donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Neyaz Ahmad Azmi
Title :
   Aziz Nabeel Ki adarat Me Shaye Hone Wale Salana Majala Dastawez Ki Nayi Ishaat

 عزیزنبیل کی ادارت میں شائع ہونے والے سالانہ مجلّہ ’’دستاویز‘ کی نئی اشاعت


اردو کے اہم غیر مسلم شعراء وادباء کی قطر میں تقریبِ اجراء

رپورٹ : نیاز احمد اعظمی

 

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ قطر میں مقیم اہل اردو کے دلوں میں اب بھی اردو تہذیب و ثقافت مکمل طور پر رچی بسی ہے۔ ندا فاضلی


وسائل کے نہ ہوتے ہوئے بھی دستاویز جیسی گراں قدر ادبی دستاویز کی ترتیب و تدوین ناقابلِ فراموش سلسلہ ہے۔ علی ایم شمسی (ممبئی


دستاویز کا یہ شمارہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ سیکولر تہذیب کو فروغ دے گا اور حالات کو صحیح رخ پر ڈالنے میں مدد کرے گا۔ اقبال احمد انجینئر (حیدرآباد


انجمن محبان اردو ہند قطر ، دوحہ قطر کی معروف و مشہور ادبی تنظیم اپنے علمی اور تحقیقی کارناموں سے اردو دنیا میں اعتبار حاصل کرچکی ہے۔اعلی معیاری علمی و ادبی کاوشیں اس کی پہچان بن چکی ہیں۔ اپنے کامیاب ترین سالانہ مشاعروں اور گراں قدر ادبی خدمات کے ذریعہ ادب اردو کے عالمی منظر نامہ میں اپنی منفرد شناخت قائم کرلی ہے۔ کل ہند سالانہ مشاعروں کے علاوہ انجمن وفتاً فوقتاً دوسری ادبی نشستیں بھی برپا کرکے قطر کے تشنگان ادب کے شوق وذوق کو آسودگی بخشتی ہے اور ادباء وشعراء کو ایک با وقار پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔انجمن اور اس کے ممبران نے قطر میں ادب کا ایسا شیریں چشمہ جاری کر رکھا ہے جس سے صرف قطر ہی نہیں بلکہ بر صغیر اور پورا عالم اردو سیراب ہورہا ہے۔

انجمن کے معتمد عمومی کے مجموعہ کلام ’’خواب سمندر‘‘ کے علاوہ کئی اہم تحقیقی کتابیں ’’شہریار‘‘، ’’فراق گورکھپوری شخصیت، شاعری اور شناخت ‘‘، ’’عرفان صدیقی حیات وخدمات اور شعری کائنات‘‘ اور ان کی ادارت میں سالانہ تحقیقی مجلہ کے تین اہم اور ضخیم شمارے زیور طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں جنھیں ارباب علم و فن نے اردو ادب میں بیش بہا سرمایہ قرار دیا ہے۔

دستاویز آپ کی ادارت میں شائع ہونے والا سالانہ مجلہ اسم بامسمی ہے۔ اس کا ہر شمارہ ایک علمی، ادبی اور تحقیقی دستاویز ہوتا ہے۔ یہ فقط ایک رسالہ نہیں بلکہ علم وادب کا خزانہ اور اس کے گراں قدر ہیرے موتی ہیں جسے ہر اردو دوست سینے سے لگاتا ہے اور ہر لائبریری اپنے لئے ایک قیمتی اثاثہ تصور کرتی ہے۔

اس کا پہلا شمارہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی ( ۲۰۰۰ سے ۲۰۰۹)میں وفات پانے والے ادباء وشعراء پر مشتمل ہے اور دوسرا شمارہ اردو کے اہم ادبی رسائل وجرائد کی ۱۲۵ سالہ تاریخی دستاویز ہے جس میں ۶۰۰ سو رسالوں کا انڈیس موجود ہے ( مدیر، تاریخ ابتدا، تاریخ انتہاء، جاری، دیگر معلومات) اس کے علاوہ پچیس اہم رسالوں کا گوشہ شامل ہے۔دستاویز کا تازہ اور تیسرا شمارہ اردو کے اہم غیر مسلم شعراء وادباء کے نام ہے۔

علاوہ ازیں انجمن کے نائب صدر جناب ندیم ماہر صاحب شعر و ادب کی دنیا میں اپنے اچھوتے لہجے اور الگ رنگ و آہنگ سے پہچانے جاتے ہیں، آپ کا مجموعہ کلام ’’دستکوں کے نشان‘‘ تشنگاں علم و ادب میں کافی مقبول ہوا۔ انجمن کے نائب معتمد عمومی جناب احمد اشفاق صاحب اپنا منفرد طرز بیان رکھتے ہیں، آپ کے خوبصورت مجموعہ کلام ’’دسترس‘‘ کو ادب نواز حلقوں میں خوب پذیرائی ملی ہے۔

اس باوقار محفل کی نظامت دوحہ کے ممتاز ناظم مشاعرہ اور انجمن کے نائب صدر جناب ندیم ماہر صاحب نے کی اور سب سے پہلے اسیٹیج پر علم وادب کے روشن ستاروں کی کہکشاں سجائی۔

انجمن کے سرپرست اعلی، قطر کی ہر دل عزیز معروف ومشہور اور ہمہ جہت شخصیت جناب حسن عبدالکریم چوگلے صاحب نے کرسی صدارت کو وقار بخشا۔ آپ کئی سماجی، علمی و ادبی تنظیموں اور رسائل وجرائد کی بھی سرپرستی فرماتے ہیں۔آپ کی سماجی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے جو قطر سے لے کر بھارت تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک تحریک اور انجمن ہیں جس سے بہت ساری تحریکیں فیض یاب ہوتی ہیں۔

مہمان اعزازی کی مسند پر بھارت سے تشریف لائی اردو کی ممتاز و معروف شخصیت جناب ندا فاضلی صاحب جلوہ افروز ہوئے ۔ آپ ممتاز شاعر وادیب، قد آور شخصیت اور ادب کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔ موجودہ دور میں جنھیں سننا اور دیکھنا ایک اعزاز ہے۔

مہمان اعزازی جناب علی ایم شمسی صاحب ، خطیب کوکن سے معروف، ماہر تعلیم، سماجی کارکن، ادبی شخصیت، بڑے ہی مخلص، اپنی گفتگو سے سامعین کو مسحور اور اسیر کردینے والے بقول عزیز نبیل کہ جن سے گفتگو کی جائے تو روح کو آسودگی اور دل کو ٹھنڈک ملتی ہے اور جنھیں دیکھیں تو آنکھوں کی روشنی دوبالا ہو جاتی ہے۔

مہمان اعزازی حیدراباد سے تشریف لائے جناب انجینئر اقبال احمد صاحب معتبر تعلیمی اور سماجی شخصیت نے اس محفل کی خوبصورتی میں اضافہ کیا اور اسے اعتبار و وقار بخشا۔

مہمان خصوصی قطر کی ادبی شناخت اور ادبی دنیا کا ایک روشن باب، جناب عزیز نبیل صاحب، انجمن کے معتمد عمومی ، مدیر اعلی سالانہ مجلہ دستاویز ، معتبر شاعر وادیب، مرتب و محقق جنھوں نے اپنی اعلی معیاری شاعری اور تحقیقی کاموں سے ادبی دنیا کو محو حیرت کردیا۔ ان کے گراں قدر کارنامے اور تحقیقی کاوشیں علمی کام کرنے والوں اور لائبریریوں کے لئے بیش بہا اثاثہ ہیں اور مستقبل میں جن کا مطالعہ کرنے اور ان سے استفادہ کرنے کی نصاب تعلیم میں سفارش کی جائے گی۔

اردو کے بے لوث خادم، قطر کی ممتاز شخصیت اور انجمن کے بانی جناب ابراہیم خان کمال صاحب نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے آپ نے سب سے پہلے صدر محفل، مہمانان اعزازی، مہمان شعراء اور تمام سامعین کا دل کی گہرائیوں اور ڈھیر ساری محبتوں کے ساتھ پر جوش استقبال کیا اور کہا کہ مجھے بڑی مسرت خوشی ہوتی ہے کہ انجمن کو جس بلند مقصد کے لئے قائم کیا گیا تھا اس کے حصول کی جانب تیز رفتاری کے ساتھ گامزن ہے۔ ہمیں ایک بے مثال ٹیم میسر ہے اور انجمن کہ یہ پوری ٹیم بڑی لگن کے ساتھ تمام کاموں میں شریک ہے۔ بالخصوص انجمن کے سرپرست اعلی اور معروف سماجی، ثقافتی، علمی و ادبی شخصیت، جناب حسن عبدالکریم صاحب کا تعاون برابر ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ آپ نے انجمن کا اجمالی تعارف کراتے ہوئے انجمن کے سرپرستان کا ذکر کیا اور کہا کہ ان سب کا تعاون ہم کو حاصل ہے۔ انجمن کے صدر جناب خالد داد خان صاحب انجمن کی خاموش اور مخلصانہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ان کی صدارت میں ہم انتہائی تاریخ ساز اور کامیاب ترین مشاعرے برپا کررہے ہیں۔انجمن کے جنرل سکریٹری جناب عزیز نبیل صاحب جن کے علمی اور تحقیقی کارنامے کی افادیت سے ذی علم اور ذی شعور حضرات بخوبی واقف ہیں، جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، بڑی اہم ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ مشاعروں کا انعقاد اور شاعروں سے ربط جناب آصف اعظمی صاحب کے تعاون سے انجام دیتے ہیں۔

انجمن کے نائب صدر جناب ندیم ماہر صاحب اور نائب معتمد عمومی جناب احمد اشفاق صاحب کا تمام سرگرمیوں میں اہم رول رہتا ہے۔ مشاعروں کا انعقاد، مجلے کی تیاری سب میں برابر شریک رہتے ہیں۔ اسی طرح انجمن کے دیگر ممبران کا ذکر کیا کہ یہ تمام ممبران بڑی دل جمعی سے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے انجمن کے قیمتی اثاثہ ہیں۔ ہماری نیت اور ہدف اردو کی ترقی اور اپنی تہذیب و تمدن کی بقا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ انجمن کے ممبران کے درمیان یہ لگن اور آپسی محبت قائم ودائم رہے۔

اس کے بعد جناب ندا فاضلی صاحب کے ہاتھوں اور جناب علی ایم شمسی، جناب اقبال احمد انجینئر، جناب حسن عبدالکریم چوگلے، جناب ابراہیم خان کمال، جناب خالد داد خان، جناب ندیم ماہر، جناب عزیز نبیل، جناب احمد اشفاق کی موجودگی میں دستاویز کا اجراء عمل میں آیا۔

انجمن کے جنرل سکریٹری اور دستاویز کے مدیر اعلی عزیز نبیل نے اس موقع پر بڑی ہی خوبصورب گفتگو فرمائی۔ اپنی گفتگو کی ابتدا کرتے ہوئے انہوں نے عرفان صدیقی کا یہ شعر پڑھا کہ :

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لئے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لئے

جناب حسن عبدالکریم کو ایک تحریک وانجمن ، اور جناب علی ایم شمسی کو روح کی اسودگی دل کی ٹھنڈک و آنکھوں کی روشنی، اور جناب ندا فاضلی کو ادب کا قابل فخر سرمایہ تعبیر کرتے ہوئے انہوں نے اپنی گفتگوکو آگے بڑھایا۔بڑی خوشی محسوس ہورہی ہے کہ آج ہم دستاویز کے تازہ شمارے کی رسم اجراء کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ مدتوں سے ہمارا خواب تھا کہ کچھ اہم اور تحقیقی کام کیا جائے جس کی تعبیر دستاویز کا یہ تازہ شمارہ ہے۔

اس کا پہلا شمارہ ہم نے اس وقت شائع کیا تھا جب ہم نے یہ محسوس کیا کہ ہمارے درمیان سے اردو کی بڑی بڑی شخصیات اٹھتی چلی جارہی ہیں۔اس شمارے میں دس سالوں (۲۰۰۰۔۲۰۰۹) کے درمیان وفات پانے والی اردو دنیا کی اہم شخصیات میں سے ۳۵۰ کا ذکر کیا گیا ہے۔ دستاویز کا دوسرا شمارہ جو اردو کے اہم ادبی رسائل وجرائد کی ایک مستند تاریخ ہے جس میں پچیس اہم رسائل کے گوشے کے ساتھ ساتھ ۶۰۰ رسائل و جرائد کا انڈیکس ہے۔ اسی تحقیقی کاوش کی اگلی کڑی دستاویز کا تیسرا شمارہ ہے جو اردو کے اہم غیر مسلم شعراء و ادباء پر مشتمل ہے۔ کچھ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ہم نے ادب کو مذہب کے نام پر تقسیم کر رکھا ہے۔ ہم نے انہیں بتانے کی کوشش کی ہے کہ اردو کسی مذہب کی زبان نہیں ہے۔ اس کے خزانے میں غیر مسلمین کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس رسالہ کی ترتیب میں خوش گوار اور حیرت انگیز تجربات سامنے آئے۔ بہت سارے اہم غیر مسلم شعراء سامنے آئے جن کے اشعار بہت ہی مشہور اور زبان زد خاص و عام ہیں۔ ان میں لالہ مادھو رام جوہر، دیا شنکر نسیم، سرشار سیلانی، دیباکر راہی، چندر بھان برہمن بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح فکشن میں تو غیر مسلمین کا پلہ بھاری ہے۔ جیسے پریم چند ، کرشن چندر وغیرہ۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ اردو ایک سیکولر ، یگانگت و محبت اور بھائی چارہ کی زبان ہے۔

اس دستاویز کی تیاری میں بہت سے لوگوں کے مشورے، خلوص، محبتیں، دعائیں شامل ہیں۔ انجمن کے سرپرست اعلی، بانی انجمن، صدر انجمن، مجلس ادارت میں شامل ندیم ماہر، احمد اشفاق، زوار حسین، آصف اعظمی ان سب کاوشیں شامل حال ہیں۔

اتارتے رہو صدقے محبتوں کے نبیل
کسی کسی کو عنایت یہ مال ہوتا ہے۔

مہمان اعزازی جناب اقبال احمد انجینئر نے کہا کہ مجھے سن کر بہت تعجب ہوا کہ دوحہ میں مشاعرہ ہونے والا ہے۔ جب یہاں آکر آپ لوگوں سے ملاقات ہوئی اور پھر انجمن کا تعارف سنا تو بہت خوشی ہوئی ۔ تعجب ہے کہ وطن سے اتنے دور اور اپنے روزگار میں مصروف ہونے کے باوجود آپ لوگوں نے اردو سے محبت قائم رکھی ہے۔ دستاویز دیکھا اور انجمن کے تحقیقی کاموں کا مشاہدہ کیا۔ قطر پہلے موتیوں کے لئے مشہور تھا اب یہاں ادب کے گوہر اور موتی نکلنے کا امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ اردو نے آزادی ہند میں اہم رول ادا کیاتھا۔ یہ محبت اور جوڑنے کی زبان ہے۔ فلم انڈسٹری میں بھی کہنے کو تو ہندی لیکن اکثر الفاظ اردو کے ہی ہوتے ہیں۔ کسی قوم کو اس کا ادب اور لٹریچر زندہ رکھتا ہے۔ شاعر وادیب اپنے سماج کے نمائندے ہوتے ہیں۔ قطر مبارک باد کا مستحق ہے اسے معلوم ہے کہ اپنے زبان و ادب کو کیسے زندہ رکھنا ہے۔ دستاویز کا یہ شمارہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ سیکولر تہذیب کو فروغ دے گا اور حالات کو صحیح رخ پر ڈالنے میں مدد کرے گا۔ میں یہاں سے یہ پیغام لے کر جاؤں گا کہ اردو زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔

مہمان اعزازی جناب علی ایم شمسی نے فرمایا کہ میں اس لمحہ کو دعا دیتا ہوں وہ لمحہ قبولیت کا تھا جب جناب ابراہیم خان کمال صاحب نے انجمن کا قیام عمل میں لایا۔ میں حیراں و خوش بھی ہوں کہ شاعری سن لینے بعد بھی آپ تشریف فرما ہیں۔ قطر میں اب بھی ہماری اردو تہذیب و ثقافت جھلک رہی ہے۔ یہاں وسائل کی کمی کے باوجود بھی بڑے بڑے تحقیقی کام ہورہے ہیں۔ عزیز نبیل کے کاموں کو دیکھ کر مجھے شبہ ہوتا کہ یہ کوئی جن تو نہیں ہیں جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام کے قوی جن نے ملکہ سبا کا تخت پلک جھپکتے حاضر کر دیا تھا۔ وسائل کے نہ ہونے کے باجود اتنے بڑے بڑے کام دیکھ کر مجھے دو واقعہ کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے وسائل اور حالات کے ناموافق ہونے کے باوجود بھی نجاشی کے دربار میں تقریر کی اور اللہ نے کامیابی دی۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی کعبہ کی تعمیر کے بعد اللہ کے حکم سے بے آب وگیاہ صحرا میں حج کا اعلان کیا ۔ اس موقع پر میں اپنے ایک خط کے جواب میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کا ایک جملہ نقل کرنا چاہتا ہوں کہ اردو پر رونے والے بہت اور اردو پر مرنے والے بہت کم ہیں۔ آپ تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ ان اردو کے کام کرنے والوں کا بھر پور ساتھ دیں، لوگوں کو متوجہ کریں۔ کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اردو کی تعمیر و ترقی کے لیے دعا ضرور کریں۔ آج یہاں سے یہ طے کرکے اٹھیں کہ ہم سب اردو کے کاز کے لیے بھر پور کوشش کریں گے۔

انجمن کے سرپرست اعلی جناب حسن عبدالکریم چوگلے نے اپنے صدارتی کلمات میں فرمایا کہ میں تمام مہمانان اعزازی ، شعراء کرام اور معزز سامعین کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ قطر میں اردو کا کام بڑے اچھے انداز میں ہورہا ہے۔ دیگر اور تنظیمیں بھی عمدہ کام کررہی ہیں۔ اگر آپ ثابت قدم رہیں تو وسائل خود بخود مہیا ہو جاتے ہیں۔ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ انجمن کا سرپرست ہوں۔ اسی طرح دوسری بہت سی تنظیموں اور رسائل و جرائد کی سرپرستی کرتا ہوں۔میں کوئی کام تنہا نہیں کرسکتا مجھے ہر جگہ اچھی ٹیم ملی ہوئی ہے۔ کسی زبان کی ترویج میں اس کی تعلیم، کتابوں اور رسائل وجرائد کی اشاعت کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ کتاب، مصنف اور جس پر کتاب لکھی جاتی ہے ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجاتے ہیں۔ آپ نے اپنی بات اس شعر پر ختم کی:

ہم اردو کے مسافر ہیں یہی پہچان ہے اپنی
جہاں سے بھی گزرتے ہیں سلیقہ چھوڑ جاتے ہیں

انجمن کے صدر، اردو کے مخلص اور خاموش خادم جناب خالد داد خان صاحب نے اپنے کلمات تشکر میں سرپرستان انجمن، مہمانان اعزازی، تمام شعراء اور سامعین کا بہت بہت شکریہ ادا کیا کہ آپ تمام اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود تشریف لائے اور اس محفل کو رونق بخشی۔


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 460