حالی اور شبلی تقابلی ادب کے دو اہم ستون تھے
ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام سہ روزہ قومی صدی سمینار کے دوسرے دن مقررین کا اظہار خیال
نئی دہلی، حالی اور شبلی تقابلی ادب کے دو اہم ستون تھے۔ حالی نے اردو کی غزلیہ شاعری کو زوال سے بچایا اور شبلی نے تاریخ نگاری کے شعور کو عام کیا۔ حالی نے مشرق کی صحت مند روایت کو فروغ دیا اور شاعری میں اخلاقی عنصر کی بحالی پر زور دیا۔ غالب کی باضابطہ ڈسکورس کا آغاز ’یادگارِ غالب‘ ہی سے ہوتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر شافع قدوائی نے ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام سہ روزہ قومی صدی سمینار کے دوسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ حالی اور شبلی کی عظمت کا اعتراف آج بھی پوری ادبی دنیا کرتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حالی اور شبلی کی ادبی خدمات کے نئے گوشوں کو اجاگر کیا جائے۔ اس اجلاس میں پروفیسر مولابخش نے ’اردو میں تھیوری کا آغاز اور حالی‘، ڈاکٹر سیفی سرونجی نے ’حالی ایک ہمہ جہت شخصیت‘ اور ڈاکٹر وسیم راشد نے ’شبلی بحیثیت مؤرخ‘ کے عنوان سے اپنے مقالات پیش کیے۔
دوسرے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے علی احمد فاطمی نے کہا کہ حالی اور شبلی نے انیسویں صدی میں شعریات و جمالیات پر جو بحثیں کی ہیں ان کا آج تجزیہ کیا جانا ضروری ہے۔ اس اجلاس میں پروفیسر ارتضیٰ کریم نے ’مجالس النسا : ایک تنقیدی جائزہ‘، ڈاکٹر منظر اعجاز نے ’اردو شاعری کے مجدد حالی‘ اور ڈاکٹر ابوبکر عباد نے ’شبلی کی شخصیت کے قدرے پوشیدہ پہلو کا غیرروایتی مطالعہ‘ کے عنوان سے اپنے مقالے پیش کیے۔ تیسرے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ حالی ایک بڑے ویژن کے شاعر و ادیب تھے۔ انھوں نے اصلاحی شاعری کو فروغ دیا جس کی جڑیں آج بھی مضبوط نظر آتی ہیں۔ اس اجلاس میں عزیز پریہار نے ’انیسویں صدی کے حالی : چند اہم تنقیدی تصورات‘، رضا حیدر نے ’حالی کا مرثیۂ غالب‘ اور حسن رضا نے ’حالی کی رباعیاں‘ کے عنوان سے اپنے مقالات پیش کیے۔
چوتھے اجلاس کی صدارت نظام صدیقی نے کی۔ انھوں نے اپنے صدارتی تقریر میں کہا کہ حالی کی تنقیدی فکر کو نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس اجلاس میں علی احمد فاطمی نے ’شاعر دانشور شبلی نعمانی‘، شہزاد انجم نے ’حالی کی عشقیہ شاعری‘ اور اجے مالوی نے ’حالی کی قطع نگاری‘ کے عنوانات سے اپنے مقالے پیش کیے۔ آخر میں اکادمی کے پروگرام آفیسر مشتاق صدف نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کے ساتھ دہلی اور قرب و جوار کی متعدد علمی و ادبی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔
(مشتاق صدف)
|