donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Aleem Khan Falki
Title :
   Socio Reform Society Ki Janib Se Jeddah Mein Seminar


کیا مسلم پرسنل لاز عہدِ حاضر میں اسلام کی دی گئی صنفی مساوات

اور حقوقِ نسواں کی صحیح ترجمانی کررہے ہیں؟

"طلاق آسان خلع ناممکن" کے موضوع پر سوشیو ریفارم سوسائٹی کی جانب سے جدہ میں سیمینار

ایڈوکیٹ عثمان شہید اور علیم خان فلکی نے خطاب کیا۔

10 مئی ،  2013 کو جدہ کے شاداب ہال میں منعقدہ اس اہم سیمنار میں خلع اور طلاق کی موجودہ معاشرہ میں صورتِ حال، مسلم پرسنل لاز اور ہندوستانی دستور کی روشنی میں ایک جائزہ لیا گیا اور ممکنہ حل پیش کیا گیا۔ خواتین و حضرات کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ قاری محمد عباس خانصاحب کی قراء ت کلامِ پاک سے سیمینار کا آغاز ہوا۔

 

علیم خان فلکی نے کہا کہ اسلام نے نہ صرف طلاق اور خلع کے معاملے میں بلکہ ہیومن رائٹس، ویمنس رائٹس اور سوشیل جسٹس کے معاملات میں جتنی اہم اور انصاف پر مبنی تعلیمات دی ہیں وہ دنیا کا کوئی قانون نہیں دے سکتا لیکن بدقسمتی سے ان تعلیمات کی ہر معاشرے اور ہر ملک نے اپنی اپنی تعبیریں کرلی ہیں۔ بالخصوص عورت کے معاملے میں اہلِ مذہب کی پدرشاہی Patriarchal   تعبیر نے عورت کو انسانی حقوق سے محروم کردیا ہے۔ آج قاضیوں ، وکیلوں، پولیس اسٹیشنوں اور عدالتوں میں مسلمان عورتوں کے ہجوم کو دیکھ کر سر شرم سے جُھک جاتا ہے۔ مرد کو تو یہ آزادی ہے کہ اِدھر وہ طلاق کے الفاظ منہ سے نکالے اور اگلے ہی منٹ طلاق نافذ ہوجاتی ہے اور ایک عورت اور اسکے بچوں کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے لیکن اگر عورت اس سے علہدہ ہونا چاہے تو مہینوں بلکہ برسوں اسکو ذلت اٹھانی پڑتی ہے۔ ازدواجی اختلافات میں عورت اور مرد دونوں ہی قصور وار ہوتے ہیں، لیکن سزا صرف عورت کے حصے میں آتی ہے۔ جب مرد کو عورت کی کوئی بات ناگوار ہوتی ہے تو عورت کو بھی مرد کی کوئی بات ناگوار ہوسکتی ہے۔ یہ انصاف نہیں ہیکہ عورت مرد کی ہر ناگوار بات کو برداشت کرے لیکن مرد جب چاہے اُسکوایک ملازم کی طرح برطرف کرنے پر اتر آئے۔ سیرت میں صنفی مساوات کی کئی عظیم مثالیں موجود ہیں۔ ایک صحابیہ کو شوہر نے زور دار تھپڑ مارا، رسول اللہ صلی اللہ و علیہ و سلم نے صحابیہ کو حکم دیا کہ وہ بھی شوہر کو اسی زور سے تھپڑ ماریں جس زور سے شوہر نے مارا۔ ایک صحابیہ نے آکر خلع کی درخواست کی، انہوں نے کہا میرے شوہر بے حد خداترس، نیک اور شریف ہیں لیکن مجھے خلع چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وجہ جاننے پر اصرار نہیں فرمایا اور خلع دلوائی۔ حضرت عمرکا قول ملتا ہے کہ اگر مرد طلاق دے تو قاضی کے سامنے وجہ بتانی پڑے گی لیکن اگر عورت خلع لینا چاہے اور وجہ بتانے سے گریز کرے تو قاضی وجہ بتانے پر مجبور نہ کرے۔ اور ایسے کئی واقعات تاریخ میں موجود ہیں جہاں عورت کو بھی مردوں کے برابر انصاف ملا۔ آج مسلم پرسنل لاز کے تحت مرد کو تو طلاق دینے کی پوری پوری آزادی دی گئی ہے بلکہ پوری آسانیاں فراہم کی گئی ہیں۔ جس میں عورت کی حیثیت اتنی حاشیائی Marginalised or sidelined ہیکہ وہ ایک ملازم یا لونڈی کی طرح مرد کے بس ایک فیصلے پر منحصر ہے۔ مرد چاہے غصّے میں دے چاہے نشے میں، مذاق میں، بیماری میں، اشارۃً کنایۃً طلاق دے دے، چاہے طلاقِ بدعت، طلاقِ غلیظہ دے دے، چاہے اس کی جانب سے اسکا وکیل یا نائب طلاق دے دے ، طلاق فوری واقع ہوجاتی ہے۔ اور مرد آزاد ہے جائے اور دوسری تیسری شادی کرے شریعت اس پر کوئی قدغن نہیں لگاتی۔  اب عورت یہ ثابت کرتی پھرے کہ طلاق دینا مناسب تھا یہ نہیں۔ دوسری طرف مسلم پرسنل لا میں عورت کو نکاح کے فسخ کرنے کا اختیار بھی دیا گیا کہ کسی بھی جائز وجہ سے وہ مرد کو چھوڑ سکتی ہے۔ لیکن اسکے لئے مرد جب تک خلع نامے پر دستخط نہ کرے وہ لٹکتی رہتی ہے۔ مسلم پرسنل لاز میں عورت کو خلع کیلئے چار دفعات دیئے گئے ہیں مگر چاروں میں یہ شرط مشترک ہیکہ "مرد راضی ہو"۔ گویا ہندو دھرم کے یہ عقائد یہاں بھی نافذالعمل ہیں کہ "جس گھر میں ڈولی جائے وہیں سے ڈولا اٹھے"، "شادی اٹوٹ بندھن ہے" یا "شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے "۔ یہ عقائد اب خود ہندو معاشرے میں ختم ہورہے ہیں لیکن مسلمان معاشرے میں پوری طرح نافذ ہیں۔ اسی کا شریعت کے بہانے فائدہ اٹھا کر ہزاروں عورتوں سے انتقام لیا جاتا ہے۔

 اسکا مطلب یہ نہیں ہیکہ عورت بالکل معصوم ہوتی ہے۔ عورت اور اسکا مائیکہ اکثر واقعات میں طلاق اور خلع کا باعث ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہیکہ جسطرح مرد اگر عورت میں رغبت نہیں پاتا تو اس کو طلاق دے دینے کیلئے لاز میں آسانیاں فراہم کی گئی ہیں اسیطرح عورت اگر مرد میں رغبت نہیں پاتی تو اسکے گلے میں رسّی کیوں ہے۔ کیوں اسے وکیل، اینٹی ڈووری کیس یا پہلوانوں کے پاس جانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

 

سامعینِ کرام: میں ایک بات گوش گزار کردوں تاکہ کوئی موضوع کو ہائی جیک کرکے اس میں نئے نئے مسائل پیدا کرکے محض اپنی دانشوری ثابت کرنے کیلئے اصل موضوع سے گمراہ نہ کردے۔

ایسے بھی کئی واقعات ہیں جن میں عورت کی طرف سے زیادتی ہوتی ہے اور معصوم شوہروں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔یہ بھی ایک اہم موضوع ہے جس پر ہم انشااللہ ایک علہِدہ سیمنار منعقد کرینگے، آج ہم صرف اس موضوغ کو لیتے ہیں کہ ان عورتوں کے مسائل کو کیسے حل کیا جائے۔ جو مردوں کی "لٹکا کر رکھونگا" والی انتقامی چال کا شکار ہیں۔ اور بدقسمتی سے علما، مفتی اور قاضی سبھی پرسنل لاز کی وجہ سے بے بس ہیں۔ مجھے حیرت ان دانشوروں پر ہوتی ہے جو طلاق یا خلع جیسے ناگوار الفاظ کو معاشرہ سے ختم کرنے تڑپ نہیں اٹھتے بلکہ اس بحث میں پڑجاتے ہیں کہ طلاق ایک نشست میں دی گئی یا تین میں۔ ایک گھر کو بچانے کی فکر کے بجائے فقہی احکامات پر بحث کرنا اورمسلکوں کی دفاع کرنا آج ہمارے معاشرے کا سانحہ ہے۔ ایک مریض جو مررہا ہے اسکو بچانے کیلئے دوڑنےکے بجائے یہ بحث کرتے ہیں کہ اسکے لئے کسطرح کا مرنا مناسب تھا۔ اگر فلاں فعل نہ کرتا تو بیمار نہ پڑتا، فلاں حکیم کے  پاس اسکا زیادہ بہتر علاج ہوتا وغیرہ وغیرہ

 

 موجودہ مسلم پرسنل لاز جو انگریزوں کے دور میں 1937  میں محمڈن لا یا مسلم شریعت ایکٹ کے نام سے نافذ کئے گئے یہی آج مسلم پرسنل لا کے نام سے ہندوستانی دستور میں دفعہ 224  کے تحت نافذہیں۔ فقہی احکامات وحی قرآنی نہیں ہوتے۔ علما دراصل حالات کی ضرورت کے تحت قرآن، حدیث، اقوالِ سلف کی روشنی میں قیاس و اجماع سے کام لیتے ہوئے موجود حالات میں شریعت کا اسنباط کرتے ہیں۔ حالات بدلنے کے ساتھ ہی شریعت کے تقاضے بدل جاتے ہیں اور وقتاً فوقتاً بدلتے ہوئے حالات کے مطابق پرسنل لاز میں تبدیلی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہی بات مولانا منت اللہ رحمانی نے "مسلم پرسنل لا" میں رقم کی ہے کہ مسائل دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ کئی ایسے مسائل ہوتے ہیں جنکا سابقہ میں ائمہ سلف کو سابقہ پیش نہیں آیا اسلئے ایسے مسائل میں فقہ خاموش ہے۔ دوسرے وہ مسائل جن کو حالات کے بدلتے ہوئے تناظر میں غور کرنے کی ضرورت پڑتی ہے"۔ موجودہ مسلم پرسنل لاز جس وقت بنائے گئے تھے اُس وقت کے حالات قطعی مختلف تھے۔ جب مرد حقیقت میں "قوْام" تھا۔ جہیز اور تلک اور دعوتِ طعام کے نام پر عورت سے مال وصول نہیں کرتا تھا۔ عورت جدید تعلیم، نوکری اور بے پردگی سے ناآشنا تھی۔  ویمنس رائٹس، مطالعاتِ نسواں، تانیثیت Feminism اور آزادی و مساوات کے اسلام مخالف لٹریچر کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا نہیں جاتا تھا۔ آج مرد نے قرآن کے "مردوں کی قوّامیت " کے اصول توڑ دیئے ہیں۔ اب وہ عورت کو مہر نہیں دیتا بلکہ الٹا اس سے رقم، جائداد گاڑی وغیرہ اینٹھتا ہے۔ اسکی تنخواہ، ترکہ اور زیور پر اپنا حق جتاتا ہے۔ فلم اور ٹی وی کی لعنت کی وجہ سے مشکل سے چند گھرانے کے مرد اور عورت ایسے بچے ہیں جو شرم و حیا کے اصولوں پر قائم ہیں ورنہ اکثریت کہیں نہ کہیں ناجائز آشنائی رکھتی ہے۔ طلاق کی شرح خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ کویت میں 37% ، قطر33% اور سعودی عرب میں 21%  ہے۔ اسی وجہ سے مسیار یعنی عارضی شادی کی اجازت دے دی گئی ہے جس سے معاشرہ اور تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہندو پاک میں طلاق کی شرح اگرچہ 4-5 %  ہے لیکن دوسری طرف کشیدہ تعلقات Strained relationsکی شرح 60% ہے جسکی وجہ سے گھر گھر رشتوں میں دراڑیں، مقدمات اور نفرتوں کا عروج ہے۔ مفتیانِ کرام فتوی تو دے سکتے ہیں لیکن کونسلنگ نہیں کرسکتے کیونکہ یہ مضمون سیرت میں اہم ترین مضمون ہونے کے باوجود نصاب سے خارج ہے۔ علیم خان فلکی نے مولانا انور شاہ کاشمیری، علامہ اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی کے وہ فرمودات پیش کیئے جن میں انہوں نے "ایسی شرعی عدالتوں کے قیام، مقامی پانچ اشخاص کی کمیٹی کی تشکیل کے ذریعے ازدواجی مسائل کو حل کرنے پر زور دیا اور یہ بھی تنبیہہ کی کہ اگر عورت کو انصاف نہیں ملے گا تو عورت اس حد تک بغاوت کردے گی اور ولی کا احترام کئے بغیر غیر کفو حتی کہ غیر مسلم سے بھی شادی کرنے سے گریز نہیں کرے گی " ۔

علیم خان فلکی نے کہا کہ "نکاح نامہ" ہی بنیادی طور پر غلط ہے۔ "عقد" کے لغوی اور اصطلاحی دونوں معنوں میں یہ بات مضمر ہیکہ دونوں فریقین کے درمیان لین دین پر دونوں کا اگریمنٹ ہو۔ لیکن نکاح نامہ میں صرف مرد کی جانب سے مہر اور سرخ دینارِ شرعی وغیرہ کو لکھا جاتا ہے اور وہ تمام ہدیئے جنکو خود مسلم پرسنل لا نے طلاق کی صورت میں بیوی کو واپس کردئے جانے کی ہدایت دی ہے، وہ ہدیئے نہ لکھے جاتے ہیں نہ خطبے میں بیان کئے جاتے ہیں۔ یہ عقد نامہ یکطرفہ ہے۔ کیونکہ عورت مجبور ہے۔ مرد مال وصول کرنا چاہتا ہے لیکن اس کا تذکرہ کرنا نہیں چاہتا۔ مہر تو ادا نہیں کرتا لیکن مہر کی رقم لکھواتا ضرور ہے۔ سوائے چند ایک کے جو اللہ سے ڈرتے ہیں،اگر لڑکی والوں نے دیئے ہوئے مال کی رسید یا اسکی تفصیل نکاح نامے میں لکھنے کی شرط رکھی تو چالاکی سے نکاح سے انکار کردیتا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے بغیر رسید کے جہیز دینے والے مجبور والدین کی تعداد بہت بڑی ہے۔

 جہاں تک ہدیہ کے نام پرجو جو جبراً یا سسٹم کے نام پر وصول کیا جاتا ہے وہ ایک دھوکہ ہے۔ جہیز، تلک ، جوڑا وغیرہ شرعی اعتبار سے ہدیہ نہیں بلکہ رشوت، بھیک ، بلیک میل اور قرآن و حدیث کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو سب سے پہلے عقد نامے کی صحیح شکل ترتیب دینی ہوگی۔

 

مصلح الدین احمد صاحب جنکی دینی اورملّی خدمات سے اہلِ جدہ خوب واقف ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے مخلص اور خاموش کارکن ہیں، انہوں نے مہمان مقرر جناب عثمان شہید صاحب کا تعارف پیش کیا کہ ایڈوکیٹ عثمان شہید نہ صرف ایک کامیاب وکیل ہیں جو دستورِہند پر عبور رکھتے ہیں بلکہ قومی اور ملّی خدمت کے جذبے سے معمور انتہائی دردمند دل رکھنے والے انسان ہیں۔ چھ سال تک آندھرا پردیش ہائی کورٹ میں سرکاری وکیل رہ چکے ہیں، اپنے ذاتی ٹرسٹ کے ذریعے بے شمار غریب طلبا کی تعلیم، غریب لڑکیوں کی شادیاں اور ناداروں کی مدد کا مستقل کام کرتے ہیں۔ عائلی مسائل کے حل کیلئے ہمیشہ آگے آتے ہیں۔

 

ایڈوکیٹ عثمان شہید صاحب نے طلاق اور خلع کی موجودہ معاشرے میں صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایا کہ بیوی کے ساتھ نیک سلوک کسطرح عبادت کا ہی حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن "ام القوانین" ہے۔ دنیا تمام کے انسانی قوانین اور چارٹر قرآن میں بیان کردیئے گئےہیں، یہ ہماری بدقسمتی ہیکہ ہم لوگ مسلکوں کی جنگ میں اُن قوانین کی طرف توجہ نہ کرسکے جس کی وجہ سے غیر قومیں بازی لے گئیں۔

عثمان شہید صاحب نے ایک بہتری حل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو دستور کے تحت دی گئی دفعات میں اپنے مسائل کو خود حل کرنے کا ایک بہترین موقع ہے۔ علہدہ سے اسلامی عدالتوں کو قائم کرکے بجائے RSS & BJP  ٹائپ کی فرقہ پرست مسلم دشمن جماعتوں کو اعتراض کا موقع دینے کے دستور کے اندر ہی ایسی گنجائش نکال سکتے ہیں جس سے ہمارا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔ عدالتوں کا بوجھ بھی کم ہوسکتا ہے اور وقت بھی بچ سکتا ہے ورنہ عدالتوں کے چکر میں کئی کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اس سے قبل جب بھی شرعی عدالتوں کے قیام کی کوشش کی گئی فرقہ پرستوں نے "علہدہ پاکستان بنانے کی کوشش" سے تعبیر کرکے مسلمانوں کو بدنام کیا۔ کام تو کچھ نہیں ہوا لیکن مسلمان نشانہِ ملامت بن گئے۔ انہوں نے حل یہ پیش کیا کہ دستور نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ مخالف فریقین اگر ایک حکم یعنی Arbitrator  پر اتفاق کرتے ہیں اور دونوں اس کے فیصلے کو ماننے کا عہدنامہ Affidavit   داخل کرتے ہیں تو عدالت اسکے فیصلے پر Rule of Order  جاری کرتی ہے۔ اسطرح آربٹریٹر کا فیصلہ پھر کسی فریق کو اگر قبول نہ ہو تب بھی قانونی طور پر عدالت ہی کا فیصلہ بن جاتا ہے۔ اس پر عمل نہ کرنے والے فریق کو عدالت خود ہی نوٹس یا Order of Execution  جاری کرتی ہے۔ عثمان شہید صاحب نے یہ بھی وضاحت کی کہ آربٹریٹر کوئی بھی بن سکتا ہے۔ جو بھی دونوں فریقین کیلئے قابلِ قبول ہو اسکو عدالت تسلیم کرتی ہے۔

علیم خان فلکی نے تجویز رکھی کہ کیوں نہ مختلف مسلاک و مذاہب کے رہنماوں کی مدد سے آربٹریٹرز کی ایک فہرست بنائی جائے تاکہ جو جس مسلک یا عقیدے سے بھی وابستہ ہو وہ اسی پر اتفاق کرلے اور مسلمانوں کے عائلی جھگڑے بجائے غیر شرعی عدالتوں کے ہمارے ہی مکاتب میں طئے کئے جائیں۔ عثمان شہید صاحب نے اس کی بھرپور تائید کی اور سامعین کو اپنا ٹیلفون نمبر بھی عنایت کیا اور کہا کہ اس قسم کے ازدواجی مسائل کو ثالثی کے ذریعے کونسلنگ کرنے وہ اپنی مفت خدمات جوپچھلے  کئی سالوں سے کررہے ہیں وہ عام کرینگے۔

 

سامعین کے سوالات اورمقررین کی جانب سے جوابات کے بعد ڈھائی گھنٹے پر مشتمل یہ سیمنار اپنے اختتام کو پہنچا۔ جن اہم شخصیتوں نے اس میں شرکت کی ان میں جناب شمیم کوثر، سید خواجہ وقارالدین، انجینئر سعیدالدین، انجینئر خالد، ڈاکٹر سعید ہارون، حافظ شیخ حسین بھی شامل تھے۔ 

***********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 756