donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum News Desk
Title :
   Hazrat Deewan Shah Arzani Ke Urs Me Qaumi Seminar

 تکریم آدمیت اوراحترام انسانیت میں خداتفریق کاقائل نہیں:شاہ حسین احمد


 حضرت دیوان شاہ ارزانی کے عرس میں قومی سمینار

 

بعنوان ـ’’دہشت گردی کے سدباب میں تصوف کی معنویت ‘‘کا انعقاد

تقریرکرتےہوئےشاہ حسین احمد ،تشریف فرماپروفیسرمسعودانورعلوی،پروفیسرشاہ حسین الحق،مولاناحسن رضاخان ودیگر


پٹنہ:حضرت دیوان شاہ ارزانی کے عرس کی تقریبات کے دوران آج کل ہند سمیناربعنوان ’’دہشت گردی کے سدباب میں تصوف کی معنویت ‘‘منعقدکیاگیا،جس کی صدارت وسرپرستی خانقاہ کے سجادہ نشیں امین طریقت حضرت پروفیسرسیدشاہ حسین احمد نے کی ۔اس موقع پرانہوں نے اپنی صدارتی گفتگو میں کہاکہ  خدانے تکریم انسانیت وآدمیت کے معاملے میں کہیں بھی تفریق نہیں کی ہے۔اسی لیے صوفیہ نے وحدۃ الوجود کانظریہ پیش کیا ہے۔تاکہ انسان کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے۔جب کہ آج قرآن وحدیث کے ماننے والے بھی دہشت گردی پھیلارہے ہیں ۔حالاں کہ قرآن نے کہا ہے کہ جس نے ایک بے قصورکی جان لی اس نے پوری انسانیت کاقتل کیا۔بے قصوروں ،معصوموں کوقتل کرنے والامسلمان نہیں ہوسکتا۔تمام سلاسل نے احترام انسانیت وتکریم آدمیت کادرس دیاہے اورنہ صرف درس دیا ہے۔بلکہ صوفیائے کرام اوربزرگان دین نے اس پرعمل کرکے بھی دکھایا ہے۔انہوں نے نوافل سے زیادہ اہمیت بھوکے کوکھاناکھلانابتایاہے۔صوفیہ نے دلوں کواس طرح بنایاکہ دہشت گردی اورتشددکے باب ہی بندہوگئے۔کہیں بھی کسی بھی تاریخ اورسیرکی کتابوں میں صوفیہ کے حوالے سے تشدداوردہشت گردی کاکوئی واقعہ منسوب نہیں مل سکتا۔آج کے اس زمانے میں اگر خانقاہی تعلیم عام ہوجائے تودہشت گردی ختم ہوجائے گی ۔ مگراس کے لیے خودخانقاہیوں کو سب سے پہلے تیارہوناہوگا۔مٹھی بھرجولوگ دہشت گردی کررہے ہیں ۔ہمیں دنیاکوبتاناہوگاکہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔مسلمانوں کووہ بدنام کرنے والے ہیں ،جو بے قصوروں کوقتل کرتے ہیں وہ مسلمان نہیں ہوسکتے ۔


سمینارمیں اپنامقالہ پیش کرتے ہوئے رمزشناس تصوف ،معتبرومنفردفکشن نگارپروفیسرشاہ حسین الحق نے آیت تخلیق انسانیت کی صوفیانہ تشریح کی اورکہاکہ تصوف کامقصدکسی کوالگ کرنانہیں ہے۔وہ سب کو ساتھ لے کرچلناچاہتاہے۔اس کے نزدیک سب اپنے ہیں ۔کوئی غیرنہیں ہے۔عرفان خداوندی انتہائی ضروری شئے ہے۔شریعت صوفیہ کی منزل اورطریقت ان کامقصدہے۔جب ہم میں خداکی شناخت کی اہلیت وصلاحیت نہیں ہوگی تو ہم خداکی عبادت کس طرح کرسکتے ہیں ۔پہلے تعلیم کے کوئی علاحدہ ادارے نہیں ہوتے تھے۔خانقاہ اوررصوفیوں کی چوکھٹ ہی تعلیمی ادارے ہوتے تھے۔جب سے تعلیم اورتصوف کوعلاحدہ کیاجانے لگا تب سے مسئلہ پیداہواکہ اخلاقی تعلیم کی راہیں مسدود ہوگئیں ۔اب تعلیم برائے تعلیم کانظام قائم ہے  ۔پہلے تعلیم برائے اخلاق کانظریہ تھا۔اس لیے آج بھی خانقاہوں کو متحرک وفعال ہونے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ لوگوں کو تعلیم بھی دیں تاکہ دہشت ووحشت اوراخلاق اور تبلیغ دین میں فرق ہوسکے نہ کہ دہشت گردی اورقتل وغارت گری ہی کوتعلیم سمجھ لیاجائے۔خداکامقصد یہ تھاہی نہیں کہ پوری دنیا مسلمان ہو،ورنہ اس کے لیے ایسا کرنا کوئی دشوارگزارمرحلہ نہیں تھا۔قرآن میں زیادہ ترمقامات پر انسانیت کو مخاطب کیا گیا ہے ۔دینی امورکی انجام دہی اورشریعت کے نفاذ کے لیے ہی مسلمان مخاطب کیے گئے ہیں۔رسل وانبیاکوبھی دعوت دین کی ہدایت دی گئی تھی بزور پوری دنیا میں اسلام پھیلانے کی ذمہ داری نہیں دی گئی تھی۔


اس موقع معروف خطیب وعالم مولانا حسن رضاخان نے اپنے مقالے میں انسان کے عناصرترکیبی کی تشریح کرتے ہوئے صوفیہ کی تعلیمات اوران کے درس وتدریس کے طریقوں پر گفتگو کی اور کہاکہ صوفیہ کے طریقہ اصلاح باطن کے ذریعہ ہی انسانیت کودہشت گردی سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔انہوں نے اس موقع پرمثالیں دے دے کر صوفیہ کے طریقے کوبیان کیا۔ان کی تعلیات پربھرپورگفتگوکی ۔
اس موقع پر روزنامہ انقلاب ،پٹنہ کے ریزیڈنٹ ایڈیٹراحمدجاوید نے کہاکہ اس دورمیں خبط پارسائی سب سے بڑامرض ہے۔ جو شخص اس مرض کا شکارہوجاتاہے ۔وہ اپنے علاوہ کسی کولائق اعتنانہیں سمجھتایہی معاملہ ان لوگوں کے ساتھ ہوا،جواسلام کے نام پردہشت گردی پھیلارہے ہیں ۔اسلام میں کہیں بھی دہشت گردی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔احمدجاویدنے اپنے مقالے میں یہ بھی کہاکہ جب جب دہشت گردی اپنے شباب پرتھی تب تب صوفیہ نے اس کی روک تھام کے لیے ناقابل بیان خدمات انجام دی ہیں ۔آج بھی اس مرض کے خاتمے کے لیے صوفیہ کرام ہی متحرک وفعال ہیں ۔اوران کے پاس ہی اس مرض کا علاج بھی ہے۔

مدرسہ سلیمانیہ ،پٹنہ کے استاذ مولاناسیدامانت حسین نے کہاکہ  صوفیائے کرام نے تاریخ کے ہرموڑپررسول کبریااوران کے اہل بیت اطہارکی سیرت کومشعل راہ بناکرمعنویت کے ذریعہ دہشت گردی کے سیلاب کوخشک کیاہیاوریہی راستہ سیروسلوک اوروصل الی اللہ کااکلوتاراستہ ہے۔آثارسے محبت ذات سے محبت کی علامت ہے۔انسانیت سے محبت خالق سے محبت کاثبوت ہے اوریہی معنویت دہشت گردی کاسدباب ہے۔

ونوبابھاوے یونیورسٹی کے استاذپروفیسرزین رامش نے کہاکہ صوفیہ نے جس طرح کی تعلیمات عام کی ہیں ۔انہیں پھرسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔جس کے لیے سب سے پہلے ہمیں خودکوتیارکرناہوگا۔ آج تصوف پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ضرورت اس بات کی ہیکہ ایک تعداد ایسی بھی ہوجو تصوف کو اس کی اصل روح کے ساتھ پیش کرے۔دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر سید نورین علی حق نے اپنے مقالے میں کہاکہ انسانیت کے دشمن ہمارے دشمن ہیں ۔پوری دنیا کے دشمن ہیں۔بلکہ کہناچاہیے کہ وہ خالق حقیقی کے بھی دشمن ہیں ۔خانقاہوں کوایسی نسل تیارومستعدکرنی ہوگی ،جوجہادبالنفس کے نظریے کو عام کرے اوراس نظریے کے فروغ کے لیے صالح اورموثرزبان وطریقہ استعمال کریاورمنفی افکارکی نفی کے بغیرمثبت اقدارکے اثبات پروہ نسل اپنی توانائی اورحرارت صرف کرے۔اس موقع پرمریدین ومتوسلین اورعقیدت مندوں کی خاصی بھیڑ تھی ۔اس موقع پرپروفیسرمسعودانورعلوی کی آفتاب شریعت تصوف ایوارڈ ملنے پرشرکائے سمینارنے مسرتوں کااظہارکیااورپروفیسرموصوف کو مبارک باد پیش کی ۔

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 584