donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Faisal Haneef
Title :
   Guzargah Khayal Forum Ke Zer Aihtemam Ghalib Fahmi Ka 21st Ijlas


گزر گاہِ خیال فورم کے زیرِ اہتمام

غالب ؔ فہمی کا اکیسواں ماہانہ علمی وادبی اجلاس


’’ذوقِ خامہ فرسا‘‘

دود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
وہ دلِ سوزاں کہ کل تک شمع، ماتم خانہ تھا
شکوۂ  یاراں غبارِ دل میں پنہاں کر دیا
غالبؔ ایسے کنج کو شایاں یہی ویرانہ تھا

    جانِ غالبؔبرخوردار فیصل حنیف،

    مار ڈالا یار تیری تاخیر نے- اس ڈاک کج رفتار کا برا ہو، ہم نے اس کا کیا بگاڑا تھا- حواس کھو بیٹھا، ڈاک کو رو بیٹھا، نامہ تمہارا ندارد- لو ڈاک کا ہرکارا دوحہ سے تمہارا  خط لایا- بیسویں مذاکرے "مِنّت کشِ دوا" کا حال معلوم ہوا - آنکھوں میں نور، دل میں سرور آیا-  خوش ہوں کہ تم نے روداد کو افسانے کا پرواز دے دیا ہے جو تمھارے حسن طبع کی دلیل بھی ہے- میری شہرت اگرچہ سخن گستری کی محتاج نہیں تاہم تمہاری اور تمھارے احبابِ گزرگاہ خیال کی جوہر طبع کی لمعا نی اور فکر کی درخشانی پسند آئی- تمھارے طرز تحریر سے فراوانیِ محبت معلوم ہوتی ہے- مذاکرے کی  روداد پڑھتا ہوں اور وجد کرتا ہوں-  تم تحریر میں کیا کیا سحر طرازیاں کرتے ہو- گزرگاہِ خیال کے مباحثوں کی حقیقت میری نظر میں ہے وہ مجھ سے سن لو اور میرے داد دینے کی داد دے دو-  آگے ناتواں تھا، نیم جاں تھا، مرگِ ناگہاں نہ رہی تھی،اسباب و آثار سب فراہم تھے،  الٰہی بخش خان کا مصرع    ؎

آج جی جاؤں نکل جائے اگر جان کہیں

ورد کرتا تھا- اب مگر آرزو مندِ زیست ہوں- چاہتا ہوں گزرگاہِ خیال کی محفلوں میں شریک ہوں ، دوستانہ اختلاط سے حظ اٹھاؤں-

    خدا کا شکر بجا لاتا ہوں، آج ۱۴۵  برس بعد بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ پاتا ہوں- اگر تم مناسب جانو تو ایک بات میری مانو،  تم مانند اور شاعروں کے مجھ کو نہ سمجھو، بمثل فارسی، ریختہ میں بھی مبداء  فیاض سے مجھے وہ دستگاہ ملی ہے کہ اس زبان کے الفاظ و مفاہیم، قواعد و ضوابط میرے جسد میں اس طرح جا گزیں ہیں جیسے فولاد میں جوہر- پس اپنے مباحثے میں معنی کے ساتھ تراکیب، الفاظ، اور بناوٹ کو بھی دریافت کرو- پھر دیکھو کیا لطف پاتے ہو- کیا یہ حقیقت ہے کہ میری بات سمجھنا محال ہے؟

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

ہائے پیش مصرع سراج کے ہم وطن مظفر نایابؔنے کیا خوب بہم پہنچایا ہے، مجھ کو جی سے پسند آیا ہے-

زندگی بھر کی بندگی لیکن
’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘

    راغبؔمیاں کی تضمین کی شوخی بھلی لگی- ظرافت کا بیان سنجیدگی پر موقوف ہے-

آج آئے سمجھ میں سارے شعر
’’آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا‘‘

جان لو، ’’آج غالبؔغزل سرا نہ ہوا‘‘ کے باب میں جو مشہور ہے، افسانہ ہے-

    لو سنو، کل یہاں کیا کیا قصے نہ ہوئے- میرؔ و مرزاؔ، دردؔ  و  سوزؔ،  ذوق ؔ و مومنؔ، آزردہ ؔو  عیشؔ  لڑکوں کی سی ضد کرنے لگے مذاکرے "مِنّت کشِ دوا" کا حال با آواز بلند سناؤ- نا چار کیا کرتا، نا حق کیوں الجھتا، الجھنے سے فائدہ کیا- رقیبوں سے نیکی کرنا جوانمردی ہے، سو پڑھ کر سنا دیا-  قوتِ ناطقہ پر میرا تصرف اور تمھارے قلم کا زور، رقیبوں کو آزار میں مزہ آیا- تمہاری روداد نے اعدا کی دھجیاں اڑا دیں-  اخیر ہٹ دھرمی چھوڑ، منصفی کی- سخن فہم ہیں میرے طرفدار و مدد گار نہ سہی - سب نے خوب داد دی- تم کو دعا اور سلام اشتیاق آمیز پہنچاتے ہیں-

    بھائی یہاں کا نقشہ ہی کچھ اور ہے- سمجھ میں کسی کے نہیں آتا کہ کیا طور ہے- میرؔ ساری رات جاگتے اور فکر سخن میں ہائے ہائے کرتے ہیں- "اتفاقات ہیں زمانے کے "- ستم پیشہ مرزاؔ نے ہجو لکھنا یہاں بھی نہیں چھوڑا-

دکھلائیے لے جا کے تجھے مصر کا بازار
لیکن کوئی خواہاں نہیں واں جنس گراں کا

دردؔ  قلندری میں مست، سوزؔ ترکِ سخن کر بیٹھے ہیں- مومنؔ  کو اختر شماری سے فرصت نہیں-  ذوقؔ غمزدہ ، محروم و مغموم اس فقیر کے سہرے کا جواب لکھتے ہیں، چاک کر دیتے ہیں، ہے ہے پھر لکھتے ہیں، پھر چاک کر دیتے ہیں- اب نہ دل میں طاقت، نہ قلم میں زور، سخن گستری کا ملکہ بھی چھن گیا- آگے نہ کہہ پائے، اب خاک کہہ پاویں گے- خدا اپنے بندوں پر رحم کرے-  استادِ شاہ کو عجب طرح کا پیچ پڑا ہے کہ نکل نہیں سکتا- کچھ نہ سمجھا سکتا ہوں- تلمیذِ ذوقؔ، آزادؔ  کو یہاں بھی جنون کا عارضہ لاحق ہے- مجھے اس موقع پر سوائے اس کے کہ تماشائی نیرنگ قسمت بنا رہوں، کچھ بن نہیں آتی- دیکھو کیا صورت پیدا ہوتی ہے-
ظالم نے کیا غضب کا شعر کہا تھا-

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

اب دن رات یہی پڑھا کرتا ہے- شعر کا مطلب اب کھلا ہے- اس سے اچھا شعر کہیں سنا ہو تو بتلاؤ- اب جو تم کو دوست صادق جانا تو حقیقت لکھتا ہوں کہ اس سے اچھا شعر کبھی سنا نہ پڑھا-

    لو اب تم چاہو بیٹھے رہو، چاہے جاؤ اپنے گھر، میں چلا خسروؔشیریں کے دربار روداد سنانے- اہل گزرگاہِ خیال کو میری دعا کہہ دینا- جو شریک گزرگاہِ خیال ہے وہ شریکِ غالبؔہے- پروردگار اس مجمع کو سلامت رکھے-

    تمہاری یاد آوری کا ممنون ،مزید التفات کا طالب

    غالبؔ

    مرزا اسداللہ خان غالبؔصاحب!

ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

ہم آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا- آپ کے انداز بیان سے ہماری محفل مرقع نور بن گئی- سنیے-

خامہ فرسائی کا ذوق خط کے جواب  کی امید کا محتاج نہیں-

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوح ؔغم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

اس نکتے کی تشریح کے واسطے محبانِ غالبؔ آ جمع ہوئے-  بسلسلۂ غالبؔفہمی گزرگاہِ خیال فورم  کا اکیسواں ماہانہ علمی و ادبی مباحثہ بعنوان "ذوقِ خامہ فرسا"  بمقام ‘‘علامہ ابن حجر لائبریری، دوحہ، قطر ’’ پر منعقد ہوا چاہتا ہے، پرستارانِ غالبؔ ، مرزا  نوشہ کی غزل

گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

آئینہ دیکھ، اپنا سا  منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

پر گفتگو کرنے آ موجود ہوئے-  

    گزرگاہِ خیال فورم کے رابطہ سیکریٹری، اچھی شاعری کے رسیا جناب روئیسؔ ممتاز ناظم کی نشست سنبھالے بیٹھے ہیں- جناب روئیسؔ پڑھے لکھے، نفیس اور علم جو انسان ہیں جو اردو زبان سے فطری محبت رکھتے ہیں-

     مسندِ صدارت پر انڈیا  اردو سوسائٹی کے بانی و صدر، شاعرِ خلیج، جلیلِ دکن  جناب جلیلؔاحمد نظامی جلوہ افروز ہیں- جناب جلیلؔ نظامی ممبئی میں ایک عالمی مشاعرے میں قطر کی نمائندگی کر کے لوٹے ہیں، جس کی صدارت فلمی اداکار نصیر الدین شاہ نے کی تھی- مرزا صاحب سن لیجیے، یہ وہی نصیر الدین شاہ ہیں، جن کو 'مرزا غالبؔ ٹی وی سیریل' میں آپ کا کردار نبھانے کا شرف حاصل ہے- کئی لوگ  جناب نصیر الدین شاہ کو ہی غالبؔ سمجھتے ہیں- اس سے پہلے کہ آپ پوچھیں کہ 'ٹی وی سیریل' کیا ہے تو عرض کر دوں کہ 'سیریل' کو تمثیل سمجھ لیجیے، 'ٹی وی' جانے دیجیے، یہ ذرا مشکل ہو گا- اسے پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں-

    واپس آتے ہیں آج کے مذاکرے کے صاحبِ صدارت جناب جلیلؔنظامی کی طرف- آج کے شاعری کے انحطاط کے دور میں جہاں ہزاروں شاعر اردو زبان کی گردن پر مشقِ ناز کر رہے ہیں اور زبان اور ادب کو نا قابل تلافی  نقصان پہنچا رہے ہیں وہاں جلیلؔنظامی جیسے  نابغۂ روزگار شاعر کی شاعری اہلِ ذوق و نظر کے لیے کسی نعمت اور کرامت  سے کم نہیں- ان کا کلام سخن فہموں اور شاعر شناسوں کو چونکا دیتا ہے- جناب جلیلؔ نظامی بغیر کسی موازنہ کے خلیج کے سب سے بڑے اردو شاعر ہیں-  

    آج کی تقریب کے مہمانِ خصوصی ایک 'الگ' طرز کے سخنور، قطر کی قدیم ترین تنظیم بزمِ اردو قطر کے جنرل سیکٹری، گزرگاہ خیال فورم کے نائب صدر جناب افتخار راغبؔہیں، جن  کا رنگِ شعر خاص ادا رکھتا ہے۔ شاعری میں  زبان و بیان پر انھیں قدرت ہے اور شعری عیوب و محاسن پر گہری نظر۔ اور عروض کے ماہر ہیں۔ مہمانِ اعزازی گزر گاہِ خیال فورم کے خازن جناب رضوان علی، کلام غالبؔ کے دلدادہ اور غالبؔکے طرفدار، اردو ادب سے گہری محبت رکھنے والے ہیں-

    اجلاس کا آغاز  قرآن کریم کی آیاتِ مبارکہ کی تلاوت  سے ہوا - حسبِ  روایت  غالبؔکی زیرِ بحث غزل کو  جناب جلیلؔاحمد نظامی  نے اپنے دلکش ترنم سے حاضرین کی خدمت میں پیش کر کے ایک ایک شعر پربھرپور داد وصول کی- جناب جلیلؔ غالبؔ کی ہر غزل کو انتہائی اہتمام کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور اس بات کا کما حقہ خیال رکھتے ہیں کہ ہر غزل ایک نئی طرز اور اچھوتے انداز بیاں کی حامل ہو اور اپنے دلنشیں ترنم سے آمدِ فصل بہاری کی نوید ہو-
             
    اس مذاکرے میں جناب عبدالمجید، ڈاکٹر توصیف ہاشمی، جناب اسداللہ، جناب افتخار راغبؔ، جناب مظفر نایابؔ، جناب رضوان علی، قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم بزمِ اردو قطر کے سر پرست جناب سید عبدالحئی، گزر گاہِ خیال فورم کے بانی و صدر ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ، جناب روئیسؔ ممتاز، جناب جلیلؔ نظامی، اور انڈو قطر اردو مرکز کے بانی و صدر جناب سلیمان دہلوی نے  شرکت کی- ان صاحبان نے مرزا کی  غزل کے  اشعار پر تبصرہ اور تنقید کھل کر پیش کی- غالبؔ کے کلام کی گہرائی کو سمجھنے اور اس میں فکر کو پانے کی خوب سعی کی- غزل کے مطلع

گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

پر گفتگو ہوئی- پہلے مصرع میں 'شوق' کی جگہ 'عشق' بھی استعمال ہو سکتا تھا، تاہم 'شوق' میں جو وسعت ہے وہ 'عشق' میں نہیں- کیونکہ 'شوق' میں صرف جذبہ، اضطراب اور جوش ہی نہیں بلکہ حسرت و یاس بھی شامل ہے- یہ ایک اضافی عنصر ہے جو 'شوق' کو 'عشق' سے وسیع المعنی بنا دیتا ہے- 'شوق' میں جوش کے پہلو کے ساتھ ٹھاٹھیں مارتی حسرتوں کا بیان بھی ہے- شعر کا مفہوم ہے کہ دل اگرچہ اپنے اندر بہت جگہ رکھتا ہے، لیکن شوق کی شدت کا یہ عالم ہے کہ اسے دل کی سی کشادہ جگہ بھی تنگ معلوم ہوتی ہے- دوسرے مصرع کی بات یوں ہے کہ دریا موتی میں غرق ہو گیا، لیکن دریا کا تلاطم موتی میں نہیں سما سکتا- گہر میں وسعت سہی، پر اسقدر نہیں کہ وہ دریا کی شدت کو اپنے اندر جذب کر لے- 'محو' کے معانی ایک کیفیت کے اور غرق ہونے کے ہیں- ایک متبادل معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ موتی میں دریا کا اضطراب تو سما سکتا ہے، لیکن شوق دل میں نہیں سما سکتا- ایک مختلف بات لیکن اس تشبیہ کو استعمال کرتے ہو ئے دیکھیے شاعر مشرق کا کہتے ہیں-


فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

اس غزل کے دوسرے شعر

یہ جانتا ہوں کہ تو  اور  پاسخِ مکتوب
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

میں غالبؔ نے اپنے خاص انداز بیان کا اظہار کیا ہے- اس شعر کی تشریح مرزا کے اس شعر سے ہو جاتی ہے-

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

تیسرا شعر

حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا

سیدھا مفہوم ہے کہ بہار کا وجود خزاں کے آنے کا اعلان ہے- عیش دنیا بہار ہے اور کلفتِ خاطر کا تعلق خزاں سے ہے- بہار عارضی ہے اور خزاں کو دوام حاصل ہے- یہ شعر غالبؔکے اعلیٰ تخیل کا ثبوت ہے- لفظوں کے تانے بانے ایسے ہیں کہ پڑھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے- بہار کو خزاں کی مہندی کہنا صرف مرزا ہی کا خاصہ ہو سکتا ہے- حنا کا رنگ چونکہ بہت جلد مدھم پڑھ جاتا ہے، اور پاؤں کی مہندی کا رنگ ہاتھوں کی نسبت جلد چھوٹتا ہے، اس لیے مرزا کی اس نادر تشبیہ میں کاروبار ہستی سے متعلق جامعیت موجود ہے جس میں آفاقیت کا پہلو اس شعر کو لافانی بنانے کے لیے کافی ہے- تکنیکی اعتبار سے 'دوام' کو اضافت کے بغیر بھی پڑھا جا سکتا ہے- اسی طرح پہلے مصرع میں 'اگر' کا الف ضم ہو رہا ہے- 'گر' بھی کہا جا سکتا تھا-

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

اگلا شعر

غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہائے بے جا کا
کو پڑھتے ہی جناب جلیلؔ نظامی نے کہا کہ یہ شعر نفسیات سے تعلق رکھتا ہے، اور عدیم ؔہاشمی کے اس شعر سے اپنی بات کی تمہید باندھی

بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ
شجر پہ بیٹھے پرندے اڑا دئیے میں نے

انسان کی ذہنی کیفیت ہی خوشی اور غم کی اساس ہے- سادہ سا نفسیاتی پہلو ہے کہ تکلیف میں کچھ بھلا  معلوم نہیں ہوتا اور خوشی کے عالم میں بری چیز بھی کچھ بری نظر نہیں آتی- گلوں کا کھلنا بے موقع نہیں ہوتا- بقول اسلمؔ لکھنوی

عجیب اسلمؔ کی ہے طبیعت، ملی ہے غنچوں کی ان کو فطرت
خوشی ہے تو مسکرا رہے ہیں، الم ہے تو مسکرا رہے ہیں

 غالبؔ نے یہاں واحد متکلم 'مجھے' کہہ کر یہ واضح کر دیا ہے کہ مجھے پھولوں کی ہنسی، یعنی ان کا کھلنا پسند نہیں آتا کیونکہ میں غم ہجر کا مارا ہوں- ایک اور جگہ مرزا یوں گویا ہیں-  

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

مولانا حالی? کے مطابق " خندۂ گل کو خندۂ بے جا اس لیے کہا  کہ وہ کچھ سمجھ کر یا ازراہ تعجب نہیں ہنستا، پس گویا اس کا خندہ بے محل ہے-"  بے دماغی اور لا تعلقی کی کیفیت شجاع خاور مرحوم  نے کس جدت کے ساتھ بیان کی ہے- کہتے ہیں

سامان میرا عرش بریں پر پڑا رہا
میں بد دماغ اور کہیں پر پڑا رہا

اس غزل کا پانچواں شعر
ہنوز محرمیِ حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا

تصوف کا شعر ہے- شوق کے عالم کے بیان میں حد درجہ مبالغہ آرائی ہے- حسن کی حقیقت کو پانے کے لیے بصیرت درکار ہے جبکہ پہلے مصرع میں 'محرم' کا تعلق بصارت سے ہے- سادہ لفظوں میں مشکل شعر ہے جس کی تشریح کرنا ایک بہت بڑے موضوع پر خامہ فرسائی کی صلا ہے-

اگلے شعر

دل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے، دے بیٹھے
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا

میں 'تقاضا' قافیے کی مجبوری کے تحت باندھا گیا ہے جو محاورے کی رو سے درست نہیں- 'تقاضے' ہونا چاہیے تھا- پہلے مصرع میں یہ بات کچھ الجھن کا سبب ہے کہ عاشق کا محبوب  کو 'ناز و ادا' سے دل دینا کیا معنی رکھتا ہے- ناز و ادا تو محبوب کے ساتھ مخصوص ہے- شعر میں اگرچہ اس کے برعکس محسوس ہوتا ہے لیکن اس کا تعلق بھی محبوب کے نازو ادا سے ہے، عاشق کے نہیں-

    یہاں پر جناب سلیمان دہلوی، جن کو سحر طرازی میں مہارت حاصل ہے،  نے خواتین کی نفسیات پر اپنے وسیع تجربات کی روشنی میں  دل افروز 'نکتہ سرائی' کی کوشش کی، انھیں بروقت روک کر حاضرین نے اپنی اور ان کی عاقبت سنوار لی، ورنہ  ایسے  موضوعات پر جناب دہلوی کی آتشِ سوزاں کی حرارت سے بالِ عنقا بھی جل جاتا ہے-

غزل کے آخری شعر

نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے
مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا
 یہاں ' جمع و خرچ' سے مراد دریا کی اوقات ہے- شعر کے معنی یوں صاف ہیں، اور بظاہر کوئی پیچیدگی دکھائی نہیں پڑتی-

غزل کا مقطع

فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اْس کو یاد اسدؔ
جفا میں اس کی ہے انداز کارفرما کا

آسان فہم ہے- 'کار فرما' سے مراد محبوب  ہے-

لیجیے اب دوسری غزل جس میں صرف دو شعر ہیں سن لیجیے-

آئینہ دیکھ، اپنا سا  منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا

پہلے شعر میں کیا خوب طنز ہے کہ محبوب جس کو دعویٰ تھا کہ وہ کسی پر عاشق نہیں ہو سکتا، یوں شرمندہ ہوا کہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر خود پر عاشق ہو گیا- یعنی خود پر فریفتہ ہو کر اپنا غرور توڑ بیٹھا-

دوسرے شعر میں بے انتہا رشک کا پہلو ہے کہ عاشق کو یہ بھی گوارا نہیں کہ قاصد کو محبوب کے ہاتھ سے قتل ہونے کی 'سعادت' ملے-

لیجیے خدا خدا کر کے غزل تمام ہوئی- مظفر نایابؔ اپنی تضمینی غزل کے ساتھ حاضر ہیں- دیکھیے اس بار وہ کیا لائے ہیں-

اگر ہے باعثِ راحت خیال عُقبٰی کا
’’دوام کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا‘‘

جنونِ شوق کی راہیں  جو ہو گیئں  مسدود
’’گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگ جا کا‘‘

عدو کو دیکھا تو یاد آگیا رفیق مجھے
’’جفا میں اس کی ہے انداز کارفرما کا‘‘

لہولُہان ہوئے زخمِ دل مرے نایابؔ
لہو لہو کوئی منظر ہو جیسے غزّہ کا

    ہر بار کی طرح خوب کلام کہا ہے جناب نایابؔنے- محنت اور لگن ہر لفظ میں نظر آتی ہے- حالات حاضرہ پر بھی نظر ہے اور غالبؔکی کلاسیکی شاعری سے رشتہ بھی جوڑے ہوئے ہیں- جناب نایابؔ کے مصرع ' عدو کو دیکھا تو یاد آگیا رفیق مجھے' سے مجھے حالیؔ کے دو مشہور زمانہ شعر یاد آ گئے- سنیے-

صحرا میں کچھ بکریوں کو قصاب چراتا پھرتا تھا
دیکھ کے اس کو سارے تمھارے آ گئے یاد احسان ہمیں
سر تھے وہی اور تال وہی پر راگنی کچھ بے وقت سی تھی
غل تو بہت یاروں نے مچایا  پر گئے اکثر مان ہمیں

جناب افتخار راغبؔاپنی تضمینی غزل پیش کیجیے-
کیا فرمایا، نہیں لکھی؟
مگر کیوں؟
اس بار فرصت نہ مل سکی- اگلی بار غزل لکھنے کا وعدہ کرتا ہوں-
پر مرزا جو غزل کو پوچھیں تو کیا کہوں ؟
اگلے ماہ غزل ضرور پیش کروں گا-
"کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک"
کیا مطلب؟
یہ مصرع یونہی زبان پر آ گیا مطلب کچھ بھی نہیں-

ناظمِ مذاکرہ جناب روئیسؔ ممتاز نے باری باری مہمان اعزازی جناب رضوان علی، مہمان خصوصی جناب افتخار راغبؔ، اور صدر نشست جناب جلیلؔ نظامی کو اپنے تاثرات پیش کرنے کی گزارش کی- تینوں صاحبان نے گزرگاہِ خیال کے ان مباحثوں کو ایک بہت بڑی علمی خدمت قرار دیا اور غالبؔ فہمی کی نششتوں کی افادیت کے مختلف پہلووں پر پر اثر گفتگو کی-

  یوں غالبؔفہمی کا یہ مذاکرہ اپنے اختتام کو پہنچا- لیکن ٹھہریے، ابن حجر لائبریری کے کارکن جناب ایوب کچھ کہنا چاہتے ہیں-
اچھا، کہنا کچھ نہیں-
لذتِ کام و دہن کا اہتمام ہے، اور اس کی دعوت دے رہے ہیں-
جناب ایوب شکریہ- آیئے صاحبان-

سب احباب کا شکریہ اور خاص طور پر اس مذاکرے کے ناظم جناب روئیسؔ ممتاز کا- جناب روئیسؔ ممتاز کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت اردو ادب اور با لخصوص شاعری کے باب میں مزید جاننے اور پڑھنے کے مشتاق دکھائی دیتے ہیں- یہ شوق اور یہ جستجو قابلِ تحسین ہے- آ پ نے ایک بار گزرگاہِ خیال فورم پر ایک دلچسپ سوال پوچھا : "میں نے داغؔ دہلوی اور خمارؔ بارہ بنکوی دونوں کو پڑھا ہے- مجھے خمار کی شاعری زیادہ پسند آئی، آپ کی رائے کیا ہے؟ دونوں نے خالص شاعری کی، کیا دونوں کا موازنہ ممکن ہے؟"

اس سوال کے نتیجہ میں کار آمد علمی بحث ہوئی- میری خامہ فرسائی شاید آپ کی تفنن طبع کا باعث ہو، کچھ اقتباسات نقل کیے دیتا ہوں- غالبؔ پر بحث کے بعد داغؔ کی گفتگو زبان کا ذائقہ خوب بدلے گی-

جلنے لگتی ہے زباں کہتے ہی داغؔ
اف نکل جاتی ہے میرے نام پر

محترم روئیسؔممتاز صاحب،

بد قسمتی سے میں نے خمارؔ بارہ بنکوی کو زیادہ نہیں پڑھا، ان کی شاعری کے مجموعی تاثر کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کرسکتا - البتہ انکی چند غزلیں جو میری نظر سے گزری ہیں لاجواب ہیں-  جہاں تک داغؔ کا تعلق ہے تو میری رائے میں داغؔ  کا موازنہ کسی بھی دوسرے شاعر سے نہیں کیا جا سکتا, اگرچہ داغؔ کا موازنہ ان کے ہمعصر شعراء بالخصوص امیرؔمینائی سے کیا جاتا ہے- دورِ متاخرین میں دہلی کے نمائندہ شاعر صرف داغؔ ہی تھے- انکے کلام کے سامنے انکے تمام ہمعصر شعراء اور اساتذہ لکھنؤ کا کلام پھیکا پڑ گیا- داغؔ کے دور میں اور انکے بعد کے دور میں ہر ممتاز شاعر کے کلام میں داغؔ کی جھلک دکھائی دیتی ہے-شعوری یا غیر شعوری طور پر ، اس زمانے کے ہر شاعر نے داغؔ کی کسی حد تک تقلید کی ہے- امیرؔ مینائی تک نے داغؔ کا رنگ اختیار کیا- جلیلؔ، اکبرؔ، جلالؔ، بیخودؔ، سائلؔ،نوحؔ،  اقبالؔاور ان کے بعد جوشؔ، جگرؔ، فراقؔ، حفیظؔ وغیرہ، داغؔکی تقلید سے نہیں بچ پائے- داغؔ کے معاصرین میں شعراء  لکھنؤ کے علاوہ صرف حالیؔ واحد شاعر ہیں جن پر داغؔ کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا اور وہ اپنی ایک مکمل الگ شناخت کے ساتھ جلوہ افروز ہیں -

داغؔ نے اپنے مخصوص انداز سے اپنی انفرادیت اس طرح سے قائم کی ہے کہ کسی بھی شاعر کا کوئی شعر جس میں داغؔ کی تقلید ہو، سن کر سخن فہم چشم زدن میں پہچان لیتے ہیں کہ یہ مکتبِ داغؔکا شعر ہے- روز مرہ، لطفِ زبان، سادگی، بے ساختگی، شوخی، حسن و عشق کی چاشنی، معاملہ  بندی اور بے نیازی داغؔ کے کلام کی چند ایسی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے داغؔ کو اپنے بہت سے پیشروؤں، معاصرین اور بعد میں آنے والوں پر فوقیت حاصل ہے-

قناعت آپ کو ہوتی نہیں کسی شے پر
یہ کیا کہ دل کبھی لینا کبھی جگر لینا
ہمیں تو شوق ہے بے پردہ تم کو دیکھیں ہم
تمہیں ہے شرم تو آنکھوں پہ ہاتھ دھر لینا

ہزاروں شعراء  نے داغؔ کی تقلید کی لیکن اس سے وہ داغؔ کے رنگ کو مزید چمکا نہیں سکے کیونکہ داغؔنے اپنے انداز اور رنگ کو اس نقطۂ کمال تک پہنچا دیا تھا کہ مزید ترقی کی گنجائش ہی نہیں رہی تھی- اس لیے میری رائے میں کوئی بھی شاعر اس قابل نہیں کہ اس کا موازنہ داغؔ سے کیا جائے- اور اگر ڈرامائی انداز میں کہوں تو داغؔکا موازنہ صرف ایک ہی شاعر سے کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے داغؔ خود!

آپ کی دلچسپی کے لیے علامہ اقبال کے کچھ اشعار پیش ہیں جو انہوں نے داغؔ کے بارے میں کہے تھے

گرم ہم پر جو کبھی ہوتا ہے وہ بت اقبال
حضرت داغؔ کے اشعار سنا دیتے ہیں
نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ نازاں نہیں ان پر
مجھے بھی فخر ہے شاگردیِ داغؔ سخنداں کا"

غالبؔ، داغؔ کی شاعری کو خوب سرہاتے تھے- حالیؔ  'یاد گارِ غالبؔ'میں رقم طراز ہیں کہ "ایک صحبت میں نواب مرزا خان داغؔ کے اس شعر کو بار بار پڑھتے تھے اور اس پر وجد کرتے تھے:

رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے

رات کے بارہ بجنے میں تھوڑی سی دیر ہے-  آج اکیسواں غالبؔ مذاکرہ تھا، اب تک مرزا کی تیس غزلوں پر گفتگو ہو چکی ہے- ۳۰۰ کے لگ بھگ غزلیں، قطعات اور قصاید باقی ہیں- غالب فہمی میں احباب گزرگاہ خیال نے اگرچہ معنی کے ستاروں پر کمند جا ڈالی ہے لیکن ان تیس غزلوں کا معاملہ تلخء کام و دہن کی آزمائش ہے، رگ و پَے میں  زہرِ غم  اترنا ہنوز باقی ہے، تب دیکھیے کیا ہو!
مرزا کا یہ شعر حسب حال ہے-

ہر چند سُبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں، تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

 اگلے ماہ کے سنگ گراں، غالبؔ کی اگلی غزل کو تیشۂ فرہاد سے سر کرنے کا عزم لیے سب اپنے گھروں کو ہو لیے-

روداد نگار:  ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ
بانی و صدر، گزرگاہ خیال فورم
دوحہ ، قطر


***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1098