donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Iftekhar Raghib
Title :
   Bazme Urdu Qatar Ka Mahana Tarhi Mushaira


قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کا

 

ماہانہ طرحی مشاعرہ

    قطر میں ۱۹۵۹ئ؁ سے اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے سرگرمِ عمل تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام۲۰/مارچ ۲۰۱۵ئ؁  بروز جمعہ نو بجے  شب علامہ ابن حجر لائبریری ، دوحہ کے وسیع ہال میں پر وقار طرحی مشاعرہ منعقد ہوا۔ مشاعرے میں قطر کے کئی معیاری شعراے کرام کے علاوہ دیگر ممامک سے ای میل کے ذریعے شعراء نے اپنی طرحی غزلیں روانہ کر کے شرکت کی اور مشاعرے کو کامیاب بنایا۔بزمِ اردو قطر کے سرپرست جناب ظفر صدیقی نے مشاعرے کی صدارت کی ۔ہندوستان سے تشریف لائے اردو نواز و ادب دوست جناب محمد طیب شیخ اور جناب سید زاہداصغر  مہمانِ خصوصی اور مہمانِ اعزازی کی نشستوں پر جلوہ افروز ہوئے۔ مشاعرے کی نظامت بزمِ اردو قطر کے جنرل سکریٹری و معروف شاعر جناب افتخار راغبؔ نے کی ۔ حلقہ ادبِ اسلامی قطر کے سابق صدر و نثر نگار جناب ڈاکٹر عطا الرحمن صدیقی ندوی کی تلاوتِ کلامِ پاک سے باضابطہ  و بابرکت آغاز ہوا۔

    بزمِ اردو قطر کے صدر جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا اور تمام شعرا و سامعین کا تہہِ دل سے خیر مقدم کیا۔ طرحی مشاعرے کے لیے اس بار اردو کے مایہ ناز شاعرکلیم عاجزؔ کے دو مصرعے بطور طرح دیے گئے ۔ کلیم عاجرؔ کا انتقال ۱۵ / فروری ۲۰۱۵ء کو ہوا جن کے لیے بزمِ اردو قطر نے ۲۰/ فروری کو تعزیتی نشست کا بھی اہتمام کیاتھا۔ کلیم عاجزؔ بزمِ اردو قطر کی دعوت پر نظیرؔ اکبر آبادی سیمینار اور گولڈن جوبلی مشاعرے کے موقع پر ۲۰۰۹ء میں قطر تشریف لائے تھے۔  کلیم عاجزؔ کے مندرجہ ذیل مصرعوں پر شعرا کرام نے طبع آزمائی کی:

  ۱؎  اُس کو دیتے ہیں سزا جس کی خطا کچھ بھی نہیں

(قافیہ : خطا ، وفا وغیرہ)

 ۲؎  مری فریاد کی گرمی نے چھپنا کر دیا مشکل 

(قافیہ: دیا،  سنا وغیرہ)

      ناظمِ مشاعرہ جناب افتخار راغبؔ نے مرحوم کلیم عاجزؔ کا مختصر تعارف پیش کیا اور دورانِ مشاعرہ ان کے متعدد عمدہ اشعار سامعین کی خدمت میں پیش کیے۔مشاعرے سے قبل کلیم عاجزؔ کی آواز میں ایک غزل کی ریکارڈینگ پیش کی گئی جس سے سامعین خوب محظوظ ہوئے ۔ چند اشعار آپ بھی ملاحظہ کیجیے:

مت برا اس کو کہو گرچہ وہ اچھا بھی نہیں
وہ نہ ہوتا تو غزل میں کبھی کہتا بھی نہیں
جانتا تھا کہ ستم گر ہے مگر کیا کیجیے
دل لگانے کے لیے اور کوئی تھا بھی نہیں
بارہا گفتگو ہوتی رہی لیکن مرا نام
اُس نے پوچھا بھی نہیں میں نے بتایا بھی نہیں
مرے اشعار وہ سن سن کے مزے لیتا رہا
میں اُسی سے ہوں مخاطب وہ یہ سمجھا بھی نہیں
مجھ کو بننا پڑا شاعر کہ میں اپنا غمِ دل
ضبط بھی کر نہ سکا پھوٹ کے رویا بھی نہیں

    دوحہ کے معروف غزل سنگر جناب ابولخیر نے اپنی سحر انگیز آواز میں کلیم عاجزؔ کی وہ غزل پیش کی جس سے مصرعِ طرح منتخب کیا گیا تھا:

تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں
زندگی دردِ محبت کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم کو معلوم نہ تھا پہلے یہ آئینِ جہاں
اُس کو دیتے ہیں سزا جس کی خطا کچھ بھی نہیں

    حسب روایت پہلے مختلف ممالک سے  ای میل کے ذریعے موصول غزلیں پیش کی گئیں ۔جن شعراے کرام کی غزلیں شامل کی گئیں  ان کے اسماے گرامی ہیں: جناب فضل عباس فاضلؔ (ممبئی۔ہندوستان) ، محترمہ رضیہؔ کاظمی (امریکہ) ، جناب تنویر پھولؔ (امریکہ) اور جناب سید نفیسؔ دسنوی (کٹک۔ ہندوستان)۔ای میل سے موصول غزلوں سے  چند اشعارملاحظہ فرمائیے:

 فضل عباس فاضلؔ

(ممبئی۔ہندوستان):

فطرتِ انسان میں جذبہ نیا کچھ بھی نہیں
جنگ کے ہتھیار بدلے دوسرا کچھ بھی نہیں

رضیہؔ کاظمی

(امریکہ) :

ہر جگہ بے خوف مجرم پھر رہے ہیں بے لگام
 ’’اس کو دیتے ہیں سزا جس کی خطاکچھ بھی نہیں‘‘
غیر پر ابرِ کرم کی ہیں مسلسل بارشیں
 اور ہمیں طفل تسلّی کے سوا کچھ بھی نہیں

تنویر پھولؔ

(امریکہ):

علم کیا ہے ؟ یہ حقیقت ہے ، سمجھ لو اے پھولؔ!
علم عرفانِ جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں
گلستان سخن میں  پھولؔ !  بُلبل  کی  زباں  پر  ہے
 ملی ہے طرح جب تجھ کو ، غزل کہنی ہے کیا مشکل!

سید نفیسؔ دسنوی

(کٹک۔ ہندوستان):

یوں تو ملتے ہیں سجا کر وہ تبسم زیرِ لب
دل میں لیکن جذبۂ مہر و وفا کچھ بھی نہیں
زندگی کے تجربے سب شعر میں لوٹا دیئے
شاعری سے ہم کو آخر کیا ملا، کچھ بھی نہیں
یوں تو کتنے حادثے ہوتے رہے، لیکن نفیسؔ
اس شکستِ دل سے بڑھ کر سانحہ کچھ بھی نہیں

    مقامی شعرا میںخوش گفتار شاعرجناب فیاض بخاری کمالؔ،  خوش فکر شاعر جناب راشد عالم راشدؔ،خوش لحن شاعر جناب وزیر احمد وزیرؔ ،  ہندی صحافت سے وابستہ خوش مزاج شاعرجناب مقصود انور مقصودؔ،  تین مجموعۂ کلام ’’لفظوں میں احساس‘‘ ، ’’خیال چہرہ‘‘ اور ’’غزل درخت‘‘ کے شاعرجناب افتخار راغبؔ،  بزمِ اردو قطر کے صدر اور صاحبِ طرز شاعر و نثر نگار جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی، انڈیا اردو سوسائٹی کے بانی صدر و شاعرِ خلیج جناب جلیلؔ نظامی اور کراچی سے تشریف لائے مہمان اور دو مجموعۂ کلام ’’سانپوں کا نگر‘‘ اور  ’’کوفۂ سخن‘‘ کے معروف شاعر جناب شمس الغنی نے اپنے طرحی کلام پیش کیے ۔  منتخب اشعار قارئین کی نذر۔

فیاض بخاری کمالؔ:

خود پرستی جابجا خوفِ خدا کچھ بھی نہیں
ہر طرف حرص و ہوس اس کے سوا کچھ بھی نہیں
ہر طرف دھوکا ہی دھوکا اور مچی ہے لوٹ مار
اب تمیزِ نیک و بد ، اچھا برا کچھ بھی نہیں
نشستوں میں نہ آنے کا سبب یہ بھی ہے اک شاید
کہ اہلِ بزم دیتے ہیں ردیف و قافیہ مشکل

 راشد عالم راشدؔ:

واہ کیا خوب وہ کرتے ہیں مسیحائی مری
زخم دیتے ہیں سدا اس کی دوا کچھ بھی نہیں
راشدؔ اٹھ جائو ستاروں پہ کمندیں ڈالو
زندگی جہدِ مسلسل کے سوا کچھ بھی نہیں

وزیر احمد وزیرؔ:

دل میں اب آپ کی یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ کا غم ہے فقط اور چھپا کچھ بھی نہیں
اور کچھ کام نہ کر پائے زمانے میں کبھی
پیار ہی پیار کیا اور کیا کچھ بھی نہیں
عمر بھر ڈھونڈتے پھرتے رہے ہم شمس و قمر
پر مقدر میں اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں

مقصود انور مقصودؔ:

کون ہے مقتول قاتل کون سب خاموش ہیں
بے حسی ہے ورنہ آنکھوں سے چھپا کچھ بھی نہیں
ہو سکے تو اپنے اوپر ڈالیے اپنی نظر
عیب جوئی عیب ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں
بے وفا کو کیا سناتا میں وفا کی داستاں
میں نے اُس کو آخری خط میں لکھا کچھ بھی نہیں

افتخار راغبؔ:

کچھ نہیں یہ سرفروشی کا نشہ کچھ بھی نہیں
گر ہے فقدانِ جنوں تو حوصلہ کچھ بھی نہیں
دیکھ کر اُس کو مجھے کیا یاد تھا کچھ بھی نہیں
اُس نے پوچھا کیا ہوا میں نے کہا کچھ بھی نہیں

تری نظرِ عنایت مرا جینا کیا مشکل
ترے لطف کرم کا ہے یقیناً تذکرہ مشکل
متاعِ خود شناسی کا بہت فقدان ہے ورنہ
نہیں ورنہ حیات و موت کا یہ فلسفہ مشکل

محمد رفیق شادؔ اکولوی:

درد و غم، رنج و الم، بغض و حسد، حرص و ہوس
اس کہانی میں مری جان نیا کچھ بھی نہیں
چاند بے داغ نہیں تجھ سا مری جانِ غزل
تیری زلفوں کے مقابل یہ گھٹا کچھ بھی نہیں
حسن والوں کا یہ دستور نرالا ہے بہت
’’اُس کو دیتے ہیں سزا جس کی خطا کچھ بھی نہیں‘‘
بحر و بر، شمس و قمر، ارض و سما، آب و ہوا
شادؔ اِک کن کے اشارے کے سوا کچھ بھی نہیں

جلیلؔ نظامی:

منفعت اپنی ہی ہر بات میں جو دیکھتے ہیں
ان کی نظروں میں بھلا اور برا کچھ بھی نہیں
آج جلتے ہوئے جگنو کی چمک کے آگے
کل کے ڈوبے ہوئے سورج کی ضیا کچھ بھی نہیں
یہ تغافل یہ تکلف یہ توجہ یہ پیام
تیرے انداز ہیں کیا تجھ کو پتا کچھ بھی نہیں
پارسائی پہ نہ کر ناز کہ اب لوگ جلیلؔ
’’اُس کو دیتے ہیں سزا جس کی خطا کچھ بھی نہیں‘‘

شمس الغنی:

ساز کی لے کو لہو چاہیے، انگشت فگار
تر نہ ہو خوں میں تو بربط کی صدا کچھ بھی نہیں
حکم ہے تیرا تو ہم ہاتھ اٹھا دیتے ہیں
ورنہ بس میں تو دعا ہے نہ دوا کچھ بھی نہیں

دہکتے موسموں میں سایۂ گل کی طلب بے جا
خزاں کا دور ہو تو آمدِ بادِ صبا مشکل
سرِ گردوں نکل آئے سبھی مہر و مہ و انجم
’’مری فریاد کی گرمی نے چھپنا کر دیا مشکل‘‘

   
    مہمانِ اعزازی جناب سید زاہد اصغرنے اپنے اظہارِ خیال میں کلیم عاجزؔ کے انتقال کے ایک روز قبل ان سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ خوش بختی سے مرحوم کی خدمت اور ان سے استفادہ کا متعدد بار موقع ملا۔ آپ  نے کلیم عاجزؔ کے مصرعوں پر منعقدہ اس  کامیاب طرحی مشاعرے کے لیے بزمِ اردو قطر کو مبارک باد پیش کی اور بزم کا شکریہ بھی ادا کیا۔ ہندوستان سے تشریف لائے دوسرے مہمان جناب محمد طیب شیخ نے بھی سعودی عرب میں قیام کے دوران کلیم عاجزؔ سے  اپنی ملاقوں کا ذکر کیا۔ آپ نے  بزمِ اردو قطر کی ادبی خدمات کے لیے بھی اس کے ذمہ داران و اراکین کو مبارک باد پیش کی۔
 
    صدرِ مشاعرہ  جناب ظفر صدیقی نے صدارتی تقریر میں شروع سے آخر تک تمام شعراے کرام کے منتخب اشعار پیش کر کے ان کے کلام کو سراہا اور بزمِ اردو قطر کو اس کامیاب و معیاری طرحی مشاعرے کے انعقاد پر مبارک باد پیش کی۔

    آخر میں بزمِ اردو قطر کے چیئرمین جناب ڈاکٹر فیصل حنیف  نے تمام شعراے کرام و معزز سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ ضیافت اور گروپ فوٹو کے بعد مشاعرے  کا اختتام ہوا۔

رپورٹ:  افتخار راغبؔ

جنرل سکریٹری  ۔  بزمِ اردو قطر

موبائیل:55707870

******************************

 

 

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 683