donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Adeeb
Title :
   Musalmano Ko Tabedari wala Ravaiya Tark Karke Hissadari wala Ravaiya Apnana Hoga

مسلمانوں کو تابع داری والا رویہ ترک کرکے حصہ داری والا رویہ اپنا ناہوگا۔

محمد ادیب

فسادات

 متاثرین کا مسلم تنظیموں کے تئیں مایوسی کا اظہار


نئی دہلی، 16 دسمبر (یو این آئی -عابد انور)مسلمانوں میں جب تک  اتحاد و اتفاق اور اپنا آئینی حق لینے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک ان کا استحصال کیا جاتا رہے گا۔ یہ بات یہاں آج   انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کی حمایت اور مظفر نگر فسادات متاثرین کی معقول بازآبادکاری کے مطالبہ پر زور دینے کے لئے منعقد ہ احتجاجی مظاہرہ سے خطاب  کرتے ہوئے مقررین نے کہی۔


 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی لائرز فورم کے  بینر تلے منعقدہ احتجاجی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب نے  کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مسلم لیڈر شپ مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ پارٹی کی کرتی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کا مسئلہ اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ انہوں نے مسلم لیڈر شپ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے کبھی مسلمانوں کو لیڈر بنانے کی کوشش نہیں کی اور  اور کوئی بن بھی گیا تو وہ مسلمانوں کا نہیں بلکہ پارٹی کا لیڈر بن جاتا ہے۔یہی وجہ ہے گزشتہ 65 برس سے آپ کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو تابع داری والا رویہ ترک کرکے  حصہ داری والا رویہ اپنا ناہوگا اس کے بعد ہی کوئی ان کی بات سنے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم انسانوں کی حکومت چاہتے ہیں وحشیوں کی نہیں کی۔مسٹر ادیب  نے مسلمانوں میں موجود  انتشار و افتراق پر زور ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں اصلاح کی سخت ضرورت ہے  اور جب کہیں فساد ہوتا ہے تو آپ مسلمان بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے لیکن الیکشن کا وقت آتا ہے تو آپ مسلک اور ذات برادری میں بٹ جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ 


جنتال یونائٹیڈ کے رہنما اور راجیہ سبھا کے رکن علی انور انصاری نے اس موقع پر کہا کہ مسلمان ایسے دو راہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف کھلا دشمن ہے تو دوسری طرف چھپا ہوا دشمن اور ہمیں اس سے بچ کر نکلنا ہے  اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔  انہوں نے مسلمانوں کی دگرگوں حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی حالت فٹبال کی گیند کی طرح ہوگئی ہے جس کے جی میں آتا ہے وہ مارتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہمیں اپنے معاشرے کی کمیوں کا بھی ادراک کرنا چاہئے اور ذات، پات، مسلکوں میں تقسیم معاشرہ  میں اتحاد کی صورت پر غور کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ روایتی مسلم لیڈر شپ سے کام نہیں چلنے والا ہے اس لئے مسلمانوں کے دانشور طبقہ کو آگے آنے کی ضرورت ہے  اور یہ بات خوش آئند ہے کہ  مسلم وکیلوں کا طبقہ انصاف کی لڑائی لڑنے کے لئے آگے آیا ہے۔


ایڈووکیٹ صبا اے خاں نے مظفر نگر فسادات  کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فسادات کے دوران جس طرح عورتوں کے ساتھ معاملہ پیش آیا ہے ہندوستانی معاشرہ کے لئے ایک کلنک ہے۔ اس لڑائی کو ہمیں منطقی انجام تک لڑنا ہے۔ 


علی گڑھ مسلم یونیورسٹی لائرز فورم  صدر محمد اسلم خاں نے اس موقع پر کہا کہ حکومت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا لامتناہی سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک ہندوستان میں تقریباَ پچاس ہزار سے زائد فسادات ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران صرف اترپردیش میں ہی ایک درجن سے زائدبڑے فسادات ہوچکے ہیں اگر چھوٹے فسادات کی کو شمار کرلیں یہ تعداد پچاس سے اوپر پہنچتی ہے۔ ایسی صورت میں ایسے قانون کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے جو فسادات کو روک سکے۔انہوں نے کہا کہ کانگریس نے 2004میں اپنے انتخابی منشور میں انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل لانے کا وعدہ کیا تھا اگر یہ بل پاس ہوگیا ہوتا تو مراد آباد، گوپال گڑھ، ٹونک ، اترپردیش میں سلسلہ وار فسادات نہ ہوتے لیکن تقریباً دس برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس بل کو اب تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکا ہے۔ اب جب کہ آئندہ لوک سبھا کے الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے اور کانگریس کو مسلمانوں کا ووٹ دوسری جاتا نظر آرہا ہے اس نے رواں پارلیمانی اجلاس میں بل پیش کرنے کا اعلان کیاہے لیکن اس کا منشابل پاس کرانے کا نہیں ہے ۔ 


مسٹر اسلم خاں نے  کہا کہ یاد ر کھئے یہ دور دباؤڈالنے کا ہے جو لوگ جتنا زیادہ وزن اور دباؤ ڈال پاتے ہیں ان کاکام اتنا ہی آسانی ہوجاتا ہے جو ہلکے ہوتے ہیں وہ ہوا میں معلق ہوتے ہیں جیساکہ اس وقت مسلمان اور ان کے مسائل معلق ہیں۔ یہ وقت ماتم کرنے کا نہیں متحد ہوکر اپنے حقوق حاصل کرنے کا ہے اور آئین میں دئے گئے حقیقی اختیارات لینے کا ہے۔انہوں نے اس موقع پر بتایا کہ فسادات کے متاثرین کے لئے انصاف کی لڑائی منطقی انجام تک جاری رہے گی۔ اس کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی لائرز فورم نے لکھنو، الہ آباد ، میرٹھ ، مظفرنگر، شاملی ، باغپت اور سہارنپور کے وکلا کی ایک کوآرڈی نیشن کمیٹی بنائی گئی ہے۔ جو ان تمام جگہوں پر فسادات متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے کام کرے گی۔ اس کا کیمپ آفس مظرنگر میں بنایاگیاہے جس کے نگراں ایڈووکیٹ ساجدرانا ہیں۔


  واضح رہے کہ مظر نگر فسادات میں غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق سیکڑوں افراد مارے گئے تھے اور درجنوں خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی تھی ۔بہت سی لڑکیاں اب تک لاپتہ ہیں۔ ہزاروں افراد اب تک فسادات کے دو ماہ سے زائدکا عرصہ گزرجانے کے باوجودکیمپوں میں بے سروسامانی کے عالم میں رہ رہے ہیں۔ وہ اتنے خوف زدہ ہیں وہ اپنے گاؤں جانے کی ہمت نہیں کر پارہے ہیں۔ دوسری طرف کچھ گاؤں والوں نے دھمکی دی ہے کہ جو فسادات کے دوران جان بچانے کے لئے گاؤں چھوڑ گئے تھے انہیں دوبارہ واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔ 


مظفر نگر فسادات کے متاثرین نے یوا ین آئی سے بات چیت کرتے ہوئے مسلم تنظیموں کے تئیں اپنی ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ وہ لوگ صرف فوٹو کھنیچوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لوئی کیمپ کے انچارج عبدالجبار خاں نے بتایا کہ ہر جگہ ہمارا سودا کیا گیا ہے اور ہماری سدھ لینے والا کوئی نہیں ہے۔


اس کے علاوہ مقررین میں ممبران پارلیمنٹ میں شفیق الرحمان برق اور حسین دلوائی نے بھی اظہار خیال کیا۔اس کے علاوہ وکیلوں، صحافیوں، سیاسی رہنماؤں، مذہبی طبقہ سے وابستہ افراد اور دیگر معزز شخصیات نے بھی اس موقع پر اظہار خیال کیا۔


اس احتجاجی مظاہرہ میں حکومت کومندرجہ ذیل مطالبات پورا کرنے کے لئے زور ڈالا گیا۔ 
۔ انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کو فوراً پاس کیا جائے۔اس کیلئے جو طریقے اپنائے جاسکتے ہیں وہ حکومت اپنائے۔
۔مظفر نگرفسادات کی سی بی آئی انکوارائی کروائی جائے اور تمام فسادزگان کی بازآبادکاری ان کے نقصان کی تلافی  کی جائے۔


۔آبروریزی کی شکارخواتین کو 25لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جائے اور مقدمہ چلاکر قصورواروں کو جلد از جلد سخت و عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔
۔سرکار ان لوگوں کو زمین الاٹ کرے جو اپنی زمین و جائداد چھوڑ کر آئے ہیں۔ 
۔کیمپوں میں جن معصوم بچوں کی اموات ہوئی ہیں ان کے پسماندگان کو سکھ فسادات کی طرح معاوضہ دیا جائے۔


۔فسادات متاثرین کو انصاف دلانے کیلئے فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کیا جائے ۔ نربھیا کی طرح کم وقت میں مقدمہ کا فیصلہ کیا جائے۔
۔ زخمی کو دس لاکھ روپے کا معاوضہ اور نوکری دی جائے۔ 


۔ مظفر نگرفسادات میں لاپتہ لوگوں کی بڑی تعداد ہے۔ حکومت لاپتہ افراد کو اتراکھنڈ کی طرح دو ماہ کے اندر مقتول تصور کرکے ان کے پسماندگان کو معاوضہ دے۔

*****************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 638