donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gul Bakhshalvi
Title :
   Khariyan Se South Africa Tak


  کھاریاں سے ساؤتھ افریقہ تک  


 ( سفر نامہ)   

 

 گل بخشالوی


زندگی نے ایک بار پھر اپنے دیس سے پردیس میں اپنے خونی رشتوں سے ملنے کا اعزاز بخشا ،شاہد بخشالوی میرے صاحبزادے ،ساؤتھ افریقہ میں اپنے خاندان کےساتھ مقیم ہیں ۔شاہد کے علاوہ بھی ساؤتھ افریقہ میں میرے رشتوں کی تعداد اس قدر ہے کہ پردیس بھی اپنا دیس لگتا ہے ۔رب کریم کی نوازشات میں زندگی کا آخری عشرہ اس قدر خوبصورت ،پرسکون ،پرآسائش ہے جس کا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس لےے کہ میں نے غربت کی اُس سطح پر زندگی کی آنکھ کھولی ہے جہاں اگر دوپہر کو کھانے کیلئے کچھ ملا تو شام کی فکر رہتی لیکن والد ِمحترم نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہم بہن بھائیوں کیلئے وقف کررکھا اور ہمیں باوجود تمام تر مشکلات ِزندگی کے تنگدستی کا احساس نہیں ہونے دیا اور آج جب اپنے بچپن اور لڑکپن کے دور میں اپنی یادوں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں ۔کاش!آج میری والدہ اور والد بقید ِحیات ہوتے تو میں اُن کے ہاتھ پاؤں دھو دھو کر پیتا ۔

میرے والدین کی ایک ہی خواہش تھی اپنے کل کی خوبصورتی کیلئے پڑھو ،علم حاصل کرو گوکہ میں کسی ڈگری کی سطح تک تو تعلیم حاصل نہ کر سکا ہوں لیکن جو بھی دوچار جماعتیں پڑھ سکا ہوں آج اُس کا پھل کھارہا ہوں ،میں نے بھی اپنے بچوں کیلئے وہی کردار ادا کیا جو میرے والدین نے ہم بچوں کیلئے ادا کیا میرے صاحبزادے بھی کوئی ڈگری کی سطح تک تعلیم حاصل نہ کر سکے لیکن جو پڑھا اُس سے اپنی زندگی سنوارنے میں بفضل تعالیٰ بڑی حد تک کامیاب ہوگئے ۔وہ بھی وقت تھا جب حالات کی ستم ظریفی میں مجبور ہو کر برطانیہ اور پھر امریکہ چلا گیا ۔یہ وہ وقت تھا جب مالی مشکلات میں اپنے بھی کنارہ کر   گئے تھے ۔میری خود ساختہ جلا وطنی کے ابتدائی دور میں میرے خونی رشتوں نے میرے خاندان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا      

آج بھی سوچتا ہوں تو اپنوں کو اپنا کہتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے لیکن میرے بچے میرے بچے تھے وہ حالات کی ستم ظریفی سے دل برداشتہ  نہیں ہوئے بلکہ حالات کا مقابلہ کر تے رہے خونی رشتوں کی محبت اور نفرت پڑھتے رہے ۔یہ میرے بچوں کیلئے دنیاوی اور خاندانی زندگی میں تجربا ت کا علمی دور تھا ،دنیا کی ٹھوکریں انسان کا سب سے بڑا معلم ہوا کرتی ہیں لیکن شرط ہے کہ ایسے حالات میں حالات کے ہر پہلو سے علم حاصل کیا جائے ۔حالت کو سوچا جائے اپنے مستقبل کیلئے اور اپنوں کی حالت ِزار اور برتاؤکی سوچ کو سوچا جائے اُن سے نفرت نہ کی جائے دور نہ رہا جائے اُن میں رہ کر اُن کے وجود اور سوچ میں اُتر کر دیکھا جائے اور یہی کچھ میرے بچوں نے کیا وہ جان گئے کہ اپنے کون ہیں اور اپنوں جیسے کون ہیں ۔    جب مجھ پر کھاریاں کی سرزمین تنگ کر دی گئی تو میرے مرشد کی دعا سے سرور کائنات کے صدقے میرے خدا نے میرے لےے وہ کچھ کیا جو میرے اپنے اور اپنوں جیسے سوچ بھی نہیں سکتے تھے ایک ماہ کے مختصر دورانےے میں میرے پاسپورٹ پر ناروے ،انگلینڈ اور امریکہ کے ویزے لگے اور یہی کچھ میرے صاحبزادے شاہد بخشالوی نے کیا جب اپنے دغا دے گئے تو کرکٹ ورلڈ کپ کیلئے آن لائن ویزہ حاصل کیا ساؤتھ افریقہ پرواز کر آیا اور مختصر وقت میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا اپنے چھوٹے بھائی امجد سبحان بخشالوی کو بھی ساؤتھ افریقہ بُلالیا کاروباری حوالے سے دونوں بھائی اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے تو میں نے امریکہ میں سکون کا سانس لیا اس لےے کہ اپنے پسینے کی کمائی کی خوشبو ہی کچھ اور ہوتی ہے مالی لحاظ سے ہم باپ بیٹے مستحکم ہوگئے تو اپنوں نے میرے خاندان سے محبت کیلئے پرواز شروع کر دی اور ہماری خوشحال زندگی کے گلاب ٹہنیوں پر بیٹھ کر چہچہانے لگے اب اُن کو یہ خطرہ نہیں تھا کہ ہم اُن سے مانگیں گے ۔

ساوتھ افریقہ میں شاہد بخشالوی کے پر نکل آئے ،کہنے لگا میں امریکہ کی سیر چاہتا ہوں میرے ویزے کیلئے سپانسر بھیجیں میں نے کہا بیٹا میں خود غیر قانونی طور پر امریکہ میں مقیم ہوں میرے پاس عارضی قیام کا سٹیٹس ہے کیس امیگریشن کورٹ میں ہے میں کیسے سپانسر کر سکتا ہوں لیکن وہ بضد تھا آپ عارضی سٹیٹس ہی میں مجھے سپانسر کر دیں کیا ہوگا درخواست مسترد ہوجائے گی اور میں نے شاہد کو سپانسر بھیج دیا ۔وہ دن یکم اپریل کا تھا جب شاہد نے فون پر بتایا کہ ابو میرا خواب پورا ہوگیا میرا ویزہ لگ گیا ہے میں نے کہا جانتا ہوں بیٹا آج یکم اپریل ہے اس لےے میں اپریل فول نہیں بنوں گا ۔ نہیں ابو میں مذاق نہیں کر رہا ہوں شاہد انتہائی خوش تھا اور واقعی دوسرے دن اُس نے ویزہ ای میل کر دیا ۔5سال کا ملٹی پل ویزہ لگا تھا اس کے پاکستانی پاسپورٹ پر اور آج بفضل تعالیٰ اُس کے پاکستانی پاسپورٹ پر دنیا بھر کے ویزے لگے ہیںکچھ عرصہ بعد افریقن شہریت بھی مل جائے گی


شاہد جب دوسری مرتبہ امریکہ آیا تو کہنے لگا ابا جان آپ نے ہم بچوں کیلئے جو کرنا تھا کر لیا اب ہماری باری ہے ہمیں خدمت کا موقع دیں آپ امریکہ چھوڑ دیں پاکستان چلے جائیں یا ساؤتھ افریقہ چلے آئیں آپ مزید کام نہیں کریں گے میں نے کہا بیٹا گرین کارڈ کیلئے میرا انٹرویو ہوچکا ہے ،انتہائی پرسکون ہوں 10گھنٹے سٹور پر رات کی ڈیوٹی ہوتی ہے اور ماہانہ تین لاکھ روپے سے زیادہ ہے لیکن وہ بضد تھا کہنے لگا ہ ہمیں آپ کی دولت کی نہیں صحت مند اور خوشحال زندگی کی ضرورت ہے آپ نے بہت کمالیا اب ہم کمائیں گے میں نہیں چاہتا کہ آپ عمرکے آخری عشرے میں اپنوں سے دور رہیں اور میں نے ہتھیار ڈال دئےے امریکہ سے براہِ راست ساؤتھ افریقہ چلا آیا ،یہ دیکھنے کہ ساؤتھ افریقہ میں میرے بچوں کا مقام کیا ہے ساؤتھ افریقہ میں اپنے بچوں کی خوبصورت زندگی اپنوں میں ان کا احترام اور کاروباری استحکام دیکھا تو خدا کا شکر ادا کیا کہ جو پودا خون ِجگر سے لگایا تھا اُس کے پھل پھول میرےخاندان کی پہچان ہیں ۔ 

              آج 10فروری 2015ءکو تیسری بار ساؤتھ افریقہ جارہاہوں یہ سطور قطر ائیر ویز میںدوحہ سے جوہانسبرگ جانے کیلئے فضاؤں میں لکھ رہا ہوں ۔امجد سبحان اور ندیم اختر کھاریاں سے لاہور ائیر پورٹ تک ساتھ آئے گوجرانوالہ میں ندیم اختر نے دعوت میں بہت کچھ کھلایا ،خوش خوراکی میں گوجرانوالیے تو مشہور ہیں لذیذ چٹ پٹے کھانے گوجرانوالہ کی پہچان ہیں ۔لاہور ائیرپورٹ پر سامان کا وزن 6کلو سے زیادہ تھا بورڈنگ آفیسر سے کہا بچوں کیلئے گجریلہ اور کھجوریں ہاتھ میں لےے جارہا ہوں یہی اضافی وزن ہے اگر کہتے ہیں تو چھوڑ جاتا ہوں اور اُس نے کہا ہاں یہ چھوڑ جائیں باقی سامان میں بک کر لیتا ہوں ۔بورڈنگ کارڈ کیساتھ سامان بھی وزن کرکے کہا کہ دوسری راہداری میں جاکر جمع کرادیں اور میں لاہور ائیر پورٹ کے اس طریقہ کار پر سوچنے لگا ،سامان کا وزن ہوگیا اور واپس کر دیا حالانکہ سامان کا وزن ہوجائے تو رولنگ بیلٹ پر اُسی وقت بھیج دیا جاتا ہے دیکھا تو ایک شخص سامان وزن کے بعد بورڈنگ آفیسر اور دوسری راہداری سے کچھ فاصلے پر سامان میں مزید سامان بھر گیا اور جمع کرادیا میں سوچ رہا تھا بورڈنگ آفیسر نے وزن کیا تو کیا کیا اور میں بھی 7کلو گجریلہ اور کھجوریں ہاتھ میں اُٹھائے ایمیگریشن کیلئے لائن میں کھڑا ہوگیا ۔


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 887