donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Press Release
Title :
   Dr. Farman Fatahpuri Ki Rahlat Per Urdu Ghar Mein Taziyati Jalsa

ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی رحلت پر اردو گھر میں تعزیتی جلسہ
 
نئی دہلی۔6؍اگست 2013 (جاوید رحمانی) اردو کے ممتاز اسکالر، ادیب اور دانش ور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا ۳؍اگست ۲۰۱۳ کو کراچی (پاکستان) میں انتقال ہوگیا۔ وہ 87 برس کے تھے۔ ان کی وفات پر آج انجمن ترقی اردو (ہند) کے مرکزی دفتر اردو گھر میں انجمن کے صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کی صدارت میں ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی، جس میں سب سے پہلے انجمن کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ۱۶؍جنوری ۱۹۲۶ کو فتح پور (اترپردیش) میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم فتح پور سے ہی حاصل کی۔ ۱۹۴۸ میں الٰہ آباد سے انٹر میڈیٹ کیا اور پھر ۱۹۵۰ میں آگرہ یونی ورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ پاکستان ہجرت کرگئے تھے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ بعد میں انھوں نے کراچی یونی ورسٹی سے ایم۔ اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ پہلے ایسے پاکستانی اسکالر تھے جنھیں ۱۹۷۴ میں ڈی لٹ (اردو) کی ڈگری سے سرفراز کیا گیا۔ ڈاکٹر فاروقی نے کہا کہ فرمان فتح پوری صاحب مختلف موضوعات پر پچاس سے زیادہ کتابوں کے مصنف اور مرتّب تھے۔ اُن کے انتقال سے ہم صفِ اوّل کے ایک ادیب، محقق اور نقاد سے محروم ہوگئے ہیں۔ جناب شاہد ماہلی نے کہا کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ممتاز نقاد اور دانش ور تھے۔ انھوں نے نیاز فتح پوری کی وراثت کو اعلا مقام پر پہنچایا۔ پاکستان جانے کے بعد انھوں نے رسالہ ’نگار‘ کو جاری رکھا۔ ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پورا کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے مختلف سمیناروں میں بھی تشریف لائے اور انھوں نے یہاں اپنے مقالے بھی پیش کیے۔ دعا ہے کہ خدا اُن کی مغفرت کرے اور اُن کے لواحقین کو صبر عطا کرے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز نے کہا کہ فرمان فتح پوری صاحب سے میری پہلی ملاقات خلیق انجم صاحب کے گھر پر اُس وقت ہوئی جب وہ اور مشفق خواجہ صاحب ۱۹۸۰ کے دہے کے ابتدائی برسوں میں دہلی تشریف لائے تھے۔ فرمان فتح پوری صاحب کا علم اور ان کی ادبی لیاقت تو سامنے کی چیزیں ہیں لیکن وہ بلا کے خورد نواز بھی تھے، وہ جتنے عرصے دہلی میں رہے ان کا سلوک ہمارے ساتھ انتہائی مشفقانہ رہا یہاں تک کہ انھوں نے مجھے ۱۹۸۹ میں کراچی میں نیاز فتح پوری پر منعقد ہونے والے سالانہ جلسے میں خصوصی لکچر کی دعوت دی۔ کراچی میں باوجود اس کے کہ وہ ہمارے بزرگ تھے، میں نے ان کی مہمان نوازی کو اوجِ کمال پر پایا۔ ایسے لوگ روز روز نہیں پیدا ہوتے، ان کے بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن جتنا بھی کہا جائے کم ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم جو اس تعزیتی نشست میں شامل ہونے سے قاصر تھے، انھوں نے اس تعزیتی نشست میں بذریعۂ فون خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں عمر کے اعتبار سے خود کو فرمان فتح پوری صاحب کے خوردوں میں شمار کرتا ہوں لیکن وہ میرے اتنے مشفق اور مہربان تھے کہ دہلی ہو یا کراچی وہ میری پذیرائی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے بڑے بڑے علمی کام بھی کیے۔ انھوں نے نیاز فتح پوری کے رسالے ’نگار‘ کو مرتے دم تک زندہ رکھا اور وہ ان کی یاد کو ہمیشہ گلے سے لگائے رہے۔ وہ مجسم خلوص تھے اور ان کے خلوص میں کہیں بھی کسی قسم کی دنیا داری کا شائبہ نہیں تھا۔ ان کے انتقال کی خبر میرے لیے ایک بہت بڑا ذاتی غم ہے جسے میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ بس میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغرفت فرمائے۔ جناب سیّد شریف الحسن نقوی نے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری زندگی بھر علم و ادب کی آبیاری کرتے رہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر اہم کتابیں لکھیں۔ بلاشبہ ان کے انتقال سے علم و ادب کی دنیا میں ایسا خلا پیدا ہوا  ہے جسے آسانی سے پُر نہیں کیا جاسکتا۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ فرمان فتح پوری کو بہ حیثیت ادیب اور نقاد اردو دنیا میں ایک اعلا مقام حاصل تھا۔ انھوں نے نیاز فتح پوری کی روایت اور اقدار کو مرتے دم تک زندہ رکھا۔ پاکستان جانے کے بعد انھوں نے نیاز فتح پوری کے رسالے ’نگار‘ کو جاری رکھا۔ فرمان فتح پوری صاحب ادیبوں اور شاعروں کے بڑے قدردان تھے۔ انھوں نے ہندستان اور ہندستان کے ادیبوں اور شاعروں سے اپنے تعلقات ہمیشہ استوار رکھے۔ انھیں ہندستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے ادبی حلقوں میں یکساں عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
 
******************
 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 595