donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Me Urdu Ki Taraqqi Ke Raushan Imkanat


بہارمیںاردو کی ترقی کے روشن امکانات

!

ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

Mob.-09431414586


    بہار میں نتیش کمار کی قیادت والی نئی حکومت ماضی کی بہ نسبت قدرے فعال نظر آرہی ہے۔ بالخصوص وزیر اعلیٰ نتیش کمار تمام محکموں کی جائزہ میٹنگ کے ذریعہ کچھ اس طرح کے بھی فیصلے کر رہے ہیں جس کی امید بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ مثلاً جس محکمے کی جائزہ میٹنگ ہوتی ہے اس میں محکمہ کے وزراء کے ساتھ دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود ہوتے ہیں اور فی الفور فیصلے لئے جاتے ہیں جس سے عوام الناس کو خاطر خواہ فائدہ مل رہا ہے۔ اسی سلسلے میں گذشتہ ۴ جنوری ۲۰۱۶ کو محکمۂ راج بھاشا اور کابینہ سکریٹریٹ کی جائزہ میٹنگ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی رہائش گاہ پر ہوئی جس میں اردو آبادی کے لئے ایک تاریخی اورخوش آئند فیصلہ بھی لیا گیا ہے۔ محکمۂ راج بھاشا کے ماتحت کام کرنے والی اردو ڈائرکٹریٹ کو ریاست میں اردو کے کاموں کو انجام دینے کے لئے اس کی ضروریات کے مطابق ڈپٹی ڈائرکٹر، دفتری عہدیدار، اردو مترجم، نائب اردو مترجم اور اردو ٹائپسٹوں کی بحالی کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ ریاست کے تمام اضلاع، سب ڈویژن، ڈویژن، بلاک، سرکل آفس کے ساتھ ساتھ محکمۂ پولس کے آئی جی، ڈی آئی جی، ایس پی، ڈی ایس پی اور تمام تھانوں میں بھی اردو عملے بحال کئے جائیں گے۔جس سے اردو زبان کا فروغ ہو سکے اوراردو آبادی کو روزگار کے مواقع مل سکیں۔ نتیش کمار نے یہ بھی فیصلہ لیا کہ وزیر اعلیٰ اور گورنر کے دفتر میں بھی اردو سیل قائم کیا جائے گاتاکہ وہاں اردو آبادی کے ذریعہ اردو میں آنے والی درخواستوں پر فوری کاروائی ہو سکے۔ واضح ہو کہ بہار میں ۱۹۸۰ء سے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اور کئی مرحلوں میں اردو مترجم، نائب مترجم اور اردو ٹاپسٹوں کی بحالیاں ماضی میں ہوئیں ہیں۔ لیکن جتنے نئے اضلاع، سب ڈویژن اور بلاک بنائے گئے ہیں وہاں اردو عملے کی پوسٹیں منظور نہیں ہیں۔ لہٰذا  دو  دہائیوں سے وہاں ایک بھی اردو عملے کی بحالی نہیں ہو سکی ہے۔ اب جبکہ وزیر اعلیٰ نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ تمام جگہوں پر اردو کے عملے بحال کئے جائیں گے تو کل ۲۲۹۵ مختلف عہدوں پر اردو والوں کی بحالی ممکن ہو سکے گی۔ بلاشبہ بہار میں اردو آبادی کے لئے یہ ایک تاریخی فیصلہ ثابت ہوگا، مگر شرط یہ ہے کہ اس پر عمل در آمد بھی جلد سے جلد ہو جائے۔ ایک خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ وزیر اعلیٰ نے اس کام کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جس میں محکمۂ داخلہ و اقلیتی فلاح و بہبود کے پرنسپل سکریٹری جناب عامر سبحانی ،کابینہ سکریٹری جناب برجیش مہروترا اور محکمۂ مالیات کے پرنسپل سکریٹری روی متتل کے ساتھ ساتھ اردو ڈائرکٹوریٹ راج بھاشا بہار کے ڈائرکٹر جناب امتیاز کریمی شامل ہیں۔ چونکہ جناب عامر سبحانی لسانی تحفظ کے پاسدار ہیں، اس لئے یہ امید بندھتی ہے کہ اردو کے یہ دیرینہ مسائل جلد از جلد حل ہوں جائیں گے کہ وزیر اعلیٰ کی بھی اس پر خصوصی توجہ ہے۔ اس فیصلے کے ساتھ اردو ڈائرکٹریٹ کو بھی ایک خود مختار ادارہ بنانے کا فیصلہ لیا گیا ہے تاکہ اردو کے متعلق جتنے بھی کام ہوں وہ اسی ڈائرکٹریٹ کے ذریعہ انجام پائیں۔ دریں اثنا اردو مشاورتی کمیٹی بہار کی مورخہ ۵ جنوری ۶ ۲۰۱ کی میٹنگ میں بھی یہ فیصلہ لیا گیا ہے کہ اردو تعلیم کے جو دیرینہ مسائل ہیں اس سے بھی وزیر اعلیٰ کو آگاہ کیا جائے گا تاکہ تعلیمی شعبے میں اردو کی تعلیم کا معقول انتظام ہو سکے۔ بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اردو کے لئے بہت ایسے کام ہونے باقی ہیں جن پر عمل در آمد انتہائی ضروری ہے۔ مثلاً بہار میں کل ۲۲۵ سرکاری ملحق ڈگری کالج ہیں ان میں ۸۳   ایسے کالج ہیں جہاں اردو کی پڑھائی محض اس لئے نہیں ہو پارہی ہے کہ وہاں اردو کی پوسٹیں منظور نہیں ہیں۔ جب تک حکومت ایک ساتھ ان تمام کالجوں میں اردو اساتذہ کے لئے عہدوں کی منظوری نہیں دیتی ہے اس وقت تک اردو تعلیم ممکن نہیں۔ لہٰذا اردو مشاورتی کمیٹی بہار جو ایک سرکاری ادارہ ہے اور اس کا کام حکومت کو اردو کے معاملے میں مشورہ دینا ہے اس کے ذریعہ اردو اساتذہ کی پوسٹوں کی منظوری کے سلسلے میں لیا گیا فیصلہ بھی اردو آبادی کے لئے خوش آئند ہے۔ بلاشبہ جب تک پرائمری سے لے کر اعلیٰ سطح تک اردو کی تعلیم کا معقول انتظام نہیں ہوگا اس وقت تک اردو زبان کو فروغ نہیں مل سکتا۔بہرکیف، وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اس جائزہ میٹنگ میں یہ بھی ہدایت دی ہے کہ تمام سرکاری قوانین، قواعد وضوابط اور اطلاعات اور سرکاری احکامات کو اردو زبان میں بھی شائع کیا جائے۔ تمام سرکاری اشتہارات اردو میں بھی شائع ہوں اور اردو ڈائرکٹریٹ کے ملازمین کے لئے سروس کوڈ بھی متعین کئے جائیں تاکہ اردو ملازمین کا کیڈر دستور العمل کے مطابق ہو۔قابل ذکر ہے کہ اب تک اردو ملازمین کا کیڈر واضح نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان کے پرموشن بھی نہیں ہو پارہے ہیں، جس کا خسارہ اردو ملازمین کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اب جبکہ حکومت کی جانب سے ہی اردو کے مسائل کو حل کرنے کی پہل ہو رہی ہے تو اردو کے دیرینہ مسائل کے حل ہونے کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سارے فیصلے عملی صورت کب تک اختیار کرتے ہیں کیونکہ اردو آبادی کو اپنے ان مسائل کے حل ہونے کا برسوں سے انتظار ہے۔


    سرکاری سطح پر جو بھی فیصلے ہوں لیکن اردو زبان کے فروغ کا انحصار تو اس کی تعلیم اور اس کے استعمال پر ہی منحصر ہے اور اس کے لئے اردو آبادی کو بیدار ہونا ضروری ہے ۔کیونکہ اس سچائی سے تو ہم انکار نہیں کر سکتے کہ حالیہ دنوں میں اردو آبادی بھی اردو کے تئیں بے توجہی کی شکار ہے۔ ہماری نئی نسل اردو تعلیم سے نا بلد ہوتی جارہی ہے ۔ کل تک جس گھرانے کی پہچان اردو سے تھی وہاں بھی اردو کے چراغ غل ہوتے جارہے ہیں کیونکہ ان کے بچے اردو لکھ پڑھ نہیں رہے ہیں۔ہمیں اس حقیقت سے بے خبر نہیں رہنا چاہئے کہ دنیا کی کوئی بھی زبان صرف اور صرف سرکاری مراعات پر ہی زندہ نہیں رہتی بلکہ اس زبان کے بولنے والے اپنی زبان میں لکھتے پڑھتے بھی ہیں اور اس کے استعمال کے تئیں بیدار بھی رہتے ہیں۔ مثلاً ان دنوں اردو آبادی بھی اپنے بچوں کی شادی کے کارڈ انگریزی میں طبع کرانا اپنی شان سمجھتے ہیں، تاجر حضرات اپنی دکانوں کے سائن بورڈ اور دانشور طبقہ اپنے ناموں کی تختیاںو لیٹر پیڈ وغیرہ اردو رسم الخط میںلکھنا معیوب سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر اگر اردو آبادی ذرا سنجیدہ ہو جائے تو اردو کے چلن کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ سرکاری دفاتر مثلاً اضلاع، سب ڈویژن، ڈویژن اور بلاک دفاتر سے طرح طرح کی اسناد حاصل کی جاتی ہیں۔ بالخصوص ہمارے طلبہ ذات اور آمدنی کے اسناد کے لئے درخواست دیتے ہیں، لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ اردو آبادی بھی ہندی یا دیگر زبانوں میں ہی درخوستیں دیتی ہیں۔ جب تک ہم سرکاری دفاتر میں اردو میں درخواستیں داخل نہیں کریں گے اس وقت تک وہاں اردو مترجم، نائب مترجم اور ارد وٹائپسٹ کی ضرورت کیوں کر ہوگی؟ اس لئے اردو آبادی کو ان امور پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ صرف اور صرف ہمیں سرکاری مراعات کے مطالبوں پر زور صرف کرتے رہنا ہے۔ سرکاری مراعات مل بھی جائیں مگر ہم اردو والے اس سے استفادہ نہ کریں تو اردو زبان کا فروغ کیسے ممکن ہوگا؟ اس پر بھی متحد ہو کر غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 558