donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Press Release
Title :
   Aik Roza Qaumi Seminar Ba Unwan Krishan Chander

یک روزہ قومی سمینار بعنوان

’معاصر ہندوستانی تناظر میں کرشن چندر کی معنویت‘


مورخہ 30اپریل،2015کو  امن فاؤنڈیشن جھا جھا کے زیر اہتمام گاندھی سنگراہالیہ پٹنہ میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی(وزارت ترقی انسانی وسائل ، حکومت ہند)، کے اشتراک سے ’معاصر ہندوستانی تناظر میں کرشن چندر کی معنویت‘ کے عنوان سے یک روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں کثیر تعداد میں قلم کاروں ، دانشوروں، اسکالرس ، اساتذہ، ریسرچ اسکالرس، سماجی شخصیات اور طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔

سمینار کا آغاز امن فاؤنڈیشن کے سکریٹری جناب مقبول احمد کے خیر مقدمی کلمات کے ساتھ ہوا، جس میں انھوں نے تنظیم کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے مقررین ، شرکا اور مہمانوں کا پرزور خیر مقدم کیا ساتھ ہی انھوں نے کرشن چندر کی ادبی خدمات کا مختصراً جائزہ لیا۔ اس موقع پر تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد اختر انصاری نے کرشن چندر کے فکرو فن کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا، انھوں نے کہا کہ کرشن چندر جیسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اردو ادب میں ان کی حیثیت ایک لیجینڈ کی ہے۔ افتتاحی اجلاس کی صدارتی تقریر کرتے ہوئے جناب عبد الصمد نے کہا کہ کرشن چندر نے اپنی تحریروں میں سماجی سروکار پر سب سے زیادہ زور دیا، انھوں نے کرشن چندر پر مزید تحقیق کرانے پر زور دیا۔ موصوف نے کہا کہ کرشن چندر دراصل اردو فکشن کے آبرو تھے۔ اس موقع پر اردو کے مشہور فکشن نگاراور مہمان ذی وقار جناب خورشید حیات نے کہا کہ کرشن چندر نے کمزور طبقات کی آواز کو سب سے زیادہ  اپنی تحریروں میں جگہ دی۔ انھوں نے کہا کہ کرشن چندر ذود نویس تھے اور انھوں نے اردو ادب کے تمام گوشوں کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ انھوں نے امن فاؤنڈیشن کی جانب سے اس پروگرام کے انعقاد پر تمام اراکین کو مبارکباد پیش کی۔ اس موقع پر کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر سید احمد قادری نے کرشن چندر جیسی ہمہ جہت شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہر بڑے فنکار و تخلیق کار کو اس کے عہد میں وہ مرتبہ نہیں دیا جاتا، جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں، لیکن بعد کے عہد میں ان کے فنی کارناموں کا منصفانہ جائزہ لے کر انھیں ان کا مقام عطا کیا جاتا ہے جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں۔  

افتتاحی تقریب کے بعد سمینار کی کارروائی تین سیشن پر مشتمل رہی۔پروفیسر علیم اللہ حالی کی صدارت میں پہلے سیشن میں مقالے پیش کیے گئے، جس میں جناب خورشید حیات، ڈاکٹر منظر اعجاز، ڈاکٹر سید احمد قادری، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر حسن مثنیٰ نے اپنے اپنے مقالے میں کرشن چندر کے فکرو فن کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا۔ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر ریحان حسن نے انجام دیے ۔ پروفیسر علیم اللہ حالی نے صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سبھی مقالے وقیع تھے اور کئی نئے نکات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ دوسرے سیشن کے مقالے ڈاکٹر منظر اعجاز کی صدارت میں پیش کیے گئے، جس میں مقالہ نگاروں کی حیثیت سے ڈاکٹر نسیم احمد نسیم ، ڈاکٹر ریحان حسن، ڈاکٹر ابو بکر رضوی نے مقالے پیش کیے جب کہ ڈاکٹر ثوبان سعید اور ڈاکٹر عبد الحئی کے بھیجے گئے مقالے پڑھے گئے۔ اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے کی۔ اپنی صدارتی تقریر میں ڈاکٹر منظر اعجاز نے تمام پیش کیے گئے مقالوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تمام مقالے الگ الگ نوعیت کے ہیں، لہٰذا اس کی انفرادی اہمیت ہے ۔ سمینار کے تیسرے اور آخری سیشن کی صدارت جناب خورشید حیا ت نے کی اس سیشن میں مقالہ نگاروں کی حیثیت سے جناب شمیم قاسمی، محترمہ صدف اقبال، محترمہ زرنگار یاسمین، محترمہ مہ ناز پروین شامل ہوئیں۔ اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر ابو بکررضوی نے کی۔ اپنے صدارتی خطبے میں جناب خورشید حیات نے کہا کہ اس سیشن میں جو مقالے پڑھے گئے وہ یقینا قابل تعریف ہیں۔ تاہم ابھی بھی کرشن چندر پر نئے زاویے سے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر میںڈاکٹر شاہد اختر نے تمام مہمانان، مقالہ نگاروں، سامعین اورمیڈیا حضرات کے علاوہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا تہِ دل سے شکریہ ادا کیا۔


(پریس ریلیز۔ ناہید تبسم، پٹنہ)

**************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 575