donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Press Note
Title :
   Shibli Sadi Bainul Aqwami Seminar Ikhtetam Pazeer

شبلی صدی بین الاقوامی سمینار اختتام پذیر 


نئی صدی میں جامع پالیسی بنانے ،مطالعہ تقابل ادیان اورتصانیف شبلی کی تلخیص و ترجمہ کے ساتھ ساتھ عوامی انداز کے پروگرام کی ضرورت پَر زور 

شبلی اکیڈمی قومی ورثہ ہے اس کی خدمات پر سب کا حق ہے ،حکومت کو بھی چاہیے وہ اس طرح کے ادارہ کوآگے بڑھانے کے لیے ضروری اقدامات کرے ۔ان خیالات کا اظہار پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے شبلی صدی تقریبات کے بین الاقوامی سمینار کے اختتامی اجلاس میں کیا ۔

انھوں نے کہا کہ نئی صدی کی ضرورتوں کے لحاظ سے پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔اور علم و تحقیق کے جس معیار پر دنیا کام کررہی ہے ہمیں اس پر کام کرنا ہوگا ۔پروفیسر ظلی نے اپنی جذباتی تقریر میں کہا کہ وسائل کی محرومی کے باوجود اس عظیم الشان بین الاقوامی سمینارکے کامیاب انعقاد پر(جس میں (۹)نوممالک کے لوگ شریک ہوئے اور جس میں اردو،ہندی،انگریزی،فارسی،عربی،تاریخ و ثقافت،اور دیگر علوم کے ماہرین شریک ہوئے تھے )اللہ کا شکر ادا کیا ۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ شبلی نے ایک صدی قبل برادران وطن کی تہذیب و ثقافت اور ان کی زبان و تہذیب کے جاننے پر زور دیا تھا ضرورت ہے کہ نئی صدی میں ہم تقابلی مطالعہ کا شعبہ قائم کریں اورشبلی کے اس خواب کو پورا کریں جس میں انھوں نے سب کے ساتھ مل کر اس ملک کی خوشحالی کا خواب دیکھا تھا ۔پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے مختلف ممالک کے مندوبین کے تاثرات کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ شبلی منزل کے بہت سے منصوبے ادھورے ہیں ان کی تکمیل ہم پر فرض ہے ۔ہم تاریخ اسلام کے نامکمل سلسلے کی تکمیل،یورپ،انڈونیشیا،ملیشیامیں جاری اسلام اور مسلمانوں کی سرگرمیوں کو بھی کتابی سلسلے میںلانا چاہتے ہیں ،اور اسی کے ساتھ شبلی کا اہم کام حفاظت و اشاعت اسلام کا تھا اس کو بھی جاری رکھنا ہے ۔نیز ان دنوں جبکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف الزامات کی لے تیز ہوچکی ہے اس کے جواب کا بھی منصوبہ ہمیں بنانا ہوگا ۔

قرطبہ یونی ورسٹی کے پروفیسر عبدالحمید نے کہا کہ علمی مقالوں کے ساتھ ساتھ شبلی پر عوامی انداز کے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے ۔پروفیسر رفاقت علی نے کہا کہ نئے ہزارے میں ایک جامع پالیسی اور ہدف کے ذریعہ ہی متعینہ مقاصد کی تکمیل ہوسکتی ہے کیونکہ اب پہلے کے مقابلے چیلنجز زیادہ ہیں ۔شمیم طارق نے اس موقع پر قرار داد پیش کی ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ شبلی کا بڑا کارنامہ ہے کہ انھوں نے ایک علمی نسل کی آبیاری کی جس کے فیض کے چشمے جاری و ساری ہیں ۔ اس موقع پر بہار کے سابق ممبر اسمبلی جناب اخترالایمان نے کہا کہ عصر حاضر میں فکر شبلی کے بنائے ہوئے خاکوں سے استفادہ کی سخت ضرورت ہے ۔

اس سے قبل سمینار کے مختلف اجلاس میں ملک اور بیرون ملک کے مقالہ نگاروں نے علامہ شبلی اور ان کی تصنیفات کے حوالے سے مقالے پڑھے۔اس موقع پر ترکی کے ممتاز اسکالر یوسف قراچہ نے کہا کہ ساٹھ کی دہائی میں یہاں آنے کا اتفاق ہواتھا اس وقت علامہ سے جودلچسپی پیدا ہوئی تھی اس کا عملی ثبوت میں نے الغزالی،سیرۃ النبی اور سفرنامہ روم و مصر وشام کا ترجمہ ترکی زبان میںکر کے دیا ہے ،جو وہاں پر بہت مقبول ہیں ۔تبلیغ اسلام کے لیے علامہ نے اردو کے دیگر زبانوں کے سیکھنے پر زور دیا ۔اس موقع پر انھوں نے ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان کا  اکیڈمی اور بین الاقوامی سمینار کے مندوبین کی خدمت میں سلام پیش کیا ۔ پاکستان کے مہمان اسکالر اور ممتاز قانون داں محمد الغزالی نے کہا کہ علامہ شبلی کا بڑا کارنامہ سید سلیمان ندوی کی تربیت ہے ۔انھوں نے کہا کہ اصل کام آدمی کی تصنیف ہے ۔انھوں نے اپنے پیچھے اہل قلم کی ایک صف کھڑی کردی ۔ہندستان اور پاکستان میں کوئی بھی ایسا ممتاز ادارہ نہیں کہ جہاں شبلی اور شاگردان شبلی کی علمی وادبی خدمات کا تذکرہ نہ ہوتا ہو ۔

استنبول کے معتبر اسکالر اور ممرہ یونی ورسٹی کے ڈاکٹر عبدالحمید براشا نے کہا کہ شبلی کی فکر بہت ہی مثبت تھی ان کو برطانوی سامراج کے سسٹم سے نفرت تھی ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ شبلی نے اسلام اور حضور اکرم ﷺ کے بارے میں مستشرقین کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور مدلل جواب بھی دیا ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ شبلی کو نئے سرسے دریافت کی ضرورت ہے ۔ ڈربن یونی ورسٹی کے پروفیسر سید سلمان ندوی نے کہا کہ علامہ شبلی کی عبقریت ایک صدی بعد بھی برقرار ہے ۔ان کی اسکالرشپ کی داد دیگر زبان کے محققین نے بھی دی ہے ۔پروفیسر خالد محمود نے شبلی کے سفرنامے کو اردو کا ممتازاہم سفرنامہ قرار دیا اور کہا کہ سفرنامہ کی تاریخ شبلی کے سفرنامے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ۔پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ علامہ شبلی نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کردیا اور ان کی اردو فارسی دونوں شاعری قابل قدر ہے ڈ اکٹر احمد محفوظ نے نئے ادبی اصول اور شبلی کے تناظر میں کہا کہ شعرالعجم تنقید اور اصول تنقید دونوں کے معیار متعین کیے جاسکتے ہیں ،

مولانا کلیم صفات اصلاحی نے شبلی منزل کے اولین مہتمم مولانا مسعود علی ندوی کی حیات و خدمات کو نہایت شگفتہ انداز میں پیش کیا اور کہاکہ وہ بیک وقت مصنف و منتظم کی اعلی صلاحیتوں کے مالک تھے ۔  یاسین مظہر صدیقی نے شبلی کی عقیدتوں کے ساتھ  ڈاکٹرمحمد الیاس الاعظمی نے شبلی کے متنوع علمی واسلامی مراسلات پر گفتگو کی ۔شبلی شناسی کے ضمن میں یہ ان کی تازہ دریافت کہی جاسکتی ہے ۔ڈاکٹر عمیر منظر نے شبلی شناسی اور علامہ شبلی کے چند نئے پہلوؤں کا احاطہ کیا ۔ڈاکٹر محمود مرزا نے شبلی کے سیاسی افکار کا احاطہ کیا ۔ 

ڈاکٹر عزیر شمس ،ڈاکٹر ایاز احمد اصلاحی،محمد فرمان ندوی ،پروفیسر ابو سفیان اصلاحی ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی ،سید عزیز الرحمن،ڈاکٹر جمشید ندوی ،ڈاکٹر علاء الدین خاں،پروفیسر سید محمد عزیزالدین حسین ،حکیم ارشاد اعظمی،پروفیسر ظفر احمد صدیقی ،ڈاکٹر عرفات ظفر، ڈاکٹر ابو سفیان جامعی ،ڈاکٹر اشہد رفیق ندوی ،ڈاکٹر محمد عارف عمری ،ڈاکٹر محامد ہلال ،ڈاکٹر شاداب عالم ،ڈاکٹر محی الدین آزاد ،ڈاکٹر ایوب صدیقی ندوی ،مولوی فضل الرحمن اصلاحی ،ارشد زماں،فرید الدین ندوی ،ڈاکٹر محمد طاہر ،ڈاکٹر فیضان اعظمی وغیرہ نے مقالے پڑھے۔

اس موقع پر کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیاگیا تھا جس کو کافی پسند کیا گیا ۔شبلی اکیڈمی کا میوزیم عوام کی دلچسپی کا خاص مرکز رہا ۔جس میں اکیڈمی کی مطبوعات کے مسودہ،بزرگوں تصاویر،تاریخ اور دیگر قدیم چیزوں کو پہلی بار عوام کے سامنے پیش کیا گیا ۔صدی تقریبات میں خواتین اور طالبات کی دلچسپی قابل ذکر ہے ۔نیز اس موقع پر شہر اعظم گڑھ اور مضافات کے ہر طبقے کے لوگ مختلف اجلاس میں شریک ہوتے رہے ۔

اس موقع پر ایک عالمی مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت دہلی اردو اکیڈمی کے کے وائس چیرمین پروفیسر خالد محمود نے فرمائی ۔جس میں جناب عبداللہ،میکس بروس نادر(امریکہ)ڈاکٹر شمس بدایونی،شمیم طارق،ڈاکٹر احمد محفوظ،پروفیسر شہپر رسول،مصداق اعظمی،نیاز جے راج پوری ،ممتاز اعظمی نے کلام پیش کیا ۔مشاعرہ کی نظامت عمیر منظر نے انجام دی ۔

*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 749