donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Faisal Haneef
Title :
   Guzar Gah Khayal Forum Ka 22 wan Ilmi Adbi Ijlas


گزر گاہِ خیال فورم کے زیرِ اہتمام

 

غالب ؔ فہمی کا بائیسواں ماہانہ علمی وادبی اجلاس


 ڈاکٹر فیصل حنیف خیال

 

نشۂ فکرِ سخن

جو چاہییے، نہیں وہ مری قدر و منزلت
میں یوسفِ بہ قیمتِ اوّل خریدہ ہوں


    خدا نے پھر وہ دن دکھایا کہ ڈاک کا ہرکارا دوحہ سے گزرگاہ خیال کی تقریب  'ذوقِ خامہ فرسا' کی روداد بہ زبان فیصل حنیف  لایا - پھر تاخیر، ڈاکیے اب ڈاکو ہو گئے، اگر کوئی روداد ڈاک میں تلف ہو گئی تو کچھ بعید نہیں-

کوئی ہے؟ ذرا ذوقؔ  کو بلائیو
لو صاحب وہ آئے


بھائی،  دلی میں ہمارا تمہارا اختلاط نہ تھا، حافظ ویران ہے یہاں کوئی اور نہ سراج الدین، اب کلام مجھ کو تم سے ہے- تمھارے حواری راہِ سخن کے غول ، شعر گوئی کیا جانیں، ہاں طبع موزوں رکھتے تھے اور مصرعے  تولتے تھے، تمہارا ساتھ دیتے اور مجھ کو بیزار کرتے تھے-  یہاں مجھ کو نہ خوفِ مرگ ہے نہ دعوائے صبر، تو منہ دیکھی کیوں کہوں؟ میں پیرِ خرف تھا، سن خرافت کو اگرچہ نسیان لازم ہے میں قلعہ کا کوئی قصہ نہیں بھولا- خدا کا شکر بجا لاتا ہوں تم نے ادھر کچھ داد رسی کی- ہم نے قلعہ میں تمہاری استادی اور مقبولیت کا درد اٹھایا، اب تم ہماری شہرت اور قدر کا بوجھ مردانہ وار اٹھاؤ- میں اپنے مزاج سے ناچار، حق بات کہے بن نہیں پڑتی- تم بے شک نہ مانو، حقیقت یہی ہے کہ دعویٰ اور چیز ہے اور کمال اور ہے- لو اب بھی یہی کہتا ہوں  کہ سہرے میں سخن گسترانہ سے قطعِ محبت  مقصود نہ تھی پر بیانِ حْسنِ طبیعت ضرور تھا- مجھ کو ریختہ سے کم، فارسی سے تعلق ہے، خود کو اس کا مرد میداں سمجھتا ہوں، اس میں نظیریؔ  و  فردوسیؔ  کو بھی خاطر میں نہیں لاتا- اہلِ ہند کی بات ہی چھوڑو، سوائے خسروؔ  دہلوی کے کوئی مسلم الثبوت نہیں، میاں فیضیؔ  کی بھی کہیں کہیں ٹھیک نکل آتی ہے- یہ میدان بہت فراغ ہے، تم اس کی حقیقت کیا جانو- حیراں ہوں کہ خلق خدا کو میرا کلام کیوں باور نہ آتا تھا، تم کو فارسی سے کوئی مناسبت نہ تھی، ریختہ میں اسد اللہ،  غالب ہے، تو تم اور ہم رقیب کیونکر ٹھہرے؟ واں جو شاہ کی مرضی تھی، وہی میری قسمت تھی- لو کہو، اب اور کیا کہوں- واہ صاحب تم کیا چاہتے ہو ہم یہاں بھی  تم کو ملک الشعراء  مان لیں؟ میں نے دلی میں شرمساریاں اور روسیاہیاں بہت اٹھائی ہیں، ہزار داغوں میں ایک داغ ہمارا تم کو ملک الشعراء جاننا  تھا- دل کڑھتا تھا، پر ناچار- سنو یہ جھگڑے قصے جانے دو، اب اپنے کو بدنام اور مجھ کو ملول نہ کرو، غالبؔ  کو اپنا دعا گو اور خیر خواہ تصور کرو-

 
مرزا تمھارے کمالات کا اعتراف نہ کرنا کم ظرفی ہو گی- قلعہ کے مشاعروں میں تم نے مجھ کو عاجز و حیران کر رکھا تھا-  تلوار کی آبداری شعر میں بھرنا کوئی تم سے سیکھے- وہ کیا شعر تھا ... حظِّ وصل خدا ساز بات '

 
میں اور حظِّ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں

 
ہاں یہی ہے، واللہ مرزا، اس کی نظیر بہم پہنچانا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے-  سبحان اللہ-

 
میاں اٹھو، میرے ہمراہ چلو دوحہ، گزرگاہ خیال کی بائیسویں تقریب 'نشۂ فکرِ سخن' میں جہاں میرے پیارے، بہار شعر و سخن کے گلچیں، فکرِ تازہ کے علمبردار، غالبؔ شناسی میں حاملِ شوقِ مکرر، ظفرؔو مظفرؔ، طاہرؔ و  وزیرؔ ، خلیلؔ و جلیلؔ و عدیلؔ،  توصیفؔ و حنیفؔ و آصفؔ، عبد الحئی و رضوان علی و شادؔ اکولوی،عبد المجید و ابو الخیر، راغبؔ و محسنؔ حبیب انتظارکھینچتے ہیں- ایسا پیارا باغ و بہار اور کہاں- اس جشن کے سامان کو جمشیدؔ اگر دیکھتا تو حیران رہ جاتا-  مزہ تو جب  آوے گا کہ ہم ان کی زبان سے اپنا حال سنیں-  لیکن پہلے یہ شعر سن لو، ہمارے تمھارے بعد ملیح آباد کے ایک صاحب، عزیز کے شاگرد، جوشؔ  تخلص رکھتے تھے اور خود کو میرا معنوی شاگرد بتلاتے تھے- خدا عالم آرائے اس کو سلامت رکھے- سنو کیا کہتا ہے-

 
تا حشر، ملے گی نہ 'سخن فہموں' کو
جو بات ہے غالبؔ کے طرفداروں میں

میں اس تصور کا مزہ اٹھا رہا ہوں کہ میرؔ ہمارے ساتھ دوحہ چلتے تو کیا کہتے- کہو تو لے چلیں؟

 
مرزا میں کہاں منع کرتا ہوں- مگر احتیاط لازم ہے، وہ کسی کو آدھا تو کسی کو ربع شاعر شمار کرتے ہیں، میرؔ کا حال تم کو معلوم ہے؟ آزاد سے سنا ہے کہ زندگی میں فاقے کرتے تھے۔ دکھ بھرتے تھے اور اپنی بد دماغی کے سائے میں دنیا  اور اہل دْنیا سے بیزار گھر میں بیٹھے رہتے تھے- اوروں کے کمال بھی انھیں دکھائی نہ دیتے تھے۔ حافظؔ اور سعدیؔ کی غزل پڑھی جائے تو وہ سر ہلانا گناہ سمجھتے تھے۔ کسی اور کی کیا حقیقت ہے۔ تمہاری کیا قدر کریں گے، مجھ کو  خوف آتا ہے- تم آشفتہ حال ہو کہ تم کوتمھارے سخن  کی داد باندازہ بالیست نہیں ملی، اور آزار اٹھا سکو گے؟ نام تمہارا بدل کرمغلوب رکھ دیا تو کیا معالجہ کرو گے؟

 
لو صاحب میں اس امر میں مفتی و مجتہد بن نہیں سکتا- لوگ میرؔ  کو 'بد دماغ' بطریق طنز کہتے ہیں- آزادؔ کے بیان کا مجھ کو اعتبار نہیں، اس نے مومنؔ، ظفرؔ، انیسؔ اور دبیرؔ سے کیا معاملہ کیا؟ تمھارے باب میں کیا کیا گل افشانیاں کی، سب پر ظاہر ہے- میں علی کا غلام اور سادات کا معتقد ہوں ، اس واسطے سید میر محمد تقی میرؔ  کو اچھا جانتا ہوں، جو چاہے مانے جو نہ چاہے نہ مانے-  تم کو وہم کیوں ہے؟
 
جو تمہاری مرضی مرزا- آزاد کی بہتر نشتر والی بات تو مجھے بھی کھٹکتی ہے-  کہو تو استفسار اور کچھ فہمائش کریں؟

 
میاں چھوڑو آزادؔ  کو، اس امر سے قطع نظر وہ ایسا کہاں کا عالم اور سخن فہم ہے کہ میں لڑکوں کی طرح اس سے اور تم سے اس باب میں کج بحثی کروں- دو جوتیاں آپ لگا دیں، ایک جوتی تم سے لگوا دی- اب 'آب حیات' کے باب میں سکوت اختیار کروں گا- ہاں، میرے رفیق، میرے ہمدم، میرے فرزند حالیؔ نے لیاقتِ ذاتی سے طبعیت کا کیا ڈھنگ پایا اور کیا کتاب لکھ ڈالی- میاں شاگرد ہو تو ایسا-
 
 زیادہ تکرار کیوں کریں- اے رضوانِ جنت کوئی خبر ہے میرؔ بہشتی کی؟ کہیں دکھائی نہیں پڑتے-
ارے صاحب، حالِ میر ؔیاں بھی برہم ہے-

ہو گا کسو دیوار کے سائے تلے میں میرؔ
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو

بھائی یہاں معاملہ دوحہ میں گزرگاہ خیال کی محفل میں شرکت کا ہے، محبت اور آرام طلبی کا نہیں- میر صاحب نظر آ جاویں تو سلام کہیو اور کہیو کہ غالبؔ و ذوقؔیاد کرتے ہیں-

 
مرزا تم دوحہ دوحہ کی رٹ کیوں لگائے رکھتے ہو؟ کیا بات  ہے دوحہ میں؟ دلی وہ ایک شہر جو عالم میں انتخاب ہے، کی بات تم نہیں کرتے؟

 
میاں تم کس قدر بھولے اور بے خبر ہو، دوحہ، اب ہماری دلی ہے- دوحہ کا حال گزرگاہِ خیال کی انجمن میں تم میرے محلہ دار سلیمانؔ دہلوی کی زبان سے سنیو-  آج کی دلی کی مجھ سے سن لو- مہدی مجروحؔکو میں نے کہا تھا، تم کو نہیں معلوم؟ اللہ  اللہ  دلی نہ رہی اور دلی والے اب تک وہاں کی زبان کو اچھا کہے جاتے ہیں- واہ رے حسنِ اعتقاد- ارے بندۂ  خدا دلی اب شہر نہیں ہے،  اینٹ اور گارے کا عجائب گھر ہے- - حسد سے لکھنؤ و لاہور کو برا، حالیؔ  کو پانی پتی کہنے والے دلی والے- ممنونؔ  کہاں، ذوقؔ کہاں، مومنؔکہاں، داغؔ کہاں ،ظفرؔ کہاں، ایک آزردہؔ سو خاموش، غالبؔ بیخود و مدہوش، نہ سخنوری رہی نہ سخندانی، کس برتے پر تتا پانی؟ ہائے دلی،  وائے دلی،  بھاڑ میں جائے دلی- چلو دوحہ- اہل گزرگاہ خیال راہ تکتے ہیں-

ٹھیک ہے مرزا،  چلو- تم سے اب دلی کے باب میں کچھ بحث نہیں-

ارے صاحب، یوں تیوری نہ چڑھاؤ ، دلی میں کئی نابغۂ روزگار اب بھی موجود ہیں- میرے حبیب صادق، طبیب حاذق،  روشناس سخن و شاعر اصیل، نغز گو و تیغ جوہر دار کی تمثیل، میاں جاوید جمیل کو تعلق دلی سے ہے- اور اک شمع سخن دلیل سحر احمد علی برقیؔ اعظمی کی صورت آبروے دلی ہنوز موجود ہے-

 
طرزِ غالبؔ کی پیروی ہے خوب
ہے یہ فیصل حنیف کا اعجاز
حُسنِ تحریر ہے یہ سحر انگیز
کیوں نہ ہو  عہدِ نو میں یہ ممتاز
ہے یہ روداد دید کے قابل
میری نظروں میں ہے جو مایۂ ناز
مرزا غالبؔ بھی دیتے اس کی داد
روح پرور ہے ذہن کی پرواز

میرا مصرع 'میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے'  جوہرِ آبدار سعادت نشان میاں برقیؔ پر موزوں ہوتا ہے یا نہیں؟
سچ کہتے ہو مرزا-

گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

 
خاقانیِ ہند خان بہادر شیخ ابراہیم ذوقؔ اور نجم الدولہ دبیر الملک نواب اسد اللہ خاں غالبؔ، گزرگاہِ خیال فورم کے بائیسویں ماہانہ علمی و ادبی مباحثے ، بسلسلۂ غالبؔفہمی،  بعنوان "نشۂ  فکرِ سخن"  میں شرکت کے واسطے علامہ ابن حجر لائبریری، دوحہ، قطر ’’ تشریف لا چکے ہیں- غالبؔ و ذوق کی موجودگی میں محبان غالبؔ، مرزا  کی غزل

 
یک ذرۂ  زمیں نہیں بے کار باغ کا
یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا

اور

جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
تپشِ شوق نے ہر ذرّے پہ اک دل باندھا

پر گفتگو فرماویں  گے-

 
غالب فہمی کی اس خصوصی تقریب کی نظامت کا شرف گزر گاہِ خیال فورم کے بانی و صدر ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ کو حاصل ہوا ہے-  مسند صدارت کو قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم، قائم شدہ ۱۹۵۹ئ؁، بزم اردو قطر کے سینئر سر پرست، جناب سید عبد الحئی نے  رونق بخشی ہے- خاندانی شرافت  اور نجابت کی ایک عمدہ مثال، دوحہ میں اردو کی محفلوں کے لیے شجرِ سایہ دار،  جناب سید عبد الحئی شعر و سخن کی محفلوں کے لیے نا گزیر ہیں-  

 
آج  کے مہمان خصوصی ایک نایاب سخنور ہیں، جن کا تخلص بھی اتفاق سے نایابؔ ہے- جی ہاں میں جناب مظفر نایابؔکی بات کر رہا ہوں، تعلق حیدر آباد سے ہے، پیشے سے انجینئر ہیں، پیشہ وارانہ تربیت  سخنوری میں قابلیت بن کر در آئی ہے- یعنی تکنیکی اعتبار سے خوب کسے ہوئے شعر کہتے ہیں- زبان پر عبور، عروض پر گرفت، تخیل اونچا، اور اب غالبؔکی شاگردی،  بس اور کیا چاہیے- آج کے مذاکرے کیلیے خاص دو غزلیں لکھ کر لائے ہیں- ان کی غزلیں سنتے ہیں، پہلے مذاکرہ تو انجام پا جائے-

 
اجلاس کا آغاز  قرآن کریم کی آیاتِ مبارکہ کی تلاوت  سے ہوا جس کی سعادت جناب اشفاق احمد کو حاصل ہوئی - بر روایت  غالبؔ کی زیرِ بحث غزل کو  انڈیا  اردو سوسائٹی کے بانی و صدر، شاعر خلیج جناب جلیلؔنظامی   نے اپنے مخصوص سحر آفریں ترنم سے پڑھا، جب مصرع 'سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے' پر پہنچے تو داد دینے والوں میں غالبؔ  و  ذوقؔ  بھی شامل ہو گئے- ایسا ترنم ہم نے پہلے نہیں سنا-  یہ لحنِ داؤد کہاں سے پایا؟ اچھا ہوا تم ہمارے ہمعصر نہ ہوئے-
 
اس مذاکرے میں جناب ظفر صدیقی، جناب مظفر نایابؔ، جناب سید عبدالحئی، ڈاکٹر توصیف ہاشمی، جناب جلیلؔ نظامی، ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ،  قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم بزم اردو قطر کے صدر جناب شادؔ  اکولوی، جناب طاہر جمیل، جناب سید آصف حسین، جناب ابو الخیر، حلقہ ادب اسلامی قطر کے صدر جناب خلیل احمد، بزم اردو قطر کے رابطہ افسر جناب وزیر احمد وزیرؔ، جناب اشفاق احمد، بزم اردو قطر کے جنرل سیکرٹری جناب افتخار راغبؔ، جناب ادیب جیلانی ، جناب سید اسماعیل ، جناب غلام احمد ، گزرگاہ خیال فورم  کے خازن جناب رضوان علی، جناب عبد المجید، جناب محسنؔ حبیب، پاک آرٹس سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری جناب عدیل اکبر، اور جناب  سید منور حسین شاہ نے مرزا کے کلام کے معنی  کو پا جانے کی امید رکھ کر  شرکت کی- حاضرین نے اپنی آگہی  سے دامِ شنیدن مرزا کے عالم تقریر کو نخچیر کرنے کی خاطر بچھا دیے- دیکھیے مرزا پکڑ میں آتے ہیں کہ نہیں-  غزل کے مطلع

 
یک ذرۂ  زمیں نہیں بے کار باغ کا
یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا

 
سے آغاز ہوتا ہے- فتیلہ چراغ کی بتی کو کہتے ہیں- مفہوم یوں ہے کہ اس جہاں میں کوئی چیز بیکار یا بے مصرف نہیں، ہر چیز کا وجود محفل ہستی کی رونق کا سبب ہے- پہلا  مصرع صاف ہے کہ باغ کی زمین کا کوئی ٹکڑا، کوئی حصہ بھی بے وجہ نہیں، یہاں تک کہ باغ کی روش، یعنی چمن میں پھولوں اور پودوں کے درمیان خالی راستہ بھی لالہ کے چراغ، یعنی اس کی نشوونما کے لیے اتنی اہم ہے جتنا فتیلہ چراغ کیلیے - فتیلہ کے بغیر چراغ نہیں جل سکتا، اس طرح پھولوں کی خوبصورتی کے لیے  جادہ نا گزیر ہے- یہاں فتیلہ اور جادہ کی تشبیہ بہت خاص ہے- فتیلے کے بغیر چراغ میں روشنی کا وجود ممکن نہیں اور جادے کے بغیر چمن کی خوبصورتی دیکھنے کا سامان نہیں - چمن کی خوبصورتی کا تعلق اس کی سیر سے ہے، اگر چمن میں جادہ نہ ہو تو وہ چمن نہیں جنگل کہلائے گا، جو ویرانہ ہے-   یہ شعر اپنے اندر آفاقی پہلو رکھتا ہے- اس کا اطلاق کائنات پر ہے، باغ اس جہان کی تشبیہ ہے- اس شعر کی تشریح میں جناب افتخار راغبؔ نے کہا کہ غالبؔ  کا تخیّل ہماری کہکشاں کی بناوٹ اور بلیک ہول کی خصوصیات کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی دریافت غالبؔ کے گزرنے کے تقریباً  ۵۰  برس بعد ہوئی۔ غالبؔاس شعر میں کہتے ہیں کہ ہماری کہکشاں دیگر کہکشانوں کے مختلف النوع اجرامِ سماوی کے ایک باغ جیسی ہے جس کا کوئی بھی ذرّہ بیکار نہیں۔جادہ خلا کا خم ہے جس کے راستے سے مادہ توانائی کے ساتھ کہکشاں کے مرکزی غارِ سیاہ میں کشاں کشاں جاتا ہے۔ غارِ سیاہ کے قریب کی شعاعیں دور سے دیکھنے والے کو سرخ دکھائی دیں گی۔ چونکہ اس کی سمت جاتی ہوئی شعاعیں خلائی خم کے سبب اپنی توانائی کھوئیں گی۔ لہٰذا ان کی سرخ میلانی بڑھے گی۔جو مادہ فتیلہ کے تیل کی طرح غارِ سیاہ میں کھینچ کر جاتا ہے وہ غارِ سیاہ کے داغ میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔

 
مطلع غزل کا تاج کہلاتا ہے، غالبؔ نے  اپنی اس غزل کو روایتی انداز میں زوردار مطلع سے شروع کیا ہے- اکثر کا خیال ہے کہ  یہ حمدیہ شعر ہے- جناب سید عبد الحئی نے قرآن کریم سورہ آلِ عمرن کی آیت نمبر ۱۹۱ جس کا مفہوم ہے کہ پروردگار یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں پیدا کیا ہے تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے، کو اس شعر کا ماخذ بتایا-

 غزل کا اگلا شعر

بے مے کِسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی
کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا

 
یہاں مے سے مراد مے خداوندی ہے، یعنی عرفان حق، جس کے لیے فنا فی اللہ  ہونا لازم ہے- شعر کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ شراب کے نشے کے بغیر ہستی کا شعور ممکن نہیں، لیکن کم حوصلگی کے سبب بادہ پیمائی میں خط کھنچ گئے ہیں، جو ایک خاص مقدار پر پینے والے کو روک دیتے ہیں- انگریزی کا لفظ 'سکیل' اس کی وضاحت خوب کرتا ہے- یہاں شراب بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے- مزید وضاحت کے لیے جناب شادؔ اکولوی نے جوش ملیح آبادی کا یہ شعر حاضرین کے سامنے پیش کیا-

 
جب علم کے کھنگال ڈالے سارے قلزم
تب دولتِ عرفانِ جہالت پائی

اگلا شعر  :

بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

 
اس شعر کا دوسرا مصرع ضرب المثل بن چکا ہے- شعر عشق مجازی سے تعلق رکھتا ہے، جسے حاضرین نے 'کمتر عشق' کا نام دیا- ایک صاحب نے کہا کہ 'کمتر' کہنے میں برائی ہے، عشق مجازی نہیں کہتے تو عشق مزاجی کہہ لیجیے- اس شعر میں غالبؔ نے بھی تو شوخی سے کام لیا ہے- جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد –
 
سیدھا مفہوم ہے کہ پھول بلبل کی محبت پر طنزاً مسکرا رہے ہیں کہ بلبل کس قدر نادان ہے، اس سے دل لگانے چلی ہے جو عارضی ہے، یعنی یہ عشق، یہ لگاؤ اس کے دماغ کی خرابی کی وجہ سے ہے- غالبؔنے  پھولوں کی شگفتگی، ان کے کھلنے کو ان کی ہنسی سے نسبت دی ہے-
 
شعر میں صنعت حسن تعلیل ہے-  بقول جناب جلیلؔ نظامی دوسرا مصرع واوین میں ہے، اور اسی میں پورا آرٹ ہے جسے غالبؔنے نمائش رکھ چھوڑا ہے- جنوں عشق کا اصل سرمایہ ہے، کیونکہ عشق کا تعلق دل سے ہے، دماغ سے نہیں- اگر دماغ سے ہوتا تو علامہ مرحوم یہ نہ فرماتے:

 
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
 
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر

 
پہلے مصرع میں لفظ 'کاروبار' خاص غور و فکر کا طالب ہے- اس شعر میں اگرچہ اس سے مراد بلبل کی محبت، تڑپ، نالہ و فریاد ہے تاہم یہ لفظ وسیع معنی اور مختلف سیاق و سباق میں استعمال ہو سکتا ہے- اس کا ماہرانہ استعمال شاعر کی مہارت کا ثبوت ہے- تاہم کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ لفظ کے معنی ہی بدل جاتے ہیں اور شاعر منہ تکتا رہ جاتا ہے-
 
دو لطیفے سنیے- فیض احمد فیض کا مشہور زمانہ شعر

 
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

 
دنیا کے قدیم ترین پیشے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون، جس کا نام گلشن تھا، نے اپنے دروازے پر لکھوا رکھا تھا- یہ فیضؔصاحب کی زندگی کا واقعہ ہے، جسے جان کر، اور 'گلشن' اور 'کاروبار' کے سیاق و سباق  میں اس شعر کا ایسا  استعمال دیکھ کر وہ انگشت بدنداں رہ گئے تھے-
 
مجتبیٰ حسین  مشہور طنز نگار ابراہیم جلیس کے چھوٹے بھائی ،  فیضؔ پر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں "غالباً ۱۹۷۷ئ؁ کی بات ہے فیضؔ انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کی دعوت پر ہندوستان آئے ہوئے تھے۔ آزاد بھون میں ان کا جلسہ تھا۔ لوگ انہیں دیکھنے کے لیے امڈ آئے تھے۔ یوں بھی فیضؔ سننے سے زیادہ دیکھنے کی چیز تھے۔ میرے برابر دفتر کے ساتھی اور تاریخ کے پروفیسر ارجن دیو اور تاریخ کی استاد مس اندرا سرینواسن بیٹھے تھے۔ اندرا سرینواسن کو اْردو بالکل  نہیں آتی تھی۔ وہ صرف فیضؔکو دیکھنے آئی تھیں۔ جب فیضؔنے کلام سنانا شروع کیا تو اندرا سرینواسن نے مجھ سے کہا کہ میں فیضؔکے شعروں کا انگریزی میں ترجمہ کرتا چلا جاؤں۔ جیسے تیسے ایک غزل کے دو تین شعروں کا ترجمہ انہیں سنایا۔ کچھ ان کے پلیّ پڑا کچھ نہیں پڑا۔ وہ میرے ترجمے پر جب جرح کرنے لگیں تو میں نے اندرا سے کہا کے وہ باقی غزلوں کا ترجمہ ارجن دیو سے سنیں کیونکہ وہ فیضؔ کی شاعری کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ اب ترجمہ کرنے کی ذمہ داری ارجن دیو نے سنبھال لی۔ جب فیضؔ نے " گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے" والی غزل سنانی شروع کردی، تو ایک لطیفہ ہوگیا۔ جب فیضؔنے یہ مصرع سنایا۔

 
'چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
تو ارجن دیو نے رُک کر سنبھل کر اندرا سے کہا۔

‘‘Faiz says please come so that the business of garden may start’’

اس پر اندرا نے سخت حیرت کے ساتھ مجھ سے پوچھا،

Mr. Mujtaba, What is this business of garden? I have never heard of such business before. Is it a profitable business?’’

میں نے ایک زور دار قہقہ لگا کر اندرا سے کہا، اْردو میں تو یہ " بزنس آف گارڈن " بہت زمانے سے چل رہا ہے۔ سراسر گھاٹے کا کاروبار ہے پھر بھی آپ گلشن کا کاروبار چلانا چاہتی ہیں تو ارجن دیو سے فیضؔکے شعروں کا ترجمہ سنتی رہیے  ۔ آپ کو اس کاروبار کا اصول اور قاعدے قانون معلوم ہو جائیں گے۔ چنانچہ اس " بزنس آف گارڈن " کے چکّر میں ارجن دیو نے بعد میں غالباً اندرا سرینواسن کو فیضؔ کی غزلوں کا کچھ ایسا با محاورہ ترجمہ سنایا کہ خود ان دونوں کے بیچ 'گلشن کا کاروبار' شروع ہوگیا۔ اب اندرا کو اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ گلشن کا کاروبار کیسے چلتا ہے کیونکہ اب وہ اندرا سرینواسن سے اندرا ارجن دیو بن گئی ہیں-"  چوتھا شعر

تازہ نہیں ہے نشؔ فکرِ سخن مجھے
تِریاکئِ قدیم ہوں دْودِ چراغ کا

 
بقول جناب جلیلؔ نظامی تِریاکیِ قدیم سے مراد 'پرانا پاپی'- دود استعارہ ہے فکر سخن ہے کا، اور دود سے مراد دودِ چراغ، یعنی چراغ کا دھواں ہے- اور چراغ سے مراد شعر گوئی ہے- تازہ کو قدیم سے نسبت ہے- شعر صاف ہے اور تعلی پر مبنی ہے کہ میں پرانا اور پختہ سخنور اور اس کھیل کا ماہر کھلاڑی ہوں-  یہاں دود سے مراد فکر ہے-  وہ خاص فکر جس کے نتیجے میں شاعر شعر کہتا ہے- غزل جناب جلیلؔ کے مطابق، کس فکر سخن کی محتاج ہے-

 
جب تری یاد ستائے تو غزل ہوتی ہے
رات بھر نیند نہ آئے تو غزل ہوتی ہے
اجنبی ساتھ نبھائے تو غزل ہوتی ہے
اپنے ہو جائیں پرائے تو غزل ہوتی ہے

 
دلاور فگار کا نشۂ  فکرِ سخن دیکھیے، کہ ان کے ہاں غزل کیسے ہوتی ہے

 
مفلسی عشق مرض بھوک بڑھاپا اولاد
دل کو ہر قسم کا غم ہو تو غزل ہوتی ہے
صرف ٹھّرے سے تو قطعات ہی ممکن ہیں فگارؔ
ہاں اگر وسکی و رم ہو تو غزل ہوتی ہے

غالبؔ کو ایسا شعر کہنے اور اپنے کو پختہ کار بتانے کی ضرورت کیوں پیش آئی - معاملہ یقینا شاعرانہ رقابت اور معاصرانہ چشمک کا معلوم ہوتا ہے- جناب مظفر نایابؔ نے، اس شعر کی وجہ تسمیہ،  یہ کہہ کر کہ ممکن ہے کہ مشاعرے میں غالبؔ کو کسی نے غلط مقام پر پڑھا دیا ہو، بیان کر کے محفل کو کشتِ زعفران بنا دیا-

 
سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے
پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا
بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار
یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا

 
پہلا شعر صاف اور سیدھا ہے- دوسرے شعر میں غالبؔ کے نزدیک رونا وہ ہے جس میں آنکھوں سے خون بہے- غالبؔ کے یہ شعر، اس شعر کی خوب تشریح کرتے ہیں

 
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
 
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں

 یہاں خونِ دل کو شراب اور آنکھ کو میکدہ  سے تشبیہ دی ہے- میکدہ جس میں مے نہ ہو، کیا میکدہ ہوگا، اس طرح وہ آنکھ جو خوں نہ روئے، آنکھ نہیں، یعنی اس کے سامنے ایک موج غبار، اور کچھ نہیں- دوسرے مصرع میں خراب کے معنی ویران کے ہے- میکدے کے لیے اس طرح 'خراب' لفظ کا استعمال بس مرزا ہی کر سکتے تھے- سید عبد الحئی  نے اس ضمن میں مجروح سلطانپوری کا یہ شعر نقل کیا-

 
سرشک رنگ نہ بخشے تو کیوں ہو بار مڑہ
لہو حنا نہیں بنتا تو کیوں بدن میں رہے
اس غزل میں مقطع نہیں ہے- غزل کا آخری شعر
باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل

ابرِ بہار خم کدہ کِس کے دماغ کا

 
یہ حمدیہ شعر ہو سکتا ہے- دو لختہ معلوم ہوتا ہے- اس شعر میں کچھ الفاظ کو مخذوف  سمجھ کر  چلنا  پڑے گا، تبھی اس کی شرح ممکن ہے، وگرنہ غالبؔ کا مدعا عنقا رہ جائے گا، اور معنی ہاتھ سے پھسل جانے کا امکان ہے- مفہوم یوں ہے کہ میرے دل کی خوشی کا تعلق فقط تجھ سے ہے- یہ بہار اور مے نوشی میرے لیے انبساط کا سبب نہیں- عشق حقیقی کے حوالے سے کہ مجھے سکون خدا کی معرفت میں ہے، دنیا کی رونق میرے لیے خوشی کا ذریعہ نہیں-

 
پہلی غزل یہاں اختتام کو پہنچی- لیجیے اب دوسری غزل پر طبع آزمائی کا دور شروع ہوتا ہے-

 
جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
تپشِ شوق نے ہر ذرّے پہ اک دل باندھا
اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخیِ ناز
جوہرِ آئینہ کو طوطء بسمل باندھا

 
دونوں شعر شوق کا بیان اور خیال آفرینی کی حدوں کوچھوتے نظر آتے ہیں- محمل سے مراد اونٹ کا کجاوہ ہے- عاشق کی بے تابی کا یہ عالم ہے کہ جب محبوب نے سفر کا سامان باندھا، تو عاشق کے ہزار دل اس کے ساتھ ساتھ چل پڑے-

 
دوسرے شعر کی بات: آئنیہ صیقل کرنے سے اس میں سبز رنگ پیدا ہو جاتا ہے، جس کو جوہرِ آئینہ بھی کہتے ہیں- شعر کا مفہوم ہے کہ محبوب نے جب خود کو آئنیے میں دیکھا تو آئینہ اس کی تاب نہ لا سکا، جوہرِ آئینہ اس سبب متحرک ہو گیا، چونکہ اس کا رنگ سبز ہے، اہل نظر نے اس کو سبز رنگ کی مناسبت سے تڑپتے ہوئے پرندے سے تشبیہ دے  دی- اس شعر کی تشریح میں جناب افتخار راغبؔنے کہا کہ غالبؔکا تخیّل چند برسوں بعد ایجاد ہونے والے ٹیلی ویڑن کی بشارت دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اہلِ بینش یعنی اہلِ نظر و اہلِ شعور و دانائی یا سائنسدانوں نے  حیران کن شوخیِ ناز سے جوہرِ آئینہ یعنی آئینے میں چھپے جوہر یا خوبی کو طوطیِ بسمل یعنی بیقراری میں بولتی ہوئی طوطی قرار دیا ہے۔ غالبؔنے اسی مفہوم کو ایک اور جگہ یوں باندھا ہے:

اُس چشمِ فسوں گر کا اگر پائے اشارہ
طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے

اگلے دو شعر

یاس و امید نے اک عرَبدہ میداں مانگا
عجزِ ہمت نے طِلِسمِ دلِ سائل باندھا
نہ بندھے تِشنگیِ ذوق  کے مضموں، غالبؔ
گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

 
پہلے شعر کا مفہوم ہے کہ کم ہمتی کی وجہ سے کوئی فیصلہ ممکن نہیں کیونکہ دل ہاں اور نہیں میں الجھا رہ جاتا ہے- اس کے برعکس امید اور نا امیدی مسلسل جہد پر آمادہ رکھتی ہے-  مقطع کا مضمون سادہ ہے کہ میں اپنی فراوانیِ شوق کے مضامین، دریا کو ساحل قرار دے کر بھی نہ باندھ سکا- دریا کو اگر ساحل خشک سمجھ لیا جائے تو بھی شوق کی تشنگی کا بیان ممکن نہیں- یعنی اس پیاس کی شدت کے  آگے دریا بھی ساحل ہے، یعنی نا کافی ہے- اس شعر کو غالبؔ نے پہلے یوں لکھا تھا-

 
یار نے تشنگیِ شوق کے مضمون چاہے
ہم نے دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

 
ان دو غزلوں کی شرح مشکل تھی- لیجیے ہم جوئے شیر لے آئے- بلاؤ کوئی کوہکن کو اور پوچھو کہ کون سا کار مشکل ہے!

اب جناب مظفر نایابؔ کی تضمینی غزلیں سنیے- ا

 بار جناب نایابؔ نے خاص الخاص اہتمام کیا ہے- مرزا صاحب اور استاد ذوق دونوں موجود ہیں، دیکھیے کیا ہوتا ہے- شعر سنیے-

لالہ رخوں کی گلشنِ ہستی بھی خوب ہے
‘‘یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا‘‘
کیا چیز ہے یہ نشّئہ جامِ گلِ نشاط
‘‘کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا‘‘
جامِ گلِ نشاط سے مخمور ہو گیا
نایابؔ اعتبار کیا ایسے دِماغ کا

دوسری غزل دیکھیے:

تم نے مضمون یہ کیوں مہلک و قاتل باندھا
شہد کو شہد نہیں زہرِ ہلاہل باندھا
گرمیِ حسن کے جب اْس نے ستارے ٹانکے
‘‘تپشِ شوق نے ہر ذرّہ پہ اک دل باندھا‘‘
جانبِ نعت ہوئی جب یہ طبیعت مائل
زلف واللیل تو چہرہ مہِ کامل باندھا

               
برخوردار نایابؔ، تم اسم با المسمی ہو- فقیر کا قاعدہ ہے کہ اگر کلام میں اسقام دیکھتا ہوں تو رفع کر دیتا ہوں، ورنہ تصرف نہیں کرتا- پس قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہاری غزلیں مجھ کو جی سے پسند آئی ہیں-
 
مرزا سچ کہتے ہو- کلام واہ ہے، اتنا جی جلا کر شعر لکھا ہو  اچھا کیوں نہ ہو گا- نایابؔ میاں مبارک ہو- کوئی افتخار راغبؔ کو بلاؤ ، اس بار غزل کہی ہے تو اچھی کہی ہو گی-
جناب افتخار راغبؔ  اب اپنی تضمینی غزل پیش کرتے ہیں- سنیے اور داد دیجیے- غالبؔ اور ذوقؔ نے تو پیشگی داد دے دی ہے-

 
بیوی سے جب ہوا تو مجھے ماننا پڑا
’’کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا‘‘
بے وزن شعر کہتا ہوں ستّر برس سے میں
’’ تریاکیِ قدیم ہوں دودِ چراغ کا‘‘
چاہیں تو چھوڑ سکتے ہیں دو اِک مشاعرہ
’’ پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا‘‘

 
ناظمِ مذاکرہ ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ  نے  مہمانِ خصوصی جناب مظفر نایابؔ ، اور صدرِ نشست جناب  سید عبد الحئی کو اپنے تاثرات پیش کرنے کی دعوت دی - دونوں صاحبان نے گزرگاہِ خیال کے منتظمین کی کوششوں کو سراہا اور ان محفلوں کے مسلسل قیام کو ادبی کارنامہ قرار دیا- جنابِ نایابؔ نے غالبؔ فہمی مذاکروں میں اپنی شرکت کو اپنے لیے دونا فائدہ بتلایا، یعنی غالبؔ فہمی کے ساتھ ساتھ غالبؔ کے اتباع میں شعر کی جہتوں کو بطورِ سخنور دریافت کرنا- اس پر ناظم نے جناب نایابؔ کا خاص شکریہ ادا کیا، کہ ان کی بدولت ہم بھی دونا استفادہ کر رہے ہیں، غالبؔفہمی اور غالبؔ پر عمدہ تضمینی کلام-
 
یوں غالبؔ فہمی کا یہ مذاکرہ اپنے اختتام کو پہنچا-  رات کے گیارہ بجا چاہتے ہیں- جنت مکانی غالبؔ اور ذوقؔ جا چکے- جناب جلیلؔنظامی سے سحر انصاری کا یہ شعر سن کر سب نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی-

 
عجیبِ ہوتے ہیں آدابِ رخصتِ محفل
کہ اُٹھ کے وہ بھی گیا جس کا گھر نہ تھا کوئی

 
روداد  نگار:  ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ
بانی و صدر، گزرگاہ خیال فورم
دوحہ ، قطر

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 903