donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ibn Azeem Fatmi
Title :
   Majlise Ahbab Ki Mahana Nishist

مجلس احباب کی ماہانہ نشست جو تعزیتی نشست میں بدل گئی


ڈاکٹر شکیل احمد کا تازہ افسانہ"بے حسی"پر گفتگو


گزشتہ دنوں مجلس احباب ملت کی ماہانہ نشست جو ہر ماہ کے دوسرے اتوار کو منعقد کی جاتی ہے ،اس ماہ پروگرام کے مطابق پروفیسر علی حیدر ملک کے دولت کدہ پر ہونی تھی لیکن پروفیسر علی حیدر ملک کے اچانک انتقال کے سبب یہ نشست مجلس احباب ملت کے صدر گرامی معروف اور بزرگ شاعرخواجہ منظر حسن منظر کے گھر پر منعقد ہوئی۔نشست کی صدارت معروف شاعر اور نقاد صبا اکرام نے کی جبکہ تلاوت کلام پاک کی سعادت حسب معمول معروف شاعر صدیق فتح پوری نے حاصل کی۔نشست کی نظامت ابن عظیم فاطمی نے کی۔

پروگرام کے مطابق معروف افسانہ نگار اور لوح ادب کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر شکیل احمدنے اپنا تازہ افسانہ پیش کرناتھا مگر ابتداء میں مرحومین کی مغفرت کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی بعد اذاں پروفیسر علی حیدر ملک کے حوالے سے تعزیتی سلسلے کے مضامین اور گفتگو سے نشست کا باقاعدہ آغاز ہوا۔تقریب کے ناظم ابن عظیم فاطمی نے منظوم خراج عقیدت یوں پیش کیا: -

ـپروفیسر علی حیدر ملک کے انتقال پر بہ عنوان"کہاں آؤں میں"
ملنے آؤں تو کہاں آؤں میں حیدر بھائی
یوں اچانک کوئی گھر چھوڑ کے جاتا ہے کہیں
کیا ملاقات کی صورت کوئی ممکن بھی ہے
آپ سے بات کسی طرح سے ہو سکتی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ ممکن نہیں اب یہ سب کچھ
صرف یادوں میں خیالوں میں انہیں یاد کرو
دل ہی دل میں تم اگر چاہو تو پھر بات کرو
کیا کروں کچھ تو بتائیں مجھے حیدر بھائی
کیا کہوں کچھ تو سجھائیں مجھے حیدر بھائی

اس کے بعد اپنا مضمون"پروفیسر علی حیدر ملک۔۔۔جو اب یاد بن گئے"کے عنوان سے پیش کیا ۔جس میں رقم طراز ہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے جس طرح ایک کے بعد دوسرے غم کا ہم شکار ہوئے وہ کچھ اس طرح ہیں:۔

9مئی 2011 ڈاکٹرجمیل عظیم آبادی
7مارچ 2013 قیصر سلیم
17جون2014یاور امان اور

اب 30دسمبر2014کو پروفیسر علی حیدر ملک (حیدر بھائی)
حیدر بھائی کا نام :  علی حیدر ملک والد کا نام مظہر العلیم
آبائی وطن:  موضع ملاٹھی ضلع گیا۔بہار۔بھارت
تعلیم:  بی۔اے۔آنرز اور ایم۔اے
تاریخ پیدائش: 7 اگست 1944
انکی مطبوعہ کتابیں:۔
1۔دبستان مشرق (ترتیب) 1970
2۔بے زمیں بے آسماں(افسانے) 1986
3۔اردو ٹائپ اور ٹائپ کاری(ترتیب)1989
4۔شاہ لطیف بھٹائی نمبر ـ"برگ گل"(ترتیب)1989
5۔افسانہ اور علامتی افسانہ (مضامین)فروری 1993
6۔شہزاد منظر فن اور شخصیت(ترتیب بہ اشتراک صبا اکرام)1996
7۔عمر خیام اور دوسری غیر ملکی کہانیاں (تراجم)نومبر 1999 (انگریزی،گجراتی،بنگالی،ہندی،انڈونیشی،نیپالی،یوگوسلاوی،روسی،امریکی،چیکوسلواکی،تیلگو اور ناورویجن)
8۔ادبی معروضات (مضامین)جنوری2007
9۔ان سے بات کریں (انٹرویوز)2009
وابستگی
1۔نائب مدیر سہ ماہی عزم نو
2۔نائب مدیر  ہفت روزہ قوم
3۔معاون مدیر قومی زبان
4۔کالم نگار انٹرویو نگار اور تبصرہ نگار روزنامہ جسارت
5۔مدیر اعزازی ماہنامہ علامت
6۔ادبی کالم نویس  ہفت روزہ اخبار جہاں
7۔کمپیئر و براڈکاسٹر ریڈیو پاکستان
سکھر میں گورنمنٹ ڈگری کالج اور سپیریئر کالج خیر پور میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں پھر کراچی میں وفاقی اردو کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا اور اسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

انکے انتقال پر رضی مجتبیٰ،ظہیر خان اور نسیم انجم نے فوری طور پر ان سے اپنی محبت اور عقیدت کے حوالے سے مضامین اور کالم تحریر کئے جو مقامی اخبار کی زینت بنے جس کے لئے ہم سب ان کے شکر گزار ہیں۔ہم بھائی انور جاوید ہاشمی کے بھی ممنون ہیں کہ انہوں نہ صرف یہ کہ انکے انتقال کی خبر فیس بک پر جاری کی بلکہ انکی کتابوں کے عکس اور جنازے میں شریک احباب کی تصاویر بھی لگائیں۔ بھائی تنویر پھول نے خبر سنتے ہی انکے لئے تاریخی قطعات تحریر کئے اور فیس بک اور ای۔میل کے ذریعے ادب دوستوں تک پہنچائیں جن کے لئے ہم سب تہ دل سے ممنون ہیں۔

ادبی تقریبات میں انکی منفرد طرز نظامت یقینا بھلائی نہیں جاسکتی۔ان کا مطالعہ بے حد وسیع اور حافظہ کمال کا تھا۔چنانچہ نظامت کے دوران مسند نشینوں سے متعلق بڑی تفصیل سے روشنی ڈالتے۔پاکستان آرٹس کونسل کے تحت ہونے والی عالمی اردو کنفرنسز میں انکی نظامت تاریخ کا حصہ ہیں۔افسانے اور ناول کے بہت اچھے نقاد تھے۔ادیب ہونے کے باوجود شعر کا نہ صرف اچھا فہم رکھتے تھے بلکہ ان کے حافظے میں بھی محفوظ رہتے تھے۔ ایک بار خیام بھائی کے حوالے سے گفتگو ہونے لگی تو خیام بھائی کے وہ اشعارانہوںنے سنائے جو پٹنہ میں بازار سے گزرتے ہوئے خیام بھائی نے سنائے تھے۔افسوس کہ میرا حافظہ اس قابل نہیں مگر یہ ضرور یاد ہے کہ انہوں شعر کی بے حد تعریف کی تھی۔

ان کی خواہش ہوتی کہ ان سے وابستہ ہر شخص لکھنے لکھانے کا کام جاری رکھے اورہر ایک کو آگے بڑھانے کی پوری کوشش کرتے۔ مجلس احباب ملت کی نشستوں کی نظامت حیدر بھائی کیا کرتے تھے پھر انہوں نے یاور امان سے نظامت کروانی شروع کردی بعد میں مجھے اس پر مائل کیا اور قیصر سلیم کے قائم کردہ فکشن فورم کے تحت ہونے والی نشستوں کی نظامت بھی مجھ سے کرواتے رہے جبکہ مجلس احباب ملت کی نشستوں کی نظامت آج بھی میرے ہی ذمے ہے۔اکثر ان نشستوں میں افسانے،شاعری اور مضامین کے حوالے سے انکی رائے بہت واضح اور دوٹوک ہوا کرتی تھی۔وہ لگی لپٹی کے قائل نہیں تھے۔

بیرون کراچی یا بیرون ملک سے کوئی بھی ادبی شخصیت کراچی آتی تو ان کی کوشش ہوتی کہ کسی طرح ان سے مل بیٹھنے کی کوئی صورت نکل آئے اور دوستوں کے ساتھ نشست میں انکی ادبی مصروفیات اور وہاں کے ادبی معاملات و حالات پر تفصیل سے گفتگو کرتے ساتھ ہی ساتھ نشست میں موجود احباب کا مکمل تعارف اور کراچی کے ادبی منظر نامے پر بھرپور اظہار خیال کرتے ہوئے اہم لوگوں کا ذکر ضرور کرتے۔

ادب میں انہوں نے اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو یقینا ادب سے وابستہ افراد بھلا نہیں سکیں گے۔ادب کی ہر صنف پر نہ صرف یہ کہ انکی نظر تھی بلکہ اس سے متعلق پوری تحقیق کے ساتھ مضامین لکھتے اور ذکر کرتے رہے۔گلزار کی صنف تروینی پر نہ صرف یہ کہ یاور امان اور فوقیہ مشتاق کو مائل کیا بلکہ اس پر مضامین بھی لکھے۔ اسی طرح کتابوں پر صنعت توشیح میں منظوم خراج تحسین پر ناچیز کو مائل کیا اور اکثر اصرار کے ساتھ لکھواتے رہے۔میں ایک معمولی شاعر جسے حیدر بھائی کی پرخلوص محبت اور رہنمائی نے مضمون نگار اور افسانہ نگار تک بنادیا۔ گوکہ میں بہت زیادہ افسانے نہیں لکھ سکا مگر انکی خواہش اور کوشش رہتی کہ ضرور لکھو تم میں صلاحیت ہے اور اچھا لکھ سکتے ہو۔

مضمون میں آگے چل کر انکی کتابوں میں شامل ان کے مضامین جس میں دوستوں کے بھر پور تعاون کا برملا اعتراف کیا گیا ہے کا بھی حوالہ دیا۔مضمون کے اختتام میں ان کی مغفرت کی دعا اور متعلقین کے لئے صبر جمیل کی دعا کی گئی۔

انور فرہاد کا منظوم خراج عقیدت "جیون بازی ہار گئے"کے عنوان سے ابن عظیم فاطمی نے پڑھ کر سنایا۔مشرق صدیقی نے "علی حیدر ملک اور ترجمہ کہانیاں"کے عنوان سے اپنا مضمون پیش کیا جس میں ان کی ترجمے میں مہارت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

فرقان ادریسی نے متفرق اشعار کی صورت میں خراج عقیدت پیش کیا۔ایک شعر
            الہٰی عاجزانہ التجا فرقانؔ کی یہ ہے
            علی حیدر ملک کو بھی عطا خلد بریں کردے

معروف افسانہ نگار ،ناول نگار اور گوئٹے انسٹیٹیوٹ کے ادبی کمیٹی کے سربراہ شمیم منظر نے کہا کہ وہ ہمارے لئے حیدر بھائی تھے۔وہ میرے دوست اور عزیز تھے۔آج میں جو کچھ ادب کے حوالے سے ہوں اسکی وجہ حیدر بھائی،اے۔خیام بھائی اور صبا اکرام بھائی ہیں۔چونکہ میرا تعلق گوئٹے انسٹیٹیوٹ سے ہے اور وہاں کی تمام ہی ادبی تقریبات بھی ان کے ہی مشورے سے منعقد کی جاتی تھیں۔

اے۔خیام نے اپنے مضمون میں کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہاں سے شروع کروں۔ہم تین نسلوں سے نہ صرف ایک دوسرے سے واقف ہیں بلکہ دوست اور عزیز بھی۔سب سے زیادہ نقصان ہمارا ہوا ہے کہ ہم نے ایک عزیز دوست،رشتہ دار اور ادب کا بڑا سرمایہ کھو دیا۔

معروف مزاح گو شاعر اور سہ ماہی "انشائ"کے مدیر اعلیٰ صفدر علی خان نے کہا کہ ان کا مطالعہ اور حافظہ کمال کا تھا۔انہیں ہم نے کبھی لکھ کر بولتے نہیں دیکھا۔بڑے اعتماد کے ساتھ گفتگوکرتے اور موضوع پر انکی گرفت بہت مضبوط رہتی۔ کبھی کوئی جملہ کم یا زیادہ نہیں بولتے۔ان کی گفتگو میں مستند حوالے ضرور شامل ہوتے تھے۔

منفرد لب لہجے کے شاعر ،نقاد اور آج کی نشست کے صدر صبا اکرام نے اپنی صدارتی گفتگو میںان سے تعلق اور ادبی حوالے سے ان کے کام اور حوصلہ افزائیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔میں اپنے مضامین جب تک علی حیدر کو نہ دکھا لیتا کبھی نہ تو پڑھتا اور نہ ہی اشاعت کے لئے بھیجتا۔انہوں نے اپنی بات اس جملے پر ختم کی کہ"علی حیدر ملک نظریں ڈھونڈھ رہی ہیںتمہیں"۔

پروگرام کے مطابق دوسرے دور میں ڈاکٹر شکیل احمد نے اپنا تازہ افسانہ"بے حسی"کے عنوان سے پیش کیا۔مشرق صدیقی نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں وقوع پذیر ہونے والے لرزہ خیز واقعات پر عمومی بے حسی کو خوبصورتی سے افسانے کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔
شمیم منظر نے کہا کہ افسانہ پسند آیا۔اچھا افسانہ ہے بہت سادہ بیانی کے ساتھ واقعات کا تسلسل قائم رکھا گیا ہے۔

حامد علی سید نے کہا کہ آج دہشت گردی کے حوالے سے جو صورت حال درپیش ہے اس پر ایک اچھا افسانہ ہے۔

اے۔خیام نے کہا کہ عنوان سے اندازہ ہوگیا تھا کہ افسانے میں کیا ہوگا جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔افسانے کے باوا آدم ایذراپاؤنڈ اور قرۃالعین حیدر نے بھی مکالمے سے افسانے کا آغاز پسند نہیں کرتے تھے۔اس کا عنوان کچھ اور رکھ لیا جاتا تو یہ ایک عمدہ افسانہ ہوتا۔

سید محمد قاسم اور احمد زیدی احمد نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔صفدر علی خان نے کہا کہ افسانے کا عنوان بے حسی نہیں ہونا چاہئے تھا۔کردار نگاری اور جملے مناسب ہیں۔ صدیق فتح پوری اور بزرگ شاعر اور مجلس احباب ملت کے صدر گرامی خواجہ منظر حسن منظر نے اپنی رائے نہیں دی کیونکہ وہ اپنی سمعی کمزوری کے سبب افسانہ پورے طور پر نہیں سن سکے۔

صبا اکرامنے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ جب افسانہ شروع ہوا تو میں نام نہیں سن سکا تھا مگر جب مشرق صدیقی نے دہرایا تو مجھے معلوم ہوا۔عنوان کی وجہ سے افسانہ descriptiveہوگیا۔افسانہ نگار کو قاری پر اعتبار کرنا چاہئے کیونکہ آج کا قاری افسانے کے ہر پہلو کو سمجھنے کا پورا ادراک رکھتا ہے۔

اسی کے ساتھ ابن عظیم فاطمی نے آج کی نشست کے باقاعدہ اختتام کا علان کیا جس کے بعد چائے ناشتے سے تواضع کی گئی۔



ابن عظیم فاطمی
D-20سنی ایونیو،FL-13سیکٹر 14-Bشادمان ٹاؤن۔کراچی۔75850
سیل نمبر0333-2385477:


************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 650