں۔

    خدا کرے میرا یہ گائوں خوش حالیوں ، ترقیوں اور کامرانیوں کی منازل طے کرتا ہوا دُنیا کا ایک مثالی اور خوبصورت گائوں کا روپ دھار لے اور یہاں کے لوگ کسی بھی قسم کی پریشانی اور تنگی کا مُنہ نہ دیکھیں۔

    راقم اظہار احمد گلزار کے اپنے گائوں کے حوالے سے ایک پنجابی نظم کے چند اشعار نذرِ قارئین:

بابے دی بیریاں دے بیر بڑے مٹھے نیں
اللہ دی سونہہ کئی واری کھا کے میں ڈِٹھے نیں
واسی ایہدے محنتی تے جفاکش دلیر نیں
کھیتاں وچ ہل واہندے ، لگدے ایہہ شیر نیں
کنک کپاہ دی نہ ایتھے کوئی تھوڑ اے
شہریاں دی ایتھوں ہندی پوری ہر لوڑ اے
منڈے ایس پنڈ دے بڑے ای پڑھاکو نیں
دِینا، فجا، چودھری تے کامے ایہدے ہاکو نیں
بابے دی بیر ایہہ پنڈ اظہارؔ بڑا سوہنا ایں
ایہدے ورگا پنڈ نہیوں ہور کِتے ہونا ایں


******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 2175