donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mansoor Khushtar
Title :
   Syed Hamid Ki Shakhsiyat Hindustani Musalmano Ke Liye Thi Aik Azeem Sarmaya

 سید حامد کی شخصیت ہندوستانی مسلمانوں کے لیے تھی ایک عظیم سرمایہ: منصورخوشتر


 ماہرتعلیم سید حامد کے انتقال پردربھنگہ کی سرکردہ شخصیات کا اظہار تعزیت٭ المنصور ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے اظہار تعزیت


دربھنگہ ()انجمن ترقی اردو (ہند) کے سابق صدر ، جامعہ ہمدرد اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد کے انتقال پر المنصور ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے اظہار تعزیت اور مرحوم کے لئے دعاء مغفرت کی گئی ۔ مرحوم کے انتقال پر اپنے تعزیتی بیان میںپرمدیر دربھنگہ ٹائمس منصورخوشترنے کہا کہ  پروفیسر سید حامد کی شخصیت ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سرمایہ تھی۔ انہوں نے ایک سرپرست کی طرح بطور خاص ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم کے لیے جو کوششیں کی اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سید حامد مرحوم اپنی زندگی کی آخری پڑاؤ تک ملت کے تعلیمی فروغ کے لیے ہمہ تن کوشاں رہے۔جناب شاکر خلیق نے حامد صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سید حامد کی رحلت اگر ایک طرف ملت کیلئے عظیم خسارہ ہے تو دوسری طرف میرا ذاتی نقصان بھی ہے۔مرحوم سے میرے دیرینہ مراسم رہے ہیں جن دنوں وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر تھے اُن دنوں سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا اور ہم لوگ جب بھی ملے تو ملت کے زوال اور خاص طور پر تعلیمی پسماندگی پر تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ مرحوم دربھنگہ بھی تشریف لائے تھے اور مقامی صغرا گرلس ہائی اسکول میں یہاں کے خاص لوگوں ؎سے رو برو ہوئے تھے۔ اپنی طویل عمری کے باوجود انہوں نے تعلیمی محاذ پر آخری دم تک کام کیا اور ہمدرد فاؤنڈیشن کے ذریعہ نوجوانوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ مرحوم کے انتقال پر اظہار تعزیت کرنے والوں میں  ڈاکٹر عبدالوہاب، ڈاکٹراجیرالحق، نیاز احمد (سابق ایڈیشنل کلکٹر)، پروفیسر ضیاء الحق نظر، ڈاکٹر عبدالمنان طرزی، نورالہدیٰ نور کے نام قابل ذکر ہیں ۔ قابل ذکر ہے کہ پروفیسر سید حامد کا انتقال سوموار کو دہلی میں ہوگیاتھا ۔معلوم ہو کہ  سید حامد صاحب اتّر پردیش کے ضلع فیض آباد میں ۷ جنوری ۱۹۲۰ کو پیدا ہوئے تھے جہاں اْن کے والد ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے فیض آباد اور رام پور میں حاصل کی پھر انھوں نے مراد آباد کے گورنمنٹ انٹر کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی اے کیا،پھر انگریزی اور فارسی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۴۰ میں انھوں نے آئی اے ایس کا امتحان پاس کیا اور حکومتِ ہند کے کئی اہم محکموں اور وزارتوں میں اپنے فرائضِ منصبی انجام دیے۔ حامد صاحب ۱۸ مارچ ۱۹۸۸ کو انجمن ترقی اردو (ہند) کے صدر منتخب ہوئے اور پانچ سال تک اپنی ذمے داریوں کو بہ حسن و خوبی نبھایا۔حامد صاحب کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ انگریزی اصطلاحوں کو اردو جامہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ ان کی کتاب’نگار خانہ رقصاں‘ کی رسمِ رونمائی کی تقریب ۱۹۸۵ میں پروفیسر آلِ احمد سرور کی صدارت میں غالب اکیڈمی دہلی میں منعقد ہوئی تھی جس میں عہدِ حاضر کے ممتاز نقّاد شمس الرحمن فاروقی اور مظفّر حسین برنی صاحب نے بھی شرکت کی تھی۔سید حامد صاحب اعلا درجے کے نثر نگار کے ساتھ ساتھ بہت ہی اچھے اور سنجیدہ شاعر بھی تھے۔ ان کے درجِ ذیل اشعار آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں:زندگی وعدہ فراموش تھی، ٹھہری نہ ذرا٭موت پابندِ وفا ہے کہ جب آئی، نہ گئی


************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 615