donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Iftekhar Raghib
Title :
   Bazme Urdu Qatar Ka Salana Mushaira 2014

قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم بزمِ اردو قطر کا سالانہ مشاعرہ ۲۰۱۴

                    

    اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے  قطر میں 1959سے سرگرمِ عمل قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام۱۲/دسمبر ۲۰۱۴ئ؁  کی  شب علامہ ابن حجر لائبریری فریق بن عمران کے وسیع ہال میں بڑے اہتمام سے سالانہ مشاعرہ ۲۰۱۴؁ کا انعقاد ہوا۔کینیڈا سے تشریف لائے عالمی شہرت کے حامل ممتاز دانشور، محقق ، ادیب اور شاعر جناب ڈاکٹر سیّد تقی عابدی نے مسندِ صدارت کو وقار بخشا۔ ہندوستان سے تشریف لائے خوش فکر شاعر و ادیب جناب ملک العزیز کرسیِ مہمانِ خصوصی پر جلوہ افروز ہوئے جب کہ بزمِ اردو قطر کے سرپرست اور بزمِ علیگ سے وابستہ معروف شخصیت جناب ظفر صدیقی نے مہمانِ اعزازی کی نشست کو رونق بخشی ۔ نظامت کے فرائض انڈیا اردو سوسائٹی کے نائب صدر اور قطر کے معروف صاحبِ طرز شاعر جناب عتیق انظر نے انتہائی عمدگی کے ساتھ انجام دیئے ۔ تلاوتِ کلام اللہ کی سعادت خوش آواز طالب علم عزیزم عبد اللہ نے حاصل کی۔  

               

    بزمِ اردو قطر کے صدر اور قطر کے معروف شاعر و ادیب جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے بزمِ اردو قطر کا مختصر تعارف اور خطبۂ استقبالیہ پیش کیا ۔ سالانہ مشاعرے سے قبل  بزمِ اردو قطر کا بارہواں عالمی سیمینار بعنوان’’ فیضؔ سیمینار‘‘ منعقد ہوا  جس سے کثیر تعداد میں موجود باذوق و تعلیم یافتہ سامعین فیض یاب ہوئے۔اس یادگار سیمینار کے بعدناظمِ مشاعرہ جناب عتیق انظرؔ نے اردو شاعری کے ارتقاء پر مختصر گفتگو کرتے ہوئے مشاعرے کا آغاز کیا۔ مقامی شعرا میں چند منتخب و معیاری شعراے کرام  یعنی چندے آفتاب چندے ماہتاب ہی شامل کیے گئے تھے ۔ جن کے منتخب  اشعار ہی قطر کے اردو ادبی منظرنامے پر ان کی اہمیت و عظمت کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلے سحر انگیز ترنم کے مالک شاعر جناب وزیر احمد وزیرؔ تشریف لائے اور اپنی  غزل پیش کر کے مشاعرے کا خوش آغاز کیا۔ 

                

وزیر احمد وزیرؔ :  

اندھیرے جھانک رہے ہیں سبھی دریچوں سے
چھپا کے رکھوں میں سورج کو اپنے گھر کب تک
تو رینگتی ہی رہے گی اگر اے میری حیات
یوں ہی گھسیٹ کے طے ہوگا یہ سفر کب تک
خزاں نے چھین لیے شاخ سے سبھی پتّے
برہنہ یوں ہی رہے راہ میں شجر کب تک
وزیرؔ آپ ہی رونا تھا داستاں کہہ کر
بہاتا اشک کوئی دوسرا مگر کب تک

    بزمِ اردو قطر کے میڈیا سکریٹری (انگریزی) اور خو ش فکر عر جناب روئیسؔ ممتاز کی شاعری بھی تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ انہوں نے اپنے مخصوص  انداز میں ایک مختصر سی نظم ’’میں اور وہ‘‘ پیش کر کے سامعین کے دلوں میں اعتبارِ شاعری بڑھایا۔

روئیسؔ ممتاز:

میں کہ سب کہتا ہوں لیکن کچھ نہیں کہتا ہوں میں
وہ کہ کچھ کہتے نہیں پر کیا نہیں کہتے ہیں وہ
میں کہ اُن پر مر مٹا ہوں کیا نیا کرتا ہوں میں
وہ کہ مجھ کو مارتے ہیں کیا نیا کرتے ہیں وہ

    ناظمِ مشاعرہ  جناب عتیق انظرؔ نے  بزمِ اردو قطر اور حلقہ ادبِ اسلامی قطر کے جنرل سکریٹری ، اقبال اکیڈمی مڈل ایسٹ کے ڈائریکٹر اور معروف شاعر جناب افتخار راغبؔ کو دعوتِ سخن دی۔ افتخار راغبؔ جن کے تین مجموعۂ غزلیات ’لفظوں میں احساس‘  ،  ’خیال چہرہ‘  اور ’غزل درخت‘  شائع ہو کرمقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ آپ نے دو مرصع غزلیں اور ایک مزاحیہ غزل کے چند اشعار  پیش کر کے سامعین کو خوب محظوظ کیا ۔ 

افتخار راغبؔ:

تنگ ہم پر بھی ہماری دنیا
دشمنِ عشق ہے ساری دنیا
زیست کی منزلِ مقصود نہیں
آخرت کی ہے سواری دنیا
انگلیوں پر یہ نچائے سب کو
چاہتی کیا ہے مداری دنیا
ساری دنیا کو ہرانے والی
ایک درویش سے ہاری دنیا

لے جائے جہاں چاہے ہوا ہم کو اُڑا کر
ٹوٹے ہوئے پتّوں کی حکایت ہی الگ ہے
پردیس میں رہ کر کوئی کیا پائوں جمائے
گملے میں لگے پھول کی قسمت ہی الگ ہے
باہر سے تو لگتا ہے کہ شاداب ہے گلشن
اندر سے ہر اِک پیڑ کی حالت ہی الگ ہے

دولت کی آرزو ہے نہ خواہش ہے مال کی
کھیتی گھنی اگا دے مرے سر پہ بال کی
ٹوپی پہن کے جاتا ہوں سسرال کیا کروں
رہ جائے کچھ تو آبرو گنتی کے بال کی
ملتا ہوں تم سے رات میں چشمہ اتار کے
تعریف کیا کروں میں تمھارے جمال کی
راغبؔ وہی مچاتا ہے محفل میں آ کے شور
ہمت نہیں ہے گھر میں جسے قیل و قال کی

    بزمِ اردو قطر کے صدر ، اقبال اکیڈمی مڈل ایسٹ کے ڈائریکٹر خوش گفتار شاعر و ادیب جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے اپنے منتخب اشعار و غزلیں پیش کر کے مشاعرے کے آہنگ کو مزید بلندی عطا کی ۔

محمد رفیق شادؔ اکولوی:

اِک ظلم کی سوغات بتا ہے کتنی
یہ تیری سیہ رات بتا ہے کتنی
مظلوم کی اِک آہ جلا کر رکھ دے
ظالم تری اوقات بتا ہے کتنی

دل کے ارمان کب نکلتے ہیں
آپ آئے نہیں کہ چلتے ہیں
آئینے جھوٹ تو نہیں کہتے
آپ کیوں آئینے بدلتے ہیں

نئی دوستی کے فسانے بہت ہیں
مگر دشمنی کو بہانے بہت ہیں
سلامت رہے شادؔ روشن ضمیری
تو محنت کے دو چار آنے بہت ہیں

    قطر کے مشہور و معروف شاعر جناب فرتاشؔ سیّد سامعین کے دلوں پر اپنی دلکش شاعری کا جادو جگانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ اپنے عمدہ اشعار کو اپنے مخصوص لب و لہجے میں پیش کر کے مشاعرہ لوٹنے کا فن بھی انھیں خوب آتا ہے۔ آپ کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں دلکش مجموعۂ کلام ’’حاشیہ‘‘ بھی شامل ہے۔

فرتاش سیّد:

میں کبھی روح کو نخچیر نہیں کر سکتا
تجھ زباں نے جو کیا تیر نہیں کر سکتا
میں کہاں اور یہ آیاتِ خد و خال کہاں
مصحفِ حسن میں تفسیر نہیں کر سکتا

گندھ کے مٹّی جو کبھی چاک پہ آجاتی ہے
بات بے مہریِ افلاک پہ آجاتی ہے
آسمانوں میں اُڑو ذہن میں رکھّو کہ جو چیز
خاک سے اٹھتی ہے وہ خاک پہ آجاتی ہے
رنگ و خوشبو کی کہیں کوئی کرے ذکر تو بات
گھوم پھر کر ترے پوشاک پہ آجاتی ہے

بر سرِ کوچۂ اغیار اُٹھا لائے ہیں
یہ کہاں مجھ کو مرے یار اُٹھا لائے ہیں
اِن کے اسلوبِ فضیلت سے پتا چلتا ہے
یہ کسی اور کی دستار اُٹھا لائے ہیں

    ناظمِ مشاعرہ ، انڈیا اردو سوسائٹی کے نائب صدر اور منفرد لب و لہجہ کے شاعر جناب عتیق انظرؔجن کا ایک مجموعۂ کلام ’پہچان‘ شائع ہو کر ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنا چکا ہے، نے اپنے کلام کے توسط سے باذوق سماعتوں کو کیف و سرور کی دلکش وادیوں  میں لطف اندوز ہونے کے لیے پہنچا دیا ۔

عتیق انظرؔ :

اِک ندی کے کنارے بسے گائوں میں
گزرا بچپن مرا چاند کی چھائوں میں

سوار ہو کے آ رہے ہیں بادلوں کے پنکھ پر
سنو بجیں گے اب ستار بارشوں کے پنکھ پر
تم اُس کی بے وفائی سے ڈرا رہے ہو کیا مجھے
مری تو زندگی کٹی ہے حادثوں کے پنکھ پر

جو پرندہ اُڑا تھا ندی چھوڑ کر کوئی مچھلی بڑی ڈھونڈنے کے لیے
اُس کو دریا کی ظالم ہوا کھا گئی اب نہ لوٹے گا وہ گھونسلے کے لیے
تم مرے ساتھ پہلی ملاقات میں زندگی کا ابھی فیصلہ مت کرو
میں ہوں کم عمر تم بھی ہو کم سن ابھی تجربہ چاہیئے فیصلے کے لیے

     انڈیا اردو سوسائٹی  کے بانی صدر ،شاعرِ خلیج جناب جلیلؔ نظامی کے جادوئی ترنم اور دلکش شاعری کا معترف و دلدادہ کوئی تنگ دل یا بد ذوق انسان ہی نہیں ہو سکتا ہے۔ آپ کی موجودگی ہو اورمشاعرہ کامیاب نہ ہو ایسا ہرگز ممکن نہیں۔

جلیلؔ نظامی :

غیر  بیزار،  خفا  آپ،  وہ  نالاں  مجھ  سے
مطمئن پھر بھی نہیں گردشِ دوراں مجھ سے
آشیاں پھونک دیا میں نے گلوں کی خاطر
اور کیا چاہتے ہیں اہلِ گلستاں مجھ سے
شہر  میں  صورتِ  دیوارِ  تماشا  ہوں  جلیلؔ
اشتہاروں کی طرح لوگ ہیں چسپاں مجھ سے

بحر ہے مختصر قافیہ تنگ ہے
اور مخاطب غزل کا وہ گل رنگ ہے
جبر پر صبر کی مجھ کو تلقین کی
یہ بتا کیوں ترے ہاتھ میں سنگ ہے
خیریت پوچھنے میری آنا ترا
عقل حیران ہے حادثہ دنگ ہے
زندگی نام ہے کشمکش کا جلیلؔ
ابتدا جنگ تھی انتہا جنگ ہے

    مقامی شعراء کے بعد ناظمِ مشاعرہ نے مہمانِ خصوصی اور ہندوستان سے تشریف لائے ہوئے شاعر جناب ملک العزیز کو دعوتِ سخن دی ۔ آپ نے اپنی کئی غزلوں سے منتخب اشعار پیش کیے اور اپنی شاعری سے سامعین کو محظوظ کیا۔

ملک العزیز :


تمھارے سر پہ جو پگڑی ہے وہ ہے مانگے کی
ہمارے پائوں میں لیکن ہمارے جوتے ہیں

بن تمھارے ساز دل کا بے سرا رہ جائے گا
تم بتائو زندگی میں کیا مزہ رہ جائے گا
چاند جب دیکھے گا تم کو دیکھتا رہ جائے گا
کیا زمیں پر آئینہ ہے سوچتا رہ جائے گا
سب معانی خواب بن کر بے کراں ہو جائیں گے
کھوکھلے الفاظ کا اک سلسلہ رہ جائے گا

    آخر میں صدر مشاعرہ ڈاکٹر سیّد تقی عابدی تشریف  لائے اور  صدرِ بزم ِ اردو قطر جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی کی فرمایش پر اپنی معروف نعتِ پاک  ’’وہ میرا نبیؐ میرا نبیؐ میرا نبیؐ ہے‘‘سے آغاز کیا۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

گر صاحبِ معراج کوئی ہو تو بلائو
دنیا میں اگر کوئی حسیں ہو تو دکھائو
ہے رحمتِ عالم کوئی بندہ تو بتائو
بندے کے لیے رب کہے صلو تو سنائو
کوئی نہیں بس ایک بشر صرف وہی ہے
وہ میرا نبیؐ میرا نبیؐ میرا نبیؐ ہے

    اس کے بعد ڈاکٹر سید تقی عابدی نے  غزل کے منتخب  اشعار سے قبل انتہائی عمدہ نظمیں بعنوان ’’فریادِ مسجدِ اقصیٰ‘‘ اور ’’بچوں کی ہنسی‘‘  پیش کی اور سامعین سے خوب داد وتحسین وصول کی۔

ڈاکٹر سید تقی عابدی:

(فریادِ مسجدِ اقصیٰ)      


بیتِ اقدس ہوں فلسطین کی دستار ہوں میں
دستِ مسلم میں چمکتی ہوئی تلوار ہوں میں
زیرِ آفاق مہکتا ہوا گلزار ہوں میں
اجنبی قوم میں ہے ہاتھ گرفتار ہوں میں
آج ہر سمت مسلمان میں بے زاری ہے
دینِ اسلام مٹانے کی مہم جاری ہے

(بچوں کی ہنسی)


کتنی معصوم ہوا کرتی ہے بچّوں کی ہنسی
پھول کی طرح کھلا کرتی ہے بچّوں کی ہنسی
تتلیوں جیسی اڑا کرتی ہے بچّوں کی ہنسی
گرد کو بادِ صبا کرتی ہے بچّوں کی ہنسی
دل کے دروازے کو وا کرتی ہے بچّوں کی ہنسی
خود بخود دل میں جگہ کرتی ہے بچّوں کی ہنسی
کھکھلا کر جو ہوا کرتی ہے بچّوں کی ہنسی
لگتا ہے جیسے دعا کرتی ہے بچّوں کی ہنسی

بھٹکے ہوئے منزل پہ پہنچ جائیں گے خود ہی
رستوں سے اگر راہ نمائوں کو ہٹا دو
لوگوں میں فقط عیب نظر آتے ہیں جس کو
اس کو بھی کبھی آئینے خانے میں بٹھا دو

    کثیر تعداد میں موجود سامعیں مشاعرے میں پیش کیے گئے عمدہ کلام سے خوب لطف اندوز ہوئے کئی اشعار اپنے حافظے میں محفوظ کر کے کیف و سرور کے عالم میں اپنے گھروں کو واپس ہوئے۔صدر مشاعرہ ڈاکٹر سید تقی عابدی ، مہمانِ خصوصی جناب ملک العزیز اور مہمانِ اعزازی جناب ظفر صدیقی نے اس کامیاب مشاعرے کے انعقاد پر بزمِ اردو قطر کے ذمہ داران و اراکین کو مبارک باد پیش کی اور شکریہ ادا کیا۔اس موقع پر  بزمِ اردو قطر نے صدرِ مشاعرہ ڈاکٹر سید تقی عابدی ، مہمانِ خصوصی جناب ملک العزیز کو اردو ادب کی گراں قدر خدمات کے لیے سپاس نامہ پیش کیا۔ جس میں مہمانِ اعزازی جناب ظفر صدیقی و ناظمِ مشاعرہ جناب عتیق انظر کے علاوہ بزم کے سرپرست جناب سید عبد الحئی و جناب مولانا عبد الغفار اور چیئر مین ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ ، صدر جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی ،  نائب صدر جناب فیروز خان ، جنرل سکریٹری جناب افتخار راغبؔ اور پروگرام کوارڈینیٹر جناب نصیر احمد کاتب شریک ہوئے۔ مشاعرہ  اور فیضؔ سیمینار سے قبل حیدرآبادی سپائسز ریسٹورینٹ کی طرف سے انتہائی لذیز عشائیہ کا انتظام تھا جسے تمام حاضرین نے خوب ذوق و شوق سے نوش فرمایا۔ بزمِ اردو قطر کی انتظامیہ نے تمام مہمانان و شعرا و سامعین کے ساتھ حیدر آبادی اسپائسز ریسٹورینٹ کے ذمہ داران اور علامہ ابن حجر لائبریری کے ذمہ داران کا شکریہ ادا کیا۔

رپورٹ:  افتخار راغبؔ

جنرل سکریٹری  ۔  بزمِ اردو قطر

موبائیل:55707870

*************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 710