donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Nishat Ahmad Siddiqui
Title :
   Mahana Mushaira Zer Ehtemam India Urdu Society Qatar

ماہانہ مشاعرہ

زیر اہتمام

انڈیا اردو سوسائٹی ، قطر


  
از: ڈاکٹر نشاط صدیقی

(میڈیا سکریٹری)


    اپریل ۲۰۱۵؁ء کا ماہانہ مشاعرہ انڈیا اردو سوسائٹی کے نائب صدر جناب محمد شاہد خاں کی صدارت میں ’جلیل منزل‘  کے کشادہ ہال میں منعقد ہوا، مہمان خصوصی کی حیثیت سے افتخار راغب اور مہمان اعزازی کی حیثیت سے مظفر نایاب نے اسٹیج کو رونق بخشی۔ انڈیا اردو سوسائٹی کے بانی نائب صدر اور مشاعرے کے ناظم عتیق انظر صاحب نے صدر مشاعرہ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ محمد شاہد خاں صاحب دوحہ میں تقریبا سولہ سترہ سالوں سے مقیم ہیں ، دار العلوم ندوۃ العلما سے فارغ التحصیل ہیں ، آپ نے کئی کتابوں کا ترجمہ کیا ہے جن میں عالم اسلام کی ممتاز دینی و علمی شخصیت علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی ایک کتا ب بھی شامل ہے، اچھا اور صاف ستھرا ادبی ذوق رکھتے ہیں ، اردو کے تعلق سے بھی بہت سنجیدہ ہیں اور گاہے بہ گاہے اپنا تعاون دیتے رہتے ہیں۔ مہمان خصوصی افتخار راغب محتاج تعارف شخصیت نہیں ہیں ،دوحہ کے ممتاز شاعر ہیں ، کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ، قطر میں اردو کے تعلق سے اور خصوصا اردو پروگراموں کے حوالہ سے آپ کی بڑی خدمات ہیں ۔ مہمان اعزاز ی جناب مظفرنایاب جو ابھی حال ہی میں سفر سے واپس لوٹے ہیں بڑے اچھے اور قادر الکلام شاعر ہیں ، خاص طور سے فن پر آپ کی گہری نظر ہے۔ آپ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ گزرگاہ خیال کے غالب فہمی پروگرام میں آپ غالب کے مصرعے پر غزل پیش کرتے ہیں،یہ سلسلہ کافی دنوں سے چل رہا ہے ، دوحہ میں گزشتہ دنوں  شاعر کے ساتھ ’ ایک شام ‘  منانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے ، اس حوالے سے آپ نے جلیل نظامی کے تعلق سے ایک خوبصورت نظم کہی ہے ، مجھ پر بھی کرم فرمایا ہے ، اور اس سے قطع نظر کہ انہوں نے یہ نظم میرے لئے کہی ہے، فنی اعتبار سے یہ بڑی خوبصورت اور قابل قدر نظم ہے ۔

    اسٹیج کے اراکین کایہ مختصر تعارف پیش کرنے کے بعد ناظم مشاعرہ نے جناب محمد فاروق آسامی صاحب کو تلاوت کلام پاک کیے لئے دعوت دی، جن کی خوبصورت تلاوت کے ساتھ پروگرام شروع ہوا، تلاوت قرآن کے بعد نعت رسول پیش کرنے کے لئے انڈیا اردو سوسائٹی کے صدر جناب جلیل نظامی کو زحمت دی گئی ، اپنے پرسوز ترنم کے ساتھ نظامی صاحب نے بڑی اچھی نعت سے سامعین کے دلوں کو گداز بخشا، منتخب اشعار سے آپ بھی حظ اٹھائیں:

آپس میں ہونٹ مل گئے ،  چہرہ پہ نور آگیا
جب بھی زبان شوق پر نام حضور آگیا
بے ہوش و بے خر د تھے ہم ، آئے رسول محتشم
دنیا سمجھ میں آگئی ، دیں کا شعور آگیا
سدرہ پہ جا کے تھم گئے روح الامیں کے یوں قدم
دھیان میں جیسے ناگہاں جلوئہ طور آگیا

    جلیل نظامی صاحب کی اس پر اثر نعت پر تبصرہ کرتے ہوئے ناظم مشاعرہ عتیق انظر صاحب نے فرمایا کہ نعت بہت مشکل صنف ہے ، بلکہ یہ غزل اور حمد دونوں سے زیادہ مشکل ہے ، اسکی وجہ یہ ہے کہ غزل میں کہنے کی آزادی ہوتی ہے اور حمد میں بھی آپ پر کوئی بندش نہیں ہوتی ، جو چاہیں اور جس حد تک چاہیں تعریف کرسکتے ہیں ، لیکن نعت میں بہت محتاط رہنا پڑتا ہے ، ذرا سی بے احتیاطی سے نعت اور حمد کا فرق جاتا رہتا ہے اور بہت کم شاعر ہیں جو ان دونوں صنفوں کو ان کی حدود و قیود میں رہ کر برت پاتے ہیں ۔ یہ جلیل صاحب کی قادر الکلامی ہے کہ وہ خوبصورت حمد بھی کہتے ہیں اور کامیاب نعت بھی ۔  اس کے علاوہ فنی اعتبار سے بھی یہ نعت بڑی قابل قدر ہے ، یہ مصرع دیکھئے :  ’سنگ سیہ کو چوم لوں ، شہر نبی میں گھوم لوں‘  اسے اندرونی قافیہ کہتے ہیں ۔

    نعت پاک کے بعد شعراء کا سلسلہ شروع ہوا اور ناظم صاحب نے مشاعرے کے پہلے شاعر شریف پرواز کو دعوت سخن دی۔ مندرجہ ذیل سطور میں مشاعرہ کی ترتیب کے اعتبار سے شعراء کرام کا منتخب اور پسندیدہ کلام نذر  قارئین ہے:

 شریف پروازؔ، آپ کا تعلق راجستھان سے ہے، ہندی علاقے سے ہیں لیکن اردو میں شاعری کرتے ہیں:

قتل کا کیس وہ خود پر نہیں ہونے دے گا
شہر کو عدل کا خوگر نہیں ہونے دے گا
ہر بلندی سے نوازے گا مجھے وہ لیکن
اپنی قامت کے برابر نہیں ہونے دے گا

کیسی ہی پر خطر راہ چل زندگی
رہ اصولوں پہ اپنے اٹل زندگی
درس تجھ کو دیا تیرے اسلاف نے
ٹھوکروں پر نہ غیروں کی پل زندگی
حوصلہ گر جواں ہے تو کیا دیرہے
آگے بڑھ ظلم کو دے کچل زندگی

 راشد عالم راشد:

کرم وہ مسلسل کیے جا رہے ہیں
عنایت پہ ان کی جیے جا رہے ہیں
یہ کیسی خموشی کہ پہلو میں بیٹھے
بنا کچھ کہے سب کہے جا رہے ہیں
عجب تشنگی ہے کہ بڑھتی ہی جائے
جو ان کی نظر سے پئے جا رہے ہیں

گفتگو اتنی تکلف سے کیا کرتے ہیں
بات ہم ان کی سمجھ جائیں دعا کرتے ہیں
آسماں گر وہ بنا ہے تو اسے یاد رہے
فخر یہ اس کو زمیں والے عطا کرتے ہیں
تیز آندھی میں تو مغرور شجر ٹوٹ گئے
نرم خو پیڑ ہی آندھی سے لڑا کرتے ہیں
راشدؔ اس بزم میں تاخیر سے آئے ہو مگر
اہل فن جلد ہنر سیکھ لیا کرتے ہیں

  وزیر احمد وزیرؔنے بہت خوبصورت ترنم میں بڑی معیاری اور پر تاثیر غزل سے سامعین کو نوازا۔

وقت ہر چیز کی اوقات بتا دیتا ہے
جن چراغوں کو بجھانا ہے بجھا دیتا ہے
روز کرتا ہے وہ روشن در و دیوار اپنے
روز اوروں کے چراغوں کو بجھا دیتا ہے
کل جسے میری پذیرائی بھلی لگتی تھی
آج ہر بات پہ انگلی وہ اٹھا دیتا ہے
حافظہ وقت کے ناخن نے کریدا ایسے
ذہن سے میرے سبھی نقش مٹا دیتا ہے
رونے والوں کو ہنساتا ہوں میں جس دم بھی وزیر ؔ
جانے کیوں درد مجھے آکے رلا دیتا ہے

کمال احمد کمال ؔبلیاوی :

ہر قدم دشوار جینا جس گھڑی ہو جائے گا
لطف جینے میں یقینا اور بھی ہو جائے گا
راز سب بتلا رہے ہو دوست کہہ کر تم جسے
کیا کرو گے کل اگر دشمن وہی ہو جائے گا
تو فقط اللہ کو اپنا بنا لے ائے کمال
یہ زمانہ تیرا اپنے آپ ہی ہو جائے گا

چاہے جی جان سے وہ ہم کو ستانے لگ جائیں
ہم نہیں وہ جو وطن چھوڑ کے جانے لگ جائیں
ہم کودوران سفر یہ تو گوارہ ہی نہیں
جو بھٹکتے تھے وہی راہ بتانے لگ جائیں

تعصبات کا اتنا نشان باقی ہے
جلا ہے گھر مرا اس کا مکان باقی ہے
ہمیں پہ اس کو بھروسہ نہیں وہ کیا جانے
ہمیں سے عظمت ہندوستان باقی ہے

دشمن کا کیا گلہ کہ ہوئے خار کی طرح
جب یار ہی مرے نہ رہے یار کی طرح
جب تک جئے زمانے میں ہو کر خدا کے ہم
رکھا خدا نے ہم کو بھی سردار کی طرح
پہلے ہمارے ساتھ گزارو تو چند روز
باتیں کرو گے تم بھی سمجھدار کی طرح

وہ میرے دل کو بجز اضطراب کیا دیں گے
جو بانٹتے رہے کانٹے گلاب کیا دیں گے
ابھی ہے وقت لگا لیں کسی سے دل ورنہ
خدا کے سامنے آخر جواب کیا دیں گے

 محمد رفیق شادؔ اکولوی:

ترے در پر جھکی یوں تو جبیں ہے
بتوں کو بھی چھپائے آستیں ہے
ہوا معلوم جیش ابرہہ کو
حجازی ذرہ ذرہ آتشیں ہے
کئی پردوں میں ہے تصویر مضمر
مصور عرش پر جلوہ نشیں ہے
توہی تو محرم اسرار کن ہے
تری ہی ذات پر ہم کو یقیں ہے

خون دل صبح و شام کرتے ہیں
رسم صہبا و جام کرتے ہیں
شام کو قتل بے گناہوں کے
صبح کو رام رام کرتے ہیں
یہ ترقی کا دور اور بچے
بوجھ ڈھونے کا کام کرتے ہیں
صبح کرتے ہیں جن کی یادوں میں
ان کی یادوں میں شام کرتے ہیں

دل کے ارمان کب نکلتے ہیں
آپ آئے نہیں کہ چلتے ہیں
آئینے جھوٹ تو نہیں کہتے
آپ کیوں آئینے بدلتے ہیں
شاد کیسا شعور کیا وجدان
کام کی بات کر کے چلتے ہیں

 عتیق انظر:

مجھے سچ اس کو دھوکہ کھینچتا ہے
سبھی کو اپنا رشتہ کھینچتا ہے
بھروسہ مر رہا ہے سر پٹک کر
وفا کی لاش رشتہ کھینچتا ہے
اگر کہتا ہوں شب کو شب تو سورج
گھنے برگد کا سایہ کھینچتا ہے
ہتھیلی پر سجا کر راکھ اکثر
وہ اپنے گھر کا نقشہ کھینچتا ہے

٭٭٭

علامت استعارہ چاہتا ہے
غزل کا فن سلیقہ چاہتا ہے
سمندر میں جزیرہ چاہتا ہے
مسافر اب ٹھکانہ چاہتا ہے
گھنے پیڑوں کا سایہ چاہتا ہے
گناہوں پر وہ پردہ چاہتا ہے
تعلق پر بھروسہ چاہتا ہے
بیاباں میں وہ سبزہ چاہتا ہے
لڑکپن کا زمانہ چاہتا ہے
ندی ، ساحل ، گھروندہ چاہتا ہے
دل شاعر ہے اک معصوم بچہ
یہ بچہ چاند تارہ چاہتا ہے
بہت اونچی اڑانیں بھر رہا ہے
نہ جانے کیا پرندہ چاہتا ہے
    ایک نظم بعنوان  ’ خالی کرسی‘
ہم بیٹھ کے اک رستوراں میں
دو کرسی والی ٹیبل پر
امریکن کافی پیتے تھے
اور پیار کی باتیں کرتے تھے
پھر آج اسی رستوراں میں
دو کرسی والی ٹیبل پر
میں رنجیدہ سا بیٹھا ہوں
اک ننھے کپ کے سینے سے
یادوں کی بھاپ نکلتی ہے
اور سامنے  خالی کرسی ہے

 جلیل نظامی :

مرے ہاتھوں کے طوطے اڑ رہے ہیں
ستم ہے تیرے ہوتے اڑ رہے ہیں
خبر لاتے تھے جو ہفت آسماںکی
وہ طائر روتے دھوتے اڑ رہے ہیں
شناور تھے جو گہرے پانیوں کے
فقط تلوے بھگوتے اڑ رہے ہیں
بلندی پر نہ پھیلانا پروں کو
ہواؤں میں سروتے اڑ رہے ہیں
نشانے پر ہیں وہ زخمی کبوتر
جو تخم امن بوتے اڑ رہے ہیں
جلیل ان بے ضمیروں میں نہیں ہم
خودی جو اپنی کھوتے اڑ رہے ہیں

دل کو بچا کے ہم تری نظروں کے وار سے
فرما رہے ہیں عشق غم روزگار سے
قابو میں کر رہے ہیں دل مضطرب کو ہم
جھوٹی تسلیوں سے خوشامد سے پیار سے
سینے میں رہ کے میرے سدا آپ کا رہا
بس اک یہی گلہ ہے دل داغدار سے
الجھی ہوئی ہے لمحئہ ساکن میں زندگی
دامن چھڑا کے گردش لیل و نہار سے
صحن چمن میں دیکھ کے کلیوں کا بانکپن
دل بدگماں ہے آمد فصل بہار سے

 مظفر نایابؔ :

حیف رسوا ہوا در در کے حوالے کرکے
اپنے سجدے کسی آذر کے حوالے کرکے
فن کی معراج کو پتھر کے حوالے کرکے
دیکھتے ہیں کسی منظر کے حوالے کرکے
تونے قطرے کو بنایا ہے سمندر کا شریک
صورت آب سمندر کے حوالے کرکے
خود کو خوش بخت سمجھتا ہوں میں بیشک نایاب
جان و دل شہر منور کے حوالے کرکے

    ابھی گزشتہ ماہ ۱۷؍ اپریل کو  ’ بزم اردو قطر ‘  کے زیر اہتمام  ’ ایک شام عتیق انظر کے نام ‘  منائی گئی تھی، اس  موقع پر عتیق انظر صاحب کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے ایک خوبصورت نظم نایاب صاحب نے کہی تھی جسے آج سامعین کی فرمائش پر پیش کی :

جدت جو اثاثہ ہے روایت ہے دل و جان
اک شاعر حساس کی رکھتا ہے وہ پہچان
اشعار کے پیکر میں نگینوں کی تصاویر
کچھ حسن کے جلووں کی حسینوں کی تصاویر
کچھ ماہ رخوں ماہ جبینوں کی تصاویر
ہے عشق جنوں خیز ہی سرچشمئہ وجدان
اک شاعر حساس کی رکھتا ہے وہ پہچان

مہتاب کے سورج کے ستاروں کے مناظر
آکاش کے دھرتی کے گھٹاؤں کے مناظر
دریا کے سمندر کے پہاڑوں کے مناظر
شعروں میں سمٹ آئے ہیں صحرا و گلستان
اک شاعر حساس کی رکھتا ہے وہ پہچان

ہیں ساحل و تالاب کے جھیلوں کے مضامین
غنچوں کے گلوں اور گلابوں کے مضامین
جنگل کے درختوں کے چناروں کے مضامین
اشعار میں آباد کرے دشت و بیابان
اک شاعر حساس کی رکھتا ہے وہ پہچان

چھوڑے ہیں نہ عشاق نہ رندوں کے مضامین
محبوس یا آزاد پرندوں کے مضامین
انسان کی بستی کے درندوں کے مضامین
وہ دیکھ کے ان سارے عجوبوں کو ہے   حیران
اک شاعر حساس کی رکھتا ہے وہ پہچان

زلفوں کی حکایات ہیں پلکوں کی حکایات
کاجل سے چمکتے ہوئے آنکھوں کی حکایات
آنکھوں میں بسائے ہوئے سپنوں کی حکایات
دکھ سکھ کو جو جیون کے بناتا رہا عنوان
اک شاعر حساس کی رکھتا ہے وہ پہچان

ایوان سیاست کی گپھاؤں کے مناظر
شہروں کے مساجد کے مناروں کے مناظر
دیوی کے پجارن کے ٹھکانوں کے مناظر
اشعار علامات کی پوشیدہ کوئی کان
اک شاعر حساس کی رکھتا ہے وہ پہچان

چڑیا سے کبوتر کی اڑانوں سے لیا کام
ہرنی سے گلہری سے پرندوں سے لیا کام
کیا خوب اشاروں سے کنایوں سے لیا کام
انداز سخن جس کا ہے ہر درد کا درمان
اک شاعر حساس کی رکھتا ہے وہ پہچان

کچھ اس کو محبت نہیں شر اور شرر سے
نفرت سے عداوت سے خصومت سے ضرر سے
اک پیار کا طالب ہے چلا پریم نگر سے
رہتا ہے جو ہنگامئہ دشنام سے انجان
اک شاعر حساس کی رکھتا ہے وہ پہچان

مسحور کرے ہم کو وہ انداز دگر سے
واقف ہے بہت خوب نظامت کے ہنر سے
وہ خورد و کلاں دیکھے فقط ایک نظر سے
کرتا ہے ہمیں دیدئہ و دانستہ جو حیران
اک شاعر حساس کی رکھتا ہے وہ پہچان

صد آفریں اشعار کے پڑھنے کا طریقہ
مجموعہ ہے پہچان جو مانند وثیقہ
صد آفریں لفظوں کے برتنے کا سلیقہ
غزلوں میں پروئے ہوئے ہیںلولو و مرجان
اک شاعر حساس کی رکھتا ہے وہ پہچان

اشعار کے کوزے میں کرے بندسمندر
دنیائے ادب جس کو کہے عمدہ سخنور
اک معتبر آواز اے  نایاب ہے انظر
رکھتا ہے جو چہرے پہ سجائے ہوئے مسکان
اک شاعر حساس کی رکھتا ہے وہ پہچان

افتخار راغب ؔ :

دشمنوں سے بھی مجھ کو بیر نہیں
تم تو اپنے ہو کوئی غیر نہیں
ساتھ رہنا بھی غیر ممکن ہے
رہ بھی سکتے ترے بغیر نہیں
جھوٹ پر جھوٹ اے خدا کب تک
کیسے کہہ دوں کہ میں بخیر نہیں

تنگ ہم پر بھی ہماری دنیا
دشمن عشق ہے ساری دنیا
زیست کی منزل مقصود نہیں
آخرت کی ہے سواری دنیا
ہم بھی اللہ کے پیارے اٹھیں
جب ہو اللہ کو پیاری دنیا
انگلیوں پر یہ نچائے سب کو
چاہتی کیا ہے مداری دنیا
ہم کہ دنیا کے نہیں دیوانے
مختلف تم سے ہماری دنیا
کیوں پنپتا ہے درخت الفت
کیوں چلا دیتی ہے آری دنیا
ساری دنیا کو ہرانے والی
ایک درویش سے ہاری دنیا
آہوئے وقت کہاں ہے راغب
کس کے پیچھے ہے شکاری دنیا

    مہمان خصوصی افتخار راغب صاحب اس نشست کے آخری شاعر تھے ، ان کے بعد ناظم مشاعرہ نے اسٹیج پر موجود مہمانوں اور صدر مشاعرہ کا رخ کیا۔ سب سے پہلے آج کی نشست کے مہمان اعزازی جناب مظفر نایاب صاحب نے اپنے تاثرات پیش کئے، انہوں نے محمد فاروق آسامی صاحب کی تلاوت سے اپنے تاثرات کا آغاز کیا اور تمام شعراء کے کلام پر اپنے تاثرات ظاہر کئے۔ اور انڈیا اردو سوسائٹی کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔

    مہمان خصوصی افتخار راغب صاحب نے انڈیا اردو سوسائٹی کے ذمہ داران کا شکریہ ادا کرتے ہوے فرمایا کہ ان پروگراموں کی وجہ سے ہمارے شعراء کا معیار کلام دن بدن بلند ہو رہا ہے ، میں اس سلسلہ میں شعراء کرام سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنے کلام کے معیار پر خصوصی توجہ دیں کیونکہ انہیں کس سطح اور کس معیار کی شاعری کرنی ہے اس کا فیصلہ خود انہیں ہی کرنا ہوگا ۔ یقینا حاضرین کی ستائش اور داد و تحسین سے ہمارا حوصلہ بلند ہوتا ہے اور وہ بھی ایک معیار ہے لیکن بسا اوقات بہت معمولی شعر کسی کو بہت اچھا لگ جاتا ہے اور کبھی کبھی بہت اچھا شعر بھی سامعین کی توجہ حاصل نہیں کر پاتا ، اس لئے داد و تحسین کو معیار نہ بنا کر ہمیں اپنے کلام کا معیار حتی الامکان بلند سے بلند تر کرتے رہنا چاہئے۔ کیونکہ کوالٹی اور معیار کی چیزیں ہی بالآخر باقی رہتی ہیں ۔ اس سلسلے میں اپنے سینیئر ساتھیوں سے صلاح و مشورہ کرنا چاہئے اور مثبت تنقید سے استفادہ بھی۔ اسی کے ساتھ ہمیں ان پروگراموں میں نئے فنکار اور نئے سامعین جوڑنے کی بھی ضرورت ہے ۔مجھے امید ہے کہ ایک دوسرے کے تعاون سے ہمارے یہ ادبی اور شعری پروگرام اسی طرح کامیابی کے ساتھ منعقد ہوتے رہیں گے۔

    مہمان خصوصی جناب افتخار راغب کے بعد صدر مشاعرہ جناب محمد شاہد خاں ندوی نے اپنی صدارتی تقریر میں فنون لطیفہ اور بالخصوص شعر و شاعری کی اہمیت اور تاثیر کے حوالہ سے گفتگو کی ، انہوں نے فرمایا کہ پوری انسانی تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا جو شاعری اور شعراء سے خالی رہا ہو، بلکہ گزشتہ صدیوں میں تو شاعری کو سب سے مؤثر وسیلہ ابلاغ (میڈیا)کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔ حکمراں اور سلاطین اپنی نیک

 نامی کی تشہیر کے لئے شعراکے محتاج رہا کرتے تھے۔ دربار سے ہٹ کر بھی شعر اور شاعری کی بڑی اہمیت اور عزت تھی ، شاعر کی زبان سے نکلے ہوئے اشعار عوام کو کس درجہ متاثر کرتے تھے اس کا اندازہ عربی ادب کے ایک واقعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک شخص کی چند بیٹیاں تھیں جو خوبصورت نہ ہونے کی وجہ سے کنواری بیٹھی تھیں، ان کا باپ بڑا فکر مند اور پریشان تھا، بالآخر اسے ایک تدبیر سوجھی اور اس نے اپنے زمانے کے ایک نامور شاعر کی ضیافت کی ، شاعر اس کے حسن اخلاق اور مہمان نوازی کے جذبے سے بڑا متاثر ہوا اور اس نے اپنے میزبان کی تعریف میں چند شعر کہہ دئے، عوام تک جیسے ہی یہ شعر پہونچے اس کی بیٹیوں کے رشتے آنے شروع ہوگئے اور بڑی مختصر مدت میں ان کی شادیاں بڑے اچھے گھرانوں میں ہو گئیں۔

    صدر مشاعرہ نے مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے کہا کہ مولانا جب کبھی ادباء
اور شعراء سے خطاب کرتے تھے تو اقبال کے یہ اشعار ضرور سناتے تھے:

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
جس سے دل دریا میںتلاطم نہیں ہوتا
اے قطرئہ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا  وہ ہنر کیا

    یقینا فن کی ضرب اور تاثیر سے مردہ قوموں میں جان پڑ جاتی ہے، یہی فن کی اہمیت ہے اور ہمیں اسے جاننے اور محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح شائقین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فن اور فنکاروں کی قدر کریں ، انہیں اپنے ہنر کی آبیاری کے لئے یکسو رکھیں ، اسی طرح شعراء ، ادباء اور فنکاروں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے قدردانوں کی خدمت میں معیاری فن پیش کریں اور اپنی تخلیق کو بہتر سے بہتر بنانے کی فکر سے کبھی غافل نہ ہوں۔اسی کے ساتھ میں ذمہ داران کا شکر یہ ادا کروں گا، کسی ادبی اور شعری محفل کی صدارت کا میں خود کو اہل تو نہیں سمجھتا ، میرے خیال میں ان لوگوں نے یہ اعزاز دے کر میری حوصلہ افزائی کی ۔ میں آپ سب کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں۔

    صدارتی کلمات کے بعد صاحب خانہ جناب جلیل نظامی صاحب نے شعراء اور حاضرین کا شکریہ ادا
کیا اور اس کامیاب مشاعرے کی میزبانی کے لئے جناب حسیب الرحمن صاحب کو مبارکباد پیش کی۔

*********************************

 

 

 

 

 

 


 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 676