donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Press Release
Title :
   Bazme Urdu Qatar Ka October 2015 Ka Mahana Tarhi Mushaira

 

قطر کی قدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کا

 

اکتوبر  ۲۰۱۵ء  کا ماہانہ طرحی مشاعرہ

    اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے جذبے سے معمور ، با کمال شاعروں اور ادیبوں کی منفرد تنظیم، بزمِ اردو قطر (قائم شدہ 1959سنہئ) کے زیر اہتمام ، حسب روایت کامیاب طرحی مشاعرہ بروز جمعہ بتاریخ  ۱۶ / اکتوبر، بمطابق  ۲  محرم الحرام، بمقام علامہ ابن حجر لائبریری، منعقد کیا گیا۔  جہاں قطر میں مقیم شعراء  اور سامعین نے اپنی حاضری سے محفل مشاعرہ کو زینت بخشی تو وہاں دیگر ممالک کے شعراء  نے بھی برقی ذرائع سے اپنا کلام بھیج کر بزمِ اردو قطر سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیا۔  اس مشاعرے میں پر تکلف عشائیے کا  بھی انتظام تھا۔

    یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ دوحہ میں مقیم محبانِ اردو،  دیار غیر میں رہتے ہوئے ، اپنی ملازمتوں اور دیگر ذمہ داریوں کے باوجود، پر خلوص جذبہ کے ساتھ،  اردو زبان کی ترویج و ترقی میں  بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور بخوبی اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔   بزمِ اردو قطر، انھیں مخلص محبانِ اردو کی ایک نمائندہ تنظیم ہے جس کے توسط سے معیاری ادبی پروگراموں کا انعقاد عمل میں آتا ہے۔  بزمِ اردو قطر کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات، ادبی وراثت کو  نسل در نسل منتقل کرنے میں کارگر ثابت ہوئے ہیں۔  بزم ِاردو قطر، کے اراکین، منتظمین و سامعین کی یہ کوششیں قابلِ تحسین ہے۔

اس طرحی مشاعرہ میں، شاعروں کو جس مصرعِ طرح پر  طبع آزمائی کی دعوت دی گئی تھی  وہ میر تقی میرؔکا مندرجہ ذیل مصرع تھا:

"دوری میں کروں نالہ و فریاد کہاں تک"

یہ مصرع بر وزن "مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن" ہے اور قوافی ہیں کہاں، نشاں ، زباں وغیرہ۔
اس مشاعرے کی صدارت جناب ڈاکٹر عطا الرحمٰن  صدیقی نے فرمائی۔  جناب مظفر نایابؔ نے بحیثیت مہمانِ خصوصی اس مشاعرہ کو زینت بخشی۔  نایابؔ صاحب، تقریباً  تین دہائیوں سے گیسوئے شعر و سخن کو سنوارنے میں مصروف ہیں۔مہمانِ اعزازی کی نشست پر جناب جمیل فیروز جلوہ افروز تھے۔  مشاعرہ کی نظامت ادیب و تنقید نگار جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے فرمائی۔ ڈاکٹر  فیصل حنیف بزمِ اردو قطر کے چئیرمین ہیں۔ آپ کو بزمِ اردو قطر کے علاوہ کئی ادبی تنظیموں کی نمائندگی کا شرف بھی حاصل ہے۔  گزرگاہ خیال فورم اسی کڑی کا ایک حصہ ہے جس نے " غالب فہمی" جیسے کامیاب اور منفرد ادبی پروگرام کو تین سال سے زیادہ عرصے سے جاری رکھا ہوا ہے۔  

حسب ِروایت، حصولِ برکت کی غرض سے پروگرام کا آغاز تلاوت ِکلام پاک سے ہوا  اور  جناب شمس الرحمٰن صدیقی کو یہ شرف حاصل ہوا۔  بزمِ اردو قطر کے صدر جناب محمد رفیق شاد اکولوی ،  مہمانوں کے استقبال کے لے  حاضر ہوئے۔  کئی انفرادی خوبیوں کے علاوہ آپ ایک با کمال شاعر اور ادیب بھی ہیں۔

جناب مقصود سلطان پوری نے  جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی کی حمد باری تعالیٰ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اس  حمد شریف کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیے :

زندگی کا سفر اور کڑی دھوپ ہے
تیری رحمت فقط سائباں سائباں
کتنی سادہ سی ہے یہ زمین سخن
حمد نے کردیا آسماں آسماں

حسب روایت ،  قطر سے باہر  مقیم شعرائے کرام کی منتخب طرحی غزلیں، مقامی حضرات  نے پیش کیں جن میں جناب افتخار راغبؔ، جناب عبدالقدیر شاکر، جناب غلام مصطفیٰ انجم، جناب تصور حسین، جناب فیروز خان، جناب مقبول احمد، جناب روئیس ممتاز، جناب افروز عالم، جناب مرزا  طلعت  اعجاز، جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی اور جناب سیف اللہ محمدی کے اسماے گرامی شامل ہیں۔   نمونۂ  کلام پیش خدمت ہے:

محترمہ رضیہ کاظمی

(امریکہ):

ہے سوزِ دروں  وہ کہ جو آیا نہ زباں تک
دل راکھ ہوایوں کبھی اٹھا نہ دھواں تک

جناب انور جاوید ہاشمی

( کراچی، پاکستان):

یہ مشقِ سخن ہے کہ رواں ذہن و قلم ہے
لکھتے ہیں حکایاتِ جنوں عصر ِرواں تک

جناب تنویر پھولؔ

( نیویارک، امریکہ):

دعویٰ تھا خدائی کا جنھیں خاک ہوئے ہیں
ملتا نہیں اب ان کا کہیں نام و نشاں تک

جناب حسن آتشؔ چاپدانوی

(کولکاتا، ہندوستان):

جانے کو نہیں ہے یہ کسی طور سے آتشؔ
دکھ درد کو آنا تھا فقط میرے مکاں تک

جناب احمد رئیس نظامی، اجین، ہندوستان:

نادانی میں کر  جاؤں نہ میں حد سے تجاوز
بہتر ہے بتا دیجئے مری حد ہے کہاں تک

جناب رضوان مہذبی

( ریاض،  سعودی عرب):

صحرا ہوں مری پیاس بھی دنیا سے الگ ہے
میں چل کے نہ جاؤں گا کبھی آبِ رواں تک

محترمہ عالیہ ؔ تقوی

(الٰہ آباد، ہندوستان):

محدود رہی سوچ جہاں سود و زیاں تک
آتی ہی نہیں بات محبت کی زباں تک

جناب آسیؔ سلطانی،

(کراچی، پاکستان):

آسیؔ ترے کھاتے میں نہیں کوئی عمل خاص
پہنچے گا فقط اس کے کرم ہی سے جناں تک

جناب آزر شاہین

( امریکہ):

توہی اسے رکھ لے مرے بھائی، مجھے ڈر ہے
بک جائے نہ جھگڑے میں یہ آبائی مکاں تک

محترمہ رعنا شیرینؔ

( حیدر آباد، ہندوستان):

حیرت ہے کہ جب آگ لگی میرے مکاں میں
کیوں آگ وہ آئی نہ پڑوسی کے مکاں تک
اس طرح مرے زخم بھرے وقت نے شیریںؔ
باقی نہ رکھا دل پہ مرے کوئی نشاں تک

جناب انس نبیلؔ

( اکولہ،ہندوستان):

کس طرح ضیاء چبھتی کہ آنکھوں میں ہماری
چبھتا نہیں غیروں کے چراغوں کا دھواں تک
یاروں کی تسلی سے نہ گھبرا کے ٹھہرنا
اے درد اترنا ہے تجھے جسم سے جاں تک

محترمہ رضیہ سبحان

(کراچی، پاکستان):

بن اس کے ہے دشوار یہاں سانس بھی لینا
آیا ہے کوئی دل میں اتر کر رگ جاں تک
جس روز یقیں آئے گا مر جائیں گے اُس دن
رہنے دو محبت کو یونہی وہم و گماں تک

جناب شمس الغنی

( کراچی، پاکستان):

جس رنگ میں دیکھا تجھے بے مثل ہی پایا
حسنِ لب و عارض سے ترے حسنِ بیاں تک
مہلت ہی نہ دے گی یہ زر و  مال کی گردش
گر سود  سے نکلیں گے تو پہنچیں گے زیاں تک

     دیگر ممالک کے۱۳  شعرائے کرام کی غزلوں پر سامعین کی جانب سے خوب داد ملی۔  بزمِ اردو قطر کی جانب سے ان شعرائے کرام کا شکریہ ادا کیا گیا،  اور امید ظاہر کی گئی کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح مشاعروں میں شرکت فرماکر، اردو زبان سے اپنی محبت اور بزم ِاردو قطر سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے رہیں گے۔

    یہاں اس بات کا ذکر کردینا مناسب ہوگا کہ جہاں اس دور میں طرحی مشاعروں کے انعقاد سے گریز کیا جاتا ہے، بزمِ اردو قطر کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ طرحی مشاعروں کا انعقاد کرکے، شاعروں کو اپنا فن ابھارنے اور اپنی شاعری کو سنوارنے کا موقع فراہم کیا جاسکے  اور اپنے اس مقصد کے حصول میں بزم کو بہت حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔  طرحی مشاعرے اردو زبان کی روایتوں کو قائم رکھنے اور  آنے والی نسلوں تک ان روایات کو منتقل کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہیں۔  

    بیرونی ممالک سے موصول شدہ غزلوں کو پیش کرنے کے بعد  بزمِ اردو قطر کے رابطہ سکریٹری جناب وزیر احمد وزیرؔ نے میر تقی میرؔ کی ایک غزل کو اپنے ترنم سے پیش کیا۔  وزیر صاحب شاعر تو ہیں ہی مگر خالق کائنات نے انھیں  مترنم آواز سے  بھی نوازا ہے۔ میر تقی میر  ؔکی غزل کے کچھ اشعار پیش ہیں:

منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

    اس غزل کے فوری بعد خاکسار (سید فیاض بخاری کمالؔ) کو اپنی غزل پیش کرنے کا موقع فراہم ہوا۔  میری کہی ہوئی طرحی غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

باندھی ہے امید ان سے دغا جن کا ہے شیوہ
اپنی ہی حماقت ہمیں لائی ہے یہاں تک
ہوجاؤں فنا ایسے ترے عشق میں جاناں
ہونے پہ نہ ہونے کا بھی ہوجائے گماں تک
جلتے ہیں تڑپتے ہیں کمال آپ کے غم سے
وہ آگ لگائی ہے نہیں جس میں دھواں تک

( سید فیاض بخاری کمالؔ)

جناب  زین العابدین عابدؔ گونڈوی نے  پہلی بار بزم کے مشاعرے میں اپنی طرحی غزل  پیش کی۔ آپ کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیں:

ظلمت کدے میں نور کی مانند ہو عابدؔ
چھپتا نہیں ہے نور چھپاؤ گے کہاں تک

( جناب زین العابدین عابد ؔ گونڈوی)

برمِ اردو قطر کے میڈیا سکریٹری جناب روئیسؔ ممتاز نے اپنے غیر طرحی کلام سے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔ چند اشعار آپ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں:

خراب خانۂ دل میں ہے تیرگی لیکن
چراغِ عشق کی خواہش جوان اب بھی ہے
امیدِ شمع یہ پتھرا گئی ہے ایسا نہیں
نظر کا دھوکہ ہے سب اس میں جان اب بھی ہے

(جناب روئیسؔ ممتاز)

جناب وصی الحق وصیؔ کچھ مہینوں ہی سے دوحہ قطر کی سرزمین میں شعر و سخن کے کارواں سے وابستہ ہوئے  ہیں۔ آپ کے خوش نما گلہائے سخن سے آپ کے گہرے نظریات و خیالات کا پتہ چلتا ہے۔ وصی صاحب کے طرحی اشعار کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

ساحل پہ کہیں بیٹھ کے موجوں سے الجھنا
حالات نے سب چھین لیا کارِ زیاں تک
اے زندگی ہر ایک تری ساز میں گم ہے
کب کس کی رسائی ہے ترے سوز ِنہاں تک
پہلے تو ہمیں اس نے کئی خواب دکھائے
پ?ر لوٹ لیا شہر کا سب امن و اماں تک

( جناب وصی الحق وصیؔ)

جناب وزیر احمد وزیرؔ نے دلکش  ترنم میں اپنی غیر طرحی غزل پیش کی۔چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:

کیا کہیں رات نے لوٹا تو نہیں سورج کو
ایک مدت سے ہیں مہمان اندھیرے میرے
لوریا گا کے سلاتا تھا جنھیں کاندھوں پر
یاد آتے ہیں وہ معصوم سے بچے میرے

(جناب وزیر احمد وزیرؔ)

بزمِ اردو قطر کے نائب صدر جناب مقصود انور مقصودؔ ،  قطر کے ایک پر جوش شاعر ہیں۔ آپ ترنم اور تحت دونوں میں اپنا کلام پیش کرتے ہیں۔  مقصود صاحب  کی طرحی غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

اک ضربِ مسلسل ہے نظر جائے جہاں تک
زخموں کے نشاں کوئی مٹائے گا کہاں تک
آنکھوں سے ٹپکتا ہے لہو بن کے مرا درد
جائے گی نظر کس کی مری آہ و فغاں تک
قاتل کی حکومت ہے حکومت کا ہے دستور
وہ قتل کریں آپ ہلائیں نہ زباں تک

( جناب مقصود انور مقصودؔ)

جناب افتخار راغبؔ کی شخصیت، ادبی دنیا میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔  آپ بزم ِاردو قطر کے جنرل سیکریٹری اور روحِ رواں ہیں۔  بزمِ اردو قطر کی ادبی محافل کو منعقد کرنے میں آپ کی انتھک محنت اور کوشش کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ آپ کے طرحی کلام کی جھلکیاں پیش خدمت ہیں:

کچھ کیجئے سر مستیِ غفلت کا مداوا
لٹ جائے نہ اب دولتِ احساسِ زیاں تک
کیا تیرگیِ بغض و عداوت سے ڈروں میں
روشن ہے محبت سے مرا قریۂ جاں تک
درپیش کئی وادیِ پرخار ہیں راغبؔ
تعمیر ِدل وجان سے تسخیرِ جہاں تک

( جناب افتخار راغبؔ)

جناب یوسف کمال ایک  سینئر شاعر ہیں۔ ان کی طرحی غزل کا ایک نمایاں شعر  بھی ملاحظہ فرمائیں:

کوئی بھی رہِ شوق میں پہنچا نہ وہاں تک
میں تیرے لیے آگیا ہوں دیکھ کہاں تک

( جناب یوسف کمال)

بزمِ اردو قطر کے میرِ کارواں جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی بہت  عمدہ شاعری کرتے ہیں اور بڑے اعتماد کے ساتھ دلکش انداز  میں کلام پیش کرتے ہیں۔  ان کی طرحی غزل کے چند اشعار آپ کی خدمت میں حاضر کر رہا ہوں:

ہے درد کچھ ایسا کہ نکل جائے ہے جاں تک
فرقت میں دھواں ہوگئی اب آہ و فغاں تک
قربت میں تری بات نکلتی نہیں منھ سے
"دوری میں کروں نالہ و فریاد کہاں تک"
اْس لفظ نے پھر شادؔ کہیں کا نہیں چھوڑا
جو دل سے تو نکلا تھا، رکا آکے زباں تک

(جناب محمد رفیق شادؔ اکولوی)

جناب عتیق انظرؔ انڈیا اردو سوسائٹی  کے صدر ہیں۔آپ کا مجموعہء  کلام ’’پہچان‘‘ چند دہائیوں پہلے منظر عام پر آچکا ہے۔  آپ کی شاعری میں فطرت کے مناظر کو بڑی خوبی سے آسان الفاظ میں بیان کرنے کا ہنر پایا جاتا ہے۔ آپ کی طرحی غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:

ہم بات میں اس کی تو چلے آئے ہیں یہاں تک
کیا جانئے وہ بت ہمیں لے جائے کہاں تک
کیا آگ تھی باقی نہ بچا ایک نشاں تک
دل خاک ہوا جل کے پر اٹھا نہ دھواں تک
اب ایک زمانہ تمھیںے کہنے لگا قاتل
تم خون کے دھبوں کو مٹاؤ گے کہاں تک

( جناب عتیق انظرؔ)

قطر کی ادبی محافل کو شاعرِ خلیج،  فخر المتغزلین  جناب جلیلؔ نظامی جیسا شاعر نصیب ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی اردو ادب کا گرویدہ ہو جو جناب جلیلؔ نظامی کے کلام کو سننے کے بعد داد دیے بغیر رہ پائے۔آپ کی طرحی غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

محدود نہیں فکرِ سخن لفظ و بیاں تک
بن جاتے ہیں کچھ زیر و زبر تیغ و سناں تک
جس شہر کی مٹی کو لہو اپنا پلایا
اس شہر میں کھَلتے ہیں مرے نام و نشاں تک
پھیلا ہوا اک سلسلۂ بیم و رجا ہے
اس کوچۂ  قاتل سے مری سرحدِ جاں تک

(جناب جلیلؔ  نظامی)

اس کے بعد بزمِ اردو قطر کے اس مشاعرہ کے مہمانِ خصوصی، جناب مظفر نایابؔ نے اپنا کلام پیش فرمایا۔  آپ کی طرحی غزل کے چند اشعار حاضر خدمت ہیں:

غفلت نے مجھے دیکھئے پہنچایا کہاں تک
ہوں بر سرِ جنگ اور نہیں تیر و کماں تک
اس درجہ مہارت سے کرے چاک وہ داماں
کچھ وہم و گماں تک نہیں کچھ وہم و گماں تک
کیا جنگ کرے گا تو اے نایابؔ ترے پاس
شمشیر و سناں تک نہیں شمشیر و سناں تک

( جناب مظفر نایابؔ)

مشاعرہ کے اختتام سے پہلے مہمانِ اعزازی جناب جمیل فیروز ، مہمانِ خصوصی  جناب مظفر نایابؔ اور صدرِ مشاعرہ جناب  ڈاکٹر عطاء و الرحمٰن صدیقی ندوی  نے اس مشاعرہ کے متعلق اپنے  گراں قدر تاثرات اور خیالات سے نوازا۔ آپ نے بزمِ اردو قطر کو اس کامیاب  مشاعرے  کے انعقاد پرمبارکباد پیش کی اور اراکینِ بزم کی خدمات کو  سراہا۔  ناظم مشاعرہ ڈاکٹر فیصل حنیف نے شعراء  اور سامعین کا شکریہ ادا کیا اور یوں بزمِ اردو قطر کی یہ خوبصورت شام، ایسی ہی ایک اور شام کے منعقد ہونے تک ملتوی کر دی گئی۔

رپورٹ:  سید فیاض بخاری کمالؔ،
نائب سکریٹری،  بزم اردو قطر، دوحہ قطر

******************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 607