donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Khalid Aabdi
Title :
   Allama Iqbal Ka Kalam Filmon Mein

علامہ اقبال کا کلام فلموںمیں
 
’’محمد خالد عابدی‘‘بھوپال
 
فنون لطیفہ اگریکجائی صورت میں نظرآتاہے تووہ فلم ہے، سنیماہے۔ رقص ، موسیقی، شاعری مصوری اور ڈراماوغیرہ کی آمیزش ہی فلم کی تعریف متعین کرتی ہے۔ اگربہ نظرغائرہم علامہ اقبال کے کلام کامطالعہ کریں توہمیں ان کی متعددتخلیقات میں فنون لطیفہ کے عناصر نظرآئیں گے۔ یہاںتک کہ سینماپران کی علیحدہ سے ایک نگارش بھی ہے۔
 
فلم اپنی ابتداء سے آج تک اظہار کاایک طاقتور میڈیم رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی اپنی کوئی تاریخ بھی ہے۔ غیرممالک میں فلمیں بننے کاسلسلہ یوں تو۱۸۳۰ء سے شروع ہوچکا تھا۔ لیکن مکمل متحرک فیچر فلم ۱۹۱۳میں بنی ۔ پہلی ہندوستانی خاموش فلم، راجہ ہریش چندر تھی۔ یہ فلم داداپھالکے نے بنائی تھی۔ اس فلم میں جتنے بھی نسوانی کردارتھے۔ وہ مرداداکاروں نے اداکئے تھے۔ اس زمانہ میں عورتوں کافلم میں کام کرنانہاتی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس فلم میں صرف ایک لیڈی پارٹ داداکی بیٹی منداکئی نے اداکیاتھا۔
 
خاموش متحرک فلمیں اس وقت بھی بنتی رہیں جب کہ ۱۹۳۱میں پہلی ناطق فلم، عالم آرا، بنی۔ آردیشر ایم ایرانی نے پہلی ناطق فلم، عالم آرابنائی تھی جو۱۴مارچ ۱۹۳۱کوممبئی کے میجسٹک سینمامیں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم سے فلموں میں گلوکاری کی بھی ابتداء سمجھنی چاہئے۔اس فلم میں سیدزاہدعلی کی موسیقی میں مس زبیدہ اور خاں اور مس زبیدہ نے اداکاری کے جوہردکھائے تھے۔
 
ابتدائی فلموں میں بالعموم وہی رائٹرتھے جوتھیٹریکل کمپنیوں کیلئے لکھتے تھے وہ منشی، کہلاتے تھے۔ لکھنے کاجوبھی کام ہوتاتھا وہ سب انہیں کامرہون، ہوا کرتاتھا۔ اسی طرح گیت بھی وہی لکھ لیا کرتے تھے۔آہستہ آہستہ پھراچھے شاعراور کوی بھی فلموں کیلئے لکھنے لگے۔ اہم ضرورت کے تحت اساتذہ اور مقبول ومشہورشاعروں کاکلام بھی فلموں میں لیاجانے لگا۔
 
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاغالب بہادرشاہ ظفر،داغ دہلوی اور جگرمرادآبادی کاکلام فلموں میںلیا گیا۔ امیرخسرو، قلی قطب شاہ،حفیظ جالندھری، فانی بدایونی اورمجازوغیرہ کاکلام بہت کم فلموں میں استعمال کیاگیا۔ اور اس کم میں علامہ اقبال بھی آتے ہیں۔
 
سی رامچندربہت مقبول موسیقاروگلوکارہوئےہیں۔ جن کی مشہور فلمیں، انارکلی، یاسمین، آزاددلیپ کمار، میناکماری ہیں اور وہ مشہور ترانہ جسے سن کروزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرونمناک ہوگئے تھے۔ 
اے میرے وطن کے لوگو!
گیت کے بطورشامل ہوئی تھی۔ اس فلم کے تئیں یہ بھی کہاجاتاہے کہ یہ فلم سی رامچندرکی پہلی فلم تھی۔ حالانکہ انہوں نے اس فلم سے پہلے دوسری زبانوں کی دوفلموں میں موسیقی دی تھی۔
ہنوزمیری تحقیق یہی ہے کہ ۱۹۴۴ء میںپہلی بارعلامہ اقبال کاکلام فلم، سکھی جیون میں شامل کیا گیا تھا۔ اس فلم کے تقریباًدوسال بعد۱۹۴۴میں فضلی برادرس کی فلم، عصمت مہتاب، نرگس ،ناندریکر، گیت کارشمس لکھنوی میں علامہ اقبال کی مشہورنظم جوکہ دعاکے نام سے ہے فلم میں رکھی گئی تھی۔ اس کی موسیقی شاید شانتی کمار نے ترتیب دی تھی۔بہرحال وہ نظم دعاجوگیت کی شکل میں تھی اس طرح تھی۔
 لب پہ آتی ہے دعابن کے تمنامیری
مشہورفلم صحافی ہرمندرسنگھ ہمرازاورراکیش پرتاپ سنگھ کا کہنا ہے کہ
عصمت کی تشہیرکیلئے جوکتابچہ شائع ہواتھا اس میں اس طرح کاکوئی گیت نہیں تھا اور نہ ہی کسی گیت کے درمیان اس کاکوئی حصہ شامل تھا۔ ممکن ہے یہ گیت فلم میں تو شامل کیاگیاہولیکن اس کاریکارڈنہ بناہویاپھر یہ گیت کسی دوسری فلم کابھی ہوسکتاہے۔
 
ایک فلم بین شری دیاشنکرموبارنے لسنرس بلیٹن، نومبر۱۸۸۴میں اس دعوے کے ساتھ اپنا مراسلہ شائع کرایاتھا کہ یہ گیت لب پہ آتی ہے دعا، فلم عصمت میں ہی تھا جوکہ ایک پرارتھناکے روپ میں بچوں پرفلمایاگیاتھااوریہ فلم ان کی دیکھی ہوئی ہے۔
 
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کاکلام فلموں میں شامل کرناایک عام بات ہوگئی۔۱۹۴۷میں ہند پکچرس کی فلم، عابدہ میں بھی علامہ اقبال کاکلام شامل ہوا۔ نذیرہدایت کارتھے اور موسیقارتھے اللہ رکھاقریشی ۔اللہ رکھاقریشی نے فلم میں اداکاری بھی کی تھی۔ ان کے ساتھ اداکارہ سورن لتا اور نورجہاں بھی تھیں۔ سورن لتا، نذیرکی بیوی تھی۔ یہ نذیرکے آصف کے ماموں بھی تھے۔ اس فلم عابدہ میںجہاں تنویرنقوی اورعزیزمینائی نے گیت لکھے تھے وہاں علامہ اقبال کے بھی دوگیت شامل کئے گئے تھے۔
کونسی قوم فقط تیری طلب گارہوئی۔اور 
ہم توجیتے ہیں کہ دنیا میں ترانام رہے۔
یہ دونوں گیت علامہ اقبال کی مشہورنظم، شکوہ، سے لئے گئے تھے۔
۱۹۵۰میں ایک فلم آئی تھی، ہندوستان ہمارا یہ فلم پال زلس پروڈکشن ممبئی کی پیشکش تھی۔ فلم کے موسیقارتھے وسنت دیسائی پرتھوی راج کپور، دیوآنند ، پریم ناتھ وجے راج درگاکھوٹے اورنلنی جیونت فلم کے اداکاران تھے۔ فلم ہندوستان ہماراکے گیت کارتھے دیون شرراور ایس آرساز میری دانست میں یہ وہ دوسری فلم تھی جس میں علامہ اقبال کا سارے جہاں سے اچھاہندوستان ہمارا۔ پیش کیاگیا تھا۔ اس ترانے کے گلوکار تھے گل ریزاور ان کے ہم نوا۔
 
۱۹۵۵کی ایک فلم ہے۔ آب حیات پریم ناتھ، ششی کلا، پران امیتا،مبارک اورہیلن وغیرہ یہ فلم فلمستان پرائیویٹ لمیٹیڈممبئی کی فلم تھی۔ آب حیات  موسیقی سردار ملک کی تھی اورگیت لکھے تھے پانچ گیت کاروں نے یعنی حسرت جے پوری، قمرجلال آبادی ،راجہ مہدی علی خاں، کیف عرفانی اور علامہ اقبال۔ اس فلم کاایک گیت بہت مشہور ہواتھاجسے حسرت جے پوری نے لکھاتھااورگلوکارتھے ہیمنت کمارگیت کے بول تھے ۔
میں غریبوں کادل ہوں وطن کی زباں
لیکن اس گیت کے ساتھ ساتھ ایک گیت اور مشہورہواتھا جس کے بول تھے۔
یہ گیت آشابھونسلے کی آوازمیں تھا۔ اداکارہ رقص کرتے ہوئے گیت گاتی ہے۔ اس گیت میںعلامہ اقبال کایہ شعراستعمال ہواہے۔
 
نشہ پلاکے گراناتوسب کوآتاہے ساقی+مزاتوجب ہے کہ گرتوںکوتھام لے ساقی
علامہ اقبال کے ترانہ ہندی ، اورترانہ ملی ،کے مخلوط تناظرمیںگیت کارساحرلدھیانوی نے فلم پھر صبح ہوگی۔ ۱۹۵۸ء راجکپور، مالاسنہا، موسیقارخیام میں پیروڈی نماایک گیت لکھاتھا۔
چین وعرب ہمارا، ہندوستان +رہنے کوگھرنہیںساراجہاںہمارا
چین وعرب ہمارا، ہندوستان ہمارا، یہ مصرع علامہ اقبال کاہے۔ بقیہ کاریگری ساحرلدھیانوی کی ہے۔ ساحرلدھیانوی بہت اچھے ،کامیاب اور مقبول گیت کارتھے۔ انہوں نے اپنے فلمی گیت میں علامہ اقبال کے کلام کاتاثرقبول کیا۔ یہاں ایک بات شاید دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ جس وقت ساحرکی شاعری کاابتدائی زمانہ تھا، ساحرکسی اچھے تخلص کے متلاشی تھے۔ نریش کمارشادکوساحرنے ایک انٹرویومیں بتایاتھاکہ:
چونکہ کوئی نہ کوئی تخلص رکھنامروج تھا اور اس رواج کااحترام کرنے کی نیت سے میں اپنے کورس کی کتابوں کی ورق گردانی کررہاتھاتاکہ تخلص کاکوئی اچھاسالفظ مل جائے کہ اقبال نے داغ کاجومرثیہ لکھاہے اس میں اس شعرپرنظرپڑی۔
 
اس چمن میں ہوں گے پیدابلبل شیراز بھی+سینکڑوں ساحربھی ہوںگے صاحب اعجازبھی توگویاکہ ساحرنے اپنے تخلص کافال اقبال کے کلام سے نکالاساحر، علامہ اقبال سے خاصے متاثربھی رہے ہیں۔
۱۹۵۹میں ایک فلم آئی بھائی بہن، یہ فلم جی پی سپسی کی ہدایت اور این دتہ کی موسیقی میں بنی تھی۔ اداکاران تھے ڈیزی ایرانی، بے بی ناز،رحمن، نشی، شمی ،انورحسین، اورجانی واکراس فلم میں ایک طرح سے تین گیت کارتھے۔ ساحرلدھیانوی آٹھ گیت راجہ مہدی خاںایک گیت اورعلامہ اقبال علامہ اقبال کے ترانہ ہندی۔
سارے جہاں سے اچھاہندوستاںہمارا
اس مصرعہ پرراجہ مہدی علی خاں نے اپنے مصرعے بھی پہنچائے تھے۔ترانہ ہندی، میں علامہ اقبال کے دوالگ الگ مصرعوں۔
پربت وہ سب سے اونچاہمسایہ آسماںکا
اور
گودی میں کھیلتی ہیں اسکی ہزاروں ندیاں
ان مصرعوں پرراجہ مہدی علی خاں نے اپنامصرع یوں کہا
پربت ہیں اس کے اونچے پیاری ہیں اس کی ندیاں 
پورے گیت میں علامہ اقبال کے پہلے شعر کے علاوہ بھی سارے جہاں سے اچھاہندوستان ہماراکااعادہ ہوتارہاہے۔ راجہ مہدی علی خاں کایہ گیت اقبال کے گیت کاپرتوتھا۔
 
رویندرناتھ ٹیگورکی کہانی پر بمل ر ائے کی فلم کاہلی والا۱۹۶۱،بلراج ساہنی اوشا کرن میں موسیقار سلیل چودھری نے دوگیت کاروں پریم دھون اور گلزارسے گیت لکھوائے تھے۔ پریم دھون کے لکھے گیت کے بول تھے۔
اے میرے پیارے وطن،اے میرے بچھڑے چمن
تجھ پہ دل قربان
توہی مری آرزوتوہی مری آبروتوہی میری جان
علامہ اقبال کامصرع ہے۔
توہی میری آرزوتوہی مری جستجو،
اس مصرع میں ایک لفظ’’مری جستجو‘‘ کی جگہ مری آبرو،میں تبدیل کرکے پرچم دھون نے یہ مقبول گیت تخلیق کیا تھا جسے مناڈے نے آپ تک پہنچایاتھا۔ ۱۹۶۴کی ایک فلم تھی، ہماراگھر، ہدایت کارخواجہ احمدعباس کی فلم تھی۔ سونل مہتہ، یٰسمین خان، سریکھا دلیپ راج اور نانا پلسکر کولے کر یہ فلم بنائی گئی تھی۔ جے پی کوشک کی موسیقی میں علی سردار جعفری نے توگیت لکھے ہی تھے۔ علامہ اقبال کایہ گیت؎
سارے جہاں سے اچھاہندوستان ہمارا، وجیہ مجمداراور ساتھیوں نے گایاتھا۔
 
کلیات اقبال دیکھ رہاتھا۔ ایک نظم پرنظرٹھہرگئی نظم کاعنوان ،شاہ سرخی کے ساتھ تھاکہ، عبدالرحمن اول کابویا ہوا کھجور کاپہلا درخت ،سرزمین اندلس میں 
میری آنکھوں کانورہے تو
میرے دل کاسرورہے تو
گیت کارقمرجلال آبادی نے قدرے تحریف کی توفلمی گیت اس طرح بن گیا۔
انکھیوںکانورہے تو انکھیوں سے دورہے تو
 
سمن کلیان پور اور مکیش اس گیت کے گلوکار کہلائے فلم تھی جوہر محمود ان گوآ،آی ایس جوہر،محمود،سمی، سونیا ساہنی،۱۹۶۵،دھرمیندر،نوتن، رحمن اور جانی واکرکی اداکاری میں ۱۹۶۶میں دلہن ایک رات کی، ڈی ڈی کشیپ کی ہدایت میں بنی تھی اور موسیقی تھی، غزلوں کی دھنوں کے شہنشاہ مدن موہن کی۔ اس فلم میںراجہ مہدی علی خاں اورنیرج توگیت کارتھے، ہی لیکن علامہ اقبال کی یہ غزل جس کامطلع ہے۔
کبھی اے حقیقت منتظرنظرآلباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
اس سات شعروں کی غزل میں سے محض چارشعر
توبچابچاکے نہ رکھ اسے
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں
جومیں سربہ سجدہ ہوا کبھی
قوالی کی طرزپر مشہور مغنیہ تا منگیشکراور ان کی ہم نوانے گائے تھے۔
کندن لال سہگل سے متعلق ایک کتاب جب دل ہی ٹوٹ گیا۔کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ مذکورہ غزل کبھی اے حقیقت ۱۹۳۶میں تھیٹسرس کی فلم، کروڑپتی کے ایل سہگل ، پہاڑی سانیال، ترلوک کپور، ایم نواب اور سردار اخترمیں گیت کارکدارشرمانے اس کی پیروڈی اس طرح پیش کی تھی۔ 
کبھی اے حقیقت رس بھری نظر آلباسِ شراب میں
 
واضح رہے کہ اس فلم کروڑپتی میں مرزاغالب کی غزل دل ناداں تجھے ہواکیاہے، بھی شامل تھی۔
اورپھر آئی ۱۹۷۲میں یہ گلستاں ہمارا، ہدایت کارآتمارام نے دیو آنند شرمیلا ٹیگور، پران وغیرہ کو لے کریہ فلم بنائی تھی۔ ایس ڈی برمن کی موسیقی میں آنند بخشی نے گیت لکھے تھے۔ علامہ اقبال کاشہرہ آفاق گیت 
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
گلوکارہ ششماشر یشٹھ اور دیگر آوازوں میں پیش کیاگیا تھا۔
۱۹۷۲میں ہی بی آرچوپڑہ کی فلم، داستان، آئی تھی اس فلم میں دلیپ کمار، ڈبل رول میں تھے۔ ان کے مقابل شرمیلاٹیگوراور آئی ایس جوہر تھے دراصل یہ فلم چوپڑہ کی ہی فلم افسانہ ،اشوک کمار، دینا پران، کی ری میک ،تھی، اس کی کہانی آئی ایس جووہرنے لکھی تھی۔ اس فلم کایہ گیت جوکہ محمد رفیع کاگایاہوا تھا اور بیک گرائونڈفلمایاگیا تھا بہت مقبول ہواتھا۔
نہ تو زمیں کیلئے ہے نہ آسماں کیلئے
تراوجودہے اب صرف داستاں کے لئے
علامہ اقبال کے کلام سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ مصرع اولیٰ علامہ اقبال کاہے اورمصرع ثانی ساحرلدھیانوی کاہے۔ علامہ اقبال کامطلع ہے۔
نہ توزمیں کیلئے ہے نہ آسماںکیلئے
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیںجہاں کیلئے
موسیقاراوپی نیر کے لئے، آشا بھونسلے ایک گیت کے شروع میں علامہ اقبال کے یہ اشعار خوش گلوئی سے اداکرتی ہیں۔ بعد گیت طلوع ہوتاہے۔ انوکھی وضح ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کونسی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
پھلاپھولارہے یارب چمن میری آمیدوںکا
جگرکاخون دے دے کریہ بوٹے میں نے پالے ہیں ہمیں اقبال کے کلام میں ایسی لفظیات بھی ملتی ہیں جن میں فلموں کے نام مضمر ہیں جیسے 
۱۔یہ گلستاں ہمارا،
۲۔ساراجہاں ہمارا
۳۔ہندوستاں ہمارا،
۴۔ستاروں سے آگے ،وغیرہ وغیرہ۔
میں نے اس فلم ترکی شہزادہ کی تفصیل تلاش کی لیکن کامیابی حاصل نہیںہوئی ،تلاش میں تو یہ معلوم ہوگیا کہ اس نام سے ابتداسے ۲۰۰۷تک توکوئی فلم نہیں بنی۔
 
فلموں میں اسکرین پلے کی بہت اہمیت ہے فلم کے سین کوپرکشش بنانے اور اس سین کواچھا گیٹ اپنے دینے میں اسکرین پلے سے بہت مددملتی ہے عام طور سے کہانی نویس اور مکالہ نویس ہی اسے تیار کرتے ہیں لیکن اسکرین پلے رائٹر بھی یہ کام انجام دیتا ہے۔ ۱۹۴۶میں بنی ڈائریکٹر محبوب خاں کی فلم انمول گھڑی، ثریانورجہاں، سریندر، کامنظر ہے کہ نورجہاں ٹہل رہی ہیں اور سانگ سین طلوع ہورہاہے کہ وہ نغمہ سراہیں اور ہاتھ میں علامہ اقبال کی کتاب بانگ درا، ہے۔ گویا وہ بانگ درا پڑھتے ہوئے گیت گارہی ہیں۔ جب کہ گیت تو دوسرے گیت کارکاہے نہ کہ بانگ در اسے شاعری پڑھ رہی ہیں۔ محض گیت کی پیش کش کومئوثر بنانے کیلئے نورجہاں کے ہاتھ میں بانگِ درا، علامہ اقبال کی کتاب زیبائش کیلئے دے دی گئی اور اس طرح ناظرین گیت سے نورجہاں کے اندازپیش کش سے اور بانگ دراکونمایاں کرنے سے ایک ذہنی تفریح بھی محسوس کرتے ہیں۔
 
فلم میں ڈائیلاگ، یعنی مکالہ بھی ایک اہم عنصرہوتاہے جوبات ایک طویل عبارت نہیں کرسکتی وہاں ایک ڈائیلاگ ،فلم کے منظر کومئوثر بناسکتا ہے۔ آپ نے مشہورفلم ، گائیڈدیکھی ہوگی جس میں دیوآنند، وحیدہ رحمان کے کلیدی رول ہیں۔ فلم میں ایک سین ہے کہ بارش نہ ہونے کی صورت میں قحط کااحتمال ہے۔ دیوآنند ایک مہاتما کے روپ میں نمودار ہوتے ہیں وہ مرن برت رکھتے ہیں۔ منظر بہت سنجیدہ اورگمبھیرہوجاتاہے چنانچہ وہ برمحل اقبال کاشعرپڑھ کرمنظر کومزیدمئوثر بناتے ہیں۔ دیوآنند، علامہ اقبال کایہ شعربطورڈائیلاگ اداکرتے ہیں کہ۔
خودی کوکربلنداتنا کہ ہرتقدیرسے پہلے
خدابندے سے خودپوچھے بتاتیری رضاکیاہے
تویہاں ہم دیکھتے ہیں کہ فلم گائیڈ، سے وابستہ فن کاروں نے اقبال کے اس شعرسے کس قدراستفادہ کیاہے۔ ورنہ مکالمہ نگاروہاں سچویشن کے مطابق کوئی ڈائیلاگ اداکرواسکتاتھا لیکن علامہ اقبال کے اس شعرکی معنویت اوراہمیت نے اپنالوہامنوالیا۔ فلم کے وابستگان ستائش کے مستحق ہیں کہ انہوں نے علامہ اقبال کے شعرکابے حدحسین اور برمحل استعمال کرکے اقبال اور اقبال کاشعران تک بھی پہنچادیاجس کی ذہنی سطح کمترتھی۔
 
علامہ اقبال اورفلم سے متعلق یہ مضمون اور بھی وسعت رکھتاہے۔ میں بھی تلاش میں ہوں اور آپ سے بھی تعاون چاہتاہوں۔
حواشی: ۱۔فیروزشاہ مستری کانام بھی آتاہے۔۲۔لسنرس بلیٹن کانپور فروری ۱۹۸۲جلد۱۱شمارہ۲۸،۔
۳۔شریمتی ارانگم سے ایک ملاقات ، لسنرس بلیٹن اگست ۱۹۸۴،شمارہ ۵۸، 
۴۔لسنرس بلیٹن کانپور۔جلد۱۵،شمارہ ۵۹۔
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1180