donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nisar Ahmad Faizi
Title :
   Yaum Bihar Ke Mauqa Par Mahkama Taleem Ke Zer Ehtemam Shandar Musherw Ka Inaqad

رپورٹ

یوم بہار کے موقع پر محکمۂ تعلیم کے زیر اہتمام شاندار مشاعرہ کا انعقاد

 

    پٹنہ ، ۔۔۔۔۔ ۔صوبہ بہار کے یوم تاسیس کے موقع پر محکمہ تعلیم حکومت بہار کی طرف سے ہر سال رنگارنگ ادبی وثقافتی پروگرام منعقد کیا جاتاہے۔ اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے محکمہ تعلیم نے ۲۲؍مارچ بروز سنیچر کو پریم چند رنگ شالا کے وسیع ہال میں ایک تاریخی مشاعرے کا بھی انعقاد کیا۔ مشاعرے میں اپنے مہمان شعراء کو سننے کے لئے سامعین کاجم غفیر پہلے سے موجود تھا۔ چنانچہ 5:30شام میں پریم چند رنگ شالا میں تالیوں کی گونج کے ساتھ مہمان شعراء کا استقبال کیا گیا اور شعرائے کرام کو گلدستہ پیش کیا گیا۔ مشاعرہ میں عالمی شہرت یافتہ شعراء مثلاً ندا فاضلی، عزم شاکری، اقبال اشہر ، شبینہ ادیب ، نکہت امروہی ،پروفیسر علیم اللہ حالی، سلطان اختر، خورشید اکبر، قاسم خورشید، عالم خورشید، ابھے کمار بیباک، سنجے کمارکندن اور شنکر کیموری خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔


    عظیم آباد کی سرزمین پر اس تاریخی مشاعرے کا آغاز 6:00بجے شام میں اپنے مقررہ وقت پر ہوگیا۔ فن نظامت کے استاد جناب ڈاکٹر قاسم خورشید نے مشاعرے کی نظامت فرمائی۔ اپنے مخصوص ومنفرد انداز میں ڈاکٹر قاسم خورشید مائیک پر تشریف لائے اور اپنے مہمان شعراء وسامعین حضرات کا استقبال کیا اور اپنے تمہیدی کلمات میں فرمایاکہ عظیم آباد کی سرزمین صدیوں سے ادبی نشوونما کے لئے نہایت زرخیز رہی ہے۔ چنانچہ اس سرزمین نے بے شمار ادبی لعل وگہر پیدا کئے جن سے یہاں کا ماحول لالہ زار بنا رہا۔


    آج بھی ملک اور بیرون ملک میں عظیم آباد (پٹنہ) کی شناخت ایک منفردادبی دبستان یعنی دبستان عظیم آباد کے نام سے ہے ہمارے درمیان عظیم آباد سے متعلق جو شعراء حضرات موجود ہیں وہ اردو ادب خصوصاً اردو شاعری میں اپنی ایک معتبر اور منفرد شناخت رکھتے ہیں۔
    عالم خورشید ادب اور مشاعرے کے حوالے سے ہمیشہ تذکرہ میں رہے ہیں۔موصوف کے کئی مجموعہ کلام اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔ جدید اردو شاعری کو معیاری بنانے میں موصوف کا اہم رول رہاہے۔ ان کا یہ شعر کافی سراہا گیا  ؎ 

میں شبنم کا قصہ لکھتا رہتا ہوں
اور کاغذ پر دھوپ رقم ہوجاتی ہے

    شنکرکیموری اردو کے ایک کامیاب اوراہم شاعر ہیں۔ نعتیہ کلام میں اپنی انفرادیت رکھتے میں ان کا نیا مجموعہ کلام زیراشاعتِ ہے ۔ کئی قومی مشاعروں اور کوی سمیلن میں بہار کی نمائندگی کرچکے ہیں۔

وہ آدمی تلاشو جو کرکے یہ دکھادے
پتھر کو موم کردے شیشے کو دل بنا دے

لایا ہوں بند کرکے میں صاف بوتلوںمیں 
کس ذات کا لہو ہے کوئی ڈاکٹر بتا دے

    اس کے بعد ڈاکٹر قاسم خورشید نے سنجیدہ شاعر سنجے کمار کندن کو دعوت سخن دی۔ کندن جی نے اپنے دو مجموعہ کلام ’’ایک لرکا ملنے آتاہے‘‘ اور ’’تمہیں کیا بے قراری‘‘ کی اشاعت سے اردو شاعری کونئی جہت دینے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی اپنی شاعری میں وسعت بھی پیدا کی ہے۔ موصوف نے اپنی منفرد شاعری سے سامعین کو متاثر کیا   ؎


پتھر کو پرزور صدا دے
کیا جانے کوئی گیت سنا دے
تھکا ہوا ماحول ہے اک جا
خیمہ اب یادوں کا لگا دے

    ہندوستان میں جن شاعرات نے گذشتہ دس سالوں میں غیر معمولی شہرت حاصل کی ہے ان میں شبینہ ادیب ایک اہم شاعرہ ہیں۔ ان کی شاعری اور انداز بیان کا ایک زمانہ معترف ہے۔

    شہر عظیم آباد کے لئے بھی موصوفہ اجنبی نہیں ہے بارہا یہاں کے مشاعروں میں شرکت فرما کرسامعین دادوتحسین حاصل کرچکی ہیں قومی اورعالمی اسٹیج پر بھی کامیاب ترجمانی کرچکی ہیں۔شبینہ ادیب نے اپنے کلام سماعت نواز سے سامعین کو خوب محفوظ کیا۔ خصوصاً ان کے یہ دواشعار بہت مقبول ہوئے    ؎

دل اپنا عشق سے آباد کرکے دیکھ کبھی 
مری طرح تو مجھے یاد کرکے دیکھ کبھی
تری مدد کو فرشتے اترکے آئیں گے
کسی غریب کی امداد کرکے دیکھ کبھی 

    بیباک اردو کے اسم بامسمّیٰ شاعر ہیں ۔ ان کی معیاری شاعری کی اپنی منفرد پہچان ہے۔انہوںنے رباعی جیسے دشوار صنف کو ایک نئی جہت عطا کی ان کا نیا مجموعہ کلام ادبی منظر نامے پر تذکرہ کا موضوع ہے۔ انہوںنے بہت سنبھل کر اپنی رباعیات پیش کی۔

    اقبال اشہر اردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعر ہیں۔ انہوںنے اردو غزل کو نئی جہت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور بین الاقوامی مشاعروں کے مقبول شاعر رہے ہیں۔عالمی سطح پر ان کی غزلوں کی شیرینی اور معنویت کو تسلیم کیا گیاہے۔

نظر ملا نہ سکا طاق کی سیاہی سے
میں باخبر چراغوںکی بے گناہی سے 

منائو شکر کہ آنکھیں کلام کرنے لگیں
نجات مل گئی لفظوں کی بادشاہی سے 

    خورشید اکبر کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ شاعر کی حیثیت سے نئی نسل کے مقبول شعراء میں ان کا شمار ہوتاہے۔موصوف نئے انداز اور نئے تجربوں سے اپنے سامعین اور قارئین کو ہمیشہ متاثر کرتے رہے ہیں   ؎

یہ واقعہ ہے کہ انسان مرگیا پہلے
پھر اس کے بعد ہوا انتقال دنیا کا

    سلطان اختر اردو کے محترم شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کے متعدد مجموعے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں اردو کے شہرت یافتہ شاعر کی حیثیت سے ان کی اپنی ایک شناخت خصوصاً جدید اردو غزل کو وسعت دینے میں موصوف کلیدی رول ادا کیا۔ قومی سطح کے شاعروں میں بھی کثر وبیشتر شرکت فرماکر سامعین سے دادوتحسین حاصل کرتے رہے   ؎

میری آنکھوں کو پریشان بہت کرتاہے
آئینہ اب مجھے حیران کرتاہے

    پروفیسر علیم اللہ حالی اردو کے قادرالکلام شاعر کے ساتھ اردو کے معروف ناقد بھی ہیں۔ ان کی کئی کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔جدید اردو شاعری پر آپ نے کافی کام کیا ہے ۔مشاعروں میں آپ کامیابی نمائندگی کرتے ہیں   ؎

یہ غنیمت ہے ہم بات تو کر لیتے ہیں
آتے جاتے ہیں ملاقات توکرلیتے ہیں

    نکہت امروہی جدید غزلیہ شاعری کا ایک معتبر نام ہے۔ قومی اور بین الاقوامی مشاعروں میں اپنی شیریں اور مترنم آواز سے مسحور کرتی رہی ہیں۔ آپ کے کلام میں صنف نازک کے مسائل کی کامیابی ترجمانی ملتی ہے۔ موصوفہ کے دواشعار بہت پسند کئے گئے ۔درج ذیل دو اشعار کی سامعین نے خوب خوب پذیرائی کی   ؎

میری گلی سے گزرتے ہو اجنبی کی طرح
یہ انتقام کی خواہش ہے اتفاق نہیں

تمہاری یاد کا دیپک کہاں کروں روشن
میری حیات کے کمرے میں کوئی طاق نہیں

    عزم شاکری اردو کے معروف شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں کے کئی مجموعے قارئین سے خراج تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ اپنے مترنم لہجے کے ذریعہ بھی سامعین کی توجہ مبذول کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔ انہیں سامعین نے بہت انہماک سے سنا   ؎

تیرگی میں صبح کی تنویر بن جائیں گے ہم
خواب تم دیکھوگے اور تعبیر بن جائیں گے ہم

اب کہ یہ سوچا ہے گر آزاد تم نے کردیا
خود ہی اپنے پائوں کی زنجیر بن جائیں گے ہم 

    عزم شاکری کی شاعری سے سحر زدہ سامعین نے ناظم مشاعرہ اور اردو ہندی کے ہر دل عزیز تخلیق کار قاسم خورشید کو سننے کی پرزور فرمائش کی ۔سارے ہال میں تالیوں نے بھی ان کی آمد کی پرزور سفارش کی تب شنکر کیموری نے قاسم خورشید کا بہترین تعارف پیش کرتے ہوئے ان سے اشعار سنانے کی گزارش کی۔

    قاسم خورشید نے تمام سامعین کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کئی غزلوں سے منتخب اشعار پیش کئے جس پر انہیں کا فی داد ملی۔ خصوصی طورپر ان اشعار سے اسٹیج کے کہنہ مشق شعراء کرام بھی محظوظ ہوئے   ؎

اب ان کے خواب گونگے ہوگئے ہیں دل کی بستی میں
اب ان کے بیچ مت آئو اشارا ٹو ٹ سکتاہے

یا یہ شعر   ؎

وہ ایک گھر کہ جو بار بار ٹوٹا ہے
وہی مکان تو دل کے مکاں سے ملتاہے

    عالمی شہرت یافتہ اور علم وادب کے بے حد پسندیدہ اور مستند شاعر ندا فاضلی کی آمد پر تو گویا ہال جھوم اٹھا۔ انہیں سننے کے لئے ہل اس قدر بے تاب نظر آیا کہ ان کے استقبال کے لئے دیر تک تالیاں گونجتی رہیں ۔ندا فاضلی نے عظیم آباد کے کلاسیکی ادیبو ں ، شاعروں  کی بے حد پذیرائی کرتے ہوئے فرمایا کہ میں ممنون ہوں اپنے بھائی قاسم خورشید کا جن کی تجسس پھر مجھے یہاں کھینچ لائیں۔انہوںنے اپنی کئی خوبصورت نظمیں اور غزلیں پیش کیں ۔ بیچ بیچ میں سامعین فرمائش بھی کرتے رہے اورانہوںنے ان کے جذبے کا احترام بھی کیا ندا کے یہ اشعار    ؎

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کبھی زمیں تو کبھی آسماں نہیں ملتا

نئے مکان کا نقشہ ہے زیر غور ابھی
جو کھوچکا ہے وہ گھر بھی خیال میں رکھئے

یا پھر یہ کہ   ؎

تمام عمر مجھے جس کا انتظار رہا
وہ مجھ سے ملنے کو مجھ میں ہی بے قرار رہا

    اس طرح اس انتہائی کامیاب اور تاریخی مشاعرے کے اختتام پرتمام فنکاروں کو شال اور مومینٹو سے سرکار کے آئی اے ایس افسر شری رنگ راج موہن نے عزت افزائی کی۔ سنجے کمار کندن کے شکریے کی تجویز کے ساتھ بہار کا دیر تک یاد کیا جانے والا یہ مشاعرہ اپنی کامیابیوں کی مثال پیش کرتے ہوئے اختتام پذیر ہوئی۔

رپورٹ: نثار احمد فیضیؔ

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1314