donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Takhleeq Karon Ko Naye Zaviye Se Sonchne Aur Kaam Karne Ki Zarurat : Dr Mansoor Khushtar

تخلیق کاروں کو نئے زاویے سے

سوچنے اور کام کرنے کی ضرورت:ڈاکٹر منصور خوشتر

 

 پروفیسر ظفر حبیب کی کتاب تنقید و تفہیم اورڈاکٹر قیام نیئر کا افسانوی مجموعہ دھند کا اجراء ٭المنصورٹرسٹ کے زیر اہتمام اقراء گرافکس احاطہ میں شاندار طرحی نشست کا اہتمام

دربھنگہ : پروفیسر ظفر حبیب کی کتاب کا اجراء کرتے پروفیسر ارشد جمیل ، ڈاکٹر طرزی ، مرتب ظفر حبیب ،ڈاکٹر قیام الدین نیئر اور منصور خوشتر ۔ ڈاکٹر قیام نیئر کی کتاب ’’دھند‘‘ کی رو نمائی کرتے پروفیسر ظفر حبیب ،ڈاکٹر طرزی ، پروفیسر ارشد جمیل ،ڈاکٹر نیئر ،منصور خوشتر ، عرفان

پیدل اور ساتھ میں عبد المتین قاسمی ۔ تصویر۔۔۔ رفیع نشتر

دربھنگہ (رفیع نشتر )المنصورایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے اقرا گرافکس کیمپس لال باغ دربھنگہ میں طرحی نشست و رسم اجراء تقریب کا اہتمام شہرت یافتہ شاعر حافظ عبدالمنان طرزی کی صدارت میں کیا گیا۔ اس موقع پر مہمان خصوصی کے طور پرشعبہ اردو ایل این متھلا یونیورسیٹی دربھنگہ کے موقر استاد پروفیسر ارشد جمیل کی تشریف آوری ہوئی جبکہ مہمان اعزازی کے طور پر پروفیسر ظفر حبیب ( سابق صد شعبہ اردو ایل این متھلا یونیورسیٹی ) اور ڈاکٹر قیام الدین نیئر ( صدر شعبہ ناگیندر جھا مہیلا کالج لہریاسرائے )نے شرکت فرمائی۔ نظامت کے فرائض عبد المتین قاسمی و منورعالم راہی نے مشترکہ طور پرانجام دیا۔ اس موقع پر پروفیسر ظفرحبیب کی کتاب ’’ تنقید و تفہیم اورپروفیسر ظفر حبیب سے متعلق سہ ماہی مجلہ مژگان کا خصوصی گوشہ اور ڈاکٹر قیام الدین نیئر کا افسانوی مجموعہ ’’ دھند ‘‘ کاباضابطہ اجراء عمل میں آیا ۔ اپنے تاثرات میں  ڈاکٹر منصور خوشتر نے کہا کہ پروفیسر ظفر حبیب اردو کے چند کثیر الجہات قلم کاروں میں سے ایک ہیں ۔ وہ اپنے وقت کے اردو کے معروف استاد رہے ہیں ، وہ اچھے تنقید نگار بھی ہیں ، افسانہ نویس اور محقق بھی ہیں ، محقق بھی ہیں اور شاعر بھی ہیں ۔ان کے اندر دو بڑی خوبی لکھنے اور پڑھنے پڑھانے کی ہے ، اس میں انہوں نے اپنا روشن نقش قائم کیا ہے ۔ یہ نقش ان کی سرگرمیوں میں بھی بھی صاف نظر آتا ہے ۔ اس موقع پر  پروفیسر ارشد جمیل نے کہا کہ المنصور ایجوکیشنل ٹرسٹ کے سکریٹری منصور خوشتر ،نائب صدر نظر عالم اور رکن عبد المتین قاسمی دربھنگہ کے وہ متحرک اور فعال نوجوان ہیں جن کی سرگرمیوں سے اہل اردو کو توقعات وابستہ ہیں ۔انہو ںنے فن اور تخلیق کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تخلیق کاروں کو اس بات کا دھیان رکھنا چائیے کہ قاری کو یہ احساس نہ ہو کہ پڑھا ہوا ہے اور اس کیلئے نئے زاویے سے سوچنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے ، ادب میںنئے مضامین کو موضوع سخن بنایا جانا چائیے ۔پروفیسر ظفر حبیب کی کتاب کا تعارفی خاکہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر قیام الدین نیئر نے کہا کہ پروفیسر ظفر حبیب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ،ان کی چھ کتابیں آنگن آنگن ( عالمی سطح کے افسانوں کا ترجمہ )، جنگل کا سفر ، بدلتے رت کی کہانیاں ، تفہیمات و تنقیدات ، نور نکہت و نوا، تنقید اور تفہیم منظر عام پر آچکی ہے جبکہ فنکاران بہار اور المیزان زیر طباعت ہیں ۔ مختلف عصری موضوعات پر ان کے گراں قدر مضامین مختلف اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں ۔ڈاکٹر قیام الدین نیئر کی کتاب کا تعارفی خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا موصوف بہار کے مسلمہ قلمکار ہیں ، اچھے فنکار کے ساتھ ساتھ وہ اچھے انسان ہیں ۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا ، ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ اندھا قانون ‘‘ کے عنوان سے ’’پرواز ‘‘ لدھیانہ میں شائع ہوا تھا ۔ اس کے بعد ملک کے مختلف ادبی رسائل میں ان کے افسانے ، انشائیے ، تنقیدی و تحقیقی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں ۔اب تک’’ تنہائی کا کرب ، میری جو شامت آئی ، بچھڑی دلہن ، بہار میں اردو افسانہ نگاری کے علاوہ افسانوی مجموعہ تحفہ ، بہار میں تخلیقی نثر اور ابھی حال میں ہی افسانوں کا مجموعہ ’’دھند ‘‘ شائع ہوا ہے ۔ ڈاکٹر قیام نیئرتقریبا چالیس برسوں سے اردو زبان وادب کی خدمت کررہے ہیں ۔ پروگرام کی صدارت کررہے پروفیسرطرزی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس طرح کے پروگرام سے بیداری آتی ہے اور میں ٹرسٹ کے ذریعہ اس کا طرح کام ہوتا رہنا چاہئے اس سے نوجوان نسل میں بھی اُردو کے تئیں بیداری پیدا ہوتی ہے۔ ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر منصور خوشتر کے کلمات تشکر پر نشست اختتام کو پہنچا ۔ اگلی نشست کیلئے مصرح طرح یوں ہے ۔ ’’یہ حادثہ بھی میری زندگی میں گذرا ہے ‘‘ زندگی قافیہ اور ’میں گزرا ہے ‘ردیف ہوگا ۔ پروگرام میں شریک شعراء کرام کے اشعار:

عبدالمنان طرزی:

ہمارا شعر سن کر جو سبحان اللہ کہتے ہیں
ہم اُن کے حق دعائے کامرانی چھوڑ جائیں گے

رہبر چندن پٹوی

حبیب کبریا کی پاک سیرت کو جو اپنالیں
ستمگر خود بخود ایذا رسانی چھوڑ جائیں گے

پروفیسرشاکرخلیق :

پڑھیں گی بعد کی نسلیں سند کے طور پر ہم کو
رواداری کی رسم خاندانی چھوڑ جائیں گے

احسان مکرم پوری

(بذریعہ فون):

یہ دُنیا ہے سبھی کی ایک دن ہجرت ضروری ہے
اجل کے سامنے سب زندگانی چھوڑ جائیں گے

عرفان احمد پیدل:

ہماری پیٹھ پر اب تک جو توڑے ہیں وہی بیلن
’’تمہارے پاس ہم اپنی نشانی چھوڑ جائیں گے‘‘

منورعالم راہی:

دلوں میں غم و اشکوں میں روانی چھوڑ جائیں گے
ہمیں ڈھونڈوں گے جب دنیائے فانی چھوڑ جائیں گے

شہنواز انور:

مقدر کا کھیل ہے ہجر اور وصال بھی
زندگی میں ہم اپنی کہانی چھوڑ جائیں گے

شکیل اختر:

اک ننھا شجر دانے میں چھپا کب تلک رہتا
لو اُگ آیا تمہارے سامنے زرخیز مٹی ہے

مشتاق اقبال:

چلے گی جب ہوا ٹھنڈی ہماری یاد آئے گی
ادا موسم میں ہم اپنی سہانی چھوڑ جائیں گے

منظر صدیقی:

خرد مندوں سے رشتہ ٹوٹ جائے گا مگر منظرؔ
جنوں کے واسطے ہم ہر کہانی چھوڑ جائیں گے

محامدحسین ناچیز:

تمنا آرزو ارمان حسرت کو مرادوں کو
’’تمہارے پاس ہم اپنی نشانی چھوڑ جائیں گے‘‘

ڈاکٹرمنصورخوشتر:

نظرحیران، ٹوٹا دِل زمانے بھر کی محرومی
تمہاری بزم میں اپنی نشانی چھوڑ جائیں گے

نظرعالم:

یہ مانا کہ نظرؔ بے زر ہے لیکن اپنے بچوں کو
وِراثت میں شرافت خاندانی چھوڑ جائیں گے

صبا دربھنگوی

تمہارے شہر سے ہجرت ہمیں کرناجو ہوگا تو
سلامت ساری چیزیں خاندانی چھوڑ جائیں گیانعام الحق بیدار:

مرا فرزند لائق ہے بھروسہ ہے مجھے اس پر
جوشئے حصے کی ہے میری زبانی چھوڑ جائیں گے

شکیل سہسرامی

بلاتا ہے ہمیں اب بھی ہمارا گاؤں خوابو ںمیں
نہ ہوگا وصل تو ہم راجدھانی چھوڑ جائیں گے

اس موقع پر ڈاکٹر محمد بدر الدین ، ڈاکٹرامتیاز احمد ،محمد آفتاب عالم ،محمدافضل ،ڈاکٹر احسان عالم اور فردوس علی ایڈوکیٹ نے بطور خاص شرکت کی

*******************************

۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 594