donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Mumbai University Me Dr. Salim Khan Ke Novel Zarparast Sarparast,Sarparast Par Muzakra

ممبئی یونیورسٹی میں ڈاکٹر سلیم خان کے ناول ’زرپرست سرپرست ،سرپرست ‘ پر مذاکرہ 
 
ممبئی: شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹر سلیم خان کے ناول ’زرپرست سرپرست ‘ پر ایک ادبی مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ شعبۂ اردو کے صدر ، پروفیسر صاحب علی کی صدارت میں منعقد ہونے والی اس  تقریب میں ڈاکٹر سلیم خان کے مذکورہ ناول کی  فنی خوبیوں اور خامیوں  نیز ان کی دیگر کاوشوں پر سیر حاصل گفتگو ہوئی ۔پروگرام کی نظامت کے فرائض انجام دینے والے قمر صدیقی نے ابتدائی کلمات میں ڈاکٹر سلیم خان کی شخصیت اور فن پر مختصر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر سلیم خان ادب کا سنجیدہ ذوق رکھتے ہیں  اور فکشن نگاری کے فنی محاسن سے کما حقہ واقفیت ان کی نگارشات کو معیاری اور معتبر بناتی ہے۔
 
ڈاکٹر سلیم خان کے ناول پر پہلا مقالہ ایم فل کے طالبعلم احرار اعظمی نے پیش کیا۔ احرار اعظمی نے قدرے تفصیل سے ناول کا خلاصہ اور فنی تجزیہ پیش کیا ۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر سلیم خان کا یہ ضخیم ناول انسانی سماج میں زر پرستی کے سبب پیدا ہونے والے خطرناک قسم کے مسائل پر روشنی ڈالتا ہے۔ اور ساتھ ہی وقت اور حالات کے سبب انسانی رشتوں کی بدلتی نوعیت اور جذبہ و احساس پر اس تبدیلی کے اثرات کو بھی مختلف کرداروں کے حوالے سے پیش کرتا ہے۔ احرار اعظمی نے ناول نگار کی  فنی لغزشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ان کے باعث ناول کی فضا بعض مقامات پر بوجھل ہو گئی ہے تاہم  مجموعی اعتبار سے یہ  ناول ڈاکٹر سلیم خان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے پر نمایاں کرتا ہے۔شعبۂ اردو میں ایم فل کے ایک اور طالبعلم رضوان احمد نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ناول کا موضوع اور اسلوب دونوں ہی قاری کو متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اردو ناول نگاری کی روایت کاذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیم خان کے ناول ’زرپرست سرپرست‘کو اس روایت ایک اہم کڑی قرار دیا۔
 
  شعبۂ اردو کے ان طلباکے علاوہ ممبئی کے ادبی و صحافتی حلقہ کی دیگر شخصیات نے بھی مذکورہ ناول پر اظہار خیال کیا۔ روزنامہ انقلاب کے فلمی کالم نگار شفیق احمد صدیقی نے کہا ڈاکٹر سلیم خان نے اپنے ناول میں جس مکالمہ نگاری کو پیش کیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مکالمہ نگاری میں نہ صرف ڈاکٹر سلیم خان کو مکمل دسترس حاصل ہے بلکہ وہ اسے ناول کے فنی تقاضوں کے پیش نظر اسے برتنا بھی جانتے ہیں۔انہوں نے مکالموں کی طوالت اور واقعات کی بے ترتیبی کا گلہ بھی کیا اور کہا ناول پڑھتے ہوئے طویل مکالمہ قاری کو گراں گزرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ناول میں روزینہ کی موت کے بعد دلچسپی ختم ہو جاتی ہے مگر کہانی ہمیں باندھے رکھتی ہے ۔
 
  معروف قلم کار اسلم غازی نے ناول کے موضوع اور اس کے فنی محاسن و معائب پر گفتگو کی اور کہا ناول ’’زرپرست سرپرست‘‘ کی کہانی ایک سرمایہ دار سرواٹسن میکارڈے کے گرد گھومتی ہے جو ایک غیر معروف جزیرے کو دنیا کا اہم ترین سیاحتی مرکز بنانے کے لیے زر، زن اور زمین کی مدد سے ہر قسم کے اوچھے اور سفاک ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ ناول کے وسیع منظرنامے میں مغرب کی بین الاقوامی سازشوں کے علاوہ اس کے گھنائونے ماضی کو بے نقاب کرکے اصلی امریکی باشندوں (ریڈ انڈینوں) کا قتل عام، افریقی لوگوں کا اغوا اور فروخت، جمہوریت کی آڑ میں استعماری عزائم کی تکمیل اور غیر یوروپین اقوام کا استحصال، سیکولرزم کی آڑ میں صلیبی جنگیں نیز دو عیسائی فرقوں( کیتھولک اور پروٹسٹنٹ) کی جنگ کا  2 عظیم جنگوں میں بدلنا اور تقریباً  10 کروڑ انسانوں کی ہلاکت جیسے جرائم کو طشت ازبام کیا گیا ہے   ناول میں ہر ہر قدم پر تحیر اور استعجاب کی فضاء ہے جو شروع سے آخر تک قاری کی دلچسپی کو برقرار اور آگے کے واقعات کے متعلق اس میں جستجو اور سسپنس کو جگائے رکھتی ہے۔ ناول کی یہ خوبی اس کی کامیابی اور مقبولیت کی ضمانت ہوگی۔ نسیم حجازی،عبدالحلیم شرر، صادق سردھنوی اور التمش کے تاریخی اور ابن صفی کے جاسوسی ناولوں سے قطع نظر اُردو کا غالباً یہ پہلا ناول ہے جس میں مغربی استعمار کے مکروہ چہرے کو آئینہ دکھایا گیا ہے۔ناول کے بعض کردار اپنا دائمی تاثر چھوڑتے ہیں جن میں سرواٹسن میکارڈے، میکالو اور روزنیہ اہم ہیں۔ خصوصاً سرواٹسن میکارڈے کے کردار کی تخلیق بڑی مہارت سے کی گئی ہے تاہم کہ کرداروں کے نام قاری کو گراں محسوس ہوتے ہیں ۔
 
اردو کے معروف افسانہ نگار  م۔ناگ  نے فرمایا آج کل جو ناول لکھے جارہے ہیں اس تناظر میں ڈاکٹر سلیم خان کا ناول ایک الگ سمت  کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اس ناول سے ہم سرسری طور پر نہیں گزر سکتے ۔  کبھی اس کا کوئی مکالمہ آپ کا دامن پکڑ لیتا ہے تو کبھی کوئی منظر آپ سے چمٹ جاتا ہے ۔کبھی کوئی کردار آپ کو ایسے گلے لگا لیتا ہے کہ آپ اس سے  پیچھا نہیں چھڑا سکتے ۔تو کبھی کوئی خواب غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ ایسا ہی ایک خواب ناول کا ایک اہم کردار جوزف دیکھتا ہے ۔یہ خواب دراصل جوزف نہیں ہم سب دیکھ رہے ہیں۔یہ خواب لمحہ لمحہ مٹنے والی دنیا کی وہ سچائی ہے جس سے زندگی کا فلسفہ اور موت کی حقیقت آشکارہ ہوتی ہے۔ دراصل یہی خواب ہے جس کی تخلیقی تعبیر ہر صاحبِ بصیرت تخلیق کار لکھنا چاہتا ہے۔ اس خواب کی تعبیر ناول کے کرداروں میں حلول کر گئی ہے۔  ناول کی خوبی یہ ہے کہ اس میں آج کی گلوبل زندگی کے عالمی کینواس پر نقش و نگار ابھارے گئے ہیں ۔صارفیت پر یہ ایک عمدہ تخلیق ہے۔ زرپرست دنیا کی واشگاف حقیقتوں کا یہ ایسا دستاویز ہے جو فریبی چہروں سے مکھوٹے نوچتا ہے۔ ڈاکٹر مصطفیٰ پنجابی نے اپنے مختصر تبصرے میں کہا کہ جس سر میں زرپرستی سما جائے وہ اس قابل ہے کہ اس میں سوراخ کردیا جائے ۔ 
 
ان شخصیات کے علاوہ روزنامہ ’اودھ نامہ‘ لکھنوٗ کے مدیر اعلیٰ عالم نقوی کا مقالہ ظفر انصاری پیش کیا۔ جس میں انہوں نے  لکھا کہ ناول زرپرست؍سرپرست کومحض زرپرستوں اور قارون صفت سرپرستوں ہی کی نہیں دنیا کے تمام موقع پرستوں اور ابن الوقتوں کی کہانی ہے۔ ہم جیسے گفتار کے غازی صرف Idealisticباتیں کرکے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ کتابی ؍نظریاتی باتیں کرکے سماج کی کیتھارسس(Catharsis)کی کوشش کرتے ہیں اور حالات  پرذرہ برابر اثر انداز نہیں ہوتے۔ لیکن ایک کامیاب اور ذمہ دار کہانی کار جب اُن ہی Idealsاور نظریات کو واقعات اور کرداروں کی شکل میں کاغذ پر زندہ و متحرک دکھاتا ہے تو ا ن کی اثر پذیری دسیوں گنا بڑھ جاتی ہے۔Ought to be ’جو ہونا چاہیے‘کو ’جو ہے یا ہورہا ہے‘ Being  بنا کر پیش کرنا مذاق نہیں۔ اس کے لیے قرۃ العین حیدر، نیر مسعود، معین الدین جینا بڑے ، ذکیہ مشہدی ،عائشہ صدیقی ، صبیحہ انور اور سلیم خان بننا پڑتا ہے۔ تب کہیں جاکے ایک اچھی کہانی ایک مؤثر کہانی اور ایک دل میں اتر جانے والی کہانی وجود میں آتی ہے۔ مقامات افراد اور بعض واقعات سے مطابقت رکھنے کی بنا پر اسے تاریخی ناول نہیں کہا جا سکتا ۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر افسانے کی بنیاد حقیقت ہی پر رکھی جاتی ہے سو،زرپرست سرپرست میں بھی ہم ایسے نام ، واقعات اور حوالے دیکھتے ہیں جن کا تعلق ہمارے زمانے سے ہے اور جن سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ ہمارا یہ علم ناول کی مطالعاتی کششReadabilityمیں مزید اضافہ کرتا ہے۔ 
 
ڈاکٹر سلیم خان نے ناول کی تخلیق  کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے  کہا کہ میں نے اس میں گلوبلائزیشن کے ان مہلک اثرات کو بیان کرنے کا قصد کیا ہے جن کی وجہ سے عالمی سطح پر انسانی معاشرہ مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہورہا ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان نے تنقید کو خیرخواہی قراردیا اور کہا اس سے تنقید کرنے والے اور جس کی تنقید کی جائے ان دونوں کا فائدہ ہوتا ہے۔  مذاکرے کے صدر پروفیسر صاحب علی نے فرمایا ناول نگاری کیلئے دوچیزوں کا ہونا نہایت ضروری ہے  اول یہ کہ ناول نگار کو کہانی بننے کا ہنر آتا ہو اور دواسرا یہ کہ اس کے پاس زبان ہو۔ ڈاکٹر سلیم خان  کو ناول لکھنے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے آئندہ بھی ان کے قلم سے ایسی تخلیقات منظر عام پر آئیں گی۔ آپ نے  جو صاحب ذوق حضرات کو اپنی طرف متوجہ کریں گی۔ 
 
 
اس تقریب  میں ہندی اردو ساہتیہ سنگم لکھنوٗ کی جانب سے ڈاکٹر سلیم خان کو ان  کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ٹرافی پیش کی گئی۔ ڈاکٹر سلیم خان کے برادر خورد اسلم خان نے پروگرام کے شرکاکا شکریہ ادا کیا۔اس پروگرام میں شعبۂ اردو کے اساتذہ معزہ قاضی، ڈاکٹر عبداللہ امتیاز اور داکٹر جمال رضوی کے علاوہ ڈاکٹر سید عبداللہ ، مصطفیٰ پنجابی ، اعظم شہاب ، منور رضوی، ظہیر انصاری، ذاکر خان ذاکر،ڈاکٹر رشید اشرف ، شاداب رشید،غلام صابر اور کثیر تعداد میں طلبا نے شرکت کی۔    
 
**********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 1111