donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Iftekhar Raghib
Title :
   Bazme Urdu Qatar Ke Zer Ehtema Janab Shamsul Ghani Ke Ezaz me Nishist


قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام 

 

خصوصی ادبی نشست بہ اعزاز

 

معروف شاعرجناب شمس الغنی

    قطر میں ۱۹۵۹ء سے اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے سرگرمِ عمل تنظیم بزمِ اردو قطر نے کراچی سے تشریف لائے معروف شاعر جناب شمس الغنی کے اعزاز میں ۱۰ / اپریل ۲۰۱۵ ء بروز جمعہ کو آٹھ بجے  شب  مازا ریسٹورینٹ ، دوحہ میں ایک پر وقار خصوصی ادبی نشست کا انعقاد کیا۔ جناب شمس الغنی ایک مستند و معتبر شاعر کی حیثیت سے اردو دنیا میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ آپ کے دو مجموعۂ کلام ’’سانپوں کا نگر‘‘ اور ’’کوفۂ سخن‘‘ کے نام سے شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ آپ کی پیدائش ۱۹۴۳ء میں ہندوستان کے شہر بدایوں میں ہوئی ۔ آپ نے اعلیٰ تعلیم کی متعدد اسنادکراچی یونیورسٹی سے حاصل کیں اور بینکر کی حیثیت سے مختلف اداروں سے وابستہ رہے۔ اردو شاعری کے علاوہ آپ نے اردو کے پانچ بڑے شعراکے تقریباً سات سو اشعار کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ نیز معاشیات اور مالیات پر آپ کے تین سو سے زیادہ مضامین معروف انگریزی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔   

    نشست کی نظامت کے فرائض بزمِ اردو قطر کے صدر جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے تلاوتِ کلامِ پاک سے بابرکت آغاز کرتے ہوئے بہ حسن و خوبی انجام دیے۔ آپ نے تمہیدی گفتگو میں جناب شمس الغنی کا تعارف اور ان کی ادبی خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے صاحبِ اعزاز کو اردو ادب کی صورتِ حال پر اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ مہمانِ اعزازی جناب شمس الغنی نے اپنی گفتگو میں کراچی کی ادبی سرگرمیوں پر اظہار خیال کیا اور حاضرین کے سوالوں کا بھی برمحل جواب دیا۔ آپ نے  قطر کی ادبی تقریبات و نشستوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور خاص طور سے نصف صدی سے جاری و ساری بزمِ اردو قطر کی ماہانہ طرحی مشاعروں اور دیگر تقریبات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دیارِ غیر میں اس قدر مستقل مزاجی سے خدمات انجام دینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔آپ نے اراکینِ بزم کو مفید مشوروں سے بھی  نوازا۔ آپ نے گزر گاہِ خیال فورم کی جانب سے ماہانہ غالب فہمی کے پروگراموں بھی خوب پذیرائی کی اور کہا کہ اس طرح کی ادبی نشستیں اب شاید ہی کہیں اور منعقد ہوتی ہوں۔ آپ نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے انڈیا اردو سوسائٹی کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے معیاری ماہانہ شعری نشست کی بھی خوب ستائش کی۔ حلقہ ادب اسلامی قطر کے تعمیری ادبی اجلاس و مشاعرے کی بھی تحسین کی۔ ساتھ ہی آپ نے قطر کے باذوق سامعین کا خاص طور سے ذکر کیا اور کہا کہ ایسی باذوق سماعتیں بہت کمیاب ہیں۔  قطر کی ادبی فضا تعمیری کام کرنے والی ادبی تنظیموں اور ان سے وابستہ عاشقانِ اردو کے لیے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

اے شہرِ لالہ زارِ ادب تیرا شکریہ
مشاطِ حسنِ گیسوے اردو تجھے سلام

اہلِ حروف رونقِ ہر بزم و انجمن
شاعر ترے ہیں آبروے کوچہ سخن
تو اہلِ نثر و نقد بھی یکتاے علم و فن
اور سامعینِ بزم کا اپنا الگ مقام
مشاطِ حسنِ گیسوے اردو تجھے سلام

ہے آسمانِ شعر و سخن پر کمند بھی
علمی مقالہ جات کا ہے بند و بست بھی
شرحِ کلامِ غالبِؔ مشکل پسند بھی
سو طرز سے نموے زباں کا ہے اہتمام
مشاطِ حسنِ گیسوے اردو تجھے سلام

میں اجنبی تھا تیری فضائوں میں اے قطر
اصحاب اہلِ دل نے کیا مجھ کو معتبر
اب ختم ہو رہا ہے رہِ شوق کا سفر
مجھ پر ہمیشہ قرض رہیں گے یہ صبح و شام
مشاطِ حسنِ گیسوے اردو تجھے سلام

    اس موقع پر بزمِ اردو قطر کی انتظامیہ نے جناب شمس الغنی کی شعری صلاحیتوں اور اردو شاعری کی ترقی و ترویج میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ہدیۂ تہنیت و سپاس نامہ پیش کیا۔ جسے بزمِ اردو قطر کے سینئر سرپرست جناب سید عبدالحئی ،  سرپرت جناب مولانا عبدالغفار نے چیئرمین جناب ڈاکٹر فیصل حنیف ،  صدر جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی اور جنرل سکریٹری جناب افتخار راغبؔ کی موجودگی میں فخر و انبساط کے ساتھ پیش کیا۔نشست میں دیگر نمایاں شرکاء میں بزمِ اردو قطر کے سرپرست جناب ظفر صدیقی،  نائب صدر جناب فیروز خان، رابطہ سکریٹری جناب وزیر احمد وزیرؔ ، اراکینِ بزمِ اردو قطر جناب افسر عاصمی، جناب عبد المجیداور جناب سید فیاض بخاری ، انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے بانی صدر جناب جلیلؔ نظامی اور بانی نائب صدر جناب عتیق انظرؔ ،  پاکستان ایجوکیشن سینٹر سے وابستہ شاعر جناب فرتاشؔ سید، قطر یونیورسٹی سے وابستہ ماہرِ لسانیات جناب پروفیسر ڈاکٹر رضوان احمد ، جناب شمس الغنی کے برادرِ عزیز جناب قمر الغنی ،  نوجوان سائنس دان جناب ڈاکٹر  ارشاد احمد  اور  اردو  نواز جناب محمد قاسم کے اسماے گرامی شامل ہیں۔ بزمِ اردو قطر کے صدر جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی اور چیئرمین جناب ڈاکٹر فیصل حنیف کی جانب سے عشایہ کا بھی اہتمام تھا ۔

    نشست کے دوسرے حصے میں جناب شمس الغنی کے اعزاز میں غیر رسمی شعری نشست بھی منعقد ہوئی۔ مہمانِ اعزازی کی فرمایش پر شاعرِ خلیج جناب جلیلؔ نظامی نے مہمانِ موصوف کی ایک غزل اپنے سحر انگیز ترنم میں پیش کی اور حاضرین کو خوب محظوظ کیا۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

تشنگی جرمِ اضافی ، بادہ و مینا حرام
اب تو شہرِ واعظاں میں ہو گیا جینا حرام
کج رووں کی مملکت میں جرم اظہارِ جنوں
جنسِ ممنوعہ تحیّر دیدۂ بینا حرام
موردِ تعزیر ٹھہری جنبشِ موئے قلم
بزمِ یاران سخن میں ساز و سازینہ حرام
آج سے سن لیں سبھی شیشہ گرانِ شہرِ یار
پرتوِ کارِ مصوّر عکسِ آئینہ حرام
آج سے ہم بھی اسیرِ ابرو و مژگانِ یار
ہم پہ اے چشمِ غزالاں آج سے پینا حرام
در حدودِ دشتِ وحشت، سن لیں یارانِ جنوں
ناروا کارِ رفو ہے چاکِ دل سینا حرام

    اس خصوصی شعری نشست میںجناب شمس الغنی کے علاوہ جن شعراے کرام نے اپنے کلام پیش کیے ان کے منتخب اشعار بھی ملاحظہ کیجیے:

فیاض بخاری کمالؔ:

خود پرستی جابجا خوفِ خدا کچھ بھی نہیں
ہر طرف حرص و ہوس اس کے سوا کچھ بھی نہیں
ہر طرف دھوکا ہی دھوکا اور مچی ہے لوٹ مار
اب تمیزِ نیک و بد ، اچھا برا کچھ بھی نہیں

وزیر احمد وزیرؔ:

کیا کہیں رات نے لوٹا تو نہیں سورج کو
ایک مدّت سے ہیں مہمان اندھیرے میرے
لوریاں گا کے سلاتا تھا جنھیں سینے پر
یاد آتے ہیں وہ معصوم سے بچے میرے

افتخار راغبؔ:

آپ اب ہم سے ہماری خیرت مت پوچیے
آدمی خود کا کہاں رہتا ہے دل جانے کے بعد
سخت جانی کی بدولت اب ہم ہیں تازہ دم
خشک ہو جاتے ہیں ورنہ پیڑ ہِل جانے کے بعد
خوف آتا ہے بلندی کی طرف چڑھتے ہوئے
گل کا مرجھانا ہی رہ جاتا ہے کھل جانے کے بعد

فرتاشؔ سید:

بر سرِ کوچۂ اغیار اٹھا لائے ہیں
یہ کہاں مجھ کو مرے یار، اٹھا لائے ہیں
ریت میں پھول کھلانا ہمیں آتا ہے سو ہم
عرصۂ دشت میں گھر بار اٹھا لائے ہیں
اِن کے اسلوبِ فضیلت سے پتا چلتا ہے
یہ کسی اور کی دستار اٹھا لائے ہیں

محمد رفیق شادؔ اکولوی:

لہو خلوص کا شامل نہ تھا رفاقت میں
سو    دوستی   کے    تقاضے   ثبات   پا  نہ   سکے
دل کے ارمان کب نکلتے ہیں
آپ آئے نہیں کہ چلتے ہیں
آئینے جھوٹ تو نہیں کہتے
آپ کیوں آئینے بدلتے ہیں

عتیق انظرؔ:

مری طلب کا شجر بارور ہوا ہی نہیں
دعا کی شاخ پہ غنچہ کوئی کھلا ہی نہیں
بہا کے خواب مرے سارے لے گیا دریا
مگر خموش ہے اب جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
مرے خلاف شکایت میں سب سے آگے ہے
وہ ایک شخص جو مجھ سے کبھی ملا ہی نہیں

جلیلؔ نظامی:

وہ چاہتا ہے مجھے، مجھ کو یہ گُمان کیوں ہے؟
اُڑان آج مریِ سُوئے "لامکاں" کیوں ہے؟
لہو بْجھی ہوئی آنکھوں میں کِس طرح اُترا؟
سرشکِ چشم، رگِ جان سے رواں کیوں ہے؟
وہ جس کے تاج کا  ہے بوجھ، میرے کاندھوں پر!
اُسے یہ فکر، مرے، سر پہ آسماں کیوں ہے؟

شمس الغنی:

میں ارتقاے ذات کی شب کا امین تھا
غارِ حراے دل مری حدِ زمین تھا
میں دشتِ بے نشاں میں تجھے ڈھونڈتا رہا
تو قصرِ حسن و جاہ میں مسند نشین تھا
تسخیرِ کائنات تو چھوٹی سی بات تھی
میں حدِ لامکان کا سایہ نشین تھا

کربِ شکستِ ذات کے مارے ہوئوں میں ہوں
اِک ساعتِ زوال ہوں، ہارے ہوئوں میں ہوں
گیسوے منتشر ہوں مگر دستِ حسنِ یار
تجھ کو خبر ہے تیرے سنوارے ہوئوں میں ہوں
سکّہ ہوں جس کی قدر ہے اوقات سے سوا
صدقہ ہوں تیرے سر سے اتارے ہوئوں میں ہوں


    
رپورٹ:  افتخار راغبؔ

جنرل سکریٹری  ۔  بزمِ اردو قطر
موبائیل:55707870


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 625