donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Bazme Urdu Qatar
Title :
   Bazme Urdu Qatar Ke Zer Ahtemam Salana Tarhi Mushaira Bayad Hali

 

 

قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم ’بزمِ اردو قطر‘ کے

 

زیرِ اہتمام

 

سالانہ طرحی مشاعرہ بیادِ حالیؔ

    اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے با کمال شاعروں ، ادیبوں  اور محبانِ اردو کی منفرد اور قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم ’بزمِ اردو قطر ‘ (قائم شدہ 1959ئ) کے زیر اہتمام ، حسب روایت پر وقار سالانہ طرحی مشاعرہ بیادِ مولانا الطاف حسین حالیؔ  بروز اتوار، بتاریخ 29  نومبر 2015، بمطابق 17  صفر المظفر، 1437ھ بمقام علامہ ابن حجر لائبریری، منعقد ہوا۔ بزمِ اردو قطر کے سرپرست جناب مولانا عبد الغفار کی صدارت میں منعقد اس مشاعرے میں کینیڈا سے تشریف لائے  معروف محقق، دانشور، شاعر و ادیب جناب پروفیسر ڈاکٹر سید تقی عابدی بطورِ مہمانِ خصوصی شریک ہوئے۔ جناب سید تقی عابدی بزمِ اردو قطر  کی دعوت پر سالانہ مشاعرہ بیادِ حالیؔ میں شرکت  اور عالمی سیمیناربعنوان  ’’اکیسویں صدی میں کلام ِحالیؔ کی مقبولیت ، تاثیر اور تقلید‘‘  کے موضوع پر توسیعی خطبہ کے لیے تشریف لائے تھے۔  جناب پروفیسر ڈاکٹر سید تقی عابدی  اردو، انگریزی اور فارسی کے مایہ ناز ادیب و محقق ممتاز دانشور پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ تین یونیورسٹیوں میں وزٹنگ پروفیسر کے عہدے پر فائز  ہیں۔ غالب و اقبال و انیس و دبیرشناس، ڈاکٹرعابدی، زبان و ادب کے میدان میں  55 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ڈاکٹر عابدی ماہرین اقبالیات میں سے ہیں اور عالمی سطح پر اپنے علمی اور ادبی کارناموں کی بدولت جانے جاتے ہیں۔ امریکہ، کینیڈا، پاکستان اور ہندوستان کے کئی اہم اداروں نے اردو زبان و ادب اور خاص طور پر ان کی تحقیقی صلاحیتوں کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے نوازا ہے جس کی فہرست بہت طویل ہے۔ مہمانِ اعزازی کی نشست کو زینت بخشنے کے لیے بزمِ اردو قطر کے نائب صدر اور خوش فکر و خوش گلو شاعر جناب مقصود انور مقصودؔ کو دعوت  دی گئی۔ مشاعرے میں جہاں قطر میں مقیم منتخب شعراء اور  باذوق سامعین نے اپنی شرکت سے محفلِ مشاعرہ کوکامیاب بنایا تو وہاں دیگر ممالک کے شعراء و شاعرات نے بھی برقی ذرائع سے اپنا کلام ارسال کر کے بزمِ اردو قطر سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیا۔  مشاعرے سے قبل بزم کی جانب سے پر تکلف عشائیے کا  بھی انتظام تھا۔

مشاعرے کا باضابطہ آغاز جناب سیف اللہ محمدی کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا اور نظامت کے فرائض بزمِ اردو قطر کے صدر خوش اسلوب شاعر و ادیب جناب شادؔ آکولوی نے بحسن و خوبی انجام دیے۔  بزمِ اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب افتخار راغبؔ نے مہمانان و شعراء و سامعین کا پرجوش استقبال کیا اور بزمِ اردو قطر کا مختصر تعارف پیش کیا۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ کی یاد میں منعقد اس مشاعرے میں حالیؔ کے مندرجہ ذیل دو مصرع ہائے طرح دیے گئے تھے جن پر شعراے کرام نے طبع آزمائی کی اور عمدہ کلام پیش کیا:

"دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا" 

(قوافی:  بنایا، جگایا، سنایا وغیرہ)
’’ کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں‘‘

(قوافی: جہاں، مکاں، بیاں وغیرہ)

 ناظمِ مشاعرہ جناب شادؔ آکولوی نے دورانِ مشاعرہ حالیؔ کے متعدد منتخب اشعار پیش کیے۔ آپ نے سب سے پہلے بزمِ اردو قطر کے رابطہ سکریٹری جناب وزیز احمد وزیرؔ کو حالی ؔ کی غزل  ترنم میں پیش کرنے کی دعوت دی :

دل سے خیالِ دوست بھلایا نہ جائے گا
 سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا
تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط
 الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا
راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر
دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا

ناظمِ مشاعرہ نے حالیؔ کی دوسری غزل پیش کرنے کے لیے جناب عبد الملک قاضی کو دعوت دی جو قطر میں محمد رفیع کے انداز میں نغمہ سرائی کے لیے معروف ہیں:

کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زبان میں
کہاں انجام آپہنچا وفا کا
گھلا جاتا ہوں اب کے امتحاں میں
دلِ پر درد سے کچھ کام لوں گا
اگر فرصت ملی مجھ کو جہاں میں
بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

الطاف حسین حالیؔ کی غزلوں کے اشعار پر طنزیہ اور مزاحیہ تضمین کے لیے ناظمِ مشاعرہ نے جناب افتخار راغبؔ کو آواز دی اور بعض اشعار پر  سامعین بہت محظوظ ہویے  اور پوری محفل زعفران زار ہو گئی:

راغبؔ یہ لگ رہا تھا کہ شادی کے بعد بھی
’’دل سے خیالِ دوست بھلایا نہ جائے گا‘‘
چاہو تو کرکے دیکھ لو تم بائی پاس بھی
’’سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا‘‘
شادی وہ حادثہ ہے کہ بھولا نہ جا سکا
’’الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا‘‘
پنسل سے نام لکھ کے بتانا پڑا انھیں
’’ہم وہ نہیں کہ ہم کو مٹایا نہ جائے گا‘‘
اُن کو خبر ہے خوب کہ دے کر اُنھیں طلاق
’’دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا‘‘

بتا دے کوئی کیا میری زباں ہے
’’مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں‘‘
ہوئی ہے اِس قدر بارش نہ پوچھو
’’گھلا جاتا ہوں اب کے امتحاں میں‘‘
کروں گا تجھ سے پھر شادی اے بیگم
’’اگر فرصت ملی مجھ کو جہاں میں‘‘
کئی ملکوں میں جاکر دیکھ آیا
’’کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں‘‘

مقامی شعراء میں سب  سے پہلے بزمِ اردو قطر کے نائب سکریٹری جناب فیاض بخاری کمالؔ کو دعوتِ سخن دی گئی:

ان کی نگاہِ ناز کے ہر جام کا اثر
وہ کیف وہ سرور چھپایا نہ جائے گا
سوزِ جگر بڑھے یا بنے دل مرا کباب
دل سے چراغِ عشق بجھایا نہ جائے گا
بارِ گراں اٹھائوں یہ مجھ میں نہیں سکت
روٹھے اگر وہ مجھ سے منایا نہ جائے گا

انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے خازن جناب راشد عالم راشدؔ نے اپنی طرحی غزل پیش کی ۔ ان کی غزل کے چند اشعار:

چلا ڈالا سبھی تیروں کو اس نے
اب اُس کی جان ہے میری اماں میں
کہ گویا منھ میں مصری کی ڈلی ہو
غزل کہتا ہوں میں اردو زباں میں
یہاں بت اور وہاں جنت کی حوریں
مجھے ڈالا ہے کیسے امتحاں میں

بزمِ اردو قطر کے میڈیا سکریٹری جناب روئیسؔ ممتاز نے بھی عمدہ طرحی غزل پیش کی:

دل میں کوئی بھی درد جگایا نہ جائے گا
یعنی کہ ہم سے وعدہ نبھایا نہ جائے گا
آغاز ہی کیا ہے تو بیزار ہو گیا
اس حال میں تو حال سنایا نہ جائے گا
خوش اس قدر ہوئے ہو کہ آنکھیں چھلک پڑیں
تم کہہ رہے تھے تم کو منایا نہ جائے گا

جناب وصی الحق وصیؔ نے قطر کی ادبی فضا میں اپنی شاعری کا  آغاز کیا ہے اور اشعار سے سامعین کی نگاہوں میں بہت تیزی سے اپنا اعتبار قائم کیا ہے:

حقیقت کچھ نہیں بس خواب ہی خواب
کہیں یہ بھی نہ کھو جائیں جہاں میں
ازل سے چلتے چلتے تھک گیا ہوں
رُکے تو جان سی آئی ہے جاں میں
وصیؔ اپنی طبیعت کچھ الگ ہے
مزہ آتا ہے بس کارِ زیاں میں

بزمِ اردو قطر کے رابطہ سکریٹری جناب وزیر احمد وزیر، ؔ جو اپنے مخصوص ترنم میں کلام پیش کرتے ہیں، نے عمدہ طرحی غزل پیش کی:

مت دوڑ بن کے خون رگِ جان میں مری
دل سے ترا خیال بھلایا نہ جائے گا
حالت ہماری دیدۂ پرنم سے پوچھ لو
سوزِ دروں ہمارا بتایا نہ جائے گا
اب کے اگر نہ آئے گی امید بر مری
آنکھوں میں کوئی خواب سجایا نہ جائے گا

بزمِ اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب افتخار راغب،ؔ جن کے تین مجموعہ کلام ’لفظوں میں احساس‘ ،  ’خیال چہرہ‘  اور  ’غزل درخت‘  منظرِ عام پر آچکے ہیں، نے اپنی طرحی غزل پیش کی اور مشاعرے کے آہنگ کو مزید بلند کیا:

ترا رنگِ حنائی بھی ہے شامل
ہماری داستانِ خوں چکاں میں
تمھاری مسکراہٹ کھینچتی ہے
تبسم کی لکیریں جسم و جاں میں
تلاشِ عافیت اہلِ زمیں کو
زمیں گردش گزیدہ آسماں میں
جو کہنا چاہتا ہوں کہہ نہ پائوں
کہ ہے لکنت تخیل کی زباں میں

جناب افتخار راغبؔ نے اسی زمین میں اپنی  طنزیہ اور مزاحیہ غزل پیش کی:

اُسے گوگل پہ جا کر سرچ کیجیے
کہاں رہتا ہے وہ ہندوستاں میں
زباں پر آئے من کی بات کیسے
ہم آہنگی نہیں دل اور زباں میں
زمیں کی سیر اُس کا مشغلہ ہے
دماغ اُس کا ہے لیکن آسماں میں

بزمِ اردو قطر کے صدر اور ناظمِ مشاعرہ  اور خوش فکر شاعر و ادیب جناب شادؔ آکولوی نے اپنا منتخب غیر طرحی کلام پیش کیا:

زمانہ چل رہاہے اک طرف اک سمت ہے اپنی
نئی راہیں میں اوروں سے ذرا ہٹ کر بناتا ہوں
مرے شاہیں صفت بچے حدِ پرواز تک پہنچیں
 کچھ اس انداز سے میں ان کے بال و پر بناتا ہوں
دل کے ارمان کب نکلتے ہیں
آپ آئے نہیں کہ چلتے ہیں
آئینے جھوٹ تو نہیں کہتے
آپ کیوں آئینے بدلتے ہیں

انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے صدر اور معروف شاعر و ادیب جناب عتیق انظر،ؔ جن کا مجموعۂ کلام ’پہچان‘ شائع ہو چکا ہے، نے  غیر طرحی کلام پیش کیا اور خوب داد وصول کی:

مرے چراغ سے اپنا دیا جلاتے ہیں
مگر وہ نام کسی اور کا بتاتے ہیں
انھیں ثمر کی تمنا نہ چھائوں کی خواہش
یہ لوگ پیڑ لگاتے ہیں بھول جاتے ہیں
مرے رستے میں رخنہ ڈالتے ہو
رواں دریاں میں تنکا ڈالتے ہو
کبھی تعبیر بھی کوئی دکھائو
فقط آنکھوں میں سپنا ڈالتے ہو

انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے بانی ، شاعرِ خلیج اور فخرالمتغزلین جناب جلیلؔ نظامی نے اپنی مرصع طرحی غزل اپنے دلکش ترنم میں پیش کی اور مشاعرے کو بامِ عروج پر پہنچا دیا:

ہماری جان ہے جب تک جہاں میں
کریں گے گفتگو اردو زباں میں
میاں اس دیس میں جب ہم نہ ہوں گے
رہے گا کون پھر ہندوستاں میں
نہتھے دل کی جانب دیکھتے ہیں
لگا کر تیر آنکھوں کی زباں میں
زمیں کو بھی جلیلؔ اب اپنی منزل
نظر آنے لگی ہے آسماں میں

بزمِ اردو قطر کے نائب صدر اور مشاعرے کے مہمانِ اعزازی جناب مقصود انور مقصودؔ نے اپنی طر حی غزل بڑے اعتماد کے ساتھ پیش کی:

بربادیوں کا شور مچایا نہ جائے گا
دردِ جگر کو اور بڑھایا نہ جائے گا
میں بھی زبانِ چشم سے بولوں گا کچھ نہیں
رخ سے اگر نقاب اٹھایا نہ جائے گا
مقصودؔ یہ بتا دو ہوائوں کو بے جھجک
روشن چراغ دل کا بجھایا نہ جائے گا

آخر  میں کینیڈا سے تشریف لائے مہمانِ خصوصی جناب ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنے طرحی اور غیر طرحی کلام سے سامعین کو خوب محظوظ کیا:

محبت باغ ہے ایسا جہاں میں
جہاں پر پھول کھلتے ہیں خزاں میں
وہ جوہر خاکی پیکر میں ملے گا
جنھیں تم ڈھونڈتے ہو آسماں میں
یہ نعت و منقبت اور حمد میری
نمازِ عشق ہیں اردو زباں میں
نشانہ بعد میں کرنا ہمارا
ذرا تم تیر تو رکھ لو کماں میں
لوگوں میں فقط عیب نظر آتے ہیں جس کو
اُس کو بھی کبھی آئینہ خانے میں بٹھا دو

حسب روایت اس بار بھی ای میل سے موصول غزلوں سے منتخب اشعار پیش کیے گئے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

محترمہ رضیہؔ کاظمی

(امریکہ):

ظلمت میں ہے بعید رضیہ ؔکسی کا ساتھ
خود اپنے ساتھ آپ کا سایہ نہ جائے گا

محترمہ عالیہؔ تقوی

(الہٰ آباد، ہندوستان):

 چاروں طرف ہیں باغ میں کانٹے بچھے ہوئے
 ان کی چبھن سے خود کو بچایا نہ جائے گا

جناب تنویر پھولؔ

(امریکہ):

مشامِ جاں معطر ہو رہا ہے
ہُوا احساسِ فرحت قلب و جاں میں
گلشن  کا  حال  دیکھ  کے  پژمردہ  پھولؔ   ہے
 نغمہ  خوشی   کا   آج    سنایا   نہ  جائے  گا

جناب حسن آتشؔ چاپدانوی

(کلکتہ ،  ہندوستان):

زمیں کی پیاس تو بجھنے نہ پائی
اڑے پھر لاکھ بادل آسماں میں

جناب خورشید الحسن نیرؔ

(ریاض، سعوی عرب):

سکوں جن کو زمیں پر مل نہ پائی
وہ بسنا چاہتے ہیں آسماں میں

جناب خورشیدؔ علیگ

(بحرین):

اخلاق سے حسیں کوئی دنیا میں شَے نہیں
یہ وہ چراغ ہے جو بجھایا نہ جائے گا
اس نے وفا کا رنگ کچھ ایسا چڑھا دیا
اب دل پہ کوئی رنگ چڑھایا نہ جائے گا

جناب سعید رحمانی

(کٹک، ہندستان):

میں خود ہی آگیا ہوں ملاقات کے لیے
یہ جانتا ہوں ان سے بلایا نہ جایے گا
میں آکھڑا ہوں عمر کے ایسے مقام پر
اب گھر کا بوجھ مجھ سے اٹھایا نہ جایے گا

جناب سید نفیسؔدسنوئی 

(کٹک، ہندستان):

اسلاف سے ملا ہے محبت کا جو سبق
دل سے ہمارے درد پرایا نہ جایے گا
کانٹے بچھانا راہ میں جن کا بھی کام ہے
ان سے چمن میں پھول کھلایا نہ جایے گا

جناب منظرؔ زیدی

(ریاض، سعودی عرب):

نمائش کے لیے آراستہ ہیں
کھلے ہیں زخم جو دورِ خزاں میں
تری آنکھوں سے آنکھوں کا تصادم
الجھ کر رہ گیا تیر و کماں میں

جناب ڈاکٹر احمد ندیم رفیعؔ

(امریکہ):

نجانے کس کا نام آیا زباں پر
گْھلی جاتی ہے شیرینی دہاں میں
تجھے دیکھا نہیں پر جانتا ہوں
تْو رہتا ہے مرے کنجِ نہاں میں

مہمان اعزازی جناب مقصود انور مقصودؔ ، مہمانِ خصوصی جناب ڈاکٹر سید تقی عابدی اور صدرِ مشاعرہ جناب مولانا عبد الغفار  نے مشاعرے پر بھرپور اظہارِ خیال کیا اور بزمِ اردو قطر کے ذمہ داران کو مبارکباد پیش کی۔ جناب تقی عابدی نے فرمایا کہ قطر کے شعراء کا کلام سن کر جی خوش ہو گیا۔ اتنی معیاری اور عمدہ شاعری بہت کم سننے کو ملتی ہے۔ آپ نے سامعین کی شعر فہمی اور شعر نوازی کی بھی تحسین کی اور کہا کہ ہر اچھے شعر پر سامعین نے خوب داد و تحسین برسائی ہے۔ ای میل سے موصول بیرون قطر کے شعرا کے کلام نے مشاعرے کو عالمی مشاعرہ بنا دیا۔ بزمِ اردو قطر کے چئیرمین جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے تمام شعرا ء و سامعین کا شکریہ ادا کیااور فرمایا کہ بزمِ اردو قطر  جناب پروفیسر ڈاکٹر سید تقی عابدی کی بے حد شکر گزار ہے  جنھوں نے اس کی دعوت پر کینیڈا سے تشریف لاکر مشاعرے کو یاد گار بنا یا۔

رپورٹ: فیاض بخاری کمالؔ
نائب سکریٹری بزمِ اردو قطر

**********************************

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 563