donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Iftekhar Raghib
Title :
   Bazme Urdu Qatar Ka Mahana Mushaira

 

قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم بزمِ اردو قطر

کا فروری ۲۰۱۵ئ؁ کا ماہانہ مشاعرہ


و معروف شاعر کلیم عاجزؔ کی تعزیتی نشست

    اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے  قطر میں ۱۹۵۹ئ؁ سے سرگرمِ عمل قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام۲۰/ فروری ۲۰۱۵ئ؁  بروز جمعہ نو بجے  شب علامہ ابن حجر لائبریری ، دوحہ کے وسیع ہال میں پر وقار طرحی مشاعرہ منعقد ہوا۔ مشاعرے سے قبل معروف شاعر کلیم عاجزؔ کی تعزیتی نشست ہوئی جن کا انتقالِ پرملال ۱۵ / فروری ۲۰۱۵ئ؁ کو ہوا تھا۔ کراچی، پاکستان سے تشریف لائے معروف شاعر جناب شمس الغنی نے مسندِ صدارت کو وقار بخشا۔ انڈین ایسو سی ایشن فار بہار اینڈ جھارکھنڈ سے وابستہ ایک شیداے اردو جناب جاوید عالم نے مہمانِ خصوصی اور جناب فیاض بخاری کمالؔ نے مہمانِ اعزازی کی نشستوں کو رونق بخشی۔  مشاعرے کی نظامت بزمِ اردو قطر کے صدرجناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے کی اور آپ نے کلام پاک چند آیات کی تلاوت کر کے با برکت آغاز کیا اور استقبالیہ کلمات پیش کیے۔   

    مشہور و معروف شاعر کلیم عاجزؔ کی تعزیتی نشست میں آئیڈیل انڈین اسکول قطر کے استاد اور نثر نگار جناب احتشام الدین ندوی نے کلیم عاجزؔ کے فن اور شخصیت پر تحریر کردہ اپنا پر مغز مضمون پر اثر انداز میں پیش کیا۔ آپ نے کلیم عاجزؔ کے کئی عمدہ اشعار کے سہارے اپنی بات پیش کی۔ بزمِ کے نائب صدر جناب فیروز خان نے اپنے تاثرات میں کلیم عاجز ؔسے چند ملاقاتوں کا تذکرہ کیا اور اپنی یاداشت سے ۲۵ سال قبل کلیم عاجزؔ سے سنے کئی عمدہ اشعار پیش کیے۔ کلیم عاجزؔ کے سانحۂ ارتحال پر جناب ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی تحریر کردہ نظم جناب راشد عالم راشدؔ نے پر درد انداز میں پیش ۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

تھے کلیم عاجزؔ جہاں میں فکر و فن کے پاسدار
اُن کی عظمت کے نشاں ہیں اہلِ دل پر آشکار

معترف ہیں اُن کی عظمت کے سبھی اہلٍ نظر
اُن کی رحلت سے ہیں اہلِ علم و دانش سوگوار

     بزمِ اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب افتخار راغبؔ نے بھی مرحوم کلیم عاجزؔ کونم دیدہ ہو یاد کیا اور ان کے حالاتِ زندگی کے چند دل سوز واقعات کا ذکر کر کے سامعین کو مزید سوگوار کر دیااور اپنی شاعری کے متعلق کلیم عاجزؔ کی حوصلہ افزائیوں کا تذکرہ کر کے مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ بزمِ اردو قطر کے صدر اور ناظمِ مشاعرہ جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے اپنی گفتگو میں مرحوم سے اپنی تین ملاقاتوں کا تذکرہ کر کے کلیم عاجز ؔ کے اعلی اخلاق و کردار پر روشنی ڈالی۔انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے نائب صدر جناب عتیق انظر نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ کلیم عاجزؔ کے انتقال سے اردو ادب کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔ شاعرِ خلیج اور انڈیا اردو سوسائٹی کے بانی صدر جناب جلیلؔ نظامی نے کلیم عاجزؔ مرحوم سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا اور ایک سبق آموز واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ پچیس سال قبل جب کلیم عاجزؔ صاحب انڈو قطر اردو مرکز کے مشاعرے میں تشریف لائے تھے تو میں نے پوچھا حضرت آپ اتنی اچھی غزل کیسے کہہ لیتے ہیں۔ عاجزؔ صاحب نے جواب میں ایک کہانی سنائی کہ ایک بوڑھانحیف ، خستہ و زار اپنی کسی ضرورت  سے بازار  جاتا تھا۔  ضعف پیری سے اس کی کمر  خم ہوئی جاتی تھی ۔ بیچارہ جھک کر اپنی راہ چلا جاتا تھا کہ چند نو جوان لڑکوں کو بوڑھے  کی خمیدہ کمر پہ کمان کی پھپتی سوجھی اور لگے ہنسنے ۔ ایک لڑکے کو شوخی میںکمال تھا ، نے پوچھا کہ اے بزرگ تو نے یہ کمان کتنے دام میں خریدی ۔ پیرِ مردِ لطیف جہاں دیدہ اور دانش مند تھا، ہنس کے کہنے لگا کہ میرے بیٹے، جب تم میری عمر کو پہنچو گے تو یہ کمان تمـھیں بھی میری طرح مفت مل جائے گی۔  صدرِ مشاعرہ جناب شمس الغنی صاحب نے کہا کہ میں کبھی کلیم عاجزؔ صاحب سے نہیں مل سکا لیکن ان کا کلام اور ان اشعار اکثر سنتا اور دیکھتا رہا ہوں۔ کلیم عاجزؔ جتنے معروف ہندوستان میں تھے اتنے ہی مقبول پاکستان میں۔ آپ کے اکثر مصرعے یا اشعار اخبارات کی سرخیاں بنتے ہوئے میں نے دیکھا ہے مثلاً ان کا یہ شعر:

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تو قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

جناب شمس الغنی نے اپنے مندرجہ ذیل  چار مصرعے کلیم عاجزؔ کی نذر کر کے خراجِ عقیدت پیش کیا:

کلیم طورِ سخن تجھ کو یاد تو ہوگا
کہ تو نے شہرِ غزل سوگوار چھوڑا ہے

ترے فراق میں گریاں ہیں اہلِ پاک و ہند
ہمیں اداس ، اُنھیں اشک بار چھوڑا ہے

   
    کلیم عاجزؔ ۲۰۰۹ئ؁ میں بزمِ اردو قطر کے گولڈن جوبلی مشاعرہ اور نظیرؔ اکبر آبادی سیمینار میں قطر تشریف لائے تھے۔ بزمِ اردو قطر کے ذمہ داران اور  اراکین نے ان کے انتقالِ پُر ملال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے تعزیت پیش کی اور ان کی مغفرت کی دعاکی۔

    اس بار طرحی مشاعرے کے لیے اردو کے عظیم شاعر، شاعرِ مشرق علامہ اقبال کامصرع ’’ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید‘‘ دیا گیا تھا۔ بزمِ اردو قطر کے مشاعروں میں کئی برسوں سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ بیرونِ قطر سے شعراے کرام اپنی طرحی غزلیں ارسال کر کے مشاعرے میں شرکت کرتے ہیں۔  اس بار ای میل سے کل تیرہ غزلیں موصول ہوئیں۔ جن میںمحترمہ عالیہ تقوی (الہٰ آباد) ، محترمہ رضیہؔ کاظمی (امریکہ) ، جناب فضل عباس فاضلؔ (ممبئی)، جناب محمد رفیقؔ اکولوی (دمام ، سعودی عرب) ، جناب ابرار کاشفؔ (امراوتی) ،  جناب حسن آتشؔ چاپدانی (کولکاتا) ، جناب احمد علی برقیؔ اعظمی (دہلی) ،  جناب ملک محی الدین (ریاض ، سعودی عرب) ، جناب شاہین فصیحؔ ربانی (مسقط)، جناب سعیدؔ رحمانی (کٹک ، اڑیسہ)، جناب انس نبیلؔ (اکولہ)، جناب اقبال خلشؔ (اکولہ) اور جناب احمد ندیم رفیعؔ (امریکہ)کے اسماے گرامی شامل ہیں۔جنھیں جناب راشد عالم راشدؔ ،  جناب احتشام الدین ندوی ، جناب وزیر احمد وزیرؔ ، جناب  افتخار راغبؔ اور جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی  نے مشاعرے میں پیش کی۔ ای میل سے موصول غزلوں سے منتخب اشعار:

  عالیہ تقوی

(الہٰ آباد):

ملا رہا ہے بہت وہ ہماری ہاں میں ہاں
نکالنا اُسے کچھ ہم سے کام ہے شاید

 رضیہؔ کاظمی

(امریکہ):

کئی غریب گھروں کی ہے روشنی مدھم
کسی امیر کے گھر جشنِ عام ہے شاید

 فضل عباس فاضلؔ

(ممبئی):

لڑائیوں سے جڑے نام سن کے لگتا ہے
لڑانا اہلِ سیاست کا کام ہے شاید

 محمد رفیقؔ اکولوی

(دمام ، سعودی عرب) :

پڑاو میرا ابھی دو ہی گام ہے شاید
ذرا سی دیر میں ڈھلنے کو شام ہے شاید

 ابرار کاشفؔ

(امراوتی):

میں حادثہ ہوں مجھے تیز چلنا پڑتا ہے
زمانہ مجھ سے ابھی سست گام ہے شاید

حسن آتشؔ چاپدانی

(کولکاتا):


نہیں ڈبویا فقط موج نے سفینے کو
فریب کاری میں ساحل تمام ہے شاید

احمد علی برقیؔ اعظمی

(دہلی):


گریز کرتا تھا جو، اب بضد ہے ملنے کو
یہ لگ رہا ہے اسے مجھ سے کام ہے شاید

 ملک محی الدین

(ریاض ، سعودی عرب):

شتاب آتشِ شوقِ سخن ملکؔ اتنا
کہیں نظر میں کوئی لالہ فام ہے شاید

 شاہین فصیحؔ ربانی

(مسقط):

اُسے سکون میسر نہیں ہوا دل کا
وہ خواہشوں کا ابھی تک غلام ہے شاید

 سعیدؔ رحمانی

(کٹک ، اڑیسہ):

لو ہو رہی ہے یہاں جھوٹ کی پذیرائی
ہمارے دور کا یہ بھی نظام ہے شاید

 انس نبیلؔ

(اکولہ):

فلک تو دور دعا چھت تلک نہیں جاتی
تمھارے پیٹ میں مالِ حرام ہے شاید

گمان ہوتا ہے ان لمبی آستینوں سے
تری ہتھیلی پہ دشمن کا نام ہے شاید

 اقبال خلشؔ

(اکولہ):

رہا تو گیا پنچھی مگر اُڑا ہی نہیں
دماغ اس کا ابھی زیرِ دام ہے شاید

 احمد ندیم رفیعؔ

(امریکہ):

کبھی خوشی میں کبھی غم میں ڈوب جاتا ہے
خود اپنے آپ سے وہ ہم کلام ہے شاید

وہ ملگجا ہے کہ چھٹنے میں ہی نہیں آتا
میں جس کو صبح سمجھتا ہوں شام ہے شاید

    مقامی شعرا میں سب سے پہلے جناب راشد عالم راشدؔنے اپنی طرحی غزل پیش کی۔ راشد عالم راشدؔ:

تلاش کرتا ہوں ہر صبح اِک نئی امید
مرے نصیب کے حصے میں شام ہے شاید

مرے وجود کو کیسے مٹا دیا تو نے
لیا رفیقوں نے میرا ہی نام ہے شاید

         مترنم شاعر جناب مقصود انور مقصودؔ ترنم میں خوب اپنی آواز اور عمدہ طرحی غزل کا جادو جگایا۔ مقصود احمد مقصودؔ:

مسرتوں کا سویرا ضرور نکلے گا
سیاہ رات کا اب اختتام ہے شاید

سیاہ دن ہے تو راتوں میں شمس کی ہے تپش
حواس باختہ سارا نظام ہے شاید

    اس کے بعدناظمِ مشاعرہ نے  بزمِ اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب افتخار راغبؔ کو دعوتِ سخن دی۔ افتخار راغبؔ:

حیات خیز کسی کی نگاہِ لطف و کرم
قضا کسی کے تغافل کا نام ہے شاید

کوئی کمال نہیں پھر بھی با کمال ہوں میں
کمالِ نقد علیہ السّلام ہے شاید

یہ چاشنی یہ روانی کہاں مرے بس میں
زبانِ دل سے کوئی ہم کلام ہے شاید

    سلسلے کے کو آگے بڑھاتے ہوئے بزمِ اردو قطر کے صدر اور ناظم مشاعرہ جناب شادؔ اکولوی نے اپنی طرحی غزل پیش کی اور مشاعرے کے آہنگ کو مزید بلند کیا ۔محمد رفیق شادؔ اکولوی:

نظر کی حسنِ نظر کی لگام ہے شاید
تری نظر میں تو یہ بھی حرام ہے شاید

وہی جو کوہ و بیابان میں تھا مست خرام
وہ شاہیں آج کہیں زیرِ دام ہے شاید

بتا رہی ہیں یہ بے چینیاں نظر کی تری
کہ قاتلوں میں تمھارا بھی نام ہے شاید

    انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے نائب صدر جناب عتیق انظرؔ نے اپنی مرصع طرحی غزل پیش کی۔ عتیق انظرؔ:

یہیں پہ خاک اڑائی تھی اشک بوئے تھے
دلِ خراب یہی وہ مقام ہے شاید

قریب آجا تجھے آج دیکھ لوں جی بھر
یہ تیرے میرے بچھڑنے کی شام ہے شاید

مرا فریق نہیں وہ جو سامنے ہے مرے
کسی کے ہاتھ میں اس کی لگام ہے شاید

     انڈیا اردو سوسائٹی  کے بانی صدر و شاعرِ خلیج جناب جلیلؔ نظامی نے  اپنے دلکش ترنم میں اپنی طرحی غزل پیش کی۔  جلیلؔ نظامی :

گناہ گار کو انعام بے خطا کو صلیب
تمھارے شہر میں الٹا نظام ہے شاید

الجھ رہے ہیں دیے سر پھری ہوائوں سے
اندھیری رات کا اب اختتام ہے شاید

گھٹا کی اوٹ میں مہتاب منھ چپاتا ہے
سقف پہ آج وہ محوِ خرام ہے شاید

    مہمانِ اعزازی جناب فیاض بخاری کمالؔ جنھوں نے باضابطہ شاعری چند مہنے قبل شروع کی اور بہت تیزی سے بلندی کی طرف محوِ پرواز ہیں ، نے بھی اپنی طرحی غزل پیش کی۔ فیاض بخاری کمالؔ :

سکونِ قلب میسّر کہاں تمھارے بن
فراقِ یار میں جینا حرام ہے شاید

خموشیوں میں بھی کیا کیا پیام پنہاں ہیں
یہ شام پھر کسی طوفاں کے نام ہے شاید

ہر اِک نفَس پہ ہیں طاری اداسیاں ایسی
کہ جیسے لٹ گئی پونجی تمام ہے شاید

   
    کراچی پاکستان سے تشریف لائے مہمان شاعر و صدرِ مشاعرہ جناب شمس الغنی نے بھی بہت ہی دل کش طرحی غزل پیش کی اور مشاعرے کو بامِ عروج پر پہونچا دیا۔ شمس الغنی:

اجل کے ہاتھ میں اس کا پیام ہے شاید
اور اس پہ درج ہمارا ہی نام ہے شاید

بروئے ماہ لکھا ہے کوئی حسین سا شعر
یا پھر خیالِ مصوّر ہی خام ہے شاید

ابھی زمان و مکاں تشنۂ وضاحت ہیں
’’یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید‘‘

    مہمانِ اعزازی جناب فیاض بخاری کمالؔ نے اپنے اظہارِ خیال میں فرمایا کہ بزمِ اردو قطر سے  ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ ، محمد رفیق شادؔ اکولوی اور افتخار راغبؔ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات وابستہ ہیں اور شہر کے تمام اچھے شعراے کرام اس کے مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کے  پروگراموں کا معیار کافی  بلند ہے اور یہاں نئے لکھنے والوں کو بھی  بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ مہمانِ خصوصی جناب جاوید عالم نے بزمِ اردو قطر کی کاکردگی کو سراہا اور فرمایا کہ ایسی محفلیںسجتی رہنی چاہیئے جہاں اردو زبان و ادب کی بھرپور آبیاری ہوتی ہے۔  

    صدرِ مشاعرہ اور مہمان شاعر جنا ب شمس الغنی نے اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا کہ قطر میں اردو زبان ادب کی ترویج و ترقی کے لیے بہت کام ہو رہا ہے۔ یہاں کے مشاعروں میں بہت اچھے شعرا اور  با ذوق سامعین شریک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی محفلیں مجھے بہت پسند  آئیں اور ہمیشہ یاد رہیں گی۔   آخر میں جناب افتخار راغبؔ نے تمام شعراے کرام اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ لذتِ کام و دہن اور گروپ فوٹو کے بعد مشاعرے کا اختتام ہوا ۔

 

رپورٹ:  افتخار راغبؔ
جنرل سکریٹری  ۔  بزمِ اردو قطر
موبائیل:55707870

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 746