donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Aah - Mahboob

آہ …محبوب


اُردو کے مقبول زمانہ رسالہ’’آجکل‘‘کے سابق مدیرجناب محموب الرحمن فاروقی نہیں رہے۔محبوب الرحمن فاروقی کی رحلت یقینا اردو برادری کیلئے صدمہ انگیز خبر ہے۔صرف اِس وجہ سے نہیں کہ محبوب الرحمن فاروقی کا نام ادبِ اردوکے عصری منظرنامہ میںمحترم تصور کیا جاتا تھا بلکہ اِن کی وجیہ القامتی ایک قابل مدیر کی حیثیت سے بھی مسلم رہ چکی ہے ،جس کا زمانہ معترف ہے۔

جو لوگ محبوب الرحمن فاروقی کے زمانۂ ادارت سے واقف ہیں،انہیںاچھی طرح اس حقیقتکابھی علم ہے کہ ایک باکمال مدیر کی حیثیت سے موصوف نے ’’آجکل‘‘کے عہد رفتہ کی از سر نوبحالی کی کوشش کس نہج پرکی اور نتیجتاً ایک بار پھر یہ رسالہ ادبی دنیا میں معتبر مقام حاصل کر پانے میں کیسے کامیاب ہوا۔ حالانکہ اس سعیٔ مسلسل کے درمیان جناب محبوب الرحمن فاروقی کوبھاری قیمت بھی چکانی پڑی اور اہل علم اس سچائی سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ سیاسی بازیگری کے نتیجہ میںادبی رسالہ ’’آجکل‘‘اُن دنوں وادیٔ سیاست میں بھی موضوع بحث بن گیا ۔

 یوں سمجھئے کہ ذاتی بغض وعناد رکھنے والی ایک’’ نام نہاد ادبی لابی‘‘ جو پہلے سے ہی دہلی کے ادبی و نیم ادبی رسالوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کیلئے کوشاں رہی تھی،اُسے ایک بہانہ مل گیا اوراس نے نہایت افسوسناک اندازمیںمحبوب الرحمن فاروقی کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی۔ایک ذمہ دارایڈیٹرکی مدیرانہ لیاقت کو سمجھے بغیراور واویلا مچانے والوں کے سازشی منصوبوں کو جانے بغیرجب ادبی معاملوں میں سیاسی عمل دخل کی شروعات ہوتی ہے تو ادبی قدروںکی شہادت اور مدیرانہ عظمت کی قربانی ادبی تاریخ کا لازمہ بن جاتی ہے۔محبوب الرحمن فاروقی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

ایک بین الاقوامی ادبی وثقافتی رسالہ کے طورپر ماہنامہ ’’آجکل‘‘کو شہرت بخشنے والے مدیر کے استحقاق پر بدقسمتی سے سوالات ہی نہیں کھڑے کئے گئے بلکہ ستم ظریفی یہ بھی رہی کہ ایک نہایت معمولی تنازعہ کو ہندوستانی جمہوریت  کے سب سے بڑے مندر یعنی پارلیمان میں بھی اُٹھایا گیا اوریوںادبی قدریں ملیا میٹ ہوگئیں،مدیرانہ عظمت کو خاک میں ملادیا گیا اورمحبوب الرحمن فاروقی کے تبادلہ کی شکل میں اُنہیں قربان کردیا گیا۔اختر انصاری نے درست کہا ہے:

        یاد ماضی عذاب ہے یارب
        چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

دہلی کی ادبی تاریخ میںایک اعلیٰ ظرف مدیر کے خلاف ہونے والی محاذ آرائی کی ایسی مثال شاید ہی کہیں اوردیکھنے کو ملے جس طرح کی رکیک حرکت جناب محبوب الرحمن فاروقی کے تعلق سے دکھائی گئی۔یہ1992کا واقعہ ہے،جب ’’آجکل‘‘ کے جنوری1992کے شمارہ میںعصمت چغتائی کے تعلق سے اوپیندر ناتھ اشکؔ کا ایک مضمون شائع ہواتھا۔اشکؔ کے مضمون کے جس پیراگراف پر آگے چل کربجلی گری ،وہ کچھ اس طرح ہے:

’’مجھے (ساحر لدھیانوی کے گھرپر ہونے والی)پارٹی میں مدعو نہیں کیاگیا تھا۔کرشنؔ ساحر کی کارمیں آیاتھااور مجھے اپنے ساتھ (پارٹی میں)لے گیاتھا۔سبھی مردعورتیں پی رہے تھے۔عصمتؔنے ایک آدھ پینے کے بعدہاتھ میں گلاس تھامے اسے گھماتے ہوئے بہ آواز بلند کہا’میراجی چاہتاہے میں ایک حرام کا بچہ جنوں،لیکن شاہدؔ(عصمت کے شوہر)زہرکھالے گا‘‘۔

اشکؔ نے آگے چل کر ایک معاصر انگریزی اخبار سے اس ضمن میں مزید وضاحت یہ بھی کی کہ ’’عصمت نے یہ جملہ اُن سے کاناپھوسی کے اندازمیںنہیں کہاتھا بلکہ بھری محفل میں نہ آواز بلند اعلان کیاتھا‘‘۔  خیر ابھی اس مسئلہ پر ’’ادبی سیاست‘‘پروان چڑھ ہی رہی تھی کہ ’’آجکل‘‘کے مارچ1992کے شمارہ میںایک مراسلہ نگار نے اوپیندرناتھ اشکؔ کے مضمون کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ’’اللہ تعالیٰ ہر لڑکی کوسب کچھ بنائے مگر طوائف نہ بنائے‘‘۔اس قابل اعتراض جملہ کی اشاعت کیلئے محبوب الرحمن فاروقی نے اپریل1992کے شمارہ میں معذرت کرنا واجب سمجھا کیونکہ اُن کی نظرمیں بھی یہ ایک ناشائستہ جملہ تھاجو سہواًشائع ہوگیا تھا۔اس کے باوجود دہلی کے سرکاری و نیم سرکاری رسالوں پر دھونس جمانے والی ادبی برادی حرکت میں آگئی ۔یہ وہی ادبی لابی تھی،جودہلی کے ادبی و نیم ادبی رسالوںپر اپنا تسلط و غلبہ قائم کرنے کی غرض سے ہمیشہ سے ہی الگ الگ مکھوٹوں کے سہارے متحرک رہی تھی۔ بے چارے محبوب الرحمن فاروقی کی مدیرانہ اعلیٰ ظرفی اور معذرت خواہی کچھ کام نہ آسکی اور اُن تمام لوگوں نے جنہیںپہلے سے ’’آجکل ‘‘ میں اپنی غیر معیاری تصانیف کی اشاعت میں ناکامی ہاتھ آچکی تھی اورجنہیں جناب محبوب الرحمن فاروقی نے ان کی نگارشات واپس کردی تھیں،ایک طوفان برپاکردیااور آخرش ان کا ’’آجکل‘‘سے تبادلہ ناگزیر ہوگیا۔

ایک ذمہ دار اور فرض شناس مدیرحالات سے کبھی گھبراتا نہیں بلکہ اپنے فرائض منصبی کی بہ حسن و خوبی انجام دہی کے ذریعہ مخالفین کو بھی اپنی وجاہت و لیاقت کا احساس دلاتا ہے۔محبوب الرحمن فاروقی ایسے ہی مدیر تھے جنہیں رسوا یا بدنام کرنے کی تمام تر سازشیں بالآخر ناکام ہوئیں اور ان کی آج کل میں نہ صرف یہ کہ واپسی ہوئی بلکہ یہیں سے وہ ایک لمبی مدت تک خدمات پیش کرنے کے بعد سبکدوش بھی ہوئے۔بہ حیثیت مدیر محبوب الرحمن فاروقی نے ماہنامہ آجکل کے معیارو مزاج کو بلندی عطاکرنے کی کوشش خوب خوب کی ،جس کی گواہی اُن کے دورِادارت میں منظر عام پر آنے والے ’’آجکل‘‘ کے شمارے از خود دے رہے ہیں۔ایک مدیر کی صرف یہ ذمہ داری نہیں ہوتی کہ موصول ہونے والی تخلیقات میں سے محض معیاری غزلوں ،نظموں،مقالوں یا دیگرنگارشات کا انتخاب کرتے ہوئے رسالے کو ترتیب دے دے بلکہ کامیاب مدیرتو وہ ہوتا ہے جو معیاری پرچوں کی اشاعت کیلئے اپنی مکمل توانائی صرف کردیتا ہے اور مصلحت پسندی اور تعلق برداری کی جگہ فراخ دلی کا ثبوت بھی پیش کرتاہے۔محبوب الرحمن فاروقی کے تعلق سے یہ بات ذمہ داری کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے ’’آجکل‘‘ کو خون جگر سے سینچنے کی کوشش کی۔کسی بھی سرکاری رسالہ میںمعیار کو اوولیت دینا، مشمولات میں تنوع کاخاص خیال رکھنا،بروقت شماروںکی اشاعت کو یقینی بنانا آسان کام نہیں ہوا کرتا۔ کہاجاسکتاہے کہ فاروقی صاحب نے ہر محاذپر بہتری لانے کی سچی کوشش کی۔اس کوشش میں انہیں کامیابی بھی ملی لیکن تعلقات کی گاڑی پرسوار ہوکر ادبی رسالوں کی سواری کرنے والا طبقہ اُن کی اس سعی سے خاصا بے چین رہا اورنتیجتاًایسے عناصرنے موصوف کے خلاف سازشوں کا جال بننے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں ہونے دیا۔

ماہنامہ’ آجکل‘میںمرحوم کے تحریر کردہ اداریوں کو اُن کی فکری بصیرت کا مرقع کہنا غلط نہ ہوگا کیونکہ انہوں نے بہ ذریعہ اداریہ معاملات کی تہہ میں پہنچ کر حقائق سے قاری کو واقف کرانے کی ایسی کوشش بھی کی جو بہت سے صحافیوں اور قلمکاروںکے بس کی بات بھی نہیں۔موصوف ایسے موضوعات پر بھی اداریہ تحریر کرنے سے گریز نہیں کیا کرتے ،جن سے اردو برادری خصوصاً ’جہلاء کی تیسری نسل‘کا غصہ ساتویں آسمان پرنہ پہنچے۔’جہلاء کی تیسری نسل‘ سے مراد فی زمانہ ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں مامور شعبہ ہائے اردو کے وہ اساتذہ ہیں،جو علمی لیاقت کی وجہ سے نہیں،بلکہکسی خاص شخص کے رحم و کرم سے اتالیق تو بن گئے لیکن استادی کے شعور سے آراستہ نہیں ہو سکے اور انجام کاران کی جانب سے ایسی بو العجبی  و مضحکہ خیزی دکھائی جاتی رہی کہ اللہ کی پناہ۔…جہلاء کی اس تیسری نسل کو آئینہ دکھاناآسان نہیں لیکن یہ محبوب الرحمن فاروقی کے قلم کا ہی کمال ہے کہ اُنہوںنے یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اردوکی خبر ہی نہیں لی بلکہ یہاں’’ تحقیق‘‘ کے نام پرروارکھے جانے والے ’نارو‘ سلوک کا بھی نہایت معقول اندازمیںپردہ چاک کیا۔ اگست1995کے ماہنامہ’ آجکل‘ کااداریہ اُن کی فکری بصیرت اور صحافیانہ بے باکی دونوں کو اُجاگر کرتا ہے۔آئیے دیکھیں ایک مدیر کے طورپر محبو ب الرحمن فاروقی کا قلم کس طرح حقیقی صورتحال کو منعکس کرتاہے۔موصوف لکھتے ہیں:

’’کبھی آپ نے غور کیاہے کہ ہمارے یہاںتحقیق کس طرح کی ہوتی ہے؟اور اس کا معیار کیاہے؟تحقیق سے میری مرادیہاں اِس تحقیق سے ہے جو کالج اور یونیورسٹیوںمیں پی ایچ ڈی یا ڈی لٹ کے نام پرکی جاتی ہے۔حالانکہ یہ میرا میدان نہیںہے…اور اس بارے میںزبان کھولنا سوئے ادب ہے لیکن کبھی کبھی اردوکا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے یہ خیال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی جتنی بھی تحقیق کی جارہی ہے،اُس کی افادیت کیاہے؟ اوراس سے ہمارے ادب کی مجموعی صورتحال پر کیااثرپڑ رہاہے۔…ایک وقت تھا کہ اردومیںتحقیق بہت ہی جوکھم بھرا کام سمجھاجاتاتھا۔اورلوگوںنے اپنی زندگیاں اس کیلئے وقف کردیں۔متنی تحقیق جس سے متن کی تدوین کی جاسکے اورادیب،شاعریااس کی تخلیق کی غرض و غایت ،تاریخ اوراس کے بارے میںتحقیق کرنابڑا مشکل اور دشوار سمجھاجاتا تھااورتحقیق سے مرادبھی اسی طرح کی تحقیقی کاوشوں سے لیاجاتاہے جو محقق کی اپنی تخلیق بھی سمجھی جاتی ہے۔یہ ایک نہایت دشوار کا م تھا۔پرانے مسودوں کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹکنا،اُنہیں پڑھنا اور سمجھنا،دوسرے مسودوں سے اُن کا تقابلی  مطالعہ کرنااتناآسان بھی نہیں تھا۔اب نتیجتاًاس طرح کی تحقیق کا رواج تقریباًختم ہوتاجارہاہے۔اس کے برعکس سہل پسندی کی روش عام ہوگئی اورڈگری حاصل کرنے کیلئے تحقیق کا رواج چل پڑا۔ڈگری حاصل کرنا ایک مجبوری بھی تھی کیونکہ چند سال  پہلے تک کالجوں اور یونیورسٹیوںمیںتقرری کیلئے اس طرح کی ڈگری ایک لازمی شرط تھی،لیکن اب یوجی سی کے نیٹ ٹسٹ کے بعدیہ ڈگری لازمی نہیں رہ گئی۔آج صورتحال یہ ہے کہ ہمارے طلباء کویونیورسٹیوںسے ایم اے کرنے کے بعدجب کوئی راستہ نظر نہیں آتاتووہ پی ایچ ڈی کیلئے رجسٹریشن کرالیتے ہیں۔اس طرح تین چار سال آرام سے گزرجاتے ہیںکیونکہ بیشتر طلبہ کوکسی نہ کسی طرح کا وظیفہ مل جاتا ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب اسے ملازمت کے حصول کیلئے ایک زینہ تصور کیاجائے اورجب اولین مقصد وقت گزارناہوتوایسی صورت میںیہ تو سوچا ہی نہیں جاسکتا کہ  ادب سے اپنے فطری لگاؤیا رجحان کی وجہ سے انہوںنے تحقیق کا فیصلہ کیا ہے۔خیر ہمیں اس سے غرض نہیںکہ لوگ پی ایچ ڈی یا ڈی لٹ کیوں کرتے ہیں؟ہمارا سوال تو یہ ہے کہ ان کا معیاراور ان کی افادیت کیاہے؟مجھے معلوم ہوا کہ صرف دلی کی ایک مشہور یونیورسٹی میں اس وقت ریسرچ اسکالرزکی مجموعی تعدادتقریباً70ہے(ممکن ہے یہ تعداد کچھ کم ہو ۔میں محقق نہیں)جبکہ اطلاع کے مطابق اس یونیورسٹی میںاساتذہ کی تعداد صرف 6ہے۔اور دو ایک لوگ عارضی طورپرتدریس کا کام کررہے ہیں۔اگر حساب لگایاجائے تواوسطاًفی استادبارہ کے قریب اسکالر آتے ہیں،جنہیں گائیڈینس دینی پڑتی ہے۔یہ تعداد گھٹ یا بڑھ سکتی ہے۔اب آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ ریسرچ کیلئے جو اسکالرزمختلف موضوعات پر تحقیق کاکام کررہے ہیں،اُنہیںان کے سوپر وائزرکس طرح کی گائیڈینس دیتے ہوںگے۔…ایک عمومی صورتحال یہ بھی پیدا ہو چکی ہے کہ اب پی ایچ ڈی کے موضوعات میں اکثر یت زندہ ادیبوں کی زندگی اور ادبی خدمات پر مبنی ہوتی ہے۔اور اس کیلئے یہ ضروری نہیں کہ جسے تحقیق کا موضوع بنایا گیا ہے وہ ملک گیر شہرت کا حامل ہوبلکہ جس کسی نے بھی ایک دو شعری مجموعے شائع کر دایے،یا جس کی ایک دو کتابیں بھی شائع ہو گئیں،اُن کی زندگی اور ادبی خدمات پر باقاعدہ ریسرچ کاکام شروع ہو گیا۔بلکہ اب تو یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ آپس میںایک دوسرے سے صلاح  مشورہ کے بعد’’الف‘‘ کالج کے لیکچرر کی زندگی اور ادبی خدمات پر’’ب‘ ‘کالج کاریسرچ اسکالر تحقیق کررہا ہے جبکہ ’’الف‘‘ کالج کاریسرچ اسکالر’’ب‘‘ کالج کے لیکچرر پرریسرچ کررہا ہے۔…ان لوگوںکی ادبی خدمات صرف وہ تھیسس ہوتی ہیںجو پی ایچ ڈی کرنے کیلئے انہوںنے لکھی؍لکھوائی۔ کہتے ہین کہ دیگ کے ایک دانے سے پوری دیگ کے چاول کا اندازہ ہوجاتا ہے۔خیال ہے کہ ہندوستان کی دیگر یونیورسٹیوںکی صورتحال بھی کچھ اس سے زیادہ مختلف نہیں ہوگی۔اس طرح کی ریسرچ کا معیار کیا ہوگااور ان کی افادیت کیا ہوسکتی ہے،ان کے بارے میںآپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہی پی ایچ ڈی کی ڈگری لئے ہوئے لڑکے جب خود لیکچرر بنیں گے تو وہ ادب کیا پڑھائیں گے اور ان کے طالب علموں کا معیار کیاہوگا؟کیا اسے پستی یا زوال کا نام دیاجاسکتا ہے؟…تحقیق کے اس گرتے ہوئے معیارپرجس سے ادب کا پورا مستقبل وابستہ ہے،کون غور کرے گااور کیاہمارے نامی گرامی  اساتذہ اپنی انجمنوںکے ذریعے کبھی اس بات کی کوشش کریں گے کہ آخر اس پستی کو دور کیسے کیاجائے‘‘۔

اردو سے حقیقی معنوں میں محبت کرنے والاایک بے باک اورحقیقت پسند مدیراپنے طرز تحریر سے ایسے لوگوں کو ہمیشہ مشکل میں ڈالتا رہا،جس کا مقصد اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ کسی بھی طرح اردوبرادری کی بھیڑ میں شامل ہو کر اردو کی کمائی کھائی جائے اور عملاًاردو کو زندہ درگور کیاجائے۔شاید محبوب الرحمن فاروقی اپنی ایسی ہی حقیقت پسندانہ تحریروں کی وجہ سے برسوںیاد کئے جائیں گے،جنہوںنے سازشوں کی پرواہ کئے بغیر کچوکے لگانے والی ایسی تحریریں منصہ شہود پر لائیں،جو اپنی مثال آپ ہے۔

یہاں یہ تذکرہ غیر ضروری نہیں کہ ’’ آجکل‘‘ میں محبوب الرحمن فاروقی کے رہتے ہوئے جب دہلی کی’’نام نہاد اردو برادری‘ کی دال نہیں گل سکی تو فرائض کی ادائیگی میں انہیں غافل قرار دلانے کیلئے باضابطہ وزارت اطلاعات و نشریات میں یہ کہتے ہوئے شکایت بھی درج کرائی گئی کہ’’ پبلی کیشن ڈویزن میں’’ آج کل‘‘ اردوکے مدیر کا چیمبر عملاًمسجد میں بدل چکا ہے اور جب دیکھونمازہی پڑھاجاتا ہے‘‘۔کہتے ہیں کہ وزیر کی دربار میں محبوب الرحمن کی طلبی ہوئی اور جب شکایت کی بابت وزیرنے دریافت کیاتو مرحوم نے نہایت معقول جواب دیاجس کا خلاصہ یہ تھاکہ ’’ مسجد چونکہ دور ہے،اس لئے باجماعت نمازکی ادائیگی کیلئے ڈیوٹی کے اوقات میں مسجد جانے سے دفتری امور میںرُکاوٹ آسکتی ہے ،لہٰذا آنے جانے میںوقت برباد نہ ہو،اِس لئے نماز کے اوقات میں دفتر کے اندر ہی دوگانہ اداکرتا ہوں‘‘۔ جواب سب کر وزیرکو مطمئن ہی نہیں ہونا پڑا بلکہ کہتے ہیں کہ شکایت کنندگان کی بھی کرکری ہوئی کیونکہ سازشی عناصرکا داؤںاُلٹا پڑگیا۔

اب جبکہ محبوب الرحمن فاروقی اِس دنیائے فانی میں نہیںرہے،شاید اُن کی کچھ اچھی کوششیں اوران کی فکرانگیزتحریریں ادب وصحافت کے طالب علموں کے درمیان ان کی یاد تازہ کرتی رہیں گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف یہ کہ’’ آج کل ‘‘ کیلئے تحریر کردہ ان کے اداریوں کوالگ سے کتابی شکل میں بھی شائع کیا جائے بلکہ اِن کی دوسری بکھری ہوئی  تحریروں کو بھی یکجاکیاجائے کیونکہ کل کو اوراق پریشاں کی نذرہوجانے کے بعداِنہیں حاصل کرپانا مشکل ہی نہیں ہوگا بلکہ ناممکن بھی بن جائے گا۔

بہرحال محبوبِ حقیقی کے دربارمیں ’محبوب‘کاچلے جانایقینا ہم سبھوں لوگوں کیلئے صدمہ انگیز خبرہے۔ اللہ مرحوم کے درجات بلند کرے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطافرمائے۔

(آمین)

**********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 617