donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   In Dino Chupke Chupke Se Koi Kahta Hai

ان دنوں  چپکے سے کو ئی کہتا  ہے .....
 
زبیر حسن شیخ
 
روز مرہ  کی  مصروفیات سے فارغ  ہو کر  ایک عجیب کیفیت  لئے میں اپنے  ادبی خاندان  کے پاس جاتا ہوں ، اندر داخل ہوتے  ہی   ایک طمانیت  کا احساس جاگ جاتا ہے .  لیکن کبھی کبھی  تکلیف  و  کراہیت  بھی ہو تی ہے . - کبھی   معنی خیز  بحث  ہوتی ہے تو کبھی  اہل خانہ  بے مقصد  بحث میں الجھے ہوتے ہیں، کوئی   بھائی  ہے جو  مسکرا رہا ہوتا  ہے، کو ئی  تیوری پر بل ڈالے ہوتا  ہے،  کو ئی  بہن  سر نگوں بیٹھی ہوتی ہے تو کو ئی  مسکرا  کر  اور کوئی جھینپ کر کچھ کہہ رہی ہوتی ہے -   خاندان میں  نو عمر بھی ہیں اور بزرگ بھی ، سب  کا اپنا انداز اور سب کی منفرد سوچ -   کبھی کو ئی طعنہ زن ہوتا ہے اور کبھی کوئی   خندہ زن . اور ان میں یہ  کم علم  خاکسار بھی شامل  ہے .. کو ئی  ادب پر تکیہ  کیے ہوتا ہے تو کو ئی دین پر، اور کو ئی سیاست پر، اور کو ئی   ان تمام پر-   خاندان کا سر پرست    اکثر غائب رہتا ہے  اور   پس پردہ  اپنے فرائض میں  مشغول  رہتا ہے، سب کی پیاس  کا اسے  بے حد  خیال رہتا  ہے  جبکہ خود اکثر پیاسا رہ جاتا ہے ،   اسکی مثال ایسی ہے  کہ بے ساختہ دل کہے، تشنگی دیکھ  کر اسکی میں شرمسار ہوا.....ظرف  ساقی کا ، خود  اپنا  آئینہ دار ہوا.... کچھ  جوان  بھائی  ایسے ہیں جو  مسلسل مطالعہ  میں مشغول  رہتے  ہیں  اور  پھر اپنے مطالعہ  کی عرق  ریزی سے  خاندان کی پیاس بجھا  تے رہتے   ہیں،  اور وہ  بھی تسلسل کے ساتھ  اور  بے لوث  ہو کر  - ان میں ایک جوان  تو ایسا ہے جسے خاندان  میں  ہونے والی  اکثر بحث  سے  کو ئی سروکار نہیں  ، اور  وہ مگن ہے اپنی دھن  میں  ، اور کیے جارہا ہے خدمت سب کی -  دوسرا  جو ذرا پختہ  عمر  کا ہے  اپنی دھن میں رہتا  ہے  اور طویل وقفہ  سے  آآکر  اہل خانہ کی حس مزا ح  بیدار کر پھر غائب ہوجاتا ہے-   کچھ بھائی  استاد  شاعر ہیں، کچھ ثقہ ، کچھ  محتاج آمدن  اور کچھ محتاج آوردن ،  کچھ بھائی  تصنیفات  میں ماہر ہیں تو کچھ تالیفات میں-  انکے علاوہ دیگر  جوان بھائی  ہیں خاندان میں ،  ہیں تو خاموش تماشائی  لیکن  انکی دبی دبی مسکراہٹ  کا  سب کو علم رہتا ہے ..... کچی عمر کا تقاضا ہے اس لئے  منہ   کھولنے سے پہلے  بیسیوں  مرتبہ سوچ لیتے ہونگے  بیچارے ......خاندان میں جہاں دیدہ بزرگ  بھی ہیں  ، اور ان میں  ایک  ایسے ہیں  جو   مشفق بھی ہیں ،  زود رنج بھی  اور  زود فراموش بھی ، - اپنی  شفقت  سے  خاندان میں اٹھنے والی بے جا بحث  پر  روک تھام  لگانے کی کوشش  میں لگے رہتے ہیں، لیکن کبھی   کبھی اہل خانہ  سنی ان سنی  کرد یتے  ہیں-  تب  انہیں دیکھ  اور سن کر اکثر  زبان پر شاد صاحب کا  یہ شعر  یاد آجاتا ہے ؛ " لے کے خود  پیر مغاں  ہات میں مینا آیا .....میکشو ! شرم، کہ اس پر بھی نہ پینا آیا---ان بزرگ کا  چہرہ مہرہ   اور پر نور  جثہ  اتنا پروقا ر ہے  کہ  انکی تجربہ کار نگاہ  کا ذکر کو ئی معنی نہیں رکھتا  ، اور  خاندان میں ویسے  بھی  انکے کارہایے  نمایاں  کے سب قایل ہیں، اور انہیں کسی  سند کو سر پر سجانے کی کوئی خاص ضرورت  نہیں ، لیکن   چند بھائی  بہنوں کو انکی   پینٹاگونی ٹوپی  بطور   سند بہت پسند  آتی ہے ، اس کم عقل خاکسار  کو بلکل بھی  نہیں،  اسے تو یہ  ٹو پی حاسدوں  کی کو ئی چال نظر آتی ہے  کہ  انکی  نورانی شخصیت میں غیر ضروری نقص پیدا  کر دیا  گیا ہے ... خاندان میں ایک آپا بھی   ہے جو جہاندیدہ  ہیں اور ابھی تک جہاں دیدگی  میں منہمک ہیں،   خود بھی اکثر سفر میں رہتی  ہیں  اور ہمارے اس خاندان کو  بھی "سفر"   میں رکھتی  ہیں..... دیگر بہنیں ہیں  جن میں  کو ئی شاعرہ ہے  تو کو ئی  ، صحافی، مصنفہ ، اور کو ئی  عالمہ ......
 
چند  بھائی  بے حد قابل  ہیں اور مغربی  اعلی تعلیم سے لیس ہیں  - ان میں کچھ مغربی  ذہانت کے  مرید ہیں  ، اور  ماننے والی بات یہ کہ انہیں اپنی مریدی پر فخر بھی ہے  ، اور  یہ  اپنا پیر مغاں  مغرب ہی کو مانتے ہیں ،   انکا یہی کہنا ہے  بقول چکبست کہ: "مجھے دیر و حرام سے واسطہ کیا ؟ رند مشرب ہوں ....وہی ایماں ہے، جو کچھ کہے پیر مغاں میرا ..... چند بھائی  دینی علوم کے ماہر ہیں  اور    درد مند دل رکھتے ہیں،  ان کے چہرے  پر  ہمیشہ  یہ  لکھا ہوتا ہے  : "مہر و وفا و لطف و عنایت، ایک سے واقف ان میں  نہیں.......اور تو سب  کچھ طنز و کنایہ، رمز و اشارہ جانے ہے "....ان میں ایک بھائی تو بیچارہ  اخلاص کا مارا  ہے اور سب کو اپنی طرح مخلص سمجھتا ہے ،   اسے  لاکھ سمجھاؤ  کے بھائی  .....خلو ص  و  مصلحت  ،جو   ہم رنگ و ہم لباس ہویے.... ہر اک مخلص کو مصیبت میں  گرفتار دیکھا ...... لیکن مجال ہے  وہ  کبھی فراز  کی خیال  آرائی  پر غور کرے  کہ ..."تم  تکلف کو بھی اخلاص  سمجھتے ہو فراز "
چند بزرگ بھا ئی ہیں جو  پیشہ ور ادیب  اور  صحافی ہیں،    اور جستہ جستہ  معلومات   میں اضافہ کرتے رہتے ہیں -  انکے تجربہ  سے سب استفادہ کرتے ہیں-  ان میں سے اکثر  نوواردان شوق کو یہ تنبیہ کرتے رہتے ہیں  کہ  ......
غنچوں کے مسکرانے پہ کہتے ہیں ہنس کے پھول  ......اپنا کرو  خیال، ہماری تو کٹ گئی
ان میں ایک جوان بھا ئی  ایسا بھی ہے جسے ماشااللہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر عبور ہے ... عالمی سیاسی اور سماجی حالات  کی نبض  پر اسکی انگلیاں ہوتی ہیں  اور جب جب   لکھتا ہے  ،  خوب لکھتا ہے ... 
چند  بھا ئی ایسے ہیں جو   کبھی کبھی مہمان بن کر گھر  آتے  ہیں  اور یہ شوشہ  چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کہ .....
 
اب شوق سے بگاڑ کی باتیں کیا کرو .....کچھ پا گیے ہیں آپ کی طرز بیا ں سے ہم ...
چند   بھائی  بہنوں کو   امی جان کی  زبان سے  خدا واسطہ کا بیر  ہے ....  زبان  امی جان  کی اور ادائیگی "  انکل جان"  کی .... انگریزی    رسم الخط سے  چھٹکارا پانے  کی لاکھ سعی کریں  ناکام ہو جاتے ہیں ...
  چند اساتذہ بھی خاندان کا حصہ  ہیں  اور  کبھی کبھار حاضری دیتے ہیں... ان میں کبھی  کو ئی دانش کے موتی بکھیر جاتے  ہیں  اور کبھی اس شعر  کے مصداق  کچھ ایسا کہہ کر چل دیتے ہیں کہ ..... 
شورش  عندلیب نے روح چمن میں پھونک دی
ورنہ یہاں کلی کلی مست تھی خواب  ناز میں
ایک بھائی  ہمارا طبیب  ہے، مغربی علم الطبیعات  کا ماہر ہے، دل کا اچھا ہے  لیکن  اسکے سر پر علم  اور تعلیم کا ایسا بھوت سوار ہوا کہ  ہمارے ادبی  اور اعلی  تعلیم یافتہ خاندان کو  ہی علم کی افادیت  پر  نصیحت  کرنے بیٹھ جاتا ہے....  اسے ..سب سے زیادہ اپنے  ملک کو ایک خوشحال  مغربی ملک بنانے کی  فکر رہتی ہے.... اسے تعلیم نسواں  کی بھی فکر لگی رہتی ہے  اور  وہ لاکھوں دختران نیک اختر کو چھوڑ کر .... ایک  بیچاری مظلوم لڑکی  کو حق و انصاف دلا نے کی ٹھان چکا ہے ..... اکثر دیگر بھائیوں  میں  اور اس میں بحث  چھڑ جاتی ہے... بحث میں سارے بھا ئیوں کا  موقف ایک ہی ہوتا ہے ، لیکن  نقطہ نظر  الگ الگ.... اور  وہ اسے ہی  موقف سمجھ لیتے ہیں......جبکہ  سچ  تو یہ ہے کہ  اس لڑکی  کے ساتھ ظلم ہوا تھا ، چاہے اسے  گولی قریب سے ماری گئی ہو یا فاصلے سے، الله اور اس کے حبیب کے  مطابق  ظلم  تو ظلم ہے چاہے را ئی  کے برابر ہو..... لیکن سچ یہ بھی ہے کہ  اہل مغرب   اس رائی کو لے  کر پربت پر چڑھ  بیٹھے ہیں ، اور  پربت کی چوٹی سے  دنیا کو وہ را ئی دکھا دکھا کر  بہکا رہے ہیں ، اور بخدا ہمیں تو وہ را ئی   نظر بھی نہیں آتی، حیف ہماری کوتاہ نگاہی پر ،  اور    چند  مغربی افکار کے پابند    بھائی ہیں جو    پربت کے نیچے کھڑے ہو کر تالیاں  بجا بجا کر  سب کو اپنی طرف متوجہ کر تے ہیں .....  خاندان کے   چند  سمجھدار  بزرگ  اس بحث کو  ختم کرنا  چاہتے ہیں... بلکہ  خاندان کے سر پرست نے  اس مو ضوع  کو اور  اس بحث کے سلسلے کو   منقطع  بھی کردیا تھا .. لیکن.... شا ید .....ابھی حسرت  پوری کہاں ہو ئی  تیرے دیوانے کی..... کے مصداق  اس بحث کو  چند بھا ئی  قیامت تک  گھسیٹنا چاہتے ہیں-
کبھی کبھی خاندان میں  انتقال پر ملال خبر آجاتی ہے ،  سار ا  خاندان  تعزیت کرنے لگتا  ہے ، لیکن افسوس،  بھا ئیوں کو کبھی اپنی باری  کا خیال بھی نہیں آتا ... بلکہ  اس  جرم میں تو یہ  کم ظرف  راقم الحروف  بھی شامل ہے..اس فانی دنیا کی حقیقتوں پر  سارے بھا ئی بے تحاشا اور بے محابہ بولتے  ہیں، لیکن دنیا کی  واحد ناقابل  انکار حقیقت  پر بولنا کجا سوچنا بھی نہیں چاہتے ....  بشمول اس کم عقل خاکسار  ، اکثر  بھا ئی  اپنی  عمر  گزار چکے ہیں،، چند تو "بونس  پیریڈ " میں ہیں،    لیکن مجال ہے جو کبھی اپنے دیگر بھائیوں کو   اپنے گزرے  مراحل اور آنے والے مرحلہ  کا احساس  کروائیں .....
اب آپ کو کیا  بتاوں میرا ادبی خاندان کتنا بڑا ہے..... پندرہ ہزار سے زائد  افراد پر  مشتمل ہے .. چونک گیے نا .... اب اس کا پتہ بھی جان لیجیے .. ذیل میں درج  ہے ...... میں پھر آؤنگا  اور  اپنے اس ادبی  خاندان    کی روداد   سناؤں گا .....
فی الحال  اتنا ہی کہنا ہے  کہ  ان دنوں  چپکے سے کو ئی کہتا  ہے .....
 
 اب بھی تجدید وفا کا ہے امکاں جاناں
تو ذرا یاد تو کر وہ عہد  و پیماں جاناں
تیرے دل میں تو سدا بھیڑ لگی رہتی ہے
ہم کیسے آئیں  بتا ،  بنکر ترا مہماں جاناں
سورہ  رحمان  تم پڑھتے  نہیں کہ یاد رہے
کسقدر  ہم نے  کیے  تم پر ہیں احسان جاناں
رمضان  کریم
خاکسار
زبیر
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 883