donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Jawaid Rahmani
Title :
   Dr. Kamal Ahmad Siddiqui Ki Rahlat Par Urdu Ghar Mein Taziyati Jalsa

ممتاز ادیب اور ماہرِ عروض و لسانیات

ڈاکٹر کمال احمد صدیقی کی رحلت پر اردو گھر میں تعزیتی جلسہ

    نئی دہلی:24؍دسمبر 2013 (جاوید رحمانی) اردو کے مشہور و ممتاز ادیب، محقق، ماہرِ عروض و لسانیات اور ماہرِ غالبیات ڈاکٹر کمال احمد صدیقی کی کڈنی فیل ہوجانے کی وجہ سے 23دسمبر 2013 کو رات 11.25 پر دہلی کے اپولو اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ ان کی وفات پر انجمن ترقی اردو (ہند) کے مرکزی دفتر اردو گھر میںآج تعزیتی نشست انجمن کے صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ نشست کے آغاز میں انجمن کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے ڈاکٹر کمال احمد صدیقی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پندرہ بیس دنوں سے وہ بیمار تھے، مگر چار دن قبل طبیعت زیادہ ناساز ہوجانے کی وجہ سے انھیں اپولو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں انھوں نے 23دسمبر کی شب میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ ڈاکٹر اطہر فاروقی نے مزید کہا کہ کمال احمد صدیقی اردو کے معروف ادیب اور محقق تھے۔ علمِ عروض اور لسانیات کے حوالے سے اردو ادب میں ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ انھوں نے غالبیات میں بھی اپنے قابلِ قدر کارناموں کی وجہ سے وقیع اضافہ کیا۔

    ڈاکٹر اسلم پرویز نے کہا کہ ڈاکٹر کمال احمد صدیقی اردو کی ایک کثیر الجہات شخصیت تھے۔ انھوں نے بہت سے علمی کام کیے، اس کے علاوہ وہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بھی وابستہ رہے انھوں نے طویل عمر پائی اور آخر دم تک وہ ادبی سرگرمیوں سے جڑے رہے۔ وہ بہت باحوصلہ انسان تھے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کمال صاحب کا کسی سے کوئی اختلاف نہیں تھا۔ وہ اپنے سے چھوٹوں کی اتنی ہی قدر کرتے تھے جتنی بڑوں کی قدر کرتے تھے۔ انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے پی ایچ۔ ڈی کیا۔ ماس کمیونی کیشن میں بھی ان کو درک حاصل تھا۔ وہ عروض داں بھی تھے، نقاد بھی تھے اور شاعر بھی تھے، غرض یہ ہے کہ انھوں نے تمام زندگی ادب کی خدمت کی۔


     ڈاکٹر خلیق انجم نے کہا کہ کمال احمد صدیقی ایک انتہائی باصلاحیت ادیب تھے۔ انھوں نے ادب کے مختلف شعبوں میں کارہاے نمایاں انجام دیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انھیں اپنی صلاحیت اور لیاقت پر کوئی گھمنڈ نہیں تھا۔ ان کا غالبؔ پر وقیع کام ہے اور اسی وجہ سے ان کا شمار ماہرِ غالبیات میں بھی ہوتا ہے۔ ایسی شخصیتیں باربار نہیں پیدا ہوتیں، یقینا ان کے چلے جانے سے اردو ادب کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔


    جناب شاہد ماہلی نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ سے کمال احمد صدیقی کا بڑا گہرا تعلق تھا، انھیں غالب انعام سے سرفراز کیا گیا تھا، ان کی ایک کتاب ’غالب کی شناخت‘ غالب انسٹی ٹیوٹ نے چھاپی تھی، وہ ماہرِ غالبیات بھی تھے۔ وہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ادبی جلسوں میں برابر شریک ہوتے تھے اور مستقل مضامین لکھتے رہتے تھے۔ وہ ماہرِ لسانیات بھی تھے۔ ان کے انتقال سے یقینا اردو میں ایک خلا پیدا ہوا ہے۔ خدا ان کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبر عطا کرے۔


    جناب سیّد شریف الحسن نقوی نے کہا کہ ڈاکٹر کمال احمد صدیقی نے علمِ عروض اور غالبیات پر ایسا غیر معمولی کام کیا ہے جو انھیں ہمیشہ زندہ جاوید رکھے گا۔ ایسے ادیب اور اسکالر دنیاے اردو میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ وہ نہایت ہی ملنسار اور بااخلاق انسان تھے۔

***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 570