donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mehtab Qadar
Title :
   Jeddah Ki Aik Sham Jaleel Nezami Ke Naam


 

جدہ کی ایک شام جلیل نظامی کے نام
 
مشاعرہ رپورٹ : مہتاب قدر
 
                                       
جدہ میں مشاعرے کوئی نئی روایت نہیں، مگر یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ یادگار مشاعرے بہت کم ہوتے ہیں۔ایسے یادگار مشاعرے جس کا خمار دنوں تک اور یاد مہینوں برسوں تک سامعین کے ذہن و دل  سے چسپاں رہ جاتی ہے،ایسا ہی ایک غیر معمولی مشاعرہ ۲۴چوبیس اپریل سن دوہزار تیرہ کی شام شاداب ہال میں قطر سے بغرض عمرہ تشریف لانے والے جلیل نظامی کے اعزاز میں منعقد کیا گیا ۔اس شاندار مشاعرے کا اہتمام بزم ِ شگوفہ جدہ کی جانب سے کیا گیا تھا جس میں شہر کی دیگر انجمنوں کا تعاون بھی انہیںحاصل رہا۔علیم خان فلکی شہر کی معروف شخصیت سوشیل ریفارم سوسائٹی کے ذمہ دار اور ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک جب بھی نظامت کرتے ہیں تو محفل کو زعفران زار بنادیتے ہیں۔محفل کی صدارت جناب نعیم بزیدپوری نے کی اور ایک اور سیاسی اورمذبہی شخصیت جناب صوفی سلطان شطاری نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی جو ان دنوں حیدرآباد سے عمرہ کے لئے حاضرہوے ہیں۔آج کے نوشہ یا صاحب محفل جن کے اعزاز میں یہ محفل سجائی گئی وہ تھے شاعر ِخلیج جناب جلیل نظامی ،جلیل نظامی عرصہ دراز سے قطر میں مقیم ہیں اور بے شمار عالمی مشاعروں میں شرکت اور کئی عالمی اور مقامی مشاعروں کے منتظمین میں بھی رہے ہیں۔ مشاعرے کے اؔٓغاز سے قبل لذت ِکام ودہن کا انتظام کیا گیا تھا، اس کے فورا بعد تلاوت قرآن کے ذریعے حسب معمول محفل مشاعرہ نے پہلی سانس لی اور پھر صاحب ِ شان جلیل نظامی نے اپنی نعت مترنم انداز میں پیش کرکے پہلے ہی لمحات میں سامعین کی سماعتوں کو محصور کرلیا۔ نعت کے بعد مہتاب قدر نے جلیل نظامی کا بہت خوبصورت تعارف پیش کیا۔ بعض تنظیموں کی جانب سے مہمانوں کو شالیں اور تحائف بھی پیش کئے گئے اور مشاعرے کا آغاز جدہ کے نوجوان شاعر منفرد لب و لہجہ میں شعر کہنے والے جناب فیصل طفیل کے کلام سے ہوا ،دیگر شعرا میں فیصل طفیل کے علاوہ محمد مختار علی، زاہد علی زاہد جو جدہ سےریاض منتقل ہونے کے آٹھ برس بعد پھر جدہ لوٹ آئے ہیں، اور علیم خان فلکی ، مہتاب قدر ، سلطان شطاری ،مہمان شاعر جلیل نظامی اور نعیم بازید پوری نے عمدہ کلام سامعین کی نذر کیا اور بے حد داد و تحسین سے نوازے گئے۔ نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیے۔
 
فیصل طفیل:
دل بیاباں سے ملا ہے ہمیں وحشت کے لئے
آنکھ حیرت کے لئے آئینہ خانے سے ملی
میں کسی رنگ کو چھولوں تو دھنک رنگ بنے
یہ مہارت تری تصویر بنانے سے ملی
 
محمد مختار علی:
رسوایوں سے ڈرتے ہیں پر ہار سے نہیں
دشمن سے جیت سکتےہیں ہم یار سے نہیں
ہم نے انا کے سایے کو منسوخ کر دیا
اب اپنا سامنا کسی دیوار سے نہیں
سچ بولگتا ہوں اب میں نتا ئج سے بے نیاز
یوں کوئی مطمئن مرے کردارسے نہیں
غم دائمی ہے اور خوشی مختصر سی ہے
اب میں خوشی سے ڈرتا ہوں آزار سے نہیں
 
علیم خان فلکی:
 
یاد کی ٹیسیں لئے آتا ہے اکثر واپس
خط ترے نام جو بے نام کبھی لکھا تھا
آج مانے یا نہ مانے کوئی کل مانے گا
میں نے حالات کا انجام کبھی لکھی تھا
ایک ہی نام ہے منسوب ہر اک نام کے ساتھ
یاد آتا ہے کہ اک نام کبھی لکھا تھا
 
زاہد علی زاہد:
 
کبھی امن  و اخوّت کا ہمیں پیغام آتا ہے
ہمارے برہنہ سرپر کبھی الزام آتا ہے
یہ کیسی عالمی شہرت کے مالک ہو گئے ہم لوگ
کہیں پر بھی  دھماکہ ہو ہمارا نام آتا ہے
 
مہتاب قدر:
 
ہر گھڑی ،ہرایک پل آہستہ چل ،آہستہ چل
دل مرے مت یوں مچل آہستہ چل ، آہستہ چل
پھر کوئ مہتاب ِ جاں نغمہ سرا ہے دشت میں
رُک ذرا سُن لے غزل آہستہ چل آہستہ چل
 
صوفی سلطان شطاری:
 
یوں غزل کہہ نہیں سکتا کوئی شاعر اے دوست
زندگی غم میں بسر ہو تو غزل ہوتی ہے
گردش چرخ پہ  کرتا ہے عبث اے سلطان
زندگی غم میں بسر ہو تو غزل ہوتی ہے
 
 جلیل نظامی:
 
شام بے کیف سہی شام ہے ڈھل جائے گی
دن بھی نکلے گا طبیعت بھی سنبھل جائے گی
ماہ ِنو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی
دھیان بالکل نہ رہا بے سرو سامانی میں
میری دنیا تھی تری چھوٹی سی پیشانی میں
ان کا الزام بھی حالات کے سر تھوپ دیا
مشکلیں جتنی پڑیں ہم پہ تن آسانی میں
چلتے چلتے یہ کہاں آگئے ہم اہل ِخرد
پارسائی میں ہے تسکین نہ من مانی میں
ہوشمندی ہی سبب ہے مری ناکامی کا
کام بن جاتے تھے کتنے مرے نادانی میں
++++
 
عرش والے مری توقیر سلامت رکھنا
فرش کے سارے خداوں سے الجھ بیٹھا ہوں
یہ شفق یہ چاند یہ کہکشاں سبھی جل کے راکھ  ہوں بے گماں
ترے حسن کی یہ تجلیاں میں اگر فلک پہ اچھال دوں حھحسھھ
یہ جھکی نظر نہیں جام ہے، یہ کھلی لٹیں نہٰیں شام ہے
 ساقیہ میرا کام ہے تیری بات آج میں ٹال دوں
 
نعیم بازید پوری:
 
اس کو معلوم ہو بہار ہے کیا
چاہتا ہوں بہارتم سے ملے
کاش بے اختیار تم سے ملوں
کاش یہ اختیار تم سے ملے
تم بھی مل جاو گے اسی کے ساتھ
وہ اگرایک بار تم سے ملے
دل ہی اپنا کسی سے مل نہ سکا
ملنے کو تو ہزار تم سے ملے
+++++
جو خوشبو پھیلی جو رنگ بکھرے تومجھکو ایسا لگا کہ تم ہو
کسی نے کانوں میں شہد گھولا تومیرے دل نےکہا  کہ تم ہو
مری سلگتی جبیں پہ کل شب کسی مسیحا نے ہاتھ رکھا
غنودگی میں نہ دیکھ پایا ،مگرکچھ ایسا لگا کہ تم ہو
 
 رات کے تقریباَ ایک بجے شکریہ پریہ محفل برخواست کی گئی۔
  
 
 
  مہتاب قدر
Mahtab Qadr
 
  میں جہاں بھی رہوں سفر میں ہوں  
  میرا  اصلی   وطن   مدینہ    ہے
+++++++++++++++++++++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 633