donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Iftekhar Raghib
Title :
   Bazme Urdu Qatar Ke Zer Ehtemam Faiz Seminar

 

قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم ’بزمِ اردو قطر ‘کے زیرِ اہتمام

 

بارہواں عالمی سیمینار بعنوان’ فیضؔ سیمینار‘

              

    اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے  قطر میں ۱۹۵۹ئ؁ سے سرگرمِ عمل قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر نے ۱۲/دسمبر ۲۰۱۴ئ؁  بروز جمعہ سات بجے شب علامہ ابن حجر لائبریری فریق بن عمران کے وسیع ہال میں بارہواں عالمی سیمینار براے فیض شناسی ’’فیضؔ سیمینار‘‘ کا انعقاد بہت اہتمام سے کیا۔موجودہ دور میں کینیڈا میں مقیم عالمی شہرت کے حامل ممتاز دانشور، محقق ، ادیب اور شاعر جناب ڈاکٹر سیّد تقی عابدی کا نام فیض احمد فیضؔ کی شاعری پر ایک معتبر و مستند حوالہ پوری اردو دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے ’’فیضؔ شناسی‘‘ اور ’’فیضؔ فہمی‘‘ کے نام ضخیم کتابیں لکھ کر نہ صرف فیض احمد فیضؔ کی شاعری کی تفہیم و ترسیل کی ہے بلکہ اس حوالے سے پوری دنیا میں اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔جناب ڈاکٹر سیّد تقی عابدی کی صدارت میں منعقد اِس عالمی سیمینار میں ہندوستان سے تشریف لائے خوش فکر شاعر و ادیب جناب ملک العزیز کاتب کرسیِ مہمانِ خصوصی پر جلوہ افروز ہوئے۔  جب کہ بزمِ اردو قطر کے سرپرست اور بزمِ علیگ سے وابستہ معروف شخصیت جناب ظفر صدیقی نے مہمانِ اعزازی کی نشست کو رونق بخشی ۔ نظامت کے فرائض انڈیا اردو سوسائٹی کے نائب صدر اور قطر کے معروف صاحبِ طرز شاعر جناب عتیق انظر ؔنے انتہائی عمدگی کے ساتھ انجام دیئے ۔ تلاوتِ کلام اللہ کی سعادت خوش لحن طالب علم عزیزم عبد اللہ نے حاصل کی۔  


    بزمِ اردو قطر کے صدر اور قطر کے معروف شاعر و ادیب جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی نے بزمِ اردو قطر کا مختصر تعارف اور خطبۂ استقبالیہ پیش کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ ڈاکٹر سیّد تقی عابدی کی تشریف آوری بزمِ اردو قطر کے لیے خوش بختی کی بات ہے۔ قطر کے با ذوق اور تعلیم یافتہ منتخب الانتخاب سامعین کے لیے بھی ڈاکٹر تقی عابدی کی فیض احمد فیضؔ پر گفتگو سے استفادہ کرنے اور اُن کی شاعری سے محظوظ ہونے کا یہ ایک نادر موقع ہے جسے لوگ برسوں یاد رکھیں گے۔
    فیض احمد فیضؔ کا نام شعر وادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں- بیسویں صدی کی اُردو شاعری میں علامہ محمد اقبال کے بعد جو نام اُبھر کر سامنے آئے اُن میں نمایاں ترین نام فیض احمد فیضؔ کا ہے۔ اردو ادب کے بہت سے ناقدین کے نزدیک فیض احمد فیضؔ ، غالبؔ اور اقبالؔ کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ میرؔ ،  غالبؔ اور اقبال کے بعد جو دادوتحسین اور عوامی مقبولیت ان کے حصے میں آئی وہ شاید ہی کسی اور کو نصیب ہوئی۔ سن تیس کے عشرے میں شروع ہونے والی اُن کی شاعری سن اسّی کی دہائی تک جاری رہی اور یوں اُن کے کلام نے نصف صدی کا عرصہ اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ فیضؔ نے شاعری شروع کی تواس وقت بہت سے قدآور شعراء موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔ جگر ؔمراد آبادی، فراقؔ گورکھپوری اور جوشؔ ملیح آبادی کے سامنے کسی کا چراغ نہ جلتا تھا۔ لیکن فیضؔ کے منفرد انداز نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ان کی شعری تصانیف میں نقشِ فریادی، دستِ صبا ، زنداں نامہ ، دست تہہِ سنگ ، سرِ وادیِ سینا، شامِ شہرِ یاراں، میرے دل میرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔ فیضؔ کی شاعری میں جمال، محبت، ہجر، وفا، کے ساتھ ساتھ معاشرتی نشیب و فراز کے گہرے اثرات کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ فیض احمد فیض ؔ تقسیمِ ہند سے قبل۱۳ / فروری کو  ۱۹۱۱ئ؁ میں سیالکوٹ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی۔ آپ نے اسکول ہی میں فارسی اورعربی زبان بھی سیکھی۔ آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور انگلش میں ایم اے کیا۔ بعد میں آپ نے اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں بھی ایم اے کیا۔

                
     فیض احمد فیضؔ پر منعقد اِس عالمی سیمینار میں ڈاکٹر سیّد تقی عابدی نے انتہائی معلوماتی اور اہم مقالہ بعنوان ’’فیضؔ کی شاعری کی ادبی معنویت‘‘  پیش کیا۔ جس میں آپ نے فیضؔ کے کلام کی ادبی معنویت اور اکیسویں صدی میں اس کی اہمیت کو مدلّل انداز میں پیش کیا جسے سوا سو سے زیادہ معتبر اور خوش ذوق سماعتوں نے یکسوئی کے ساتھ سماعت کیا اور اہم نکتوں پر تالیوں کی گونج سے اپنی بھرپور پسندیدگی کا ثبوت دیتے رہے۔ ’’ فیضؔ شناسی‘‘  او ر ’’فیضؔ فہمی‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر تقی عابدی کی ضخیم کتابوں نے فیض احمد فیضؔ کی شاعری کی تفہیم  کے لیے ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کی ہے جو موصوف کی چالیس منفرد و معیاری تصنیفات میں شامل ہیں۔

     آپ نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے  جب کہا کہ دبیرؔ کے ایک لاکھ بیس ہزار اشعار ، انیسؔ کے بیاسی ہزار اشعار ، میرؔ کے اڑتیس ہزار اشعار، اقبال کے اٹھائیس ہزار اشعار ، غالبؔ کے چودہ ہزار اشعار اور نظیرؔ کے آٹھ ہزار مطبوعہ اشعار ہیںجب کہ فیضؔ کے پاس صرف اٹھارہ سو اشعار ہیں۔ پچپن سالہ فیضؔ کے شعری دور میں صرف ستّر غزلیں ہیں جن میںکل چار سو پینسٹھ اشعار ہیں۔اس کے باوجود فیضؔ اپنی الگ پہچان بنانے میں انتہائی کامیاب نظر آتے  ہیں ۔ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ فیضؔ  نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ :

ہم نے جو طرزِ فغاں کی تھی قفس میں ایجاد
فیضؔ گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
    ڈاکٹر تقی عابدی نے فیضؔ کی مشہور نظم :
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ

پر بھرپور گفتگو کی اور نظم کی مختلف خوبیوں کو احسن طریقے سے اُجاگر کیا۔ آپ نے فیضؔ کی زندگی کے مختلف واقعات کا ذکر کیا اور ان واقعات سے متاثر ہو کر کہی گئی نظموں پر بھی عالمانہ گفتگو فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ فیضؔ کے پاس احساس کی شدّت ، جذبوں کا خلوص اور عمل کی خواہش بہت نمایاں ہے۔ فیضؔ نے قطرے میں دجلہ دیکھا بھی ہے اور دکھایا بھی ہے۔ فیضؔ نے انسانیت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔آپ نے کہا کہ شاعر کی اہمیت و عظمت وقت بتاتا ہے۔ بہت سارے شاعروں کے مجموعۂ کلام کا جنازہ  شاعر کے جنازے کے ساتھ ہی اٹھ جاتا ہے لیکن فیضؔ اکیسویں صدی میں بھی اُسی آن بان کے ساتھ زندہ رہے گا۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے فیضؔ کے پہلے شعر اورموت سے چند گھنٹے قبل کہے آ خری  شعر کے ذکر کے ساتھ متعدد اشعار اور نظموں پر گفتگو کی جس میں مندرجہ ذیل مشہورِ زمانہ اشعار بھی شامل تھے:

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت نا گوار گزری ہے
     
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحرائوں میں بھولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے

وہ جب بھی کرتے ہیں اِس نطق و لب کی بخیہ گری
فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں
درِ قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    ڈاکٹر تقی عابدی نے فیض احمد فیضؔ پر سیمینار منعقد کرنے پر بزمِ اردو قطر کے ذمہ داران و اراکین کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ ایسی محفلیں سجائی جاتی رہنی چاہئیں۔ جس میں باذوق سامعین کے ادبی ذوق کی تسکین کا سامان مہیا ہوتا رہے۔ آپ نے بزمِ اردو قطر کا شکریہ بھی ادا کیا اور فیضؔ کی مندرجہ ذیل نظم کو پیش کرکے اپنی گفتگو کا اختتام کیا۔

کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آکر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا

    بزمِ اردو قطر نے اس سے پہلے گیارہ عالمی سیمینار منعقد کیے ہیں جن میں میرؔ سیمینار (۱۹۹۱ئ؁) ، اقبال سیمینار (۱۹۹۲ئ؁) ، غالبؔ سیمینار (۱۹۹۳ئ؁)، افسانہ سیمینار (۱۹۹۴ئ؁)، امیر خسرو سیمینار (۱۹۹۵ئ؁)،میر انیسؔ سیمینار (۱۹۹۶ئ؁)، اکبرؔالہٰ آبادی سیمینار (۲۰۰۳ئ؁)،حالیؔ سیمینار (۲۰۰۶ئ؁) ،  ذوقؔ سیمینار (۲۰۰۷ئ؁) ، نظیرؔ اکبر آبادی سیمینار (۲۰۰۹ئ؁) اور ظفرؔ سیمینار (۲۰۱۱ئ؁)شامل ہیں۔ بزمِ اردو قطر کے سیمیناروں میں ہندوستان سے گوپی چند نارنگ ، ڈاکٹر جگن ناتھ آزادؔ ، ڈاکٹر خلیق انجم ، جوگندر پال ، عبد الستار دلوی ، پروفیسر ابوالکلام قاسمی ، پروفیسر عقیل رضوی ، ساغرؔ خیامی ، ڈاکٹر تابشؔ مہدی ، خورشید اکبرؔ ، ڈاکٹر کلیم عاجزؔ ، ڈاکٹر محبوب راہیؔ ، ابراہیم اشکؔ اور ڈاکٹر کوثرؔ مظہری اور پاکستان سے ڈاکٹر سلیم اختر ، اصغرؔ سودائی ، شہزادؔ احمد ، انتظار حسین ، محمد علی صدیقی ، ڈاکٹر جیلانی کامران ، ڈاکٹر اسد اریب، ڈاکٹر ہلالؔ نقوی ، سرفراز شاہدؔ ، نویدؔ حیدر ہاشمی ، محترمہ صوفیہؔ بیدار ، لیاقت علی عاصمؔ ، انجمؔ سلیمی، محترمہ صغرا صدفؔ اور سعودؔ ؔعثمانی صاحبان کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

               

    بزمِ اردو قطر نے بارہویں عالمی سیمینار یعنی فیضؔ سیمینار میں کینیڈا سے ڈاکٹر سیّد تقی عابدی کو دعوت دے کر اور ان کی فیضؔ فہمی اور فیضؔ شناسی سے قطر کے  محبانِ اردو ادب کو مستفیض کر کے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔اِس موقع پر بزمِ اردو قطر کی جانب سے ڈاکٹر تقی عابدی اور جناب ملک العزیز کاتب کو  اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں سپاس نامہ پیش کیا گیا۔ اس سیمینار کے انعقاد میں بزمِ اردو قطر کے چئیرمین جناب ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ ، صدر جناب محمد رفیق شاد اکولوی ، جنرل سکریٹری جناب افتخار راغبؔ کے ساتھ دیگر ذمہ داران و اراکین کے علاوہ  سرپرست و پروگرام کوارڈینیٹر جناب نصیر احمد کاتب  نے بہت اہم رول ادا کیا۔سیمینار سے قبل حیدرآبادی سپائسز ریسٹورینٹ کی جانب سے شاندار عشائیہ کا انتظام تھا جسے حاضرین نے خوب ذوق و شوق کے ساتھ نوش فرمایا۔ بزمِ اردو قطر نے حیدر آبادی اسپائسز ریسٹورینٹ کے ذمہ دار جناب محمد یاور حسین صاحب کے تعاون کا شکریہ ادا کیا۔ قطر میں اردو داں حلقے کی علمی و ادبی تشنگی کو بجھانے کے لیے اور اردو ادب کے قد آور ادیب و شاعر علامہ شبلی نعمانی کی ادبی خدمات کے مختلف گوشوں کو منوّر کرنے کے لیے بزمِ اردو قطر نے ایک مثالی و پر وقار عالمی سیمینار۲۰۱۵ئ؁ میں منعقد کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ جو انشار اللہ قطر کی اردو ادبی تاریخ میں ایک یادگار سیمینار ہوگا۔

    صدرِ مجلس کے علاوہ مہمانِ خصوصی جناب ملک العزیز اور مہمانِ اعزای جناب ظفرؔ صدیقی نے خوشی کا اظہار کیا اور بزمِ اردو قطر کو مبارک باد پیش کی اور ذمہ داران کا شکریہ ادا کیا۔ سیمینار کے بعد بزمِ اردو قطر کا شاندار سالانہ مشاعرہ ۲۰۱۴ئ؁ بھی منعقد ہوا جس میں صدرِ مشاعرہ ڈاکٹر تقی عابدی اور مہمانِ خصوصی جناب ملک العزیز کاتب کے علاوہ قطر کے منتخب و معیاری شعراے کرام نے شرکت کی جن میں شاعرِ خلیج جلیلؔ نظامی ، عتیق انظرؔ ، محمد رفیق شادؔ اکولوی ، فرتاشؔ سیّد ، افتخار راغبؔ ، روئیسؔ ممتاز اور وزیر احمد وزیرؔ کے اسماے گرامی شامل ہیں۔مشاعرے کی تفصیلی رپورٹ جلدی ہی پیش کی جائے گی۔

    سوا سو سے زیادہ  معززسامعین نے سیمینار میں شرکت کی اور استفادہ کیا۔ جن میں بزمِ اردو قطر کے سرپرست سید عبدالحئی  و  مولانا عبد الغفار  و    نصیر احمد کاتب،  چئیرمین ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ ،صدر محمد رفیق شادؔ اکولوی ، نائب صدر فیروز خان، جنرل سکریٹری افتخار راغبؔ،  خازن محمد غفران صدیقی ، میڈیا سکریٹری روئیسؔ ممتاز ، رابطہ سکریٹری وزیز احمد وزیرؔ ، اراکین میں افسر عاصمی و عبدالمجید ، سید آصف حسین اور خالد حسین، انڈیا اردو سوسائٹی کے صدر جلیلؔ نظامی ، حلقہ ادبِ اسلامی قطر کے صدر خلیل احمد ، ڈاکٹر عطاء الرحمن صدیقی ندوی ، انڈین ایسوسی ایشن فار بہار اینڈ جھارکھنڈ کے صدر فاروق احمد وجنرل سکریٹری علیم اختر وجاوید عالم و شمس الحق آزاد  و  شفیق احمد  و  حامد رضا  و سیراج الحق،  عدنان خان ، پی ای سی کے استاد و نامور شاعر فرتاش سیّد  کے علاوہ ڈاکٹر توصیف ہاشمی ، نجم الحسن خان ، رحمت اللہ ندوی ، اشفاق احمد ، اکرام الدین ، ابو سعد ندوی ، قیام الدین ، شمس الرحمن صدیقی ،  سیف اللہ محمدی ، فخرالدین رازی ، محمد غوث ، احتشام الدین ندوی ، فیاض بخاری، عبد الحکیم ، وحید احمد ،  محمد اشفاق ، سیراج احمد ، حامد علی ، شمس الدین رحیمی ، سرفراز نواز ، ذوالفقار ابراہیم ، عبدالباسط ، ندیم حسین ، محمد حسین خان ، بہاء الدین ندوی،  عمران فراحی،  قاصد خان، عبدالسلام خان ، ایم ایم پاشا ،  مختار احمد ،  انیس الرحمن، عتیق الرحمن ، فیض الرحمن اقدس ، افروز عالم ،  محمد زرار خان ، محمد ضمیر ، اشفاق الرحمن ، عبد اللہ ، قاضی عبد الرشید ، ولی محمد ، ابو بکر زبیر ، سرفراز الحق ، محمد راشد ، باسط بیگ ، محمد ارشد ، عبدالشکور ، شیخ یاسین ، جمیل احمد اور جمال الدین صاحبان کے اسماے گرامی شامل ہیں۔
 

رپورٹ:  افتخار راغبؔ

جنرل سکریٹری  ۔  بزمِ اردو قطر

موبائیل:55707870

 

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 729