donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Iftekhar Raghib
Title :
   Bazme Urdu Qatar Ka Mahana Tarhi Mushaira 1


 

قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم

 

بزمِ اردو قطر کا ماہانہ طرحی مشاعرہ

     اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے قطر میں ۱۹۵۹ء سے سرگرمِ عمل تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام حال ہی میں علامہ ابن حجر لائبریری ، دوحہ کے وسیع ہال میں پر وقار طرحی مشاعرہ منعقد ہوا۔ مشاعرے میں قطر کے کئی معتبر شعراے کرام کے علاوہ دیگر ممالک سے ای میل کے ذریعے چودہ شعراء و شاعرات نے اپنی طرحی غزلیں روانہ کر کے شرکت کی اور مشاعرے کو کامیاب بنایا۔بزمِ اردو قطر کے صدر ، معروف شاعر و صاحبِ طرز نثر نگار و باکمال ناظمِ مشاعرہ جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے مشاعرے کی صدارت کی ۔قطر کی تعمیری و اسلامی ادب کی ترجمان تنظیم حلقہ ادبِ اسلامی قطر کے صدر جناب ابو عروج خلیل احمد مہمانِ خصوصی اور جناب غلام مصطفیٰ انجم  مہمانِ اعزازی کی نشست پر جلوہ افروز ہوئے۔ مشاعرے کی نظامت بزمِ اردو قطر کے جنرل سکریٹری و معروف شاعر جناب افتخار راغبؔ نے کی ۔ جناب سید فیاض بخاری کمالؔ کی تلاوتِ کلامِ پاک سے باضابطہ  و بابرکت آغاز ہوا۔

    ناظمِ مشاعرہ جناب افتخار راغبؔ نے مشاعرے کا آغاز کرتے ہوئے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا اور تمام شعرا و سامعین کا تہہِ دل سے خیر مقدم کیا۔ طرحی مشاعرے کے لیے اس بار اردو کے مایہ ناز شاعر اصغرؔ گونڈوی کا مصرع ’’ آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں‘‘  بطور طرح دیا گیا تھا۔ بزمِ اردو قطر کے چیئرمین جناب ڈاکٹر فیصل حنیف کا تحریر کردہ اصغرؔ گونڈوی کا تعارف جناب افتخار راغبؔ نے پیش کیا۔ اصغرؔ گونڈوی ۱۸۸۴ء میں گونڈہ ، یوپی، ہندوستان میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال ۱۹۳۶ء میں ہوا۔ مختصر مگر جامع تعارفی مضمون سے اصغرؔ گونڈوی کے حالاتِ زندگی اور ان کی شاعری کا عمدہ تعارف سامنے آیا جسے حاضرین نے خوب سراہا۔دوران مشاعرہ ناظمِ مشاعرہ جناب افتخار راغبؔ نے اصغرؔ گونڈوی کے متعدد منتخب اشعار پیش کیے۔

       بزمِ اردو قطر کے رابطہ سکریٹری جناب وزیر احمد وزیرؔ نے اصغرؔ گونڈوی کی ایک غزل اپنے مخصوص ترنم میں پیش کر کے سامعین کو اصغرؔ کے کلام سے متعارف کرایا اور خوب داد وصول کی۔ چند اشعار آپ بھی ملاحظہ کیجیے:

ہے دلِ ناکامِ عاشق میں تمھاری یاد بھی
یہ بھی کیا گھر ہے کہ ہے برباد بھی آباد بھی
دل کے مٹنے کا مجھے کچھ اور ایسا غم نہیں
ہاں مگر اتنا کہ ہے اس میں تمھاری یاد بھی
کس کو یہ سمجھائیے نیرنگِ کارِ عاشقی
تھم گئے اشکِ مسلسل رُک گئی فریاد بھی
سینے میں دردِ محبت راز بن کر رہ گئے
اب وہ حالت ہے کہ کر سکتے نہیں فریاد بھی
کچھ تو اصغر مجھ میں ہے قائم ہے جس سے زندگی
جان بھی کہتے ہیں اس کو اور ان کی یاد بھی

    حسب روایت پہلے مختلف ممالک سے  ای میل کے ذریعے موصول طرحی غزلیں پیش کی گئیں ۔جن شعراے کرام کی غزلیں شامل کی گئیں  ان کے اسماے گرامی ہیں: جناب فضل عباس فاضلؔ (ممبئی۔ہندوستان) ،جناب عزیزؔ پٹنوی (پٹنہ ، ہندوستان) ، جناب ریاض شاہد (بحرین) ،  جناب حسن آتش چاپدانوی ( کلکتہ )،  محترمہ رضیہؔ کاظمی (امریکہ) ، جناب تنویر پھولؔ (امریکہ)، جناب سید نفیسؔ دسنوی (کٹک۔ ہندوستان) ،جناب احمد علی برقیؔ اعظمی (دہلی)، جناب طاہرؔ بلال (ریاض، سعودی عرب)، محترمہ عالیہؔ تقوی (الہٰ آباد ، ہندوستان) ، جناب سعید رحمانی (کٹک ، اُڑیسہ، ہندوستان) ، ڈاکٹر احمد ندیم رفیعؔ (امریکہ)، جناب شمس الغنی (کراچی) اور محترمہ شہناز شازیؔ (ممبئی)۔ بیرونی ممالک سے موصول غزلوں کو اپنے اپنے منفرد انداز میںجناب فیاضؔ بخاری کمالؔ ، جناب شمس الدین رحیمی ، جناب وزیر احمد وزیرؔ ، جناب مظفر نایابؔ ، جناب افتخار راغبؔ ، جناب غلام مصطفیٰ انجم اور جناب عتیق انظرؔ نے پیش کر کے مہمان شعرا و شاعرات کو غائبانہ داد و تحسین لوٹنے کا موقع فراہم کرنے میں تعاون کیا۔ ای میل سے موصول غزلوں سے  چند منتخب اشعارملاحظہ فرمائیے:

 فضل عباس فاضلؔ

(ممبئی۔ہندوستان):

رہیے وہاں جہاں پہ غمِ دو جہاں نہیں
ایسی زمیں کہاں ہے جہاں آسماں نہیں

ریاض شاہدؔ

(بحرین):

اک ضبطِ انتہا ہے مگر بے زباں نہیں
جو کہنا چاہتا تھا ہوا وہ بیاں نہیں

رضیہؔ کاظمی

(امریکہ) :

ثابت یہ تجربہ سے ہوا بھول تھی مری
یہ انجمن بھی حلقۂ دانشوراں نہیں

طاہر بلالؔ

(ریاض، سعودی عرب):

شاید ملے زبان مگر ہم زباں نہیں
اپنے دیار میں کوئی اپنا یہاں نہیں

تنویر پھولؔ

(امریکہ):

قوسِ قزح، سحاب، فلک، پھولؔ، تتلیاں
رنگوں کا اجتماع جہاں میں کہاں نہیں


سید نفیسؔ دسنوی

(کٹک۔ ہندوستان):

پل بھر میں ڈھیر ہو گئیں اونچی حویلیاں
اچھا ہے کہ غریب کا پکا مکاں نہیں

حسنؔ آتش چاپدانوی

(کلکتہ):

افشاے راز کا ہے نہیں مجھ کو کوئی خوف
محفل میں اب کوئی بھی مرا رازداں نہیں
کھل کر کبھی تو بات کرے وصل کی حسنؔ
ہر بار ہاں نہیں وہی ہر بار ہاں نہیں

احمد علی برقیؔ اعظمی

(دہلی):

مل جائیں گے تمھاری صفوں ہی میں وہ تمھیں
عہدِ رواں کے جعفرؔ و صادقؔ کہاں نہیں
آزادیِ وطن میں جو برقیؔ تھے پیش پیش
تاریخ میں اب ان کا ہی نام و نشاں نہیں

عالیہؔ تقوی

(الہٰ  آباد،  ہندوستان):

در پر تمھارے بیٹھے رہیں کب تک آس میں
کیا عمر بھر چلے گی اسی طرح ہاں نہیں
وہ باغ جس میں امن و محبت کی ہو بہار
نفرت کی عالیہؔ وہاں آتی خزاں نہیں

عزیزؔ پٹنوی

(پٹنہ، ہندوستان):

روٹھا ہوا ہے مجھ سے مگر بد گماں نہیں
اس کی یہ بے رخی مرے دل پر گراں نہیں
دیکھوں اُسے تو آنکھ سے اوجھل ہے وہ ضرور
سوچوں اُسے تو میری نظر سے نہاں نہیں
پہلے بڑا یقیں تھا کہ آئے گا وہ ضرور
لیکن اب ایسا کوئی بھی وہم و گماں نہیں

سعید رحمانی

(کٹک، ہندوستان):

اپنے وطن میں ہو گئے خانہ بدوش ہم
اپنی زمین اپنا کوئی آسماں نہیں
کرتا نہیں ہے کوئی بھروسا کسی پہ اب
وہ کون ہے بتائو کہ جو بد گماں نہیں

شمس الغنی

(کراچی):

حدِّ طلب میں رہیے حریصانِ اقتدار
جتنی طلب ہے اتنی یہاں کرسیاں نہیں
پیروں تلے سے یوں نہ نکل اے زمینِ شوق
پہلے ہی میرے سر پہ کوئی آسماں نہیں
تنہا ہی چل رہا ہوں میں راہِ جنوں میں شمسؔ
مڑ مڑ کے دیکھتا ہوں کوئی کارواں نہیں

ڈاکٹر احمد ندیم رفیع

(امریکہ):

اے دوست تیری وعدہ خلافی کے باوجود
مایوس ہوں ذرا سا مگر بد گماں نہیں
کس واسطے کھڑے ہو گرفتارِ پیش و پس
جب کاروبارِ عشق میں کوئی زیاں نہیں
ہم بھی علاجِ درد میں مخلص نہیں رہے
ہر چند ٹھیک نیتِ چارہ گراں نہیں

شہناز شازیؔ

(ممبئی):

بھرنے کو بھر ہی دے گا اسے مہربان وقت
یہ اور بات زخم کے مٹتے نشاں نہیں
ہر چند مشغلہ ہے شکست اور ریخت کا
جاں بھی گئی جو عشق میں جاں کا زیاں نہیں
آنکھیں برس پڑی تھیں جسے سن کے اس قدر
تمہید تھی فقط وہ مری داستاں نہیں

    مقامی شعرا میںخوش گفتار شاعرجناب فیاض بخاری کمالؔ،  خوش فکر شاعر جناب راشد عالم راشدؔ،خوش لحن شاعر جناب وزیر احمد وزیرؔ ،  ہندی صحافت سے وابستہ خوش مزاج و پر وقار مترنم شاعرجناب مقصود انور مقصودؔ،  علم عروض پر دسترس رکھنے والے اصلاحی فکر کے شاعر جناب مظفر نایابؔ ،  لفظوں میں احساس پرونے والے معروف شاعرجناب افتخار راغبؔ،  قطر میںجدید لب و لہجہ کے معتبر شاعر جناب عتیق انظرؔ اور صاحبِ طرز شاعر و نثر نگار و بزمِ اردو قطر کے میرِ کارواں جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے اپنا طرحی کلام پیش کیا۔  منتخب اشعار قارئین کی نذر:

فیاض بخاری کمالؔ:

برپا سرِ حیات ہے محشر ہر ایک سو
ہر دل میں ایسا خوف ہے جس کا بیاں نہیں
کیا ہو سکے کمالؔ مداوائے رنج و غم
مجبور و ناتواں کا یہ شاید جہاں نہیں

 راشد عالم راشدؔ:

ظالم تباہ ہو گیا آہوں کی آگ سے
مظلوم اور خدا کے کوئی درمیاں نہیں
راشدؔ غزل سنائیے لفظوں کو تول کر
بے ربط گفتگو پہ تو شاباشیاں نہیں

وزیر احمد وزیرؔ:

رسوائیوں کے ڈر سے کیا کچھ بیاں نہیں
خاموش یوں ہوئے ہیں کہ منھ میں زباں نہیں
چھوڑا ہے ایسے موڑ پہ حالات نے وزیرؔ
صحرا میں جیسے دور تلک سائبان نہیں

مقصود انور مقصودؔ:

آتش زنی ہے اور کہیں پر دھواں نہیں
وہ ہو رہا ہے جس کا کسی کو گماں نہیں
دردِ جگر بڑھا کے عیادت کو آئے گا
میرے رقیب جیسا کوئی مہرباں نہیں
نفرت کے بحر و بر کے وہ ہوتے ہیں بادشاہ
جن کے دلوں میں آبِ اخوت رواں نہیں

مظفر نایابؔ:

رحمت ہے میرے واسطے یہ امتحاں نہیں
تنقید کر یہ کام ترا رائگاں نہیں
زیتون کے شجر کی نمو کا ثمر ہوں میں
برگِ خزاں نہیں ہوں میں برگِ خزاں نہیں
اک بار تجھ کو دیکھ لیا ہے عدو کے ساتھ
اب خوش گماں نہیں ہوں میں اب خوش گماں نہیں

افتخار راغبؔ:

سب کے لیے قیودِ زمان و مکاں نہیں
تنویرِ فکر و فن کی رسائی کہاں نہیں
سننی پڑے گی آپ کو میری کرخت بات
میرے دہن میں آپ کی شیریں زباں نہیں

عتیق انظرؔ:

یہ سوچ کر پروں کو نہیں کھولتا ہوں میں
میری اُڑان بھر کے لیے آسماں نہیں

محمد رفیق شادؔ اکولوی:

محوِ نگاہِ چشمِ فسوں کار کیا ہوا
دنیا سمجھ رہی ہے کہ منھ میں زباں نہیں
دھرتی لرز اُٹھی ہے گناہوں کے بوجھ سے
رب جانتا ہے خیر کہاں ہے کہاں نہیں

    اپنی غزل کے بعد صدرِ مشاعرہ جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے اصغرؔ گونڈوی کی وہ غزل بھی پیش کی جس سے مصرعِ طرح دیا گیا تھا۔ چند اشعار نذرِ قارئین:

صحنِ حرم نہیں ہے یہ کوئے بتاں نہیں
اب کچھ نہ پوچھیے کہ کہاں ہوں کہاں نہیں
مدّت ہوئی کہ چشمِ تحیّر میں ہے سکوت
اب جنبشِ نظر میں کوئی داستاں نہیں
وہ بہترین دورِ محبت گزر گیا
اب مبتلائے کشمکشِ امتحاں نہیں
دیکھوں ہجومِ غم میں وہ لے کس طرح خبر
یہ اُس کا امتحاں ہے مرا امتحاں نہیں

    طرحی مشاعرے میں سامعین کے لیے قابلِ توجہ چیز تضمین ہوتی ہے یعنی دیے گئے مصرع پر شعرا ء نے کس طرح گرہ لگائی ہے۔ آئیے  چند شعرا کی تضمین پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور آخر میں اصغرؔ گونڈوی کا وہ شعر بھی دیکھتے ہیں جس سے مصرعِ طرح دیا گیا ہے:

عالیہؔ تقوی

(الہٰ آباد ، ہندوستان):

اشکوں سے کہہ دیا جو وہ قصہ کہاں نہیں
’’آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں‘‘

حسنؔ آتش چاپدانوی

(کلکتہ):

کرتی بیان کب یہ کوئی داستاں نہیں
’’آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں‘‘

احمد علی برقیؔ اعظمی

(دہلی):

کر دیتی ہیں یہ سوزِ دروں سب پہ آشکار
’’آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں‘‘

شمس الغنی

(کراچی):

ہوتی ہیں یہ بھی اپنے مخاطب سے ہم کلام
’’آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں‘‘


ڈاکٹر احمد ندیم رفیع

(امریکہ):

اک زاویہ ہے حسنِ تکلّم نگاہ کا
’’آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں‘‘

شہناز شازیؔ

(ممبئی):

شازیؔ نظر ملا کے مرا حالِ دل سمجھ
’’آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں‘‘

طاہر بلالؔ

(ریاض، سعودی عرب):

کعبے کو دیکھتے ہی ہوئیں آنکھیں اشکبار
’’آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں‘‘

فیاض بخاری کمالؔ :

بے چین دل کی بات کسی سے نہاں نہیں
’’آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں‘‘

مقصود انور مقصودؔ:

تالے لبوں پہ آپ لگا دیجیے ہزار
’’آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں‘‘

مظفر نایابؔ:

بے شک بیان کرتی ہیں دکھ سکھ کا ماجرا
’’آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں‘‘

افتخار راغبؔ:

رہتی ہیں محوِ گفتگو اپنی زبان میں
’’آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں‘‘


محمد رفیق شادؔ اکولوی:

خواب خیال میں بھی سدا ہم کلام ہیں
’’آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں‘‘

اصغرؔ گونڈوی:

ہوتا ہے رازِ عشق و محبت انھیں سے فاش
آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں

    مہمانِ اعزازی جناب غلام مصطفیٰ انجم نے برسوں بعد بزمِ اردو قطر کے مشاعرے میں شرکت کر کے بے انتہا مسرت کا اظہار کیا اور آئندہ  پابندی سے اپنی شرکت کا یقین دلایا اور بزمِ اردو قطر کا شکریہ ادا کیا۔ مہمانِ خصوصی جناب ابو عروج خلیل احمد نے بہت تفصیل سے ایک ایک شاعر کے کلام پر تبصرہ کیا اور کہا کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی بہت سارے عمدہ اشعار سننے کو ملے۔ آپ نے بزمِ اردو قطر کے ذمہ داران و اراکین کو اس کامیاب مشاعرے کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور شکریہ ادا کیا۔  


    صدرِ مشاعرہ  اور بزمِ اردو قطر کے صدر جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے صدارتی تقریر میں مہمانِ خصوصی کی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ بیرونِ ملک سے چودہ شعرا و شاعرات کی طرحی غزلیں اور مقامی آٹھ منتخب شعرا کے طرحی کلام آج کے مشاعرے میں پیش کیے گئے اور قطر کے باذوق سامعین نے خوب دل کھول کر اچھے شعروں کو داد و تحسین سے نوازا۔ یہ اس مشاعرے کی کامیابی کی دلیل ہے۔ آپ نے بزمِ اردو قطر کی جانب سے تمام شعرا و سامعین کا شکریہ ادا کیا۔  ضیافت اور گروپ فوٹو کے بعد مشاعرے کا اختتام ہوا۔

رپورٹ:  افتخار راغبؔ
جنرل سکریٹری  ۔  بزمِ اردو قطر
موبائیل:55707870

****************************

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 577