donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   India Urdu Society Ke Zer Ahtemam Mahana Sheri Nishist

انڈیا اردو سوسائٹی، قطر  کے زیر  اہتمام  ماہانہ شعری نشست

    انڈیا اردو سوسائٹی،قطر نے اکتوبر ۲۰۱۵؁ء کی ماہانہ شعری نشست علامہ ابن حجر لائبریری کے کشادہ ہال میں آراستہ کی ۔ دوحہ کی معروف ادبی و سماجی شخصیت جناب محمد رفیق شاد اکولوی نے نشست کی صدارت فرمائی اورانڈیا اردو سوسائٹی کے رکن جناب محمد یعقوب نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ گزشتہ مہینے کی طرح اس بار بھی جناب محمد شاہد خاں نے مشاعرہ کی کامیاب نظامت کی۔ نشست کا آغاز جناب محمد فاروق ندوی آسامی کی تلاوت قرآن سے ہوا۔ حسب روایت تلاوت کلام پاک کے بعد انڈیا اردو سوسائٹی،قطر کے بانی اور شاعر خلیج جناب جلیل نظامی نے بارگاہ رسالتمآب میں نعت کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ، ہمیشہ کی طرح اپنے بلند آہنگ ترنم اور لطیف اشعار کی بدولت نظامی صاحب نے محفل پر ایک سماں طاری کردیا اور خوب خوب داد و تحسین حاصل کی ۔ نعت کے منتخب اشعار سے آپ بھی حظ اٹھائیں :

وجہ تخلیق کون و مکاں مصطفی
جنبش خامئہ کن فکاں مصطفی
آبتاؤں تجھے ہیں کہاں مصطفی
قلب انصار میں ہیں نہاں مصطفی

    آج کے مشاعرہ کی تھیم  ’اردو زبان‘  تھی ، بیشتر شعراء نے تھیم کی رعایت کرتے ہوئے اردو زبان کے حوالہ سے اپنے تازہ نتائج فکر سے سامعین کو نوازا ۔  ناظم مشاعرہ جناب محمد شاہد خاں نے تھیم کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ  ’ اردو زبان کی تاریخ تقریبا سات صدیوں پر محیط ہے ، اسے کبھی گجری کے نام سے جانا گیا تو کبھی دکنی کے نام سے ، کبھی ہندوستانی تو کبھی ریختہ ،لیکن عہد شاہجہانی میں اسے اردوئے معلی کا لقب ملا جو جاوداں ہوگیا ۔ اردو کے تعارف میں صرف یہ کہنا کہ یہ وحدت کی اساس ہے ،اس پیاری زبان کے ساتھ ناانصافی ہوگی ، وحدت تو ہرز بان کی خصوصیت ہوتی ہے ، گجراتی گجراتیوں کو جوڑتی ہے تو مراٹھی مراٹھوں کو ، جبکہ بنگالی تمام بنگالیوں کوزبان کی بنیاد پر متحد کرتی ہے ۔ لہذا میری نگاہ میں اردو کی مابہ الامتیاز خصوصیت یہ ہے کہ وہ تہذیبی اختلاط ، میل محبت ، بھائی چارے اورمذہبی رواداری کی زبان ہے ۔
    یہ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی تیسری زبان ہے ، اس میں چودہ ایسی آوازیں پائی جاتی ہیں جو اس کے علاوہ کسی اور زبان کے نصیب میں نہیں آئیں مثلا ڈ ٹ ڑ، بھ جھ پھ ، ڈھیٹ ، ٹھوکر وغیرہ ، اس زبان میں ایک سے لیکر سو تک کی گنتی صرف ایک لفظ مفرد کی مددسے گنی جاسکتی ہے جیسے اکیس ، پچپن ، ننانوے ۔ یہ وہ زبان ہے جو نہ کسی جغرافیائی تقسیم کو گوارہ کرتی ہے اور نہ کسی سے لسانی بیر رکھتی ہے بلکہ سب کے ساتھ مل کر شیر و شکر ہوجاتی ہے ، غالب کی تعبیر میں :

ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

    لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج اردو کو مذہب سے جوڑ دیا گیا ہے ، برصغیر ہند کی تقسیم کے بعد سیاسی مقاصد کے تحت ہندی کو ہندؤوں کی زبان بنایا گیا اور اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دیا گیا ، جبکہ اردو مذہبی فرقہ واریت کے سخت خلاف ہے ، یگانہ کا یہ شعر دیکھئے :

سب ترے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیا
سر پھرا دے انساں کا ایسا خبط مذہب کیا

اور یہ شعر بھی :

کفر کافر کو بھلا شیخ کو اسلام بھلا
عاشقاں آپ بھلے اپنا دلآرام بھلا

    اہل علم جانتے ہیں کہ اردو شاعری مذہبی رنگ سے گریزاں رہی ہے، اسی لئے محتسب ، ناصح اور زاہد وغیرہ اردو شاعری میں ہمیشہ ولن کی حیثیت میں آئے ہیں ، فیض کا یہ شعر ملاحظہ ہو:

محتسب کی خیر اونچا ہے اسی کے فیض سے
رند کا ساقی کا مے کا خم کا پیمانے کا نام

یا بیخود بدایونی کی زبان میں :

واعظ و محتسب کا جمگھٹ ہے
میکدہ اب تو میکدہ نہ رہا

    آج کے مشاعرے کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی کہ ایک نثری فن پارہ بھی سامعین کی معلومات میں اضافہ کاسبب بنا ، موازناتی ادب ڈاکٹر ابو سعد ندوی کی خصوصی دلچسپی کا موضوع ہے ، اس موضوع پر انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے ۔ انہوں نے آج کی نشست میں عہد اموی کے مشہور شاعر متنبی اور غالب کے کلام کا تقابلی جائزہ پیش کیا ، دونوں کے یہاں فکر اور مضامین کا توارد واقعی حیرت و استعجاب کا سبب بنتا ہے ، ڈاکٹر صاحب نے مختلف مضامین پر دونوں نابغہ روزگار شعراء کے اشعار پیش کئے جن سے سامعین کی معلومات میں گراں قدر اضافہ تو ہوا ہی ، یہ بھی ثابت ہوگیا کہ انسانی جذبات اور انکے اظہار میں وقت اور زمانہ کا بعد بہت زیادہ مؤثر نہیں ہوتا ۔ تہذیبی اور ثقافتی مظاہر جتنی جلد بدلتے ہیں ، انسانی جذبات و احساسات کو بدلنے میں اتنی ہی دیر لگتی ہے ، بلکہ بعض تو بدلتے ہی نہیں ۔ یقینا یہ ایک قیمتی مضمون تھا جس سے حسب استعداد  تمام حاضرین نے استفادہ کیا ۔

    آج کے مشاعرے ؎میں دس شعراء نے اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ فرمایا ، ان کا منتخب کلام سامعین کی ضیافت طبع کے لئے حاضر ہے :

 وقار احمد وقار:

ہاتھ میں مہندی لگا، آنکھ میں کاجل کرکے
رکھ دیا اس نے مجھے پیا ر میں پاگل کرکے
میں نے سمجھا تھا بڑا ہو کے سدھر جائیگا
اس نے تو رکھ دیا گھر بار کو جنگل کرکے

وصی الحق وصی :

عالم شوق میں رفتار زماں ہے اردو
اپنے محور پہ رواں اور دواں ہے اردو
عمر کے ساتھ سنورتی رہیں زلفیں اس کی
دیکھئے! آج بھی دلکش ہے جواں ہے اردو
بزم در بزم فروزاں ہیں اسی کی شمعیں
کون کہتاہے کہ مائل بہ خزاں ہے اردو
بس وصی اس کے تعارف میں یہی کافی ہے
داغ کی، میر کی،غالب کی زباں ہے اردو

 سید فیاض بخاری کمال:

لطفِ دوام ملتا ہے جس کے وصال میں
اسکے ہی قرب میں رہوں ہر حین و حال میں
پر تو ہے جس کے نورکا رخشندہ آفتاب
جس کی ہیں ضوفشانیاں بدروہلال میں
وہ لا شریک بھی ہے وہی لایزال بھی
اپنی مثال آپ وہ جاہ و جلال میں

  وزیر احمد وزیر :

تجھ سے پہلے مرے دل میں کوئی مہمان نہ تھا
دل دھڑکتا تھا پر ایسا کبھی طوفان نہ تھا
تو مرے واسطے اتنی بھی شناسا تو نہ تھی
میں ترے واسطے اتنا بھی تو انجان نہ تھا
جانے کس خوف سے سہمے ہیں شجر کے پتے
دشت پہلے کبھی اتنا بھی تو ویران نہ تھا

 مقصود انور :

زندگی کی دھوپ کا موسم بدل جانے کے بعد
لوگ دیتے ہیں سہاراخطرہ ٹل جانے کے بعد
جو ندی اترا رہی ہے اپنے دھارے پر ابھی
لے گی اپنا جائزہ ساگر میں ڈھل جانے کے بعد
اس جہاں میں بے غرض مقصود کوئی بھی نہیں
سب بھلا دیں گے تجھے مطلب نکل جانے کے بعد

افتخار راغب :

گستاخیاں بھی کرنی ہوں گر میری شان میں
یہ التجاہے کیجئے اردو زبان میں

انہیں سے عظمت ِ اردو بحال ہے راغب
جو گفتگو میں ادا  شین قاف رکھتے ہیں


یہ سوٹ لہنگے سے مہنگا ہے کیا کیا جائے
ذرا سی بات کا جھگڑا ہے کیا کیا جائے
سبھی ثبوت ہیں ملزم کے ہی خلاف مگر
اسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے کیا کیا جائے
میں لکھ رہا ہوں کہ اب آچکے ہیں اچھے دن
کہ مرغ دال سے سستا ہے کیا کیا جائے

  یوسف کمال:

سفر میں یہی موت سے بات ہوگی
کہاں دن ڈھلے گا کہاں رات ہوگی
ٹھہر جا ذرا بھر لوں آنکھوں میں تجھ کو
خدا جانے پھر کب ملاقات ہوگی
گھٹاؤں کو رخ پر سجانے سے ان کے
کہیں دن رہے گا کہیں رات ہوگی

  عتیق انظر:

پھول پر اوس ہے، عارض پہ نمی ہو جیسے
اس کے چہرے پر مری آنکھ دھری ہو جیسے
اب بھی رہ رہ کے مرے دل میں سسکتاہے کوئی
اس میں مورت کوئی بچپن کی چھپی ہو جیسے
خط میں اس طرح و ہ تادیب مجھے کرتی ہے
عمر میں مجھ سے کئی سال بڑی  ہو جیسے  
تجھ سے مل کر بھی اداسی نہیں جاتی دل کی
تو نہیں اور کوئی میری کمی ہو جیسے

یہ کیا کہ تم تو پیکر حیرت ہی بن گئے
یہ تو غزل کے شعر ہیں جادو نہیں کوئی
اپنے بھی اور غیر بھی جب سب ہوں بے وفا
پھر کس طرح جیوں گا میں اردو نہیں کوئی

 جلیل نظامی :

وہ پری وش لب و رخسار سے گیسو سے کھلا
میں سخنور تھا میں اشعارکی خوشبو سے کھلا
روشنی ڈوبتے سورج میں کہاں سے آئی
راز کل شب یہ چمکتے ہوئے جگنو سے کھلا
کالے ناگوں ہی میں ہوتا نہیں زہر قاتل
ڈنک ٹوٹے ہوئے اک دودیے بچھو سے کھلا
قفل ابجد کی طرح تھا مرا محبوب جلیل
طرز غالب سے نہیں میر کی اردو سے کھلا

بر سر عام مرا حال زبوں پوچھتے ہیں
بات گھر کی تھی وہ بازار میں کیوں پوچھتے ہیں
کیا بتاؤں میں انہیں آپ بتائیں مجھ کو
بھول جاؤں کہ تجھے یاد رکھوں پوچھتے ہیں

شاد اکولوی :

ہنر کا بھیس رچے،صاحب نظر بھی نہ ہو
تو ایسی بات کسی طرح معتبر بھی نہ ہو
گھروندے ریت کے ٹوٹے، بکھر گئے کتنے
ہوائے تند کو شاید کبھی خبر بھی نہ ہو
گندھی ہوئی ہے جو گندھک سے چاک پر مٹی
تو بے خبر کہیں مسکین کوز ہ گر بھی نہ  ہو
جو صاف دل ہو تو پھر شاد کیوں نہیں کہتے
دو ٹوک بات کہ جس میں اگر مگر بھی نہ ہو


    جناب شاد اکولوی جو آج کی نشست کے صدر نشیں بھی تھے کے ساتھ ہی آج کے شعراء کی فہرست مکمل ہوئی ۔ ناظم مشاعرہ کی دعوت پر مہمان خصوصی جناب محمد یعقوب صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوے فرمایا کہ میرا تعلق اردو خواں علاقہ سے نہیں ہے، میں نے اردو پڑھی بھی نہیں ہے لیکن آپ لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے اور ان شعری و ادبی مجلسوں میں شرکت کے توسط سے رفتہ رفتہ اس زبان سے میری واقفیت اور محبت ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے ، میں آپ لوگوں کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے مجھے اس باوقار محفل کا مہمان خصوصی بنا کر مجھے عزت بخشی۔

    جناب محمد رفیق شاد اکولوی صاحب نے اپنی صدارتی گفتگو میں نشست کی کارروائی پر مختصر اور جامع تبصرہ فرمایا ، انہوں نے کہا کہ یہ انڈیا اردو سوسائٹی کے متحرک اراکین کی محنت اور لگن کا نتیجہ ہے کہ اتنا اچھا مشاعرہ سننے کو ملا ، ان لوگوں کے اصرار سے مجبور ہوکر سبھی شعراء نے کچھ نہ کچھ تازہ کلام پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر ابو سعد صاحب کا مقالہ بھی بہت معلوماتی اور مفید رہا ، میں نے خود اس سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ ایک خاص بات یہ کہ ہمارے درمیان نئے شعراء کا اضافہ بہت قابل قدر ہے ،جن دو شعراء کے ذریعہ مشاعرہ کا آغاز کیا گیا انہوں نے ہی مشاعرہ کا آہنگ کافی بلند کردیا تھا ۔ سامعین نے بھی پوری توجہ سے مشاعرہ میں شرکت کی اور ان کی نوک جھونک سے دلی اور لکھنؤ کے مشاعروں کی یاد تازہ ہوگئی ۔مجھے لگتا ہے کہ خودانڈیا اردو سوسائٹی کے ماہانہ مشاعر وں میں ایسی کامیاب نشست پہلی بار ہوئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی میں انڈیا اردو سوسائٹی  کے ذمہ داران کا شکر گزار ہوں کہ اس نشست کی صدارت کے لئے میرا انتخاب کرکے مجھے عزت بخشی ۔

    صدارتی تقریر کے بعد آج کی نشست کے میزبان ڈاکٹر ابو سعد صاحب نے کلمات تشکر ادا کئے اور انڈیا اردو سوسائٹی کے صدرجناب عتیق انظر نے نشست کے اختتام کا اعلان کیا ۔

*****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 566