donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Iftekhar Raghib
Title :
   Bazme Urdu Qatar Ke Zer Ehtemam Aik Sham Ateeq Anzar Ke Naam


 

قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم

 

’بزمِ اردو قطر‘ کے زیرِ اہتمام ’’ایک شام عتیق انظرؔ کے نام‘‘

    اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے احساس سے معمور،  ذی علم سخن فہموں، باکمال سچے سخن گستروں اور ادیبوں کی منفرد تنظیم یعنی قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم بزمِ اردو قطر (قائم شدہ۱۹۵۹ئ؁) نابغۂ روزگار علمی و ادبی شخصیتوں کے ساتھ 'ایک شام' منانے کا اہتمام سہ ماہی پروگرام کے طور پر کر رہی ہے۔  بزمِ اردو قطر نے اس سلسلے کی دوسری تقریب "شاعرِ احساس و رومان جناب عتیق انظرؔکے ساتھ ایک شام"  ۱۷ / اپریل۲۰۱۵ئ؁ بروز  جمعہ کی شام علامہ ابن حجر لائبریری، دوحہ میں بعنوان ’’عود و لوبان کے جنگلوں کی مہک‘‘  کا انعقاد کیا۔  بقول جناب عتیق انظرؔ :

عود و لوبان کے جنگلوں کی مہک میرے دل میں ہے اب تک سمائی ہوئی
اب  بھی  رہ  رہ  کے  مجھ  کو  ستاتی  ہے  وہ  جنگلی  فاختہ  جو  پرائی  ہوئی

    انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے بانی صدر و شاعرِ خلیج جناب جلیلؔ نظامی نے اس پُر وقار تقریب کی صدارت فرمائی جب کہ بزمِ اردو قطر کے بہت ہی فعال سرپرست جناب مولانا عبد الغفار بطورِ مہمانِ خصوصی شریک ہوئے۔

    جناب عتیق انظرؔ کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے جنھیں قدرت نے خاص طور پر سخنوری کا ہنر عطا کیا ہے- بقول پروفیسر جگن ناتھ آزاد  ؔ’’موجودہ نسل میں عتیق انظرؔایک اہم نام ہے- عتیق انظرؔنے شاعری کو سجانے کے لیے مروجہ علامتوں کو بیساکھیوں کے طور پر استعمال نہیں کیا بلکہ دروں بینی اور انکشافِ ذات کے عمل کو دلیلِ راہ بنا کر انھیں نئے مفہوم سے آشنا کیا ہے- اسی عمل سے عتیق انظرؔکی غزل اور نظم دونوں میں روشنی بھی پیدا ہوئی اور گرمی بھی- انظرؔنے کیفیتِ فراق کسی اور شاعر سے یا شاعری کے پرانے اوراق سے ادھار نہیں مانگی بلکہ ان کا سوزِ دروں بھی اپنا ہے، اس سوزِ دروں کا اظہار بھی ان کا اپنا ہے، اور ان کا اسلوب بھی‘‘۔

     جناب عتیق انظرؔنے شاعری کا آغاز ۱۹۷۸ء  میں کیا۔ آپ کا کلام ہند و پاک کے موقر رسائل میں چھپتا رہا ہے۔ آپ کل ہند و عالمی مشاعروں میں بھی شرکت کرتے رہے ہیں۔ آپ کا مجموعۂ کلام ’’ پہچان ‘‘ ۱۹۹۴ء میں شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ جناب عتیق انظرؔ، انڈیا اردو سوسائٹی کے بانی  نائب صدر ہیں اور اردو شاعری میں ایک معتبر نام۔

         

    پر وقار عشائیہ کے بعد تقریب کا آغاز ہوا۔ پروگرام کی ابتدائی نظامت بزمِ اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب افتخار راغبؔ نے کی اور باضابطہ نظامت کے فرائض معروف شاعر و ادیب و خوش اسلوب ناظمِ مشاعرہ جناب محمد رفیق شاد ؔاکولوی نے انجام دیے۔ جناب قاری محمد عمر کی تلاوتِ کلام اللہ سے با برکت آغاز ہوا ۔  جناب افتخار راغبؔ نے کثیر تعداد میں تشریف لائے  با ذوق سامعین و شعراے کرام اور مختلف تنظیموں کے نمائندو ںکا تہہِ دل سے استقبال کیا۔ آپ نے بزمِ اردو قطر کے کرم فرما جناب محمد شاہد خان کے خصوصی تعاون کو سراہا۔

                  

    اس موقع پر بزمِ اردو قطر نے جناب عتیق انظرؔ کی شعری و نثری صلاحیتوں اور اردو شاعری کی ترقی و ترویج میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ہدیۂ تہنیت و سپاس نامہ پیش کیا۔ جسے بزمِ اردو قطر کے سینئر سرپرست جناب سید عبدالحئی ،  سرپرست و مہمانِ خصوصی جناب مولانا عبدالغفارا ور سرپرست جناب ظفر صدیقی ، صدرِ تقریب جناب جلیلؔ نظامی ، بزمِ اردو قطر کے چیئرمین جناب ڈاکٹر فیصل حنیف ،  صدر جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی اور جنرل سکریٹری جناب افتخار راغبؔ نے میں فخر و انبساط کے ساتھ پیش کیا۔  ناظمِ تقریب جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے تمہیدی گفتگو کے بعد مہمانِ اعزازی جناب عتیق انظرؔ کو ان کے شعر

ہونٹ بھی سی لوں تو الفاظ مرے بول اٹھیں
میں نے پہچان زمانے سے جدا رکھی ہے

سے دعوتِ سخن دی ۔ جناب عتیق انظرؔ نے اپنے کئی غزلوں سے عمدہ اشعار پیش کیے اور ایک نظم ’’فاصلے کا معجزہ‘‘ پیش کی۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

میں اپنے سر سبھی الزام لوں گا
مگر ہردم اُسی کا نام لوں گا
میں جس کے واسطے جاں دے رہا ہوں
اُسی کے ہاتھ سے انعام لوں گا
خفا ہوتا ہے تو ہو جائے سورج
میں دل کی روشنی سے کام لوں گا

سمندر پھیلتا ہی جا رہا ہے
ندی تالاب ہوتی جا رہی ہے
بہاروں کی پھواریں پڑ رہی ہیں
کلی شاداب ہوتی جا رہی ہے
غزل میں لکھ رہا ہوں آنسوئوں سے
زمیں سیراب ہوتی جا رہی ہے

خود سے بادل جو عنایت نہیں کرنے والے
پیڑ بھی کوئی شکایت نہیں کرنے والے
اِن کو ترشول دکھائو کہ چتا کے شعلے
یہ پرندے کبھی ہجرت نہیں کرنے والے

    دل کش ترنم کے مالک بزمِ اردو قطر کے رابطہ سکریٹری جناب وزیر احمد وزیرؔ نے جناب عتیق انظرؔ کی غزل ترنم میں پیش کی اور محفل میں رنگ جما دیا۔

زخم ہوتا ہے مرے دل کا ہرا شام ڈھلے
درد کے پھول مہکتے ہیں سدا شام ڈھلے
پیڑ سے ٹوٹ کے بن جاتے ہیں پتے گھنگرو
رقص جب کرتی ہے جنگل میں ہوا شام ڈھلے
گائوں کے راستے دن بھر کے تھکے جھوم اٹھے
جب جھنکنے لگی پائل کی صدا شام ڈھلے

    جناب سید آصف حسین نے اپنے شیریں لہجے اور شگفتہ زبان میںجناب عتیق انظرؔ پر پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ کا مختصر مگر بہت جامع مضمون ’’تازہ ہوا کا جھونکا‘‘  پیش کیا جسے سامعین نے خوب پسند کیا۔ بزمِ اردو قطر کے رکن اور منفرد لب و لہجے کے شاعر جناب مقصود انور مقصودؔ نے جناب عتیق انظرؔ کی شخصیت پر مختصر مضمون پیش کیا جس میں آپ نے انظرؔ صاحب سے اپنی پہلی ملاقات اور ان کے مخلصانہ تعلق کا ذکر کیا۔ مضمون کے بعد اپنے سحرانگیز ترنم میں جناب عتیق انظرؔ کی نذر دو قطعات کیے:

پہلے لفظوں کو تولتے ہیں جناب
رس وہ کانوں میں گھولتے ہیں جناب
شعر گوئی میں ہیں یکتا انظرؔ
جن کے الفاظ بولتے ہیں جناب

خوب دل کش بیان تو جانے
کیا ہے اردو زبان تو جانے
شاعری ہو کہ نثر ہو انظرؔ
فکر و فن کی اُڑان تو جانے

    جناب مظفر نایابؔ کی غیر موودگی میں جناب عتیق انظرؔ کے فن اور شخصیت پر تحریر کردہ ان کی طویل تہنیتی نظم جناب افتخار راغبؔ نے پیش کی جسے سامعین نے خوب پسند کیا۔ ناظمِ تقریب جناب شادؔ اکولوی نے کہا کہ ۲۸ سال میں پہلی بار میں نے قطر میں ایسی نظم سنی ہے۔ چند بند آپ بھی سنیے:

جدّت جو اثاثہ ہے روایت ہے دل و جان
اک شاعرِ حسّاس کی رکھتا ہے وہ پہچان

اشعار کے پیکر میں نگینوں کی تصاویر  
کچھ حُسن کے جلووں کی‘ حسینوں کی تصاویر  
کچھ ماہ رخوں‘ ماہ جبینوں کی تصاویر  
ہے عشقِ جنوں خیز ہی سر چشمۂ وجدان
اک شاعرِ حسّاس کی رکھتا ہے وہ پہچان

مہتاب کے، سورج کے، ستاروں کے مناظر
آکاش کے، دھرتی کے، گھٹائوں کے مناظر
دریا کے، سمندر کے، پہاڑوں کے مناظر
شعروں میں ِسمٹ آئے ہیں صحرا و گلستان
اک شاعرِ حسّاس کی رکھتا ہے وہ پہچان

زلفوں کی حکایات ہیں، پلکوں کی حکایات
کاجل سے چمکتے ہوے آنکھوں کی حکایات
آنکھوں میں بسائے ہوئے سپنوں کی حکایات
دُکھ سکھ کو جو جیون کے بناتا رہا عنوان
اک شاعرِ حسّاس کی رکھتا ہے وہ پہچان

کچھ ُاس کو محبّت نہیں شر اور شرر سے
نفرت سے، عداوت سے، خصومت سے، ضرر سے
اک پیار کا طالب ہے چلا پریم نگر سے
رہتا ہے جو ہنگامۂ دُشنام سے انجان
اک شاعرِ حسّاس کی رکھتا ہے وہ پہچان

اشعار کے کوزے میں کرے بند سمندر
دُنیائے ادب جس کو کہے عمدہ سخنور
اک معتبر آواز اے نایابؔ ہے انظرؔ
رہتا ہے جو چہرے پہ سجائے ہوے مُسکان
اک شاعرِ حسّاس کی رکھتا ہے وہ پہچان

    جناب افتخار راغبؔ نے اپنے منظوم تاثرات میں کہا کہ
جدید لہجے کی شاعری کا اک استعارہ عتیق انظرؔ
زمین پر آسمانِ اردو کا اک ستارا عتیق انظرؔ

    انڈیا اردو سوسائٹی کے نائب صدر جناب محمد شاہد خان نے جناب عتیق انظرؔ کے مجموعۂ کلام ’’پہچان‘‘ کی رسمِ اجرا کے موقع پر برسوں پہلے غالب اکیڈمی دہلی میںپیش کیے ڈاکٹر خلیق انجمؔ کی تقریر کا اقتباس  بہت عمدہ انداز میں پیش کیا جو ’’اپنی آواز کی تلاش‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے ۔ جناب عبد الملک قاضی جو اپنی سریلی آواز کے لیے قطر میں معروف ہیں نے جناب عتیق انظرؔ کی ایک غزل پیش کی اور حاضرین کو خوب محظوظ کیا:

دل کے آنگن میں تری یاد کا تارا چمکا
میری بے نور سی آنکھوں میں اجالا چمکا
شام کے ساتھ یہ دل ڈوب رہا تھا لیکن
یک بہ یک جھیل کے اُس پار کنارا چمکا
اُس عمارت کی چمک یوں رہی دو پل انظرؔ
دھوپ میں جیسے کوئی برف کا ٹکڑا چمکا

 
    جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی کا شمار جہاں صفِ اول کے شعرا میں ہوتا ہے وہیں نثر نگاری میں بھی اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ آپ نے جناب عتیق انظرؔ کی شاعری اور شخصیت  پر ایک پر مغز مضمون ’’ میری پہچان کا راستہ ہے الگ ‘‘  پیش کیا اور ان کے فن اور شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے ان کی شاعری کے ابتدائی سفر ، بزمِ اردو قطر سے ان کی ابتدائی وابستگی ، ان کے مجموعۂ کلام ’’پہچان‘‘ کی اشاعت اور ان کے شعری سفر کے مختلف پہلوئوں پر دل کھول کر گفتگو کی اور ان کی غزلوں اور نظموں سے عمدہ اشعار کے انتخاب کے ساتھ ان کی شاعری کی مختلف خصوصیات کو پیش کیا۔ آپ نے کہا کہ عتیق انظرؔ کے لفظوں میں ایک پر وقار ٹھہراو ہے ڈرامائی گریز ہے نئی علامتوں کی کارفرمائی بھی ہے اور ماضی کے کر ب و بلا کا اظہار بھی۔  اپنے مضمون کے بعد ناظمِ تقریب جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے قطر کے معروف غزل سنگر جناب ابولخیر کو جناب عتیق انظرؔ کی غزل پیش کرنے کی دعوت دی۔ جناب ابوالخیرکی سحر انگیز آواز میں صاحبِ شام جناب عتیق انظرؔ کی غزل پر سامعین جھوم اٹھے:

آپ کا نام جو لیا میں نے
دل کا کاغذ بھیگو لیا میں نے
دھول غم کی جمی ہوئی تھی بہت
اپنی آنکھوں کو دھو لیا میں نے
اب مری جاگنے کی باری ہے
جتنا سونا تھا سو لیا میں نے

    قطر کے معروف نثر نگار ، بزمِ اردو قطر کے چیئرمین ، گزرگاہِ خیال فورم کے بانی صدر اور اقبال اکیڈمی مڈل ایسٹ کے بانی  چیئرمین جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے بھی جناب عتیق انظرؔ کی شاعری پر بہت عمدہ مضمون پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ انظرؔ کو اکثر جدیدیت کاحامی شاعر کہا جاتا ہے۔میرے نزدیک انظرؔ کی جدیدیت اس جدیدیت سے جدا ہے جس نے آج اردو شاعری کو رسوا کر رکھا ہے۔انظرؔ کی شاعری زمانۂ حال کی شاعری ہے۔ آپ نے آگے فرمایا کہ میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ انظرؔ کی شاعری کسی توصیف کی محتاج نہیں۔آفاقی لب و لہجہ ، جامعیت، تشبیہ اور استعارے کا بھرپور استعمال، اچھوتا پن اور حسنِ بیان، عمدہ منظر کشی اور نکتہ آفرینی عتیق انظرؔ کی شاعری کی ایسی خوبیاں ہیں، جن کو اہلِ نظر سات پردوں میں بھی دیکھ لیں گے۔

    جناب شادؔ اکولوی نے ایک بار پھر صاحبِ شام جناب عتیق انظرؔ کو اپنا کلام پیش کرنے کی دعوت دی۔ آپ نے کئی منتخب غزلوں اور نظموں سے سامعین کو محظوظ کیا۔ چند اشعار قارئین کی نذر:

مرے چراغ سے اپنا دیا جلاتے ہیں
مگر وہ نام کسی اور کا بتاتے ہیں
تعلقات کو آبِ خلوص سے سینچو
یہ پیڑ طنز کی بارش میں سوکھ جاتے ہیں
اِنھیں ثمر کی تمنا نہ چھائوں کی خواہش
یہ لوگ پیڑ لگاتے ہیں بھول جاتے ہیں

جس نے آندھی کے مقابل میں انا رکھی ہے
اُس ہری شاخ کی قسمت میں قضا رکھی ہے
دور آکاش میں اُڑتے ہوئے بادل سن لے
پیڑ نے تجھ سے بہت آس لگا رکھی ہے
اُڑ گئی ہاتھ سے تتلی تو نہ رو حوصلہ رکھ
میں نے پھولوں سے تری بات چلا رکھی ہے

نہر اشکوں کی خالی ہوئی اور حویلی کھنڈر ہو گئی
یاد کے پل میں شب ڈھل گئی مرغ بولا سحر ہوگئی
پھول سرسوں کے بھی کھل گئے سارے بچھڑے ہوئے مل گئے
ایسی رُت میں اُسے کیا ہوا مجھ سے کیوں بے خبر ہو گئی
سبز پتوں کے کپڑے ملے چھوم اٹھے پیڑ اجڑے ہوئے
جی اٹھی پھر سے مردہ زمیں ابر کی جب نظر ہوگئی

    اظہارِ خیال کرتے ہوئے جناب عتیق انظرؔ نے انتہائی مسرت کے ساتھ بزمِ اردو قطر کے ذمہ داران و اراکین کا شکریہ ادا کیا ۔ آپ نے مضمون نگاران و منظوم خراجِ تحسین پیش کرنے والے اور ترنم میں ان کے کلام پیش کرنے والے تمام ساتھیوںکا بھی شکریہ ادا کیا ۔ مہمانِ خصوصی جناب مولانا عبد الغفار جو فارسی شعر و ادب پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں ، نے فارسی اشعار اور ان کا اردو ترجمہ پیش کرکے جناب عتیق انظرؔ کو خراجِ تحسین پیش کیا اور فرمایا کہ عتیق انظرؔ کو میں برسوں سے جانتا ہوں لیکن آج جو کچھ ان کے متعلق جاننے کو ملا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں آج سے پہلے ان کو بہت کم جانتا تھا۔ آپ نے بزمِ اردو قطر کو بھی مبارک باد پیش کی اور اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔

    صدارتی خطبے میں جناب جلیلؔ نظامی نے جناب عتیق انظرؔ سے اپنی ابتدائی ملاقاتوں کا ذکر کیا۔ آپ نے جناب عتیق انظرؔ سے اپنے دیرینہ اور پرخلوص دوستی کا بھی تذکرہ کیا ساتھ ہی فرمایا کہ انظرؔ کے کلام اور شخصیت میں کوئی تضاد نہیں ہے آپ نیک آدمی ہیں اور گہری شاعری کرتے ہیں۔ آخر میں صدرِ تقریب جناب جلیلؔ نظامی نے جناب عتیق انظرؔ کی غزل اپنے دل کش ترنم میں پیش کرکے محفل کو بامِ عروج پر پہنچا دیا۔

سلگتی ریت کی قسمت میں دریا لکھ دیا جائے
مجھے ان جھیل سی آنکھوں میں رہنا لکھ دیا جائے
تری زلفوں کے سائے میں اگر جی لوں میں پل دو پل
نہ ہو پھر غم جو میرے نام صحرا لکھ دیا جائے
کہیں بجھتی ہے دل کی پیاس اک دو گھونٹ سے انظرؔ
میں سورج ہوں مرے حصے میں دریا لکھ دیا جائے

    بزمِ اردو قطر کے نائب صدر جناب فیروز خان نے مختلف تنظیموں کے ذمہ داران اور کثیر تعداد میں موجود باذوق سامعین اور مہمانان کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا۔  آپ نے جناب محمد شاہد خان کے خصوصی تعاون کے لیے بھی ان کا شکریہ ادا کیا۔  آپ نے جناب عتیق انظرؔ کے ایک شعر پر اپنی بات ختم کی:

میری پہچان کا راستہ ہے الگ
میں سدا شاہراہوں سے بچ کر چلا

     آخر میں حاضرین نے گروپ فوٹو میں شرکت کی اور جناب عتیق انظرؔ کے متعدد اشعار اپنے حافظے میں محفوظ کر کے اپنے اپنے گھروں کو واپس ہوئے۔تقریباً  نوّے منتخب اور باذوق سامعین میں قطر کے کئی ایک اہم  محبِ اردو ادب شامل تھے۔

افتخار راغبؔ
جنرل سکریٹری ، بزمِ اردو قطر

**********************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 703