donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Azeez Belgaumi
Title :
   Banglore Me Aalmi Anware Takhleeq Ka Ijra


بنگلور(بھارت) میں ’’عالمی انوارِ تخلیق ‘‘کا اجراء


 عزیز بلگامی

                                                                                               


’’زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ ادب، شعرو سخن اور قلم کی کاوشیں دراصل گھاٹے کا سودا ہیں ، لیکن جب ادب: ادیب کی ، شعر وسخن:شاعر و سخن ور کی اور قلم کی کاوشیں: ایک قلم کار کی’’ زندگی‘‘ بن جائے تو یہ کیوں کر گھاٹے کا سودا ہو سکتا ہے!ظاہر ہے جب کوئی شے کسی کی ’’زندگی‘‘ بن جا تی ہے تو ایسی زندگی کبھی کسی کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں ہو سکتی۔ ‘‘ڈاکٹر ایم حق کی ادارت میں رانچی(جھارکھنڈ) سے شائع ہونے والے رسالے’’ عالمی انوارِ تخلیق ‘‘کا اجراء کرتے ہوئے ، کرناٹک کے مایہ ٔ ناز افسانہ نگار و طنز و مزح نگاراور صدر، جنوبی ہندمرکزی شمعِ اُردوادب، بنگلور، جناب شکیل رضا صاحب نے اِن خیالات کا اِظہار فرمایا۔اِجراء کی یہ تقریب،بروز منگل، مورخہ ۲۶؍اگست،۲۰۱۴ء سہ پہر۴ بجے، جناب عزیز بلگامی صاحب کی صدارت میں اُن ہی کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی ، جس میں مشہور شاعر و افسانہ نگار جناب الف احمد برق صاحب بنگلوراور جناب صوفی نظام الدین صاحب بطور مہمانانِ خصوصی اورجناب ایم اے حق صاحب بطورِ مہمان اعزازی شریکِ جلسہ رہے۔ چن پٹن کے مشہورشاعر جناب حسن علی خان حسن صاحب نے خاص طور پر اِس میں شرکت کے لیے بنگلور کا سفر فرمایا۔اِس پروگرام میں شریک ہونے والی دیگر اہم شخصیات میں جناب آفاق علی صاحب، چیرمین شاستری میموریل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن، بنگلور،مشہور شاعر نائب مدیر ماہنامہ ’’جوش و اُمنگ‘‘ بنگلورجناب اکرم اللہ اکرم صاحب اورمشہور سماجی کارکن جناب انور احمدصاحب ،سافٹ ویر انجنئر جناب مسعود سلطان صاحب ،یم ایس پالیہ بنگلور کے سماجی خدمت گار جناب سید علی صاحب ، ادب نوازجناب محمود شریف صاحب اورجناب سبحان صاحب کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں۔ اِس موقع پر حق صاحب کی خدمت میںمبارک باد پیش کرتے ہوئے جناب الف احمد برق صاحب نے کہا:’’اُردو کے ختم ہونے کی بات ہم اپنے بچپن سے سنتے آ رہے ہیں ، اب ساٹھ سال بعدبھی جب ہم لوگوں سے یہی بات سنتے ہیںتوعجیب سا لگتاہے ، کیوں کہ اِس عرصے میں اُردو ختم تو کیا ہوتی ،یہ آگے ہی بڑھتی چلی گئی اور یقین ہے کہ کبھی ختم نہیں ہوگی بلکہ پوری قوت ، پوری شان کے ساتھ بڑھ ر ہے گی اور مستحکم ہوتی چلی جائے گی اور سارے عالم میں اِس کا غلغلہ ہے اور ہوتا رہے گا، اور اِس کا ثبوت ’’عالمی انوارِ تخلیق‘‘ کی یہ تقریبِ اجراء ہے جو آج منعقد ہوئی ہے۔‘‘جناب صوفی نظام الدین صاحب نے عرض کیا کہ:’’مبارکباد کے مستحق ہیں وہ لوگ جو اُردو کی شمع کو روشن رکھنے کے لیے اپنا خونِ جگر جلاتے ہیں، لیکن کبھی جواب میں کوئی اجر طلب نہیں کرتے۔ شاید یہی سبب ہے کہ آج اُردو کو ایک عالمی زبان کا درجہ حاصل ہوا ہے۔‘‘ جناب سید آفاق علی صاحب نے کہا کہ:’’اُردو اسکولوں کی حالت زار آج اُردو کی زبوں حالی میں بڑا اہم رول ادا کر رہی ہے۔‘‘جناب انوراحمد صاحب نے ملیالی ہونے کے باوجود اُردو میں اپنے خیالات کا اِظہار کرتے ہوئے حق صاحب کو اور اُن کے رفقائے کار کو مبارکباد دی اور کہا کہ :’’ہندوستان میں ریاستوں کی تقسیم زبانوں کی بنیاد پر ہوئی تھی اور حیرت کی بات ہے کہ اِسے دیگر زبانوں کی طرح کوئی ریاست نہیں ملی، تاہم یہ اپنے بل پر بڑھی اور پورے ہندوستان کی ہی نہیں پوری دُنیا کی زبان بنی۔ یعنی اِس زبان کی ریاست پورا عالم ہے۔‘‘اِس موقع پہ جناب ایم اے حق صاحب نے اپنی تقریرشروع ہی کرچکے تھے کہ دوران ِ تقریر جذبات سے مغلوب ہوگئے اوریہ کہتے ہوئے رو پڑے کہ میں آپ کے خلوص کا قرضدار بن گیا ہوں۔پھر اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے عرض کیا کہ یہ رسالہ ، عام معنوں میں محض کوئی رسالہ نہیں، بلکہ یہ ایک تحریک ہے جو اُردو زبان و ادب کو نوجوان نسل، بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ اُنہوں نے اِس کا تفصیلی تعارف کراتے ہوئے دو اہم اعلانات بھی فرمائے ، جو اُن کی زندہ دلی اور خلوص کا ثبوت بن گیے، ایک تو یہ کہ مختلف یونیورسٹیوں سے پوسٹ گریجویشن میں اوّل پوزیشن رکھنے والے نوجوانوں سے ملاقات کی جائے گی اور اُن کا انٹرویو لیا جائے گااور اِس انٹرویو کو رسالے میں نمایاں طور پر شائع کیا جائے گا ، نیزمتعلقہ طالب علم کے نام اعزازی طور پریہ رسالہ مستقلاً جاری کیا جائے گا۔دوسرا یہ کہ جو لوگ اجراء کے اِس پروگرام میں شریک ہوئے ہیں، اُن کے نام ہمیشہ یہ رسالہ اعزازی طور پر پیش کیا جاتا رہے گا۔اِس موقع پر جناب عزیز بلگامی صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں تمام مقررین کے خطابات پر تبصرہ فرمایا اور جناب یم اے حق صاحب کو مبارک باد دی۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’نہ میں صدارت کا حق دارتھا نہ اِس کے اجراء کا، جیسا کہ بعض احباب نے خواہش ظاہر کی تھی اور جناب شکیل رضا صاحب نے اِ س بات کو اپنی تقریر میں دہرایا بھی تھا۔لیکن چوں کہ اِس رسالے کی مجلسِ ادارت میں میرا نام شامل ہے تو ظاہر ہے میں اپنے ہی رسالے کا اجراء کیسے کر سکتا تھا ، نیز میرے ہی گھر میں ہونے والی تقریب کی صدارت بھی میرے لیے مناسب نہیں تھی، بلکہ کوئی اور اِس ذمہ داری کو اُٹھا لیتا۔ لیکن حق صاحب اور جناب حشمت کلکتوی صاحب کی خواہش کے احترام کے آگے جھکنا پڑا۔البتہ میں روایت کو توڑتے ہوئے اپنے صدارتی خطبے میں ہدیۂ تشکر کو شامل کرنے کا استحقاق ضرور رکھتا ہوں۔‘‘چنانچہ عزیز بلگامی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
جلسے کا آغاز جناب مسعود سلطان صاحب کی تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا، محترم حشمت کلکتوی صاحب نے اپنی خوبصورت نظامت سے پروگرام کو دلچسپ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ڈاکٹر صوفی نظام الدین صاحب کی دُعا پر یہ پرکیف ادبی محفل اختتام پذیر ہوئی۔یا ر زندہ صحبت باقی۔٭

             

AZEEZ BELGAUMI
No 43/373, Gopalappa Lay out,
Bhuvaneshwari Nagar Park Main Road,
M K Ahmed Mart Cross,
Kempapura, Hebbal Post,
BANGALORE 560024


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 576