donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nadeem Siddiqui
Title :
   Urdu Ke Mumtaz Aur Jadeed Naqid Prof. Waris Ali Alvi Rahlat Kar Gaye


جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں

 اُردو کے ممتاز اور جدید ناقد

 پروفیسروارِث علوی رِحلت کر گئے


 ممبئی: (ندیم صدیقی)اُردو کے جدید اور ممتاز نقاد (86 سالہ) پروفیسر سید وارث علوی آج صبح احمد آباد کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے۔

 پروفیسر سیدوارث علوی ویسے تو ایک مدت سے صاحبِ فراش تھے لیکن اِدھر کئی دِنوں سے انکی طبیعت میں جب زیادہ خرابی محسوس کی گئی تو ایک مقامی ہسپتال میں اُنھیںداخل کیا گیا جہاں خصوصی نگہداشت کے کمرے میں اُنھیں رکھا گیا تھا۔ برضائے اِلٰہی آج صبح 8بجے اُنہوں نے آخری سانس لی۔

       

 پروفیسر سید وارث علوی احمد آباد کے ایک ممتاز صوفی خاندان میں11 جون1928ءمیں پیدا ہوئے تھے ان کے والد ایک پیر محترم کی حیثیت سے احمدآباد میں خاصے ممتاز حیثیت کے حامل تھے، مگر وارِث علوی نے پیری مریدی کے سلسلے سے اجتناب کیا اور اپنی فطری ذہانت کے سبب جدید اُردو ادب میں اپنے منفرد تنقیدی رویوں سے اپنی شناخت بنائی۔

پروفیسر سید وارِث علوی اپنے عہد میں فکشن کے ممتاز ترین ناقد کہلائے۔ اُن کی کوئی 20سے زائدکتابیں منظر عام پر آئیں۔ جن میں ”تیسرے درجے کا مسافر، حالی مقدمہ اور ہم، کچھ بچا لایا ہوں، پیشہ تو سپہ گری کا بھلا، فکشن کی تنقید کا المیہ، اوراق پارینہ، ناخن کا قرض، راجندرسنگھ بیدی ایک مطالعہ، اے پیارے لوگو، خندہ ہائے بیجا، جدید افسانہ اور اس کے مسائل، ادب کاغیر اہم آدمی،سرزنش خار، گنجیفہ باز خیال، بت خانہ چین،غزل کا محبوب اور دوسرے مضامین “وغیرہ کو خاصی شہرت ملی۔ واضح رہے کہ آخر الذکر کتاب حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔

 پروفیسر وارث علوی نے اپنی ادبی زندگی تو ترقی پسند تحریک کے زیرِ سایہ شروع کی وہ 1946 تا1950 ترقی پسند مصنفین(احمد آباد) کے سیکریٹری رہے۔ اس کے بعد انہوں نے کسی ادبی جماعت یا کسی گروہ میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ وہ اپنی تنقیدی تحریروں میں دبے یا پچکے لفظوں سے کبھی کام نہیں لیتے تھے بلکہ اس کے برعکس ان کا لہجہ سخت ہوتا تھا اور ان کا پڑھنے والا کبھی بور نہیں ہوتا تھا کیو نکہ ان کی تحریر لہجے کی سختی کے باوجود ایک زعفرانی شگفتگی سے قاری کو زیرِ لب تبسم کے ساتھ ایک ناگفتہ کیفیت سے سرشار کر دیتی تھی۔ منٹو اور راجندر سنگھ بیدی کے حوالے سے ان کی تحریریں یادگارمثالی حیثیت کی حامل ہیں۔

          

 پروفیسر وارث علوی نے جامعہ گجرات سے اُردو میں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگلش میں ایم اے کیا اور احمد آباد کی ممتاز درس گاہ سینٹ زیویرس کالج میں کوئی 33 برس تدریسی خدمات انجام دیں اور اسی کالج سے وہ صدر ِشعبہ ¿ انگلش کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔

 پروفیسر سید وارث علوی کو ان کی غیر معمولی ادبی خدمات کے اعتراف میں کئی انعامات بھی تفویض کئے گئے۔ جن میں گورو پرسکار (اُردو ساہتیہ اکادمی گجرات)، قومی ایوارڈ(مہاراشٹر اُردو اکادمی)، غالب ایوارڈ (غالب انسٹی ٹیوٹ ، دہلی)، عالمی فروغ اردو اکیڈمی (دوحہ قطر)، بنگال ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کےساتھ سالِ گزشتہ انھیں دِلّی اُردو اکادیمی کا بہادر شاہ ظفر ایوارڈ بھی تفویض کیا گیا تھا جو لاکھ روپے پر مشتمل تھا یہاں یہ بتانا بھی غیر ضروری نہیںکہ اِکادیمی مذکور نے تینوں علوی برداران( مظہرالحق علوی، وارث علوی اور محمد علوی) کو یہ ایوارڈ دے کر ایک اچھوتی روایت قائم کی جو اکادیمی مذکور کے سربراہ پروفیسر اختر الواسع کی ادب شناسی کا ایک مثالی مظہر ثابت ہوئی۔

         

 گزشتہ دنوں ممبئی میں نیا ورق فاو ¿نڈیشن اورہندوستانی پرچار سبھا کے اشتراک سے جشن وارث علوی بھی منایا گیا جو دو روزہ قومی سمینار کے حوالے سے 2013ءکا ایک یادگار ادبی واقعہ بن گیا جس میں وارث علوی کی خدمات کا نہ صرف واضح اعتراف کیا گیا بلکہ اُنھیں منفرد خراج تحسین بھی پیش کیا گیا۔

 اس یادگار سمینار کے منتظمین نے احمد آباد جاکر وارث علوی کی خدمت میں پچاس ہزار روپے کا ایک کیسہ ¿ زر بھی پیش کیا تھا۔

 سید وارث علوی کے پسماندگان میں بیوہ فاطمہ بیگم کے ساتھ تین بیٹیاں شہناز، شاہدہ اور فرزانہ ہیں۔ آج احمد آباد میں واقع مرحوم کے آبائی قبرستان میں اُن کے جسد کو سپردِ لحد کیا گیا۔ اس موقع پر اقبال کا یہ شہرہ آفاق شعر بیساختہ یاد آتا ہے:


کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں


*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1093