donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Fazlur Rahman
Title :
   Shibli Academy Ki Sae Roza Sadi Taqreebat Ka Shandar Aaghaz

مسائل کی متواتر صحیح تشخیص کے باوجود ہم تعلیم میں پچھڑ گئے :حامد انصاری 


نائب صدر جمہوریہ نے سماجی امن ،شناخت کے تحفظ اور روزگار وسرکاری اسکیموں اور فیصلہ سازی میں مسلمانوں کے لیے مناسب حصہ داری کی وکالت 


شبلی اکیڈمی کی سہ روزہ صدی تقریبات کا شاندار آغاز 


اعظم گڑھ سے فضل الرحمٰن


نائب صدر جمہوریہ ہند محمد حامد انصاری نے یہاں شبلی صدی بین الاقوامی سمینار کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آزاد ہندستان کی ۶۷سالہ تاریخ کا جائزہ یہ بتاتاہے کہ مسلمان نئے دور کے چیلنجز کا بھر پور طریقے سے جواب نہیں دے سکے ہیں ۔علامہ شبلی نعمانی ،سرسید،حالی اور ان جیسے دیگر دانشوروں کو اس بات کا احساس ہوگیاتھا کہ جدید دور میں اسلامی تاریخ و تمدن کے ساتھ کچھ گڑبڑ کیا گیا ہے ،اسلامی سماج اگر جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوا تو اسے مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا۔ ان مفکرین نے تعلیم کو دور جدید کے چیلنجزکا سامنا کرنے کے لیے بنیادی شرط قرار دیا ۔انھوں نے تاریخ اسلامی کی ترتیب و تدوین اور شاندار ماضی کی بازیافت کی حتی الامکان کوششیں کیں ۔علامہ اقبال نے بھی آئین نو سے ڈرنے اور طرز کہن پہ اڑنے کو قوموں کی زندگی میں مشکل گھڑی سے تعبیر کیا۔ مولاناآزاد نے بھی مسلمانوں سے چیخ چیخ کر کہا کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو ،یہ نہ کہوکہ ہم تغیر کے لیے تیار نہ تھے ۔بزرگوں کی اس فکر اور جانفشانی کی باوجود یہ ایک سچائی ہے کہ ہم زندگی کے محتلف شعبوں میں برادران وطن کے ساتھ کندھے سے کندھاملا کر نہیں چل پائے ۔

حامد انصاری نے ملت کا محاسبہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت سے بھی کچھ توقعات کا اظہار کیا ۔انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کے چار بنیادی مطالبات حکومتوں سے ہیں ۔اول سماجی امن اور شناخت کی حفاظت، دوسرے روزگار اور سرکاری اسکیموں میں مناسب اور مساوی حصہ داری ،تیسرے ترقی کے مواقع اورچوتھا مطالبہ ہے فیصلہ سازی میں مناسب حصہ داری ۔ان چار امور میں کمیاںہیں، جن کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ سب کے ساتھ سب کا وکاس کی پالیسی درست اور قابل قدر ہے لیکن اس کے لیے مشترکہ نقطہ آغازیہی ہے کہ سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پس ماندہ لوگوں کو حقوق اور اختیارات دیے جائیں ۔یہ کوئی خیرات نہیں ہے بلکہ ملک و قوم کی تعمیر میں قربانیاںدینے والے مسلمانوں کا حق ہے جو سماجی تعلیمی اور اقتصادی اعتبار سے پس ماندہ ہیں ۔دیار شبلی میں شبلی اکیڈمی اور شبلی کالج کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حامدانصاری نے کہا کہ علم و دانش کے موتی بکھیرنے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے مناسب رہنمائی فراہم کرنی چاہئے،کیونکہ ضرورت پڑنے پر دانشور مشیر بھی بن جاتے ہیں۔

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ شبلی نے جس دور میں جنم لیا وہ مسلمانان ہند کے لیے نازک اور تغیر پذیر  عہد تھا ۔شبلی کی زندگی ان کے علمی کارنامے اور ان کی فکر ایک متجسس ذہن کی گواہی دیتے ہیں ۔ایک مسئلہ جو انھیں درپیش ہوا وہ تعلیم سے متعلق جدیدیت کے دروازے سے آنے والی تبدیلی تھی، اس کا گہرا اثر ان پر ہوا ،اسی احساس محرومی میں انھوں نے ’’شہر پر آشوب اسلام ‘‘میںاپنے کرب کا اظہار کیا ۔ویلفرڈ اسمتھ نے بھی مسلمانوں کے اس کرب کو اپنے لفظوں میں بیان کیا ۔مستشرقین کے ذریعہ اسلامی تاریخ کی ترتیب نو اور خود مسلمانوں کے اندرپائی جانے والی گزشتہ اسلامی تاریخ سے ناواقفیت نے شبلی اور سرسید جیسے مصلحین کے اندر قنوطیت اور شکوہ کا احساس پیدا کردیا ۔شبلی نے سولہ سال تک سرسید کے ساتھ کام کیا ِ۔اس دوران کچھ معاملات میں ان سے اتفاق اور کچھ میں اختلاف رہالیکن بنیادی طور سے دونوں امت مسلمہ کو لے کر فکر مند تھے ۔بعد کے دنوں میں اعظم گڑھ میں انھوں نے دارالمصنفین قائم کیا جس نے شبلی کے منصوبے کے مطابق گزشتہ ایک صدی میں اسلامی تاریخ و تمدن ،قرآنیات اور اردو ،فارسی ،عربی کے حوالے نہایت وقیع خدمات انجام دی ہیں۔یہ ہماری وراثت کا حصہ ہے اس کی حفاظت کرنا لازمی ہے ۔نہ صرف حفاظت بلکہ ان کی توسیع اور انھیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بھی ضروری ہے ۔

اس سے قبل شبلی اکیڈمی کے ڈ ائرکٹر پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے مہمانوں خصوصی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جناب حامد انصاری کے جد امجد ڈاکٹر مختار احمد انصاری بلقان کی جنگ میں طبی امداد کے بعد جب ترکی سے واپس آئے تو علامہ شبلی نے ان کے پاؤں کو بوسہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ تمہارے قدم اسلام کے مجسمہ غربت کے قدم ہیں ۔اشتیاق احمد ظلی نے کہاکہ شبلی قومیت اور ہندومسلم اتحاد کے علم بردار تھے۔ انھوں نے نائب صدر جمہوریہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انھیں سپاس نامہ اور یادگاری نشان پیش کیا۔ 

علاقے کے ایم ایل اے بلرام یادو نے کہا کہ جس طرح کنگ جارج میڈیکل یونی ورسٹی لکھنؤ میں اپنے فارغین کا اجلاس منعقد کرتی ہے اسی طرح شبلی کالج کے فارغین جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ان کے نام سے بھی یہاں اجلاس ہونا چاہیے ۔ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں نے شکریے کی قرار پیش کی ۔انھوں نے کہا کہ یہ ایک بین الاقوامی صدی تقریب ہے جس میں امریکہ ،کناڈا،جنوبی افریقہ،سعودی عرب،ترکی وغیرہ سے اسکالرز شرکت کے لیے آئے ہیں ۔پاکستان سے اسکالرز کی ایک بڑی تعداد بروقت ویزا نہ ملنے کی وجہ سے یہاں نہیں آسکی ۔اس موقع پر پاکستانی سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمد الغزالی،کابینی وزیر درگا پرساد یادو،رکن اسمبلی عالم بدیع اعظی ،وزیر مملکت وسیم احمد ، کمشنر برائے لسانی اقلیات پروفیسر اخترالواسع، دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیر مین پروفیسر خالد محمود ، شبلی کالج کے پرنسپل افسر علی ،کالج کے طلبہ و طالبات اور قرب وجوار کے معززین کثیر تعداد میں موجود تھے ۔ہندی ادب کی کئی نامور شخصیتیں بھی موجود تھیں ۔ تقریب کا آغاز شہنواز فیاض نے تلاوت کلام پاک سے کیا ۔

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 504