donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Nishat Ahmad Siddiqui
Title :
   India Urdu Society Ke Zere Ehtemam Mahana Sheri Nishist


انڈیا اردو سوسائٹی ، قطر  کے زیر  اہتمام  ماہانہ شعری نشست

    بتاریخ ۲۷؍ فروری ۲۰۱۵؁ء  رات نو بجے، نئے سال کی دوسری ماہانہ شعری نشست حسب سابق مدینہ خلیفہ میں جناب جلیل نظامی کی رہائش گاہ  ’جلیل منزل‘  پرمنعقد ہوئی۔ اس نشست کی سب سے منفرد خصوصیت یہ رہی کہ اس میں ہندوستان  سے تشریف لائے دو معزز مہمان بھی شریک ہوئے۔  ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے مبارک کاپڑی صاحب  (مہمان خصوصی) جن کا نام محتاج تعارف نہیں ہے ، اور دوسرے شاہین اسکول ، بیدر کے بانی اور سربراہ جناب عبد القدیرصاحب  (مہمان اعزازی)جنھوں نے تعلیم کے میدان میں اپنے تجربات  سے حاضرین محفل کو روشناس کرایا۔

     ’ انڈیا اردو سوسائٹی ‘ کے بانی نائب صدر جناب عتیق انظر نے پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے دوحہ کی ایک سینئر شخصیت اور ’ انڈیا اردو سوسائٹی ‘ کے سرپرست جناب ظفر صدیقی کو اس ماہانہ شعری نشست کی صدارت کے لئے اسٹیج پر تشریف لانے کی دعوت دی، جناب محمد فاروق ندوی کی خوبصورت تلاوت قرآن کے ساتھ نشست کا مبارک آغاز ہوا ۔  تلاوت کلام پاک کے بعد نعت شریف پیش کرنے کے لئے شاعر خلیج جناب جلیل نظامی کو آواز دی گئی جنہوں نے اپنی پرسوز آواز، اور مرصع کلام سے

ایک سماں باندھ دیا، نعت شریف کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:

اورنگِ  سلیمانی ،  اعجازِ  مسیحائی
دونوں کی فراوانی چوکھٹ نے تری پائی
یہ خاکِ  مدینہ ہے پلکوں پر سجا لیجے
بے نور سی آنکھوں میں آجائے گی بینائی
حلقے میں صحابہ کے یہ چاند کا ہالہ بھی
پل بھر کو اگر آوے کھو بیٹھے شناسائی
ہم خاک نشینوں سے تعظیم ہو کیا ان کی
خود عرش مکیں جن کی کرتا ہو پذیرائی
خواہش ہے جلیلؔ اتنی خلاق دوعالم سے
ہر حال میں کہلاؤں سرکار کا سودائی

    اس نشست کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی کہ دوحہ کے ادب دوست ایک نئے ناظم مشاعرہ سے روبرو ہوئے:

گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    فیض کے اس مشہور شعرکے ساتھ عتیق انظر صاحب نے  جناب حسیب الرحمن ندوی کو نشست کی نظامت کے لئے مدعو کیا۔ دوحہ میں علم وادب سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان حسیب الرحمن ایک معروف نام ہے ، اردو اور عربی زبانوں کی ادبیات پر گہری نظر کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان وادب سے استفادہ کی صلاحیت سے مالامال حسیب صاحب دار العلوم ندوۃ العلماء اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں اور دوحہ کی علمی وادبی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ٓپ نے  نظامت  کے فرائض ادا کیے، مندرجہ ذیل سطور میں شریک بزم شعراء کا منتخب اور پسندیدہ کلام قارئین کی ضیافت طبع کے لئے حاضر ہے:

( ۱ )  فیاض بخاری کمالؔ:

ایک طرفہ عشق سے کیا خاک ہو دل مطمئن
ہو شرارہ اِس طرف سوزِ جگر ہو اُس طرف
مضطرب دونوں طرف ہوں عاشق و معشوق یوں
بے قراری اِس طرف ہو چشم تر ہو اُس طرف

    اسی بحر میں کمالؔ صاحب نے ایک اور غزل پیش کی، اس کے بھی چند اشعار دیکھیں :

درد فرقت دور ہو ساغر اگر ہو اس طرف
ان کی آنکھوں کی خماری کا اثر ہو اس طرف
اب نہیں ہے تابِ سوزاں مبتلائے عشق کو
اے مری جانِ بہاراں اک نظر ہو اس طرف

( ۲ )  راشد عالم راشدؔ:

دل لگا کیا اس صنم سے ہر ستم سہنے لگا
بیشتر اپنوں میں ہی خود اجنبی رہنے لگا
الجھی زلفیں، بھیگی آنکھیں ، مضمحل سارا وجود
امتحاناً الوداع میں ان کو جب کہنے لگا

ہماری زندگی بے رنگ و بو ہے
چلے آؤ تمہاری جستجو ہے
تری خوشبو گلوں سے آرہی ہے
چمن میں گل نہیں بس تو ہی تو ہے

( ۳ )

مقصود انور مقصودؔ نے دو قطعات ، ایک نظم اور ایک غزل سے سامعین کی تواضع فرمائی ، پہلے نظم کا ایک بند ملاحظہ ہو، عنوان ہے  ’اے کاش کہ ایسا ہو جائے‘  :

اے کاش کہ ایسا ہو جائے
یوں ہوش ہمارا کھوجائے
ماضی کی چبھن نہ یاد رہے
احساس کا من برباد رہے
ہو مستقبل کیسا بھی مرا
اب حال کٹے جیسا بھی مرا
کچھ اچھے برے کا گیان نہ ہو
اس دل میں کوئی ارمان نہ ہو
اے کاش کہ ایسا ہو جائے

    شدت  احساس میں ڈوبی ہوئی اس نظم کے بعد مقصودؔ صاحب نے سانحئہ پشاور کے حوالے سے ایک مؤثر غزل پیش کی جسے سامعین نے بے حد پسند کیا ، کیوںکہ اس میں انکے جذبات ومحسوسات کی بھی ترجمانی تھی ، کلام کی تاثیر کو پرسوز ترنم نے دوبالا کردیا تھا:

پھول مسلے گئے  توڑ ڈالے گئے
اک دھواں سا اٹھا  اور اجالے گئے
آندھیاں نفرتوں کی چلیں اس طرح
امن کے پیڑ سب  کاٹ ڈالے گئے
عرش تھرا گیا اور زمیں ہل گئی
بوڑھے کاندھوں پہ جب بھولے بھالے گئے        

( ۴ ) افتخار راغبؔ نے اپنے کلام کا آغاز مہمانان مشاعرہ 

مبارک کاپڑی اور عبد القدیر صاحبان  کی

خدمت میں ایک شعر پیش کر کے کیا:

جتنا ہے ثمر جس پہ وہ اتنا ہے خمیدہ
پھلدار درختوں کی طبیعت ہی الگ ہے
کس کس کو بتاؤں کہ میں بزدل نہیں راغبؔ
اس دور میں مفہوم شرافت ہی الگ ہے

راغبؔ صاحب کی تازہ غزل سے چند شعر:

دن میں آنے لگے ہیں خواب مجھے
اس نے بھیجا ہے اک گلاب مجھے
گفتگو سن رہا ہوں آنکھوں کہ
چاہیے آپ کا جواب مجھے
کوئی ایسی خطا کروں راغبؔ
جس کا ملتا رہے ثواب مجھے

    شگفتہ رنگ میں غالبؔ کے اشعار پر تضمین راغبؔ صاحب کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے، اس رنگ
کے بھی چند اشعار ملاحظہ ہوں، پہلا مصرع راغبؔاور دوسرا غالبؔ کا ہے:

تھپڑ سے گال لال ہوا  ہوش اڑ گئے
’’ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا‘‘
غالبؔ سے میں نے سیکھی ہے اردو میں فارسی
’’لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا‘‘

( ۵ )  راغبؔ صاحب کی اس بھرپور شاعری کے بعد مشاعرے کی شمع نے جناب مظفر نایابؔ کا رخ کیا ، انھوں نے بھی ایک شعر مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا اور پھر اپنی خوبصورت غزل ِسے سامعین کو محظوظ فرمایا:

سرمایۂ حیات کے طالب ہو تم اگر
نکلو طلب میں علم کی نزدیک ہو کہ دور
تیری آنکھوں میں نگاہوں میں لہو کی بوندیں
جیسے تلواروں کی دھاروں میں لہو کی بوندیں
روز روشن کا مرے شہر میں دھوکہ مت کھا
دیکھ سورج کی شعاعوں میں لہو کی بوندیں
سبز منظر بھی تجھے سرخ لگے ہے ظالم
جم گئی ہیں تری آنکھوں میں لہو کی بوندیں
رونے والے ترے آنسو ہیں بہت ہی نایابؔ
اب اتر آئی ہیں اشکوں میں لہو کی بوندیں

(  ۶ ) جناب وزیر احمد وزیر ؔنے مشاعرے میں ایک تازہ غزل پیش کی، مصروفیت نے غزل کو مکمل نہ ہونے دیا، لیکن بغیر مقطع کی یہ غزل بھی وزیرؔ صاحب کے دل آویز ترنم سے ہم آہنگ ہو کر مزہ دے گئی:

خواہشوں کا کوئی پیمانہ بتا دو ہم کو
اور کیا دیں تمہیں نذرانہ بتا دو ہم کو
تم اکیلے نہیں کر سکتے تھے برباد ہمیں
کون تھا پشت میں بیگانہ  بتا دو ہم کو
ہر کہانی کا ہے عنوان تمہیں سے منسوب
جس کا محور نہ ہو افسانہ بتا دو ہم کو

 ( ۷ ) جناب کمال احمد بلیاوی،  دوحہ میں نسبتا نووارد ہیں ، بمبئی سے تعلق ہے، دوحہ آتے جاتے رہتے ہیں، اچھی شاعری کرتے ہیں اور مشاعرہ لوٹنے کے فن سے واقف ہیں، منتخب اشعار سے آپ بھی محظوظ ہوں:

کیوں نہ چہرے سے عیاں ہوتا جو دل میں راز تھا
جب مرا چہرہ مرے حالات کا غماز تھا
اس کی رسی ہاتھ سے جب تک نہ چھوٹی تھی کمالؔ
میں ہی تنہا اس خلا میں مائل پرواز تھا
یہ کیا ضروری ہے موسم حسیں وہاں بھی رہے
وطن سے دور وطن سا ہر اک مکاں بھی رہے
ہمارے ساتھ ہر اک شے رہی سدا لیکن
ترے بغیر مکمل نہ تھے جہاں بھی رہے
آج کے حالات کیا محشر بپا کرنے لگے
حکم صادر کرنے والے التجا کرنے لگے
اب کریں کس سے شکایت اپنے لٹ جانے کی ہم
رہزنی جب خود ہمارے رہنما کرنے لگے
دور ہی رکھنا خدا تو ہم کو ایسے دور سے
بندگی بندے کی جب بندہ ترا کرنے لگے
اس قدر خونِ جگر دے دو چراغوں کو کمالؔ
ان چراغوں کی حفاظت خود ہوا کرنے لگے

( ۸ ) کمال ؔ صاحب کے بعد مشاعرے کی شمع دوحہ کے ایک سرگرم ادیب و شاعر اور ادب نواز شخص کی طرف آئی، جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی دوحہ کی قدیم ترین ادبی تنظیم ’ بزم اردو قطر ‘  کے صدر ہیں اور یہاں کی ادبی و شعری محافل کی جان، منتخب اشعار پیش خدمت ہیں:

ہر ایک دوسرے کا اگر آئینہ بنے

اچھے برے کا خود ہی سراپا دکھائی دے
تو نے ہی جگنؤوں کو عطا کی ہے روشنی
چمکیں جو ایک ساتھ سویرا دکھائی دے

    شادؔ صاحب نے اپنی ایک قدیم طرحی غزل بھی سنائی ، مصرع طرح تھا ’ تو شاہیں ہے بسیرا کرپہاڑوں کی چٹانوں میں ‘

ہیں مضمر راز یہ اقبال کے سچے ترانوں میں
تھی ایسی بات ہی پیغمبری اگلے زمانوں میں
وہ عشق مصطفی میں مست ہو کر شعر کہتے تھے
یہ شئے ممتاز کرتی ہے انہیں دونوں جہانوں میں
جبین شاد خم ہے خالق کونین کے آگے
زبانیں تر ہیں جس کی حمد سے سب آستانوں میں

( ۹ ) عتیق انظرؔ صاحب ، انڈیا اردو سوسائٹی کے بانی نائب صدر اور فی الحقیقت  CEO  ہیں، ان کے دم قدم سے انڈیا اردو سوسائٹی ہی نہیں دوحہ کے گلشن شعر وادب میں بھی بہار ہے، آپ نے ایک شعر عبد القدیر صاحب کی نذر کیا اور ایک بھرپور غزل سے سامعین کی تواضع فرمائی:

انہیں ثمر کی تمنا  نہ چھاؤں کی خواہش
یہ لوگ پیڑ لگاتے ہیں  بھول جاتے ہیں
چھاؤں جتنی یہاں مل جائے غنیمت سمجھو
دھوپ کے شہر میں دیوار کو نعمت سمجھو
آنکھوں میں اشکوں کو اللہ کی برکت سمجھو
پھول صحرا میں کھلیں  اس کی عنایت سمجھو
دیکھ لیں آنکھ اٹھاکر تو محبت سمجھو
دیکھ کر آنکھ جھکا لیں تو قیامت سمجھو
دردِ دل سب کے مقدر میں کہاں ہوتا ہے
درد پر ناز کرو  درد کو دولت سمجھو
چاہیے  تھا مجھے کچھ اور سمندر سے سوا
چپ رہا میں تو اسے میری قناعت سمجھو
پیٹھ پر وار کیا کس نے  یہ میں جانتا ہوں
میری خاموشی کو تم میری مروت سمجھو

( ۱۰ )  انظرؔ صاحب کے بعد دوحہ کے سینیر ترین شاعر اور  ’انڈیا اردو سوسائٹی ‘  کے بانی صدر جناب جلیلؔ نظامی نے اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ فرمایا ، آپ نے دو غزلیں عنایت کیں ، دوسری غزل پاکستان کے نامور شاعر قاسمؔ پیرزادہ کی زمین  ’خون سے جب جلا دیا  ایک دیا بجھا ہوا‘  میں ہے۔

زہر سانپوں کا نہ اس درجہ نکالا جائے
بوجھ کچھ دودیے بچھو پہ بھی ڈالا جائے
تبصرہ بعد میں فرمائیں کمیں گاہوں پر
پشت سے پہلے مری تیر نکالا جائے
دل کی بستی میں ہوس باعث فتنہ ہے جلیلؔ
اس یہودی کو مدینے سے نکالا جائے
عزم میں آفتاب سا ایک دیا جلا ہوا
آندھی میں کیسے ڈٹ گیا ایک دیا جلا ہوا
ڈوبے ہیں تیرگی میں سب  طالب روشنی ہیں سب
ظلمت کدوں کی التجا  ایک دیا جلا ہوا
موت و حیات کی یہی تمثیل بھی ہے اصل بھی
ایک دیا بجھا ہوا ایک دیا جلا ہوا
قصہ شب فراق کا ہم نے بھی مختصر کیا
سامنے ان کے رکھ دیا ایک دیا جلا ہوا

 جلیلؔ نظامی صاحب کے بعد کراچی سے تشریف لائے ہوئے مہمان شاعر شمس الغنی صاحب نے اپنا کلام سنایا، آپ اقتصادیات کے عالم ہیں، لیکن شعر و ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں ،زندگی کے تلخ وشیریں

حقائق آپ کی شاعری کا موضوع ہوتے ہیں، ہجرت کا درد خصوصا آپ کے اشعار میں چھلکتا ہے:

اب اٹھے گا نہ کوئی دعوئے جمال کے ساتھ
یہ باب بند ہوا ہے تری مثال کے ساتھ
میں عشق ہوں  مری بربادیوں کی قیمت ہے
زوال حسن لکھا ہے مرے زوال کے ساتھ
لہجے کے ذرا نرم ہیں سفاک نہیں ہیں
ہم اہل ذہانت تو ہیں چالاک نہیں ہیں
ہے عجز طبیعت میں  تو سودائے جنوں بھی
ہے جزو بدن خاک  مگر خاک نہیں ہیں
اے موج بلا خیز تحمل سے گزر ہم
پیوست زمیں سنگ ہیں  خاشاک نہیں ہیں
جہان قیس کے شہرت زدہ تو ہم بھی ہیں
قتیل عشق و محبت زدہ تو ہم بھی ہیں
جو تجھ کو ناز ہے طائر کہ بے مکاں ہے تو
تو پھر یہ سن لے کہ ہجرت زدہ تو ہم بھی ہیں
کمال دست مصور یہ تیرا حسن و جمال
وہ آئینہ ہے کہ حیرت زدہ تو ہم بھی ہیں

    شمس الغنی صاحب کے ساتھ ہی شعراء کرام کی فہرست مکمل ہوئی اور اسٹیج پر موجود مہمانوں اور صدر مشاعرہ کے تاثرات سننے کا وقت آیا۔  سب سے پہلے مہمان اعزازی جناب عبد القدیر صاحب کو دعوت دی گئی ۔آپ نے دوحہ کے اردو نژاد باسیوں کو اس بات کے لئے مبارکباد پیش کی کہ برصغیر ہندو پاک سے دور اس خطہ میں بھی ان کی ضیافت طبع اور تسکین ذوق کے امکانات موجود ہیں۔ انہوں نے انڈیا اردو سوسائٹی اور دیگر ادبی تنظیموں کا شکریہ ادا کیا کہ وہ یہاں کے ماحول میں اردو زبان و ادب کی حفاظت اور فروغ کے فرض سے غافل نہیں ہیں۔ ہندوستان میں شاہین اسکول کا قیام عبد القدیر صاحب اور ان کے رفقاء کا ایک منفرد تجربہ ہے، اس تعلق سے بھی انہوں نے اپنے تجربات حاضرین کے ساتھ شئیر کئے۔

    مہمان خصوصی جناب مبارک کاپڑی نے اپنی پرمغز گفتگو اردو زبان اور یوپی ایس سی امتحانات پر مرکوز رکھی۔ اپنی بات انہوں نے یہاں سے شروع کی کہ گذشتہ صدی کا سب سے ہولناک حادثہ ہیروشیما اور ناگاساکی نہیں بلکہ ہندوستان کی تقسیم تھا ۔ زندگی کا ہر شعبہ اور تہذیب کا ہر گوشہ اس تقسیم کے اثرات بد سے اس حد تک متاثر ہوا کہ اس کا بیان کارے دارد۔  اردو بھی ،جو متحدہ ہندوستان کو ایک لڑی میں پرونے والی واحد زبان تھی اس سے بری طرح متاثر ہوئی اور صحیح معنوں میں عرش سے فرش پر آگئی۔

     آج کا منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ اردو زبان یوپی اور بہار سے تقریبا ختم ہو چکی ہے، لیکن جنوبی ہندوستان میں یہ اب بھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ وقار کے ساتھ زندہ ہے ، صرف مہاراشٹر کی بات کی جائے تو یہاں (۹۲۳ )اردو میڈیم ہائی اسکول ہیں ،( ۶۷۵۰) اردو میڈیم پرائمری اسکول ہیں اور  (۱۱۲)  جونیر کالجز میں اردو ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔ مالیگاؤں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، صرف یہاں (۳۵ ) اردو میڈیم ہائی اسکول ہیں ۔ اپنے معیار کے لحاظ سے بھی اردو میڈیم اسکول کسی سے پیچھے نہیں ہیں ، بعض اسکول تو ایسے ہیں جن میں انگریزی میڈیم بھی موجود ہے لیکن وہاں اردو میڈیم میں جب داخلے
بند ہوجاتے ہیں تو انگریزی میڈیم میں شروع ہوتے ہیں۔


    اس کے باوجود بحیثیت مجموعی ہندوستان میں اردو کا حال بہت ابتر ہے اور اگر اسے بہتر بنانے کی سمت میں سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو قوی اندیشہ ہے کہ ہندوستان میں فارسی کی طرح اردو بھی ایک کلاسیکل زبان بن کر رہ جائے گی ۔ اردو کو اس حال بد تک پہونچانے کے مختلف اسباب ہیں لیکن سب سے بڑا سبب اردو اساتذہ ہیں ۔  ٓپ نے فرمایا کہ اردو اور انگریزی کو قریب لانے کی بھی ضرورت ہے ، انگریزی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے، اس لئے اسے بڑی بہن کا درجہ دیتے ہوئے اردو کو اس کے قریب لانے کی ضرورت ہے ،  بہر حال مجھے بہت خوشی ہے کہ وطن سے دور یہاں قطر میں آپ لوگوں نے اپنی زبان ، اپنی جڑوں اور اپنی تہذیب سے مربوط رہنے کا پورا انتظام کررکھا ہے ۔ میں آپ لوگوں سے کہنا چاہوں گا کہ اردو کے جو ادبی رسائل نکلتے ہیں انہیں آپ لوگ بھی منگایا کریں ۔


           جناب ظفر صدیقی نے اپنی صدارتی تقریر میں مہمانان بزم ، شعراء کرام اور سامعین کا شکریہ ادا کیا ، انہوں نے اس نشست کو ایک کامیاب اور بھر پور نشست بتاتے ہوئے اس بات پر بڑی مسر ت کا اظہار کیا کہ سامعین کی تعداد کافی ہے اور انہوں نے بڑے سلیقے سے مشاعرہ سنا اور اس پروگرام کو کامیاب بنایا ، سبھی شعراء نے بہت اچھا کلام پیش کیا خصوصا جلیل نظامی صاحب کا کلام بہت معیاری تھا اورمجھے بہت پسند آیا ، ان کا تعارف کرانا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ، البتہ اتنا ضرور کہوںگا کہ کبھی کبھی کسی شاعر کا ایک شعر اسکی شناخت اور پہچان بن جاتا ہے ، جیسے بشیر بدر اپنے ابتدائی دور میں جہاں بھی جاتے تھے ان کا تعارف اس شعر سے کرایا جاتا تھا۔


اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے
    یا جیسے کلیم عاجزؔ مرحوم کا یہ شعر:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو  کہ کرامات کرو ہو

    اسی قبیل کا ایک شعر جلیل نظامی صاحب کا بھی ہے جو تنہا ان کی پہچان کرانے کے لئے کافی ہے:

ماہ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی

    یہ بھی ایک خوش آئند پہلو ہے کہ  ’انڈیا اردو سوسائٹی‘  قطر کی دوسری ادبی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے ، مثلا بزم اردو قطر ، گزرگاہ خیال اور حلقہ ادب اسلامی۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میں شروع  سے ہی سوسائٹی سے وابستہ رہاہوں۔  

    صدارتی کلمات کے بعد صاحب خانہ جناب جلیل نظامی نے مہمانان گرامی ، شعراء کرام اور سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ حضرات اور بالخصوص مہمان خصوصی مبارک کاپڑی، مہمان اعزازی عبد القدیر ، مہمان شاعر شمس الغنی اور کمال بلیاوی صاحبان کی شرکت نے اس مشاعرے کے وقار میں بے حد اضافہ کیا ہے۔  ’انڈیا اردو سوسائٹی ‘  میں ہم نے ایک نظام یہ بنایا ہے کہ ہر ماہ نشست کی ضیافت سوسائٹی کا کوئی ایک ممبر کرتا ہے ، اس ماہانہ شعری نشست کی ضیافت جناب راشد عالم راشد نے فرمائی ہے جس طرح سابقہ مہینے کی نشست جناب محمد شاہد خاں کی میزبانی میں ہوئی تھی ۔ میں ایک بار پھر فردا فردا آپ تمام

حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یار زندہ صحبت باقی۔

رپورٹ: ڈاکٹرنشاط صدیقی 

(میڈیا سکریٹری۔ انڈیا اردو سوسائٹی قطر)

************************************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 639