donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Jaseem Mohammad
Title :
   Sir Syed Ahmad Khan Ko Bharat Ratan Kiyon Diya Jaye


 سرسید احمد خاں کو بھارت رتن کیوں دیا جائے؟؟؟


۔جسیم محمد


    آج ہندوستان کا ایک بڑا دانشور طبقہ اور چند اراکینِ پارلیامنٹ نہ صرف نہایت سنجیدگی کے ساتھ جدید ہندوستان کے معمار، ممتاز ماہرِ تعلیم، مفکر ، مدبّر، مصلح قوم اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کو بھارت رتن کے اعزاز سے سرفرازکئے جانے کی تجویز سے اتفاق کر رہے ہیں بلکہ مرکزی حکومت پر اس امر کے لئے زور بھی ڈال رہے ہیں کہ ہندوستان کے ا س عظیم سپوت کو بھارت رتن سے سرفراز کرکے اس کی خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کیا جائے۔اس کے ساتھ ہی ملک کے گوشے گوشے سے اس تعلق سے مختلف قسم کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔اس تمام واقعہ کے تناظر میں سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ آخر سر سید کو بھارت رتن کے اعزاز سے کیوں سرفراز کیا جائے؟

    ملک پر انگریزوں کے تسلّط کے بعد ہندوستانی عوام کو جن ، مظالم، تنگ دستی ،بد حالی اور دشواریوں کا شکار ہونا پڑا انھیں دیکھ کر سرسید احمدخاں کا دل خون کے آنسو رو پڑا۔ وہ جانتے تھے کہ کمزور ہندوستانی عوام کے پاس ایسا کوئی ہتھیار نہیں کہ وہ انگریزوںکا مقابلہ کر کے اپنے ملک کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلاسکے ۔سرسید احمد خاں نے کافی عرق ریزی اورغور و خوص کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ صرف اور صرف جدید تعلیم حاصل کرکے ہی ہندوستانی قوم انگریزوں کی برابری کرسکتی ہے ورنہ کوئی صورت ایسی نہیں کہ قوم کو ذلّت کے غار میں جانے سے روک سکے۔ سرسید پہلے ہندوستانی تھے جن کے ذہن میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کا خیال پیدا ہوا۔ انہوں نے اپنے اس تعلیمی تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنا سب کچھ بیچ کر لندن کا سفرکیا اور وہاں آکسفورڈ اور کیمبرج کے تعلیمی نظام کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ ہندوستان واپس آکر جب سرسید نے اپنے اس تصور کو عملی طور پر پیش کیا تو ہر سطح پر ان کی مخالفت شروع ہوئی کیونکہ ا س وقت ہندوستانی قوم اپنی روایتی تعلیم کی زنجیروں میں قید تھی اور کسی قیمت پرا س حصار کو توڑ کر مذہب سے بغاوت کرنے پر آمادہ نہ تھی۔ ہندوستانی سمجھتے تھے کہ جدید تعلیم کے نام پر ہمیں عیسائی بنانے کی مہم شروع کی گئی ہے نتیجہ کے طور پر کوئی مخالفت ایسی نہ تھی جس کا سامنا سرسید نے نہ کیا ہو۔ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی قوم پرنچھاور کرکے اسے اس قابل بنانا کہ وہ انگریز جیسی قوم کی برابری کرسکے کوئی آسان کام نہ تھا۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ کوئی ا یسا کام نہیں کرتا جس میں اس کا ذاتی مفاد شامل نہ ہو مگر سرسید ایسے سچے وطن پرست ہندوستانی تھے جس نے ہر قدم ملک اور قوم کی ترقی اور کامرانی کے لئے اٹھایا۔ سرسید نے ہندوستان کو جدید تعلیم کا تحفہ دے کر اس کی تعمیرِ نو کی بنیاد رکھی۔ آج اگر ہندوستانی عوام سر اٹھاکر جینے کے قابل بنی ہے تو وہ فیضانِ کرم ہے سرسید کی علی گڑھ تحریک کا جس نے ہندوستان کو پہلی بار سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعارف کرایا۔یہ سرسید کی علی گڑھ تحریک ہی تھی جس کی بدولت آج ہندوستان زندگی کے ہر میدان میں دنیا کی کسی بھی قوم سے پیچھے نہیں ہے۔

                                                  
    اس کے علاوہ ،وہ مردِ مجاہد سرسید ہی تھے جنہوں نے1857ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا، اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کے لئے سیدھے طور پر انگریزوں کی غلط پالیسیوں کو ہی ذمہ دار قرار دیا اور اسباب بغاوتِ ہند تصنیف کرکے حکومتِ برطانیہ کو آئینہ دکھاتے ہوئے بتایا کہ غدر کی تمام ترذمہ داری ہندوستان کی مظلوم قوم پر نہیں بلکہ برٹش حکومت کی غلط پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس کتاب کی تصنیف کے بعد حکومتِ برطانیہ نے اپنی پالیسیوں پرا ز سرِ نو غور کیا اور ہندوستانی عوا م کو کسی حد تک انگریزوں کے ظلم و ستم سے نجات ملی۔ سرسید نے’’ آثار الصنادید ‘‘ تصنیف کرکے ہندوستان کی تاریخ نویسی میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ انہوں نے بیک وقت تعلیم، تاریخ نویسی، لسانیاتی اصلاح اور صحافت کے توسط سے ہندوستان کو دنیا بھر میں وقار و افتخار بخشا۔ سرسید پہلے ہندوستانی تھے جن کی بدولت نہ صرف حکومتِ برطانیہ بلکہ دنیا کی دیگر اقوام بھی ہندوستان کی عظمت کی معترف ہوئیں۔


    سرسید وہ پہلے ہندوستانی ہیں جن کا ذہن1857کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد سے ہی ملک کو آزاد کرانے کے لئے ایک مربوط لائحۂ عمل تیار کرنے میں اپنی علی گڑھ تحریک، اپنی صحافت، اپنے خطبات، اور مدرسۃ العلوم کے توسط سے مصروف ہوگیااور اگر یہ کہا جائے کہ ہندوستان کی آزادی کی عملی اور عقلی داغ بیل ڈالنے کا سہرا سرسید کے سر جاتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔


    ایک ایسا شخص جس نے اپنی تمام زندگی اپنے ملک کی تعمیر و ترقی اور قوم کو آزادی سے ہمکنار کرانے کے لئے وقف کردی ہو، جس کی بدولت آج ملک سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کے بڑے سے بڑے ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوا ہو، جس کی بدولت ہندوستانی عزت اور وقار کی زندگی جی رہے ہوں، جس کی بدولت ملک کی عظمتِ رفتہ بحال ہوئی ہو اور جس نے غلام ہندوستان کو آزادی کا رتن بنانے کی راہیں ہموار کی ہوں اگر وہ بھی بھارت رتن کا مستحق نہیں تو پھر کون ہے جو صحیح معنی میں بھارت رتن کے لائق ہوسکتا ہے؟


    ملت بیداری مہم کمیٹی ( ایم بی ایم سی)علی گڑھ گزشتہ چھ سال سے سرسید احمد خاں کو بھارت رتن سے سرفراز  کئے جانے کے لئے قومی سطح پر مہم چلا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ایم بی ایم سی نے ا علان کیا کہ ہندوستان کے وزیرِ اعظم کو ایک کروڑ سے زائد افراد کے دستخط کراکے ایک میمورنڈم سرسید احمد خاں کو بھارت رتن کے اعزاز سے سرفرازکئے جانے کے تعلق سے پیش کیا جائے گا ۔ اس مہم میں ایم بی ایم سی کو ملک کی ممتاز شخصیات کا تعاون حاصل ہے اور اس کی دستخطی مہم ممتاز فلم ساز اور سماجی کارکن جناب مہیش بھٹ کی قیادت میں ملک بھر میں چلائی جا رہی ہے جس کے تحت گزشتہ دنوں ہندوستان کی باوقار سنے اداکارہ محترمہ پوجا بھٹ نے بھی مذکورہ میمورنڈم پر دستخط کرکے نہ صرف وزیرِ اعظم ہند سے سرسید کو بھارت دئے جانے کی سفارش کی بلکہ اس امر کی بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ اس مہم میں اپنی جانب سے ہر طرح کا تعاون پیش کریں گی۔ایم بی ایم سی نے جس شدت کے ساتھ یہ مہم چھیڑی ہے اس نے ملک کے ہر طبقہ کو اپنی جانب متوجہ کیا اور نتیجہ کے طور پر منیش تیواری اور راشد علوی جیسے اراکینِ پارلیامنٹ بھی حکومت سے سرسید کو بھارت رتن سے سرفراز کئے جانے کے لئے زور ڈال رہے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جب گذشتہ دس سال تک وہ اقتدار میں رہے تب انہیں سرسید کو بھارت رتن دئے جانے کا خیال کیوں نہیں آیا؟ خیر دیر آید درست آید۔ ایک احسن قدم اٹھانے کا جب بھی خیال آجائے بہتر ہی ہے۔ ہمیں ان کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے اور سرسید کو بھارت رتن سے سرفراز کئے جانے کے لئے ہر سطح پر ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے یہی ملک و ملت کے اس عظیم سپوت کو ہمارا خراجِ عقیدت ہوگا۔ ہم سرسید کے احسان کا بدل تو نہیں دے سکتے نہ ان کے احسانوں کا قرض ادا کرسکتے ہیں مگر ان کو ملک کا سب سے بڑا اعزاز دے کر ان کی خدمات اور قربانیوں کا اعتراف تو کرسکتے ہیں۔ یادرکھیں زندہ اقوام کی پہچان یہی ہے کہ وہ اپنے ماضی اور اپنے بزرگوں کو یاد رکھتی ہیں اور جو قومیں اپنے بزرگوں اور ان کے کارناموں کو فراموش کردیتی ہیں تاریخ کے قیمتی صفحات ان کو کبھی یاد نہیں رکھتے۔

  ( جسیم محمد )

 جنرل سکریٹری، ملّت بیداری مہم کمیٹی
 علی گڑھ
09997063595
E-Mail:jasimoffice@gmail.com


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 634