donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Press Release
Title :
   Guzargah Khayal Forum Ke Zer Ehtemam Ghalb Fahmi Ka 19 Wan Mahana Almi Adbi Ijlas

 


گزر گاہِ خیال فورم کے زیرِ اہتمام غالب ؔ فہمی کا انیسواں ماہانہ علمی وادبی اجلاس

صرفِ وفا

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گلِ تر  ایک چشمِ خوں فشاں  ہو  جائے گا

اختراع پرور، سخن سنج ، غالب فہم و غالب پسند  صاحبان گزرگاہِ خیال فورم نے گزشتہ ہفتہ یہ بھید پا لیا کہ چمنِ سخن میں گلِ تر کو خوں فشانی پر کیونکر آمادہ کیا جا سکتا ہے- اندوہِ شبِ فرقت بیاں نہ کرنے کے سبب داغِ مہ کو بے تکلف  مُہرِ دہاں بننے کے مرحلۂ  شوق کو دیکھنے اور اس سے فروغِ حسنِ سخن کی خاطر گزرگاہِ خیال فورم نے مرزا اسداللہ خان غالبؔ  کو عالمِ ارواح سے عالمِ آب وگِل میں نظر گاہِ اہل نظر علامہ ابن حجر لائبریری، پچھلے ہفتے، اپنا حال سنانے بلا لیا- محبانِ غالبؔ کے کانوں میں اس کی بھنک پڑ گئی اور پھر کیا ہوا کہ وہ جوق در جوق گزرگاہِ خیال فورم کے انیسویں ماہانہ غالبؔ مذاکرہ  میں چار چاند لگانے آ موجود ہوئے- 

لاکھوں  لگاؤ  ایک  جُرانا  نگاہ  کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں

غالبؔ کے کلام کو پڑھ کر اور اس کی ندرت دیکھ کر تعجب ہوتا ہے- ہر دو مصرعے ہم پلہ، اس پر حسنِ بیان  اور حسنِ تشیبہ کی خوشنمائی اور دلربائی  ایسی وجدانی کیفیات طاری کر دیتیں ہیں جن کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں- غالبؔ کے ایک شعر کی تعریف غالبؔ کے دوسرے شعر کو نقل کر کے ہی کی جا سکتی ہے- کلامِ غالبؔ ایک ایسا گنجینۂ گوہر ہے جس کا ہر شعر بلکہ ہر لفظ ایک موتی ہے- ایک ایسا  آئینہ خانہ ہے جس میں ہر مصرع ایک عکسِ حیراں لیے چشمِ حیراں کو مزید حیران کرنے کا سامان بہم پہنچائے بیٹھا ہے-

یارانِ نکتہ دان قطر کی حیرانی کو بیک وقت، کم کرنے اور بڑھانے کے لیے بسلسلۂ غالبؔ فہمی گزرگاہِ خیال فورم  کا انیسواں ماہانہ علمی و ادبی مذاکرہ  بعنوان " صرفِ وفا" پچھلے  جمعہ ، بمقام  ’’علامہ ابن حجر لائبریری، دوحہ، قطر ‘‘ پر منعقد کیا گیا ،  اہلِ قطر میں سے محبانِ غالبؔ اور غالبؔ شناس، شعراء  و ادبائ، محققین اور سخن فہموں نے اپنی تیغِ زبان کے  جوہر، کمالِ سر گرمی سے دکھانے، مرزا  نوشہ کی غزل 

گر نہ اندوہِ شبِ فرقت بیاں ہو جائے گا
بے تکلف، داغِ مہ  مْہرِ دہاں ہو جائے گا

فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہو جائے گا

پرکھنے آ جمع ہوئے- گزرگاہِ خیال فورم  کے غالبؔ مذاکروں کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ یہاں اہلِ زمانہ کی مروج روش کے بر عکس تکلف کے پردے اٹھا دیے جاتے ہیں اور ہر ذی علم طرفداران و غیر طرفدارانِ غالبؔ کو اپنے مزاج اور فہم کے حقیقی جوہر دکھانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے-

لیجیے ہم تمہید میں کھو گئے اور ادھر  مذاکرے کا آغاز ہوا چاہتا ہے- قطر کی قدیم ترین ادبی تنظیم بزمِ اردو قطر کے صدر، گزر گاہِ خیال فورم کے سیئنر نائب صدر،  اہلِ علم و اہلِ دانش، شکریں باتوں کا رس خالص اہلِ زبان کے لہجے میں لیے، ادنیٰ سی بات کو بھی اپنے نطقِ شیریں سے خاص بناتے ہوئے، جناب شادؔ اکولوی نشست کی نظامت کوتیار بیٹھے ہیں- اسٹیج سجانے کے لیے جناب شادؔ نے ایک 'اور انداز بیاں' کے خاص و منفرد شاعر، غالبؔ فہم اور نکتہ رس و نکتہ چیں، انڈیا اردو سوسایٹی کے نائب صدر جناب عتیق انظرؔ کو مسندِ صدارت پر جلوہ افروز ہونے کی دعوت دی- مہمانِ خصوصی کی نشست کو رونق بخشنے کے لیے ناظم نے پر جوش و با صلاحیت، درد مندِ اردو، شاعر جناب وزیر احمد وزیرؔ کو آواز دی- نشست میں مہمانانِ اعزازی کی حیثیت سے ڈاکٹر نوشاد زبیر جو ماہر مائیکرو حیاتات ہیں اور حیات کے فلسفیانہ پہلوؤں کو کلامِ غالبؔ میں دیکھتے ہیں، اور جناب غفران دانیال، فرزند علی گڑھ شریک ہوئے-

         اجلاس کا آغاز  جناب شادؔ اکولوی نے قرآن حکیم کی آیاتِ مبارکہ کی تلاوت  سے کیا- گزر گاہِ خیال فورم کے غالبؔ مذاکرے کی روایت ہے کہ غالبؔ کی زیرِ بحث غزل کو  انڈیا  اردو سوسائٹی کے بانی و صدر، شاعر خلیج جناب جلیلؔ احمد نظامی ترنم سے پڑھتے ہیں- لیکن آج جنابِ نظامی محفل میں دکھائی نہیں دے رہے- کیا قطر میں نہیں ہیں؟ ہندوستان گئے ہیں چند ہفتوں کے لیے عام آدمی پارٹی (عاپ) کی خاص دعوت پر- عام آدمی پارٹی کی دعوت پر؟ مگر کیوں اور کس لیے؟ آپ نہیں جانتے کہ عام آدمی پارٹی کے دونوں منشور جناب  جلیلؔ نظامی نے منظوم کیے ہیں، اور نہ صرف یہ، بلکہ ان ترانوں کی دلکشی کو  اپنی آواز عطا کر کے کئی گنا بڑھا دیا ہے-  بہت خوب- گزر گاہِ خیال فورم کی جناب سے جناب جلیلؔ نظامی کو بھرپور مبارکباد-  مرزا کے کلام میں جہاں فارسیت زور دکھاتی ہے وہاں ہم جلیلِ دکن کو بلا لیتے ہیں- کیونکہ جناب جلیلؔ نظامی اردو اور عربی کے ساتھ ساتھ فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں جو غالبؔ فہمی کے حوالیسے ایک منفرد خوبی ہے-

اس اجلاس میں غالبؔ کی غزل پڑھنے کے لیے بلبل ِقطر، خوش آواز اور خوش گلو جناب قاضی عبد الملک موجود ہیں، جن کے دستگاہ ترنم کے سب قائل ہیں- قاضی صاحب کی آواز میں مشہور گلوکار رفیع صاحب کی آواز سنائی دیتی ہے- جناب ناظم شادؔ اکولوی کے بقول قاضی صاحب دوحہ میں رفیع صاحب مرحوم کی آواز کا صدقہ جاریہ ہیں- جناب قاضی عبد الملک نے اپنے جادوئی ترنم سے غالبؔ کی غزل "گر نہ اندوہِ شبِ فرقت بیاں ہو جائے گا" پڑھ کر محفل میں نئی روح پھونک دی- غالبؔ کی غزل اور جناب  قاضی عبد الملک کا شعلۂ آواز اور بے مثل ترنم نے غزل کو دوآتشہ بنا دیا- 

 اس مذاکرے میں اقبال اکیڈیمی مڈل ایسٹ کے بانی و چئیرمین اور گزر گاہِ خیال فورم کے بانی و صدر ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ، جناب ظفر صدیقی، ڈاکٹر عطا الرحمن صدیقی، جناب وزیر احمد وزیرؔ، جناب عتیق انظرؔ، ڈاکٹر نوشاد زبیر، جناب غفران دانیال، ڈاکٹر توصیف ہاشمی، جناب مرزا اطہر بیگ، جناب افتخار راغبؔ، جناب سلیم بنگش، جناب شادؔ اکولوی، جناب عمر سلیم قاضی، جناب امجد علی سرورؔ، جناب قیصر ؔمسعود ، جناب طاہرؔ جمیل، جناب شوکت علی نازؔ، جناب مظفر نایابؔ، جناب محسن حبیبؔ، جناب افضال حسن، جناب عبد الباسط، جناب سید حامد، جناب قاضی عبد الملک، اور جناب رویسؔ ممتاز نے حصہ لیتے ہوئے سب  اشعار کے معنی و مطالیب پر سیر حاصل بحث کی اوراس غزل کے اشعار میں غالبؔ کے بیان کردہ مخفی اور ظاہری پہلوؤں کو حاضرین کے سامنے پیش کیا ،   پہلو داری، یعنی بظاہر جو معنی سمجھ میں آئیں، سے مختلف معنی جو صرف غور کرنے پر سامنے آئیں،کلام ِغالبؔ کی نمایاں خصوصیت ہے -  اس غزل میں غالبؔ کی پہلو داری پر خاص طور سے اظہارِ خیال کیا گیا- غزل کے مطلع 

گر نہ اندوہِ شبِ فرقت بیاں ہو جائے گا
بے تکلف، داغِ مہ  مُہرِ دہاں ہو جائے گا

کے یہ معنی سامنے آئے کہ چاند کے اندر موجود داغ کو سیاہی کے اعتبار سے مہر سے تعبیر کیا گیا ہے- یعنی اگر میں ہجر کی رات کے کرب کو بیان نہ کر پایا تو میری خاموشی چاند کے داغ کی طرح واضح ہو جائے گی اور شبِ فرقت کا رنج و تکلیف سب پر آشکارا ہو جائے گا- لفظ 'بے تکلف' کے استعمال اور پہلے مصرع میں 'گر نہ' اور ردیف 'ہو جائے گا' کا استعمال شعر کے معنی متعین کرنے اور دوسرے مصرع سے ربط جوڑنے، کے پہلوؤں پر خوب بحث ہوئی- مرزا کے اگلے شعر 

زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب
پر توِ مہتاب سیلِ خانماں ہو جائے گا

شعر کے سیدھے اور ظاہری معنی تو یہ ہیں کہ ہجر میں اگر پتا یوں پانی ہوتا رہا تو چاندنی بھی میرے گھر کے لیے سیلاب بن جائے گی- نکتہ سنج احبابِ گزرگاہ خیال یہ کیونکر مان لیتے کہ مرزا اتنی سادہ اور آسان بات یوں سہل انداز میں کر سکتے ہیں- اس شعر کی شرح کرنے سے پہلے غالبؔ کی ایک فارسی غزل کے چند  شعر سن لیجیے جو اس سیاق و سباق میں بر محل ہیں-

حرف حرفم در مذاق فتنہ جا خواہد گرفت
دستگاہ ناز شیخ و برہمن خواہد شدن

میرے شعروں کا ایک ایک حرف فتنہ پرور ہو گا اور وہ یوں کہ شیخ اس کا ایک مطلب سمجھے گا اور برہمن دوسرا- یعنی ہر کوئی اپنی بساط اور فہم کے مطابق شعر تک پہنچے گا اور اپنا ایک مفہوم نکال کراس پر فخر کرے گا اور دوسرے کو جھٹلائے گا- اسی غزل میں آگے کہتے ہیں کہ 

چشم کور آئینہ دعویٰ بکف خواہد گرفت
دست شل مشاطہ زلف سخن خواہد شدن
شاہد مضمون کہ انیک شہری جان و دلست
روستا آوارہ کام و دہن خواہد شدن

شعر کے معنی جو اب جان و دل کے شہر میں بستے ہیں وہ کام و دہن کی بستی میں آوارہ ہو جاینگے- یعنی وہ اشعار جن میں معنی کی دنیا آباد ہے اور آج ان پر عمیق نگاہ رکھ کر دیکھے جاتے ہیں وہ کل فقط زبان پر رہ جائیں گے، کوئی ان کے مطالیب ، مفہوم اور تہہ داری تک نہ پہنچے گا- 

مرزا کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی اور شعر "زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب" کے ساتھ یہی معاملہ ہو گیا اور ہوتا چلا گیا- کسی شارح نے اس کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر پوشیدہ معنی کی طرف توجہ نہ دی- آج کوئی پونے دو سو برس بعد سخن فہم اور نکتہ چیں صاحبان ِگزرگاہِ خیال نے اس شعر کے ظاہری اور روایتی معنی کو رد کر کے شعر کی لفظیات اور لفظوں کی نشست کے اہتمام کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک اہم سوال اٹھایا، جس سے شعر کی پہلو داری سامنے آئی- ڈاکٹر عطا الرحمٰن صدیقی نے پہلے مصرع میں 'شام ہجر' کی ترکیب پر استفسار کیا- شاعری میں ہجر کی کیفیت کو ہمیشہ 'شب ہجر' یا  'ہجر کی رات' کہہ کر بیان کیا گیا ہے- غالبؔ  کی ترکیب بالکل جدا ہے- دوسرے مصرع میں 'پر توِ مہتاب' یعنی چاندنی کا ذکر ہے جو شام نہیں بلکہ رات کا حصہ ہے- دونوں مصرعوں کو با لترتیب دیکھنے اور غور کرنے پر یہ واضح ہوتا ہے کہ محبوب سے جدائی کے نتیجے میں جو رنج اور تکلیف عاشق کو ملتی ہے وہ ایک مسلسل عمل ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ شدت اختیار کرتا رہتا ہے- یہ عمل شامِ ہجر سے شروع ہوتا ہے جس میں پتا آب ہوتا ہے اور اپنے عروج پر شب کے وقت پہنچتا ہے کہ جہاں  ٹھنڈک فشاں چاندنی بھی موجب آزار بن جاتی ہے- 

جناب امجد علی سرورؔ نے یہ نکتہ اٹھایا کہ شعر کے پہلے مصرع میں تعقید ہے جو آج کے شعراء  کے کلام میں گر  پائی جائے تو اس پر تنقید کی جاتی ہے- جناب عتیق انظرؔ کا کہنا ہے کہ تعقید کے بغیر شعر کہنا مشکل ہے- بہر کیف یہ بات یوں انجام کو پہنچی کہ تعقید کے باب میں غالبؔ  اور دوسرے اساتذہ کے اشعار سند کے طور پر موجود ہیں اور اس لیے نئے شعراء  پر اس ضمن میں تنقید کار فضول ہے- اس کے بعد ان شعروں پر سیر حاصل گفتگو ہوئی-

لے تو لوں سوتے میں اس  کے پاؤں کا بوسہ، مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا

دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے، کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہو جائے گا

سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا، اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا

ادیب و شاعر جناب طاہر جمیل نے پہلے شعر کے باب میں اپنی طالب علمی کے زمانے کے ایک دلچسپ قصے کا ذکر کیا کہ ان کے اردو کے استاد نے کس طرح اس شعر کے مثبت مفہوم سے طلبا کو روشناس کروایا- یعنی کہ یہ شعر ہوس کا ترجمان نہیں بلکہ عقیدت کے ضمن میں بدگمانی سے خائف ہونے کا بیان ہے- یعنی پاک محبت کہیں بدگمانی کی نذر نہ ہو جائے، سے شاعر گھبراتا ہے- اگلے شعر 

گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط
شعلہ خس میں، جیسے خوں  رگ میں، نہاں ہو جائے گا

کو ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ نے غالبؔ کے اس شعر سے واضح کر دیا کہ 

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رْکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

نگاہ گرم، شعلہ خس، خون اور رگ کی مناسبتوں پر خوب بحث ہوئی-

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گلِ تر  ایک چشمِ خوں فشاں ہو جائے گا

وائے گر میرا   ترا   انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا

فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہو جائے گا

پہلے شعر میں مرزا نے 'گلِ تر' کو اس کی سرخی کی وجہ سے 'چشمِ خوں فشاں' سے تشبیہ دی ہے- ترکیب میں لفظ 'تر' کا استعمال بھی  'چشمِ خوں فشاں' کی مناسبت سے خوب ہے- مقطع میں نادان اور دانا میں صنعت تضاد کا بھرپور لطف لیا گیا- اور یوں غزل تمام ہوئی-

جناب ظفر صدیقی نے مقطع سن کر  پوچھا کہ کیا ایک شاعر کے ایک سے زیادہ تخلص ہو سکتے ہیں؟ اور مرزا کے تخلص کے حوالے سے 'اسد' اور 'غالب' کی کہانی پر استفسار کیا- اس کے جواب میں ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ نے چند شعراء  کے نام پیش کیے جنہوں نے ایک سے زیادہ تخلص کا استعمال کیا جن میں مرزا  واجد حسین یاس یگانہ چنگیزی، مصطفیٰ زیدی تیغ الہ آبادی اور دیگر شامل ہیں- شبیر حسن خان جوشؔ ملیح آبادی ، علی سکندر جگرؔ مراد آبادی اور ناصرؔ کاظمی نے اپنے مشہور تخلص بعد میں رکھے تھے-

تخلص کا ذکر ہوا تو ذوقِ تماشہ کی تسکین کو دو باتیں سنیے-  سید محمد میر سوزؔ کے 'سوز' تخلص کے باب میں مولانا محمد حسین آزادؔ نے پر لطف واقعہ 'آب حیات' میں تحریر کیا ہے- لکھتے ہیں "کسی شخص نے اُس سے آ کر کہا کہ حضرت ایک شخص آپ کے تخلص پر آج ہنستے تھے۔ اور کہتے تھے کہ سوزگوز کیا تخلص رکھا ہے۔ ہمیں پسند نہیں۔ انھوں نے کہنے والے کا نام پوچھا۔ اس نے بعد بہت سے انکار اور اصرار کے بتایا۔ معلوم ہوا کہ شخص موصوف بھی مشاعرہ میں ہمیشہ آتے ہیں۔ میر سوزؔ مرحوم نے کہا، خیر کوئی مضائقہ نہیں۔ اب کے صحبت کے مشاعرہ میں تم مجھ سے برسر جلسہ یہی سوال کرنا۔ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور بآواز بلند پوچھا، حضرت آپ کا تخلص کیا ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ صاحب قبلہ فقیر نے تخلص تو میر کیا تھا۔ مگر میرؔ  تقی صاحب نے پسند فرمایا۔ فقیر نے خیال کیا کہ ان کے کمال کے سامنے میرا نام نہ روشن ہو سکے گا۔ ناچار سوزؔ تخلص کیا، (شخص مذکور کی طرف اشارہ کر کے کہا)، سنتا ہوں یہ صاحب گوز کرتے ہیں۔ مشاعرہ میں عجیب قہقہہ اڑا۔ لکھنؤ میں ہزاروں آدمی مشاعرہ میں جمع ہوتے تھے، سب کے کان تک آواز نہ گئی تھی، کئی کئی دفعہ کہلوا کر سُنا۔ ادھر شخص موصوف اُدھر میر ؔ  تقی صاحب، دونوں چپ بیٹھے سُنا کئے۔"

ایک قصہ اور ہے- کسی نے مجازؔ لکھنوی سے پوچھا کہ کیا مجاز آپ کا نام ہے؟ حضرت بولے کہ "جی ہاں"- سوال کرنے والے نے پوچھا کہ آپ کا تخلص کیا ہے؟ مجاز نے سنجیدگی سے کہا "اسرار الحق"-

جناب ظفر صدیقی کے سوال مرزا کے تخلص اسد کے بارے میں مولانا آزاد 'آب حیات' میں لکھتے ہیں "نام اسد اللہ تھا۔ پہلے اسدؔ  تخلص کرتے تھے، جھجر میں کوئی فرومایہ سا شخص اسدؔ تخلص کرتا تھا، ایک دن اُس کا مطلع کسی نے پڑھا :

اسدؔ تم نے بنائی یہ غزل خوب
ارے او شیر رحمت ہے خدا کی

سنتے ہی اس تخلص سے جی بیزار ہو گیا، کیونکہ ان کا ایک یہ بھی قاعدہ (دیوان فارسی میں۰ ۲،  ۲۵  شعر کا ایک قطعہ لکھا ہے، بعض اشخاص کا قول ہے کہ ذوقؔ  کی طرف چشمک ہے، غرض کہ اس میں کا ایک شعر ہے۔

راست می گویم من و از راست سرنتواں کشید
ہرچہ در گفتار فخر تست آں ننگِ من است

تھا کہ عوام الناس کے ساتھ مشترک حال ہونے کو نہایت مکروہ سمجھتے تھے، چنانچہ  ۱۳۴۵ھ ؁  و  ۱۸۲۸ئ؁  میں اسد اللہ الغالب کی رعایت سے غالبؔ  تخلص اختیار کیا۔ لیکن جن غزلوں میں اسدؔ تخلص تھا اْنھیں اُسی طرح رہنے دیا۔"

اس باب میں مولانا الطاف حسین حالی نے 'یاد گار غالبؔ'میں لکھا ہے کہ "مرزا کی طبیعت اس قسم کی واقع ہوئی تھی وہ عام روش پر چلنے سے ہمیشہ ناک چڑھاتے تھے- وہ خست شرکا کے سبب خودشاعری سے نفرت ظاہر کرتے تھے- عامیانہ خیالات اور محاورات سے جہاں تک ہو سکتا تھا اجتناب کرتے تھے- ایک صاحب نے جو غالباً بنارس یا لکھنؤ سے دلی میں آئے تھے مرزا کے ایک شعر کی ان کے سامنے نہایت تعریف کی- مرزا نے کہا: ارشاد تو ہو وہ کون سا شعر ہے؟ انہوں نے میرا مانی متخلص بہ اسد شاگرد مرزا رفیع کا یہ شعر پڑھا

اسدؔ  اس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر شاباش رحمت خدا کی

چونکہ شعر میں اسد تخلص واقع ہوا تھا، انہوں نے یہ سمجھا کہ مرزا غالبؔ کا شعر ہے- مرزا یہ سن کر بہت جز بز ہوئے اور فرمایا "اگر یہ کسی اور اسدؔ  کا شعر ہے تو اس کو رحمت خدا کی اور اگر مجھ اسد کا شعر ہے تو مجھے لعنت خدا کی"

مرزا کو اس شعر کا اپنی طرف منسوب ہونا غالبا اس لیے ناگوار گزرا ہو گا کہ مرے شیر اور رحمت خدا کی یہ دونوں محاورے زیادہ تر عامیوں اور سوقیوں کی زبان پر جاری ہیں اور اسد کی رعایت سے میرے شیر کہنا بھی ان کی طبیعت کے خلاف تھا، کیونکہ وہ ایسی مبتذل رعایتوں کو جو  ہر شخص کو بآسانی سوجھ جائیں، مبتذل جانتے تھے- 

اس قسم کی اور بہت سی حکایتیں ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف شاعری بلکہ وضع قطع میں، لباس میں، طعام میں، طریق ماند و بود  میں، یہاں تک کہ مرنے اور جینے میں بھی عام طریقے پر چلنا پسند کرتے تھے-"  رام بابو سکسینہ نے بھی اپنی انگریزی کتاب ‘‘تاریخِ اردو ادب’’ میں یہی واقعہ مختلف شعر کے ساتھ نقل کیا ہے۔

لیجیے اب  سنیے جناب مظفر نایابؔ کی غالبؔ کے مصرعوں پر تضمینی غزل- جناب نایابؔ نے انتہائی سنجیدگی اور جانفشانی سے اس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے اور غالبؔ کی تضمین کا حق ادا کرتے نظر آتے ہیں- موصوف اچھے شاعر ہونے کے ساتھ مخلص انسان بھی ہیں اور ان کا اخلاص ان کے کلام میں بھی در آیا ہے- اس لیے ان کی پیشکش اچھی، معیاری اور دل موہ لینے والی ہوتی ہے-  جناب نایابؔ نے حسبِ دستور غالبؔ کی اس غزل کے ہر مصرع پر تضمین با آواز بلند اپنے مخصوص اور خالص لہجے میں پیش کی - حاضرین نے وہ لطف اٹھائے کہ بقول داغ جی جانتا ہے'- آپ کی ضیافت طبع کے لیے چند شعر پیش ہیں- سنیے اور سر دھنیے-

وہ کہ چہرے کی لکیروں  سے عیاں  ہو جائے گا
’’گر نہ اندوہِ شبِ فرقت بیاں  ہو جائے گا ‘‘

اُس کی اُلفت میں  اگر توبے زباں  ہو جائے گا
’’بے تکلف داغِ مہ ْمہرِ دہاں  ہو جائے گا‘‘

عشقِ مہ کے غم میں  آنکھیں  جھیل بن جایں  اگر
’’پرتوِ مہتاب سیلِ خانماں  ہو جائے گا ‘‘

امتحاں  در امتحاں  اور صبر پہلا مرحلہ
’’یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں  ہو جائے گا‘‘

حیف، نادانی کی میں  نے جبکہ یہ معلوم تھا
’’دوستی ناداں  کی ہے جی کا زیاں  ہو جائے گا‘‘

لیجیے اب چلے آتے ہیں، اپنے  ہم عمر شاعروں میں اپنی کلام کی پختگی کے باعث ممتاز، سلجھا ہوا، صاف اور دلکش شعر کہنے والے، تین شعری مجموعوں کے خالق، قطر کی قدیم ترین ادبی تنظیم بزم اردو قطر اور حلقہ ادبِ اسلامی قطر کے جنرل سیکرٹری، گزرگاہِ خیال فورم کے نائب صدر جناب افتخار راغبؔ- یہ بھی جناب نایابؔ کی طرح محنت اور محبت سے غالبؔ کی تضمین لکھتے ہیں، لیکن ان کا رنگ اس غزل کے لیے مزاحیہ ہے- یعنی ان کے ہاں شوخی ہے جو مرزا کے کلام کی ایک خصوصیت بھی ہے- غزل سنیے -


اتنے کم پیسے میں کیسے آئے گا اچھا رزلٹ
’’یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہو جائے گا‘‘

ہو گئی شادی مری اک مہ جبیں سے جس گھڑی
’’مجھ پہ گویا اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا‘‘

میری حالت دیکھ لو تم پھر ملانا اْن سے ہاتھ
’’دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا‘‘

ان تضمینی غزلوں کی داد نایابؔ  و  راغبؔ کے ساتھ غالبؔ  کو بھی دیجیے کہ تضمین مرزا کی بدولت وجود میں آئی- مرزا نے اس کی قیمت بھی تو یہی رکھی ہے-

 

سرمۂ مفتِ نظر ہوں مری  قیمت یہ ہے
کہ رہے چشمِ خریدار پہ احساں میرا

ناظم مذاکرہ جناب شادؔ اکولوی نے مہمان خصوصی، مہمانان اعزازی اور صاحب صدارت کو باری باری تبصرہ کی دعوت دی- صاحبانِ اسٹیج نے مذاکرے کی افادیت کے پہلو پر بات کرتے ہوئے، اس کی علمی اور ادبی اہمیت کو واضح کیا اور منتظمین گزرگاہِ خیال فورم اور خاص طور پر گزرگاہِ خیال فورم کے بانی صدر ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ کے کام کی خوب پذیرائی کی- صدرِ نشست جناب عتیق انظرؔ  نے محفل میں اشعار پر تنقید کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ شاعر، غیر شاعر کی نسبت بہتر نقاد ہو سکتا ہے کیونکہ وہ شعر کے فنی پہلوؤں بالخصوص اوزان اور بحور کا دماغ رکھتا ہے-

       نشست کے اختتام پر  ، گزرگاہِ خیال فورم کے نائب صدر جناب افتخار راغبؔ نے تمام حاضرین کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا- 

گزرگاہِ خیال فورم کی غالبؔ فہمی کی نشست کے بعد مکتبہ کے دالان میں جناب سلیمان دہلوی کی کمی شدید محسوس ہوئی- موصوف دلی میں ہیں- اگر یہاں ہوتے تو ایک ضمنی مزاحیہ نشست مذاکرے کے بعد ضرور برپا ہوتی- 

بِک جاتے ہیں ہم آپ، متاعِ سخن کے ساتھ
لیکن عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر

رات کے گیارہ بج چکے تھے- نیند کا خمار اور غالبؔ  فہمی کا سرور سب کی آنکھوں میں عیاں تھا- اس محفل میں شامل ہر شخص غالبؔ کے متا عِ سخن کا 'عیار طبع خریدار' تھا جو غالبؔ کی شاعری کے معیار سے واقف ہو کر آیا تھا جس کے لیے روحِ غالبؔ اس کی قدر دان ہو گی- غالبؔ کو احسان مند بناتے ہوئے عاشقانِ غالبؔ کا یہ قافلہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گیا- گزرگاہِ خیال فورم کا غالبؔ مذاکرہ ختم نہیں ہوا بلکہ بقول ناظم نشست جناب شادؔ اکولوی اگلے مذاکرے تک کے لیے ملتوی کیا گیاہے- 

روز ملنے  پہ نہیں نسبت عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے

روداد مذاکرہ:  ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ
دوحہ ، قطر

 

*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 661