donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nadeem Siddiqui
Title :
   Urdu Ke Maroof Adeeb Adil Aseer Dehlavi Inteqal Kar Gaye

اُردو کے معروف ادیب عادل اسیر دہلوی اِنتقال کر گئے


 دِہلی سے ملنے والی اِطلاع کے مطابق اُردو کے معروف ادیب ۵۵ سالہ عادل اسیر دہلوی گزشتہ جمعہ کا دن گزر کر شب دورہ ¿ قلب کے سبب رِحلت کر گئے۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

سنیچر (۲۰ ستمبر)کی شام بعد نمازِ عصر اُنکے جسدِ خاکی کو مقامی قبرستان میںسپرد ِلحد کیا گیا۔
 عادل اسیر۲۱ ستمبر۱۹۵۹ءمیں دہلی ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ اُردو اور فارسی کے مختلف شعرا پر اُن کے چھوٹے چھوٹے رسالے شائع ہو چکے ہیں۔ اسماعیل میرٹھی پر اُنہوں نے ساہتیہ اکادیمی کےلئے ایک مونوگراف بھی لکھا تھا۔ جو اکادیمی مذکور نے شائع بھی کیا تھا جس میں اسماعیل میرٹھی کے تعلق سے بہت کچھ یکجا ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ عادل اسیر دہلوی نے اسماعیل میرٹھی کے کلام کا ایک انتخاب بھی خود چھاپا تھا، جو ہماری نظر سے گزر چکا ہے۔

 اس کے علاوہ فارسی کے بعض شعرا پر بھی ان کے رسالے شائع ہوچکے ہیں۔ ہر چند کہ ان کے یہ رسائل اپنے حجم میںبہت چھوٹے چھوٹے کام نظر آتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے یہ رسائل تصنیف و تالیف کر کے بڑے کاموں کےلئے بنیاد فراہم کر دِی تھی۔ عادل اسیر دہلوی اُردو کے اُن لوگوں میں شمار کئے جائیں گے جو اپنے کام سے ایک سچے عاشق کی طرح وابستہ رہتے ہیں۔ ادب اطفال میں ان کا کام نمایاں تشخص رکھتا ہے۔

 مشہور مغل شہزادے دارا شِکُوہ ± اپنا ایک علمی تشخص بھی رکھتاتھا ا سکی علمی کتابیںمختلف لائبریریوں میں محفوظ ہیں، عادل اسیر دہلوی نے اُردو کی نئی نسل کے اُن افرادکےلئے جو علم وادب سے دلچسپی رکھتے ہیں، دارا شِکُوہ ± کا اچھا خاصا مواد فارسی سے اُردو میں منتقل کر کے شائع کر دیا ہے۔ اسی طرح ان کے درجنوں کام ہیں۔ جو زبان و ادب کے تئیں اُن کی محبت اور دلچسپی کے مظہر ہیں۔

عادل اسیر اکثر کتاب میلوں میں اپنی کتابوں کا اسٹال لگاتے تھے۔ وہ اپنی کتابیں خود چھاپتے اور انھیں قارئین تک پہنچانے کا کام بھی خود کرتے تھے۔ اگر انکے بارے میں یہ کہا جائے تو ہر گز غلط نہیں کہ وہ زبان و ادب کے ایک ’ حقیقی خادم ‘ تھے۔ وہ زبان و ادب کے تئیں خدمت کے جذبے سے بھر پور کردار کے حامل شخص تھے۔۵۵ سال کی عمر بظاہر کوئی بڑی عمر نہیں ہوتی مگر اُنہوں نے اپنی عمر اور اپنی زندگی کا صحیح استعمال کر کے یہ بتا یا کہ کام کرنے کےلئے وقت یا عمر کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اصل چیز تو کام کرنے کا جذبہ اور لگن ہوتی ہے۔

 عادل ان کا نام رہا ہوگا اورلفظ ِ اسیر کو انہوں نے قلمی نام کے طور پر اپنایا یہ دونوں لفظ اُن کی زندگی میں اپنی معنویت کے ساتھ یوں چسپاں ہوئے کہ ان کی ایک شناخت بن گئے۔ شاعر نے کہا تھا کہ ’ اسم کا ذات پَہ سنتے ہیں اثر ہوتا ہے ‘عادل اسیر دہلوی نے اپنے نام کی معنویت کو اپنے کردار سے حقیقت کا روپ دیدیا۔ مرحوم کو مختلف اُردو اکادیمیز ہی سے نہیں ۲۰۱۱ ءمیں ساہتیہ اکادیمی کا ’ بال ساہتیہ پُرسکار‘ بھی مل چکا ہے۔

 فن و ادب میں نام اپنے کام ہی سے معتبر ہوتا ہے۔ عادل اسیر نے اس کلیے کی بھی تصدیق کر دی۔ ہم ان کے سانحہ ¿ اِرتحال کو ایک ذاتی غم سمجھتے ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے متعلقین و لواحقین کو صبر کی توفیق عطا کرے۔ (آمین)

٭ ندیم صدیقی    

NadeemSiddiqui


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 490